آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

’’پتا نہیں۔‘‘ جبریل نے اس کی بات کا مختصر جواب دیتے ہوئے کمرکے پیچھے ہاتھ باندھ لئے۔ اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو باپ کی نظروں سے چھپانے کے لئے اس سے زیادہ اچھا طریقہ کوئی اور نہیں تھا۔ باپ یہ ظاہر نہیں کررہا تھا کہ وہ اس پر شک کررہا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ اس وقت اس ڈیسک ٹاپ کو آن کرنے کا مقصد کیا ہوسکتا تھا۔
’’تم روز دیر سے سوتے ہو؟‘‘ سالار نے اگلا سوال کیا۔
’’جی۔‘‘ جبریل نے اب جھوٹ نہیں بولا تھا۔
’’روز نیند نہیں آتی اور ڈیسک ٹاپ پر کارڈ کھیلتے ہو؟‘‘ سالار نے اگلا سوال اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کیا تھا۔
’’جی۔‘‘ اس نے جیسے بالکل ہی ہتھیار ڈال دیئے تھے۔
ڈیسک ٹاپ آن ہوچکا تھا سالار ہوم پیچ کھول چکا تھا۔ مزید کوئی سوال کئے بغیر اس نے وزٹ کئے جانے والے پیجز اور سائٹس کی ہسٹری کھول لی تھی۔ وہاں گیمز کا نام شامل نہیں تھا مگر ایک سرسری نظر نے بھی سالار کو منجمد کردیا تھا۔ اس کا بیٹا جو کچھ وزٹ کررہا تھا، وہ اسے اس سے چھپانے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتا پھر رہاتھا۔
Oligodendroglioma… وہ ایک سرسری نظر میں بھی ان سارے پیجز میں چمکنے والا یہ لفظ پہچان سکتا تھا… وہ ان میں سے کسی پیج کو کلک کرنے کی ہمت نہیں کرسکا۔ اس نے گردن موڑ کر جبریل وک دیکھا جس کا سانس رکا ہوا اور رنگ فق تھا… ’’تم میری بیماری کے بارے میں جانتے ہو؟‘‘
یہ سوال کئے بغیر بھی وہ اس سوال کا جواب جانتا تھا۔ جبریل کی آنکھیں سیکنڈز کے ہزار ویں حصے میں پانی سے بھری تھیں اور اس نے اثبات میں سرہلایا۔ ایک عجیب خاموشی کا وقفہ آیاتھا جس میں باپ اور بیٹا ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے، پھر سالار نے اپنے اس دس سالہ بیٹے کو ہاتھ بڑھا کر اپنے گلے سے لگاتے ہوئے گود میں بٹھا لیا۔
جبریل کے آنسو گالوں پر بہنے لگے تھے۔ سالار نے اسے بچپن میں توکبھی روتے دیکھا تھا لیکن اب بہت عرصے سے نہیں۔ وہ اسے پچھلے کچھ عرصہ سے ’’بڑا‘‘ سمجھنے لگا تھا اور وہ بڑا اب چھوٹے بچوں کی طرح اس کی گود میں منہ چھپا کر رو رہا تھا۔ اتنے مہینوں سے وہ راز جو اس کی معصومیت کو گھن کی طرح کھا رہا تھا، آج افشا ہوگیا تھا۔
’’بابا… بابا!‘‘ وہ اس کے سینے سے لگا ہوا سسک رہا تھا۔
“I don’t want you to die.” (میں آپ کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔) اور یہی وہ لمحہ تھا جب سالار سکندر کے دل سے ہر خوف ختم ہوگیا تھا۔ اسے آپریشن کروانا تھا… فوری طور پر… وہ اپنے خاندان کو اس طرح موت اور زندگی کی امید کے درمیان لٹکا نہیں سکتا تھا… جو بھی ہونا تھا، ہوجانا چاہیے تھا۔
’’اوکے… I won’t…‘‘ اس نے اپنے بیٹے کا سرچومتے ہوئے اس سے کہا تھا۔




ناشتے کی میز پر امامہ نے جبریل کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھی تھیں جو سلام کرکے سالار یا امامہ سے نظریں ملائے بغیر آکر کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘
