آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

اس کی آنکھوں میں امڈتے سیلاب کے ایک اور ریلے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے کہا۔ امامہ نے اس بار کوئی وضاحت نہیں دی تھی۔
’’میں نے تم سے یہ گلہ بھی نہیں کیا کہ تم نے میری پیرنٹس کو ایک دفعہ بھی کال کر کے یہ نہیں پوچھا کہ وہ ٹھیک سے پہنچ گئے یا ان کی فلائٹ ٹھیک رہی۔‘‘ وہ بڑے تحمل سے کہہ رہا تھا۔ وہ جزبز ہوئی۔
’’میرے پاس ان کا نمبر نہیں ہے۔‘‘
’’تم مجھ سے لے لیتیں اگر تم واقعی ان سے بات کرنے میں انٹرسٹڈ ہوتیں۔ وہ تمہارے لیے یہاں آئے تھے تو تمہاری اتنی ذمہ داری تو بنتی تھی نا کہ تم ان کی فلائٹ کے بارے میں ان سے پوچھتیں یا ان کے جانے کے بعد ان سے بات کرتیں۔‘‘
’’تو تم مجھ سے کہہ دیتے۔ کیوں نہیں کہا…؟‘‘
’’میں نے اس لیے نہیں کہا کیوںکہ یہ میرے نزدیک کوئی ایشوز نہیں ہیں، یہ معمولی باتیں ہیں۔ یہ ایسے ایشوز نہیں ہیں کہ جن پر میں تم سے ناراض ہوتا پھروں یا جھگڑا کروں۔‘‘ وہ بول نہیں سکی۔
’’لیکن تم نے یہ کیا کہ میرے خلاف کیس تیار کرتی رہیں… ہر چھوٹی بڑی بات دل میں رکھتی رہیں، مجھ سے کوئی شکایت نہیں کی… لیکن سعیدہ اماں کو سب کچھ بتایا… اور ڈاکٹر صاحب کو بھی… کسی دوسرے سے بات کرنے سے پہلے تمہیں مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی… کرنی چاہیے تھی نا…؟‘‘
اس کے آنسو تھمنے لگے۔ وہ اسے بڑے تحمل سے سمجھا رہا تھا۔
’’اگر میں تمہاری بات نہ سنتا تو اور بات تھی۔ پھر تم کہتیں کسی سے بھی، مجھے اعتراض نہ ہوتا۔‘‘ وہ خاموش رہی۔ اس کی بات کچھ غلط بھی نہیں تھی۔
’’تم سو نہ رہی ہوتیں تو میں یقینا تمہیں بتا کر ہی گھر نکلتا میں کہاں جا رہا ہوں لیکن ایک سوئے ہوئے بندے کو صرف یہ بتانے کے لیے اٹھاؤں کہ میں جا رہوں، یہ تو میں کبھی نہیں کر سکتا۔‘‘
وہ کچھ بول نہ سکی۔





’’اگنور…؟ میں حیران ہوں امامہ! کہ یہ خیال تمہارے دماغ میں کیسے آگیا۔ میں چار دن سے ساتویں آسمان پر ہوں اور تم کہہ رہی ہو، میں تمہیں اگنور کر رہا ہوں۔‘‘
’’لیکن تم نے ایک بار بھی میری تعریف نہیں کی۔‘‘ امامہ کو ایک اور ’’خطا‘‘ یاد آئی۔
سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’کس چیز کی تعریف؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’یہ ایک بے حد احمقانہ سوال تھا لیکن اس سوال نے امامہ کو شرمندہ کیا تھا۔
’’اب یہ بھی میں بتاؤں؟‘‘ وہ بری طرح بگڑی تھی۔
’’تمہاری خوب صورتی کی؟‘‘ سالار نے کچھ اُلجھ کر اندازہ لگایا۔ وہ مزید خفا ہوئی۔
’’میں کب کہہ رہی ہوںخوب صورتی کی کرو۔ کسی بھی چیز کی تعریف کر دیتے، میرے کپڑوں کی کر دیتے۔‘‘
اس نے کہہ تو دیا لیکن وہ یہ شکایت کرنے پر پچھتائی۔ سالار کے جوابی سوالوں نے اسے بری طرح شرمندہ کیا تھا۔ سالار نے ایک نظر اسے، پھر اس کے کپڑوں کو دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا اور بے اختیار ہنسا۔
’’امامہ! تم مجھے اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنے کے لیے کہہ رہی ہو۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ یہ جیسے اس کے لیے مذاق تھا۔ وہ بری طرح جھینپ گئی۔
’’مت کرو، میں کب کہا ہے۔‘‘
’’نہیں، یو آر رائٹ۔ میں نے واقعی ابھی تک تمہیں کسی بھی چیز کے لیے نہیں سراہا۔ مجھے کرنا چاہیے تھا۔‘‘ وہ یک دم سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے امامہ کی شرمندگی محسوس کر لی تھی۔
