آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

’’تم سحری کے وقت مجھے بتا کر گئے؟‘‘ سالار اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔
’’امامہ! میں مسجد جاتا ہوں اس وقت فرقان کے ساتھ۔ اس کے بعد جم اور پھر واپس گھر آجاتا ہوں۔ اب میں مسجد بھی تمہیں بتا کر جایا کروں؟‘‘ وہ جھنجھلایا تھا۔
’’مجھے کیا پتا تم اتنی صبح کہاں جاتے ہو…؟ مجھے تو اپ سیٹ ہونا ہی تھا۔‘‘ امامہ نے کہا۔
اس کی وضاحت پر وہ مزید تپ گیا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں رمضان میں سحری کے وقت کہاں جا سکتا ہوں۔؟ کسی نائٹ کلب…؟ یا کسی گرل فرینڈ سے ملنے…؟ کوئی احمق بھی جان سکتا ہے کہ میں کہاں جا سکتا ہوں۔‘‘ وہ احمق کے لفظ پر بری طرح تلملائی۔
’’ٹھیک ہے، میں واقعی احمق ہوں… بس۔‘‘
’’اور سعیدہ اماں کے گھر میں رہنے کا تم نے کہا تھا… کہا تھانا… اور کون سا جھگڑا ہوا تھا تمہارا؟‘‘
وہ خاموش رہی۔
’’اتنے زیادہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی تمہیں؟‘‘ وہ اس بار اس کی بات پر روہانسی ہو گئی۔
’’بار بار مجھے جھوٹا مت کہو۔‘‘
’’امامہ! جو جھوٹ ہے، میں اسے جھوٹ ہی کہوں گا۔ تم نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے مجھے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کیا سوچ رہے ہوں گا وہ میرے بارے میں…؟‘‘ وہ واقعی بری طرح اپ سیٹ تھا۔
’’اچھا اب یہ سب ختم کرو۔‘‘ اس نے امامہ کے گالوں پر یک دم بہنے والے آنسو دیکھ لیے تھے اور وہ بری طرح جھنجلایا تھا۔ ’’ہم جس ایشو پر ’’بات ‘‘ کر رہے ہیں امامہ! اس میں رونے دھونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ روتی رہی۔
’’یہ ٹھیک نہیں ہے امامہ!… تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر بھی یہی کیا تھا میرے ساتھ۔‘‘
اس کا غصہ ٹھنڈا پڑنے لگا تھا لیکن جھنجھلاہٹ بڑھ گئی تھی۔ جو کچھ بھی تھا، وہ اس کی شادی کا چوتھا دن تھا اور وہ ایک گھنٹے میں دوسری بار یوں زارو قطار رو رہی تھی۔ اس کی جگہ کوئی بھی لڑکی یوں رو رہی ہوتی تو وہ پریشان ہوتا، یہ تو خیر امامہ تھی۔ وہ بے اختیار نرم پڑا۔ اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا کر اس نے جیسے اسے چپ کروانے کی کوشش کی۔ امامہ نے ڈیش بورڈ پر پڑے ٹشو باکس سے ایک ٹشو پیپر نکال کر اپنی سرخ ہوتی ہوئی ناک کو رگڑا اور سالار کی صلح کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے کہا۔
’’میں اس لیے تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے پتا تھا، تم میرے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرو گے۔‘‘ وہ اس کے جملے پر ایک لمحے کے لیے ساکت رہ گیا پھر اس نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’کیسا سلوک… تم وضاحت کرو گی؟‘‘ اس کے لہجے میں پھر خفگی اُتر آئی ’’میںنے آخر کیا کیا ہے تمہارے ساتھ۔‘‘
وہ ایک بار پھر ہچکیوں سے رونے لگی۔ سالار نے بے بسی سے اپنی آنکھیں بند کیں۔ وہ ڈرائیونگ نہ کر رہا ہوتا تو یقینا سر بھی پکڑ لیتا۔ باقی رستے دونوں میں کئی بھی بات نہیں ہوئی۔ کچھ دیر بعد وہ بالآخر چپ ہو گئی۔ سالار نے سکون کا سانس لیا۔





اپارٹمنٹ میں آکر بھی دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ بیڈ روم میں جانے کے بجائے لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ سالار بیڈ روم میں چلا گیا۔ وہ کپڑے بدل کر بیڈ روم میں آیا، وہ تب بھی اندر نہیں آئی تھی۔ ’’اچھا ہے، اسے بیٹھ کر اپنے رویے کے بارے میں کچھ دیر سوچنا چاہیے…‘‘ اس نے اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے سوچا۔ وہ سونا چاہتا تھا اور اس نے بیڈ روم کی لائٹس آف نہیں کی تھیں لیکن نیند یک دم اس کی آنکھوں سے غائب ہو گئی تھی۔ اب ٹھیک ہے بندہ سوچے لیکن اتنا بھی کیا سوچنا۔ مزید پانچ منٹ گزرنے کے باوجود اس کے نمودار نہ ہونے پر وہ بے اختیار جھنجھلایا۔ دو منٹ مزید گزرنے کے بعد وہ بیڈ روم سے نکل آیا۔