امامہ نے اس کا ماتھا چھو کر جیسے ٹمپریچر معلوم کرنے کی کوشش کی۔
’’جی، میں ٹھیک ہوں۔‘‘ جبریل کچھ گھبرایا۔ نظریں اٹھائے بغیر اس نے پلیٹ میں پڑا آملیٹ چھری اور کانٹے سے کاٹنے کی کوشش کرتے ہوئے جیسے امامہ کی توجہ اپنے چہرے سے ہٹانے کی کوشش کی۔
چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے سلار نے بھی اسی لمحے جبریل کو دیکھا تھا لیکن کچھ کہا نہیں۔
’’تم جاگتے رہے ہو کیا ساری رات؟‘‘ امامہ کو اس کی آنکھیں ابھی بھی تشویش میں مبتلا کررہی تھیں۔
’’نہیں ممی! یہ بہت رویا ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ جبریل کوئی اور بہانہ بنانے کی کوشش کرتا، حمین نے سلائس کا کونا دانتوں سے کاٹتے ہوئے بے حد اطمینان سے جبریل کو جیسے بھربے بازار میں ننگا کردیا۔ کم از کم جبریل کو ایسا ہی محسوس ہواتھا۔
ٹیبل پرموجود سب لوگوں کی نظریں بیک وقت جبریل کے چہرے پر گئیں، وہ جیسے پانی پانی ہوا۔
ایک بھی لفظ کہے بغیر امامہ نے سالار کو دیکھا، سالار نے نظریں چرائیں۔
سلائس کے کونے کترتا ہوا حمین، بے حد اطمینان سے، رات کے اندھیرے میں بستر میں چھپ کر بہائے گئے ان آنسوؤں کی تفصیلات کسی کمنتری کرنے والے کے انداز میں بغیر رکے، بتاتا چلا جارہا تھا۔
’’جبریل روز روتا ہے اور اس کی آوازوں کی وجہ سے میں سو نہیں پاتا۔ جب میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ جاگ رہا ہے تو وہ جواب نہیں دیتا۔ ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے وہ سو رہا ہے، مگر مجھے…‘‘
ناشتے کی میز پر حمین کے انکشافات نے ایک عجیب سی خاموشی پید اکردی تھی۔
’’اور ممی، مجھے پتا ہے کہ یہ کیوں روتا ہے۔‘‘
حمین کے آخری جملے نے امامہ اور سالار کے پیروں کے نیچے سے نئے سرے سے زمین کھینچی تھی۔
’’لیکن میں یہ بتاؤں گا نہیں کیوں کہ میں نے جبریل سے پرامس کیا ہے کہ میں کسی سے اس کو شیئر نہیں کروں گا۔میں کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
حمین نے اعلان کرنے والے انداز میں ایک ہی سانس میں انہیں چونکایا اور دہلایا۔ سالار اور امامہ دونوں کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ کیا ردعمل ظاہر کریں۔ خاموش رہیں۔ حمین کو کریدیں۔ جبریل سے پوچھیں۔ کریں کیا اور جانیں کیا؟
’’میں تو نہیں روتا۔‘‘
حمین کے خاموش ہونے کے بعد ماں باپ کو دیکھتے ہوئے جبریل نے حلق میں پھنسی ہوئی آواز کے ساتھ جیسے اپنا پہلا دفاع کرنے کی کوشش کی اور حمین نے اس پہلی کوشش کو پہلے ہی وار میں زمین بوس کردیا۔
’’اوہ مائی گاڈ! اب تم جھوٹ بھی بول رہے ہو۔‘‘
’’تم حافظ قرآن ہوکر جھوٹ بولتے ہو۔‘‘
سلائس کا آخری بچا ہوا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے حمین سکندر نے اپنی آنکھوں کو حتی المقدور پھیلایا۔ جبریل پر کچھ اور پانی پڑا۔ اس کا چہرہ کچھ اور سرخ ہوا۔
’’می ! جھوٹ بولنا گناہ ہے نا؟‘‘
حمین نے جیسے ماں سے تصدیق کرنے کی کوشش کی۔
’’حمین! خاموش ہوجاؤ اور ناشتا کرو۔‘‘ اس بار سالار نے مداخلت کی اور اسے کچھ سخت لہجے میں گُھر کا۔ اپنے حواس بحال کرنے کے بعد صورت حال کو سنبھالنے اور جبریل کو اس سے نکالنے کی ، یہ اس کی پہلی کوشش تھی۔
