آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

کنشاسا سے واپسی ان کی زندگی کا بے حد خوشگوار ترین سفر ہوتا اگر اس سفر کے پیچھے سالار سکندر کی بیماری نہ کھڑی ہوتی۔ وہ پانچ سال کے بعد اپنے ملک واپس آئے تھے… لیکن اب آگے اندیشوں کے سوا فی الحال کچھ نظر نہیں آرہا تھا… کئی سالوں کے بعد امامہ پھر گھر سے بے گھر ہوئی تھی… اپنی چھت سے یک دم وہ سالار کے والدین کے گھر آبیٹھی تھی۔ وہ بے حد اچھے لوگ تھے… پیار کرنے والے … احسان نہ جتانے والے۔ پر احسان تو تھا ان کا…
کنشاسا سے پاکستان آنے سے پہلے اس نے ایک دن چاروں بچوں کو بٹھا کر سمجھایا تھا۔
’’ہم اب جہاں جارہے ہیں وہ ہمارا گھر نہیں ہے… وہاں ہم گیسٹ ہیں اور جتنی دیر بھی ہمیں وہاں رہنا ہے، اچھے مہمانوں کی طرح رہنا ہے… اور اچھے مہمان کیا کرتے ہیں؟‘‘
اس نے اپنے بچوں کے سامنے بے گھری کو نیا ملبوس دے کر پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھے گیسٹ ڈھیر ساری چیزیں لاتے ہیں… مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں… اورکوئی بھی کام نہیں کرتے ، ریسٹ کرتے ہیں۔‘‘
حمین نے حسب عادت اور حسب توقع سب پر سبقت لے جانے کی کوشش میں اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر اپنا جواب پیش کرتے ہوئے امامہ کو ایک ہی وار میں لاجواب کردیا۔
اسے ہنسی آگئی۔ ماں کو ہنستے دیکھ کر حمین بے حد جذباتی ہوگیا۔
’’ہرا… میں جیت گیا!‘‘ ا س نے ہوا میں مکے لہراتے ہوئے جیسے صحیح جواب بوجھ لینے کا اعلان کیا۔
’’کیا اس نے ٹھیک کہا ہے؟‘‘ عنایہ کو جیسے یقین نہیں آیا تھا۔
’’نو۔‘‘ امامہ نے کہا۔ حمین کے چہرے پر بے یقینی جھلکی۔
’’اچھے مہمان کسی کو تنگ نہیں کرتے… کسی سے فرمائش نہیں کرتے… کسی چیز میں نقص نہیں نکالتے… اور ہر کام میزبان سے اجازت لے کر کرتے ہیں… وہ اپنے کاموں کا بوجھ میزبان پر نہیں ڈالتے…‘‘
امامہ نے انہیں سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’اوہ مائی گاڈ! ممی میں اچھا گیسٹ نہیں ہونا چاہتا، میں بس گیسٹ بننا چاہتا ہوں۔‘‘