اس کے کندھے پر بازو پھیلاتے ہوئے اس نے امامہ کو اپنے قریب کیا۔ا س بار امامہ نے اس کا ہاتھ نہیں جھٹکا تھا۔ اس کے آنسو اب تھم چکے تھے۔ سالار نے دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ اس کے ہاتھ کو بڑی نرمی کے ساتھ سہلاتے ہوئے بولا۔
’’ایسی شکایتیں وہاں ہوتی ہیں جہاں صرف چند دن کے ساتھ ہو لیکن جہاں زندگی بھر کی بات ہو، وہاں یہ سب کچھ بہت سیکنڈری ہو جاتا ہے۔‘‘ اسے اپنے ساتھ لگائے وہ بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا۔
’’تم سے شادی میرے لیے بہت معنی رکھتی ’’تھی‘‘ اور معنی رکھتی ’’ہے‘‘… لیکن آئندہ بھی کچھ معنی رکھے ’’گی‘‘ اس کا انحصار تم پر ہے۔ مجھ سے جو گلہ ہے اسے مجھ سے کرو، دوسروں سے نہیں۔ میں صرف تم کو جواب دہ ہوں امامہ! کسی اور کے سامنے نہیں۔‘‘ اس نے بے حد نپے تلے لفظوں میں اسے بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
’’ہم کبھی دوست نہیں تھے لیکن دوستوں سے زیادہ بے تکلفی اور صاف گوئی رہی ہے ہمارے تعلق میں۔ شادی کا رشتہ اسے کمزور کیوں کر رہا ہے؟‘‘
امامہ نے ایک نظر اٹھا کر اس کے چہرے کودیکھا۔ اسے اس کی آنکھوں میں بھی وہی سنجیدگی نظر آئی جو اس کے لفظوں میں تھی۔ اس نے ایک بار پھر سر جھکا لیا۔ ’’وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا‘‘ اس کے دل نے اعتراف کیا۔
’’تم میری زندگی میں ہر شخص اور ہر چیز سے بہت زیادہ امپورٹینس رکھتی ہو۔‘‘ سالار نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن یہ ایک جملہ میں تمہیں ہر روز نہیں کہہ پاوؑں گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے لئے تمہاری امپورٹنس کم ہو گئی ہے۔ میری زندگی میں تمہاری امپورٹنس اب میرے ہاتھ میں نہیں، تمہارے ہاتھ میں ہے۔ یہ تمہیں طے کرنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ تم اس امپورٹنس کو بڑھاؤ گی یا کم کر دو گی۔‘‘
اس کی بات سنتے ہوئے امامہ کی نظر اس کے اس ہاتھ کی پشت پر پڑی جس سے وہ اُس کا ہاتھ سہلا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کی پشت بے حد صاف ستھری تھی۔ ہاتھ کی پشت اور کلائی پر بال نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہاتھ کی انگلیاں کسی مصور کی انگلیوں کی طرح لمبی اور عام مردوں کے ہاتھوں کی نسبت پتلی تھیں۔ اس کے ہاتھوں کی پشت پر سبز اور نیلی رگیں بہت نمایاں طور پر نظر آرہی تھیں۔ اس کی کلائی پر رسٹ واچ کا ہلکا سا نشان تھا۔ وہ یقینا بہت باقاعدگی سے رسٹ واچ پہنا تھا۔ وہ آج پہلی بار اس کے ہاتھ کو اتنے غور سے دیکھ رہی تھی۔ اسے اس کے ہاتھ بہت اچھے لگے۔ اس کا دل کچھ اور موم ہوا۔
اس کی توجہ کہاں تھی، سالار کو اندازہ نہیں ہو سکا۔ وہ اسے اسی طرح سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔
’’محبت یا شادی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں پارٹنرز ایک دوسرے کو اپنے اپنے ہاتھ کی مٹھی میں بند کر کے رکھنا شروع کردیں۔ اس سے رشتے مضبوط نہیں ہوتے، دم گھٹنے لگتا ہے۔ ایک دوسرے کو اسپیس دینا، ایک دوسرے کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنا، ایک دوسرے کی آواز کے حق کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ ’’امامہ نے گردن موڑ کر اس کا چہرہ دیکھا، وہ اب بے حد سنجیدہ تھا۔