وہ لاوؑنج کے صوفے کے ایک کونے میں، دونوں پاوؑں اوپر رکھ، کشن گود میں لیے بیٹھی تھی۔ سالار نے سکون کا سانس لیا۔ کم از کم وہ اس وقت رو نہیں رہی تھی۔ سالار کے لاؤنج میں آنے پر اس نے سر اٹھا کر بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ بس اسی طرح کشن کو گود میں لیے اس کے دھاگے کھینچتی رہی۔ وہ اس کے پاس صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔
کشن کو ایک طرف رکھتے ہوئے امامہ نے بے اختیار صوفے سے اٹھنے کی کوشش کی۔ سالار نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روکا۔
’’یہیں بیٹھو۔‘‘ اس نے تحکمانہ انداز میں اس سے کہا۔
اس نے ایک لمحے کے لیے بازو چھڑانے کا سوچا، پھر ارادہ بدل دیا۔ وہ دوبارہ بیٹھ گئی لیکن اس نے اپنے بازو سے سالار کا بازو ہٹا دیا۔
’’میر اکوئی قصور نہیں ہے… لیکن آئی ایم سوری۔‘‘ اس نے مصالحت کی پہلی کوشش کا آغاز کیا۔
امامہ نے خفگی سے اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ کچھ دیر اس کے بولنے کامنتظر رہا لیکن پھر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ فی الحال اس کی معذرت قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
’’تمہیں یہ کیوںلگا کہ تم سے ٹھیک بات نہیں کر رہا…؟ امامہ! میں تم سے بار کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے اس کے خاموش رہنے پر کہا۔
’’تم مجھے اگنور کرتے رہے۔‘‘ ایک لمحے توقف کے بعد اس بالآخر کہا۔
’’اگنور؟‘‘ وہ بھونچکا رہ گیا۔ ’’میں تمہیں… ‘‘ ’’تمہیں‘‘ اگنور کرتا رہا… میں کر ’’سکتا ‘‘ ہوں؟‘ ‘ اس نے بے یقینی سے کہا۔ امامہ نے اس سے نظریں نہیں ملائیں۔
’’تم سوچ بھی کیسے سکتی ہو یہ…؟ تمہیں ’’اگنور‘‘ کرنے کے لیے شادی کی تھی میں نے تم سے؟ تمہیں اگنور کرنے کے لیے اتنے سالوں سے خوار ہوتا پر رہا ہوں میں۔‘‘
’’لیکن تم کرتے رہے…‘‘ وہ اپنی بات پر مُصر تھی۔ ’’تم زبان سے ایک بات کہتے ہو لیکن تم…‘‘ وہ بات کرتے کرتے رکی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ ’’تمہاری زندگی میں میری کوئی… کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔‘‘
’’رکو مت ، کہتی رہو… میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ایسا کیا کر رہا ہوں جس سے تمہیں میرے بارے میں اتنی غلط فہمیاں ہو رہی ہیں۔‘‘ اس نے اس کی آنکھوں کی نمی کو نظر انداز کرتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’میں نے تمہیں صبح مسجد جاتے ہوئے نہیں بتایا… آفس جاتے ہوئے بھی نہیں بتایا… اور؟‘‘ اس نے گفت گو شروع کرنے کے لیے اسے کیو دی۔
’’تم نے مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ تم افطار پر دیر سے آؤ گے۔ تم چاہتے تو جلدی بھی آسکتے تھے۔‘‘ وہ رکی۔
’’اور…؟‘‘ سالار نے کوئی وضاحت کیے بغیر کہا۔
’’میں نے تمہارے کہنے کے مطابق تمہیں میسج کیا لیکن تم نے مجھے کال نہیں کی۔ اپنے پیرنٹس کو ریسیو کرنے یا چھوڑنے کے لیے تم مجھے بھی ایئر پورٹ لے جا سکتے تھے لیکن تم نے مجھ سے نہیں کہا۔ ٹھیک ہے، میں نے کہا تھا کہ مجھے سعیدہ اماں کے گھر چھوڑ دو لیکن تم نے ایک بار بھی مجھے ساتھ چلنے کے لیے نہیں کہا۔ میری کتنی بے عزتی ہوئی ان کے سامنے۔‘‘
وہ بہتے آنسووؑں کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
وہ پلک جھپکے بغیر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ پانی اب اس کی آنکھوں سے ہی نہیں، ناک سے بھی بہنے لگا تھا۔ وہ پوری دل جمعی سے رو رہی تھی۔ سالار نے سینٹر ٹیبل کے ٹشو باکس سے ایک ٹشو پیپر نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے اس کا ہاتھ جھٹک کر خود ایک ٹشو پیپر نکال لیا۔ اس نے ناک رگڑی تھی، آنکھیں نہیں۔