حمین نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’ہم دادا، دادی کے گھر جارہے ہیں اور ہمیں وہاں ویسے رہنا ہے جس سے وہ کمفرٹیبل ہوں۔ انہیں شکایت یا تکلیف نہ ہو۔‘‘ امامہ نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
’’اوکے!‘‘ عنایہ، رئیسہ اور جبریل نے بیک وقت ماں کو اطمینان دلایا۔
’’اور ہم اپنے گھر میں کب جائیں گے؟‘‘ حمین نے ماں کو اپنے آپ کو نظر انداز کرنے پر بالآخر پوچھا۔
’’جلدی جائیں گے!‘‘ اس نے نظر ملائے بغیر حمین کو جواب دیا۔ وہ مطمئن نہیں ہوا۔
’’جلدی کب؟‘‘ وہ بے صبرا تھا۔
’’بہت جلدی۔‘‘
’’اور ہمارا گھر ہے کہاں؟‘‘ حمین نے پچھلے جواب سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے سوال بدلا اور امامہ کو جیسے چپ لگ گئی۔ سوال ٹھیک تھا… جواب نہیں تھا۔
’’ہم نیا گھر خریدیں گے۔‘‘ عنایہ نے جیسے اس کی چپ کا دفاع کیا۔
’’کہاں…؟‘‘ حمین کو مکمل جواب چاہیے تھا۔
’’جہاں بابا ہوں گے۔‘‘ جبریل نے اس بار اسے مکمل جواب دینے کی کوشش کی۔
’’اور بابا کہاں ہوں گے؟‘‘ حمین نے ایک اور منطقی سوال کیا جو امامہ کو چبھا تھا۔
’’ابھی ہم پاکستان جارہے ہیں پھر بابا جہاں جائیں گے، وہاں ہم لوگ بھی چلے جائیں گے۔‘‘ جبریل نے ماں کی آنکھوں میں امڈنے والی نمی کو بھانپا اور جیسے دیوار بننے کی کوشش کی۔
’’واؤ… یہ تو بہت اچھا ہے۔‘‘ حمین بالآخر مطمئن ہوا۔
’’میں بابا کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے جیسے اعلان کرکے ماں کو اپنی ترجیح بتائی…امامہ ان چاروں سے مزید کچھ نہیں کہہ سکی… یہ سمجھانا بھی بڑا مشکل کام ہوتا ہے اور خاص طور سے اس چیز کو سمجھانا جو خود سمجھ میں نہ آرہی ہو۔ اس نے ان چاروں کو سونے کے لئے جانے کا کہہ دیا اور خود ان کے کمرے سے نکل آئی۔
’’ممی!‘‘ حمین ا س کے پیچھے لاؤنج میں نکل آیا تھا۔ امامہ نے اسے پلٹ کر دیکھا۔ وہ جیسے کسی سوچ میں تھا۔
’’یس۔‘‘ ا س نے جواب دیا۔
’’میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں لیکن میں کنفیو ز ہوں۔‘‘ اس نے ماں سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی ۔
’’کیوں کہ میں اپنا وعدہ نہیں توڑنا چاہتا ۔‘‘ اس نے اپنی الجھن کی وجہ بتائی۔
’’لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کا سیکرٹ جانتا ہوں۔‘‘
امامہ کا دل جیسے اچھل کر حلق میں آیا۔
’’میں جانتا ہوں۔ آپ اپ سیٹ ہو۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔ وہ جیسے کچھ اور زمین میں گڑی۔ وہ اب اس کے اور قریب آگیا تھا… چھ سال کی عمر میں بھی اس کی کمر سے اوپر قد کے ساتھ ۔ ’’پلیز آپ اپ سیٹ نہ ہوں۔‘‘
“I don’t like it when you cry.” (’’جب آپ روتی ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘)
اس سے چمٹا وہ اب اس سے کہہ رہا تھا۔ وہ بت کی طرح کھڑی تھی… پہلے جبریل اور اب حمین… اس کی ہر اولاد کو اس کے ساتھ اس تکلیف سے گزرنا تھا کیا…؟
’’تم کیا جانتے ہو؟‘‘ وہ اتنا چھوٹا سا جملہ بھی ادا نہیں کرپارہی تھی۔ وہ صرف اسے تھپکنے لگی۔
’’دادا ٹھیک ہوجائیں گے…‘‘ وہ اب اسے تسلی دینے لگا۔ امامہ کو جیسے لگا جیسے اس کو سننے میں غلطی ہوئی ہے وہ شاید بابا کہہ رہا تھا۔
’’میں نے دادا سے پوچھا۔‘‘ اس نے ایک بار پھر امامہ سے کہا، اس بار وہ مزید الجھی۔
’’کس سے کیا پوچھا؟‘‘
’’دادا سے پوچھا تھا، انہوں نے کہا، وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘ امامہ مزید الجھی۔
’’دادا کو کیا ہوا ؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’دادا کو برین ٹیومر نہیں ہوا…دادا کو الزائمر ہے… لیکن وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘
امامہ کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔
٭…٭…٭
’’سالار کو کچھ مت بتانا۔‘‘
پاکستان پہنچنے کے بعد جو پہلا کام تھا، وہ امامہ نے یہی کیا تھا۔ اس نے سکندر عثمان سے اس انکشاف کے بارے میں پوچھا تھا جو سکندر عثمان نے حمین کے برین ٹیومر کے حوالے سے سوالوں کے جواب میں کیا تھا اور انہوں نے جواباً اسے بتایا تھا کہ ایک مہینہ پہلے روٹین کے ایک میڈیکل چیک اپ میں ان کی اس بیماری کی تشخیص کی گئی تھی جو ابھی ابتدائی اسٹیج پر تھی، لیکن انہیں سب سے پہلی پریشانی یہی تھی کہ کہیں امامہ نے سالار سے اس بات کا ذکر نہ کردیا ہو اور جب اس نے یہ بتایا کہ اس نے سالار سے ابھی ذکر نہیں کیا تو انہوں نے پہلی بات اس سے یہی کہی تھی۔
’’میں اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا… اس کا آپریشن ہونے والا ہے اور میں اپنی بیماری کے حوالے سے اسے اور ٹینس کروں ۔‘‘
وہ اب بھی اپنے سے زیادہ سالار کے بارے میں فکر مند تھے۔
’’پاپا! میں نہیں بتاؤں گی اسے… میں بھی یہ نہیں چاہتی کہ وہ پریشان ہو۔‘‘ امامہ نے انہیں تسلی دی۔
’’آپ جانتے ہیں۔ آپ سے بہت اٹیچڈ ہے وہ… اپنی بیماری بھول جائے گا وہ۔‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘ انہوں ںے ایک رنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ سرہلایا۔ ’’اس عمر میں اپنی بیماری کی فکر نہیں ہے مجھے… میں نے زندگی گزارلی ہے اپنی… اور اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی گزاری ہے۔ اس کو صحت مند رہنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے آخری جملہ عجیب حسرت سے کہا۔
’’اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس کی بیماری بھی خود لے لیتا… اپنی زندگی کے جتنے بھی سال باقی ہیں، وہ اسے دے دیتا۔‘‘
امامہ نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
’’آپ بس اس کے لئے دعا کریں پاپا… ماں باپ کی دعا میں بہت اثر ہوتا ہے۔‘‘
’’دعا کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے مجھے… میں سوچتا تھا اس نے مجھے نوعمری اور جوانی میں بہت ستایا تھا… لیکن جومیرے بڑھاپے میں ستارہا ہے یہ…‘‘ وہ بات مکمل نہیں کرسکے۔ رو دیئے۔
’’ایک کام کریں گے پاپا؟‘‘ امامہ نے ان کا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟‘‘
اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی اتارتے ہوئے امامہ نے ان کے ہاتھ کو کھولتے ہوئے ان کی ہتھیلی پر وہ انگوٹھی رکھ دی۔
’’اسے بیچ دیں۔‘‘ وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔
’’کیوں؟‘‘ انہوں نے بمشکل کہا۔
’’مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کتنے؟‘‘
’’جتنے مل سکیں۔‘‘
’’امامہ…‘‘ انہوں نے کچھ کہنا چاہا، امامہ نے روک دیا۔
’’انکار مت کریں… یہ کام میں آپ کے علاوہ کسی سے نہیں کرواسکتی۔‘‘ وہ نم آنکھوں کے ساتھ چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

کارآمد — عریشہ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!