’’ہم دونوں اگر صرف ایک دوسرے کے عیب اور کوتاہیاں ڈھونڈتے رہیں گے تو بہت جلد ہمارے دل سے ایک دوسرے کے لیے عزت اور لحاظت ختم ہو جائے گا۔ کسی رشتے کو کتنی بھی محبت سے باندھا گیا ہو، اگر عزت اور لحاظ چلا جائے تو محبت بھی چلی جائے… یہ دونوں چیزیں محبت کے گھر کی چار دیواری ہیں، چار دیواری ختم ہو جائے تو گھر کو بچانا بڑا مشکل ہے۔‘‘
امامہ نے بڑی حیرانی سے اسے دیکھا۔ وہ اس کی آنکھوں میں حیرانی دیکھ کر مسکرایا۔
’’اچھی فلاسفی ہے نا؟‘‘
امامہ کی آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بیک وقت آئی تھی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
سالار نے اسے اپنے کچھ اور قریب کرتے ہوئے کہا۔
’’میں اللہ کا پرفیکٹ بندہ نہیں ہوں تو تمہارا پرفیکٹ شوہر کیسے بن سکتا ہوں امامہ! شاید اللہ میری کوتاہیاں نظر انداز کردے، تو تم بھی معاف کر دیا کرو۔‘‘
وہ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ واقعی اس سالار سکندر سے ناواقف تھی۔ سالار نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سوجے ہوئے پپوٹوں کو اپنی پوروں سے چھوا۔
’’کیا حال کر لیا ہے تم نے اپنی آنکھوں کا…؟تمہیں مجھ پر ترس نہیں آتا؟‘‘
وہ بڑی ملائمت سے کہہ رہا تھا۔
امامہ نے جواب دینے کے بجائے اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔ وہ اب بے حد پُرسکون تھی۔ اس کے گرد اپنا ایک بازو حمائل کرتے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اس کے چہرے اور گردن پر آئے ہوئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے اس نے پہلی بار نوٹس کیا کہ وہ رونے کے بعد زیادہ اچھی لگتی ہے لیکن اس سے یہ بات کہنا، اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والی بات تھی۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ اس کے نائٹ ڈریس کی شرٹ پر بنے پیٹرن پر غیر محسوس انداز میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔
’’موو کلر اچھا لگتا ہے تم پر۔‘‘ اس نے بے حد رومانٹک انداز میں اس کے کپڑوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اس کے سینے پر حرکت کرتا اس کا ہاتھ ایک دم رکا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ سالارنے اس کی آنکھوں خفگی دیکھی، وہ مسکرایا۔
’’تعریف کر رہا ہوں تمہاری۔‘‘
’’یہ ٹی پنک ہے۔‘‘
’’اوہ! اچھا۔‘‘ سالار نے گڑ بڑا کر اس کے کپڑوں کو دوبارہ دیکھا۔
’’یہ ٹی پنک ہے؟ میں نے اصل میں موو کلر بہت عرصے سے کسی کو پہنے نہیں دیکھا۔‘‘ سالار نے وضاحت کی۔
’’کل موو پہنا ہوا تھا میں نے۔‘‘ امامہ کی آنکھوں کی خفگی بڑھی۔
’’لیکن میں تو اسے پرپل سمجھا تھا۔‘‘ سالار مزید گڑبڑایا۔
’’وہ جو سامنے دیوار پر پینٹنگ ہے نا، اس میں ہیں پرپل فلاورز۔‘‘ امامہ کچھ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔
سالار اس پینٹنگ کو گھورتے ہوئے اسے یہ نہیں بتا سکا کہ وہ ان فلاورز کو بلیو کلر کا کوئی شیڈ سمجھ کر لایا تھا۔ امامہ اب اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ سالار نے کچھ بے چارگی کے انداز میں گہرا سانس لیا۔
’’میرا خیال ہے، اس شادی کو کامیابی کرنے کے لیے مجھے اپنی جیب میں ایک شیڈ کارڈز رکھنا پڑے گا۔‘‘ وہ پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا تھا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!