امامہ اب بھی سرد ہاتھوں کے ساتھ وہاں بیٹھی جبریل کو دیکھ رہی تھی۔ اس لمحے اس نے دعا کی تھی کہ جبریل کچھ نہ جانتا ہو۔ اس کے آنسوؤں کی وجہ وہ نہ ہو جو وہ سمجھ رہی ہے۔ اور حمین… اس نے حمین کو کیا بتایا تھا؟
ناشتا ختم کرنے تک سالار نے حمین کو دوبارہ اس کے احتجاج کے باوجود منہ کھولنے نہیں دیا تھا۔
ان چاروں کو پورچ میں کھڑی گاڑی میں بٹھانے اور ڈرائیور کے ساتھ اسکول بھیجنے کے بعد امامہ، سالار کے پیچھے اندر آگئی تھی۔
’’جبریل کو میری بیماری کے بارے میں پتا ہے۔‘‘
سالار نے اندر آتے ہوئے مدھم آواز میں اسے بتایا۔ وہ اس کے پیچھے آتے آتے رک گئی۔ پاؤں اٹھانا بھی کبھی دنیا کا مشکل ترین کام بن جاتا ہے، یہ اس لمحے اسے معلوم ہوا تھا۔ کچھ حلق میں بھی اٹکا تھا۔ پتا نہیں وہ سانس تھا یا پھندا… تو اس دن وہ اسے ہی تسلیاں دے رہا تھا اور اسے جو لگ رہا تھا کہ شاید جبریل کو کچھ پتا لگ گیا ہے اور شاید جبریل کچھ پریشان بھی لگ رہا ہے۔ وہ وہم نہیں تھا۔
’’رات کو بات ہوئی تھی میری اس سے۔‘‘ سالار اسے بتارہا تھا۔
’’کب…؟‘‘ اس نے بمشکل آواز نکالی۔
’’رات گئے… تم سو رہی تھیں… میں لاؤنج میں کسی کام سے گیا تھا، وہ کمپیوٹر پر برین ٹیومر کے علاج کے بارے میں جاننے کے لئے میڈیکل ویب سائٹ کھولے بیٹھا تھا۔ وہ کئی ہفتوں سے ساری ساری رات یہی کرتا رہا ہے۔ میں نے پوچھا نہیں۔ اسے کس نے بتایا، کب پتا چلا لیکن مجھے لگتا ہے اسے شروع سے ہی پتا ہے۔‘‘ وہ اب دوبارہ اسی ڈیسک ٹاپ کو کھولے کرسی پر بیٹھا تھا جو وہ پچھلی رات بھی کھولے بیٹھا رہا تھا۔
’’مجھے شک ہے… شاید اس نے حمین اور عنایہ کو بھی بتایا ہو۔‘‘
وہ سالار کے عقب میں کھڑی تھی۔ سالار کمپیوٹر کی اسکرین پر ان ویب سائٹس کو بند کررہا تھا اور ڈیلیٹ کررہا تھا، جو وہ رات کو نہیں کرسکا تھا۔ امامہ کے حلق میں اٹکی چیز آنسوؤں کے گولے میں بدلی۔
محمد جبریل سکندر کنویں سے زیادہ گہرا تھا۔ وہ ماں باپ کے ساتھ ایک بار پھر ایک بے آواز تماشائی کی طرح ان کی زندگی کی تکلیف اور اذیت کو جھیل رہا تھا۔ جیسے اس نے کئی سال پہلے اپنی پیدائش سے بھی پہلے امامہ کے وجود کے اندر جھیلی تھی۔ جب وہ وسیم کی موت کے بعد اپنی زندگی کے اس وقت کے سب سے بدترین مرحلے سے گزری تھی۔ وہ بڑوں کابوجھ تھا، بڑوں کو ہی ڈھونا چاہیے تھا۔ اس کے کندھے اس سے نہیں جھکنے چاہئیں تھے۔ وہ دو بڑے اس وقت شرمسار تھے۔
’’اس نے تم سے کیا کہا؟‘‘ اس نے بالآخر ہمت کرکے سالار کے عقب میں کھڑے ہوکر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بابا! میں آپ کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ مدھم آواز میں سالار کے جواب نے ایک نشتر کی طرح اے کاٹاتھا۔
بچپن کمال کی چیز ہے، ساری لفاظی، تکلف، لحاظ کا پردہ پھاڑ کر دل کی بات کو یوں کہتا ہے کہ دل نکال کر رکھ دیتا ہے۔
’’ا س نے تم سے وہ کہا جو میں نہیں کہہ سکی۔‘‘ سالار نے اپنے کندھوں پر اس کے ہاتھوں کی نرمی اور اس کے لفظوں کی گرمی کو جیسے ایک ہی وقت میں محسوس کیا تھا۔