’’اور…؟‘‘ سالار نے بڑے تحمل کے ساتھ ایک بار پھر کہا۔
وہ کہنا چاہتی تھی کہ اس نے اسے شادی کا کوئی گفٹ تک نہیں دیا۔ اس کی ایک دکھتی رگ یہ بھی تھی، لیکن اس سے تحفے کا ذکر کرنا اسے اپنی توہین لگی۔ اس نے تحفے کا ذکر نہیں کیا۔ کچھ دیر وہ اپنی ناک رگڑتی، سسکیوں کے ساتھ روتی رہی۔ سالار نے بالآخر اس سے پوچھا۔
’’بس یا ابھی کچھ اور بھی جرم ہیں میرے؟‘‘
’’مجھے پتا تھا کہ تم شادی کے بعد میرے…‘‘
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’ساتھ یہی کرو گے… مجھے پتا ہے، تمہیں میرے بارے میں سب کچھ پہلے سے ہی پتا چل جاتا ہے۔‘‘ وہ اس کے جملے پر بری طرح چڑا تھا۔ ’’اس کے باوجود اب تم مجھے کچھ کہنے کا موقع دو گی…؟‘‘ وہ چپ بیٹھی اپنی ناک رگڑتی رہی۔
’’اگر میں شادی کے اگلے دن آفس سے جلدی آسکتا تو آجاتا، آج آیا ہوں نا جلدی۔‘‘
’’تم اپنے پیرنٹس کے لیے تو آگئے تھے۔‘‘ امامہ نے مداخلت کی۔
’’اس دن میری پریزینٹیشن نہیں تھی اور میں نے تمہیں کال کی تھی۔ ایک بار نہیں، کئی بار… تم اپنا سیل فون دیکھو یا میں دکھاؤں۔‘‘ سالار نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
’’میرے میسج کرنے پر تو نہیں کی تھی نا؟‘‘
’’اس وقت میں میٹنگ میں تھا، میرا سیل میرے پاس نہیں تھا۔ بورڈ روم سے نکل کر پہلی کال میں نے تمہیں ہی کی تھی، ریسیو کرنا تو ایک طرف تم نے توجہ تک نہیں دی۔ میں نے سعیدہ اماں کے گھر بھی تمہیں کالز کیں، تم نے وہاں بھی یہی کیا، بلکہ سیل ہی آف کر دیا۔ تو مجھے بھی ناراض ہونا چاہیے تھا، مجھے کہنا چاہیے تھا کہ تم مجھے اگنور کر رہی ہو، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے سوچا تک نہیں اس چیز کے بارے میں۔‘‘ وہ اب اسے سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔
’’تمہیں اپنے ساتھ ایرپورٹ لے کر جانا تو ممکن ہی نہیں تھا۔ ایر پورٹ ایک طرف ہے… بیچ میں میرا آفس ہے… اور دوسری طرف گھر… میں پہلے یہاں آتا… تمہیں لے کر پھر ایر پورٹ جاتا… دگنا ٹائم لگتا … اور تمہارے لیے انہیں ایر پورٹ جا کر ریسیو کرنا ضروری بھی نہیں تھا۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لیے رکا پھر بولا۔
’’اب میں شکایت کروں تم سے؟‘‘
امامہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’تم نے سعیدہ اماں کے گھر پر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا، مجھ سے پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی۔‘‘ اس کی آنکھوں میں سیلاب کا ایک نیا ریلا آیا۔
’’میرا خیال تھا، تم مجھے وہاں رہنے ہی نہیں دو گے، لیکن تم تو تنگ آئے ہوئے تھے مجھ سے۔ تم نے مجھے ایک بار بھی ساتھ چلنے کو نہیں کہا۔‘‘
سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
’’مجھے کیا پتا تھا۔ میں نے سوچا کہ تمہاری خواہش ہے، مجھے پوری کرنی چاہیے۔ چلو ٹھیک ہے، میری غلطی تھی۔ مجھے کہنا چاہیے تھا تمہیں چلنے کے لیے، لیکن کم از کم تمہیں مجھے خدا حافظ کہنے کے لیے باہر تک تو آتا چاہیے تھا۔ میں پندرہ منٹ صحن میں کھڑا انتظار کرتا رہا لیکن تم نے ایک لمحہ کے لیے بھی باہر آنے کی زحمت نہیں کی۔‘‘
’’میں ناراض تھی، اس لیے نہیں آئی۔‘‘
’’ناراضی میں بھی کوئی فارمیلٹی تو ہوتی ہے نا…؟‘‘ وہ خاموشی رہی۔
’’تم نے فرقان کے حوالے سے ضد کی کہ مجھے وہاں نہیں جانا۔ خواہ مخواہ کی ضد تھی۔ مجھے برا لگا تھا لیکن میں نے تمہیں اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کیا۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ ’’فرقان میرا سب سے زیادہ کلوز فرینڈ ہے۔ فرقان اور بھابھی نے ہمیشہ میرا بہت خیال رکھا ہے اور یہ میرے لیے قابل قبول نہیں ہے کہ میری وائف اس فیملی کی عزت نہ کرے۔‘‘




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!