’’میں کچھ ہفتوں تک آپریشن کروا رہا ہوں۔ دو ہفتوں میں یہاں سے واپس پاکستان جائیں گے، تم لوگوں کو پاکستان چھوڑ کر پھر میں امریکہ جاؤں گا، سرجری کے لئے۔‘‘
اس نے امامہ کو مڑ کر نہیں دیکھا تھا، نہ اسکے ہاتھ کندھوں سے ہٹائے تھے، نہ اسے تسلی دی تھی۔ وہ اسے جبریل کی طرح سینے سے لپٹا کر وہ وعدہ نہیں کرسکتا تھا جو اس نے جبریل سے کیا تھا۔ وہ بچہ تھا… وہ بچہ نہیں تھی ۔ وہ بہل گیا تھا… وہ بہل نہیں سکتی تھی۔
’’مجھے تمہیں ایک کام سونپنا ہے امامہ۔‘‘ سالار نے بالآخر کمپیوٹر آف کرتے ہوئے امامہ سے کہا۔
’’کیا؟‘‘ وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
’’ابھی نہیں بتاؤں گا… آپریشن کے لئے جانے سے پہلے بتاؤں گا۔‘‘
’’سالار! مجھے کوئی کام مت دینا… کچھ بھی…‘‘ وہ رو پڑی۔
’’کوئی بڑ اکام نہیں ہے۔ تمہارے لئے کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے۔‘‘
وہ اب کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اب ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔
’’میں کوئی آسان کام بھی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ اس نے سرجھٹکتے ہوئے بے حد بے بسی سے کہا۔ وہ ہنس پڑا۔ عجیب تسلی دینے والے انداز میں اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔
’’اپنی آٹو بائیو گرافی (خود نوشت) لکھ رہا ہوں، پچھلے کچھ سالوں سے… سوچتا تھا بڑھاپے میں پبلش کرواؤں گا۔‘‘ وہ خاموش ہوا… پھر بولنے لگا۔ ’’وہ نامکمل ہے ابھی… میں بہت کوشش بھی کروں تب بھی اسے مکمل نہیں کرسکتا، لیکن تمہارے پاس رکھوانا چاہتا ہوں… یہ چاروں ابھی بہت چھوٹے ہیں… مجھے نہیں پتا آپریشن کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتا… آگے کیا ہونے والا ہے۔ لیکن پیچھے جو کچھ ہوچکا ہے، وہ لکھ چکا ہوں میں اور میں چاہتا ہوں تم اسے ان چاروں کے لئے اپنے پاس محفوظ رکھو۔‘‘
ان جملوں میں عجیب بے ربطی تھی، وہ ا س سے کھل کر یہ نہیں کہہ پایا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد وہ اس کے بچوں کے ہوش سنبھالنے پر ان سے ان کے باپ کا تعارف ان کے باپ کے لفظوں میں ہی کروائے۔ وہ اس سے یہ بھی نہیں کہہ سکا تھا کہ اسے آپریشن میں ہونے والی کسی پیچیدگی کے نتیجے میں ہونے والی دماغی بیماری کا بھی اندیشہ تھا۔ اس نے جو نہیں کہا تھا۔ امامہ نے وہ بھی سن لیا تھا۔ بس صرف سنا تھا۔ وہ آنے والے وقت کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی کیوں کہ وہ برا وقت تھا اور وہ برے وقت سے آنکھیں بند کرکے گزرنا چاہتی تھی۔
’’کتنے چیپٹر ہیں اس کتاب کے؟‘‘ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھا۔
’’سینتیس سال کی عمر میں پہلا چیپٹر لکھا تھا، پھر ہر سال ایک چیپٹر لکھتا رہا ہوں۔ ہر سال ایک لکھنا چاہتا تھا۔ زندگی کے پہلے سال… پھر اگلے پانچ … پھر اس سے اگلے… ابھی زندگی کے صرف چالیس سال ریکارڈ کر پایا ہوں۔‘‘ وہ بات کرتے ہوئے رکا… چیپٹر گنوائے بغیرہ وہ عمر گنوانے بیٹھ گیا تھا۔
’’چالیس کے بعد بھی تو زندگی ہے۔ 41۔ 42 ۔ 43 ۔‘‘ وہ بات کرتے کرتے اٹکی… رکی… ہکلائی۔
’وہ جو ہے، اسے میں document نہیں کرنا چاہتا ۔ تم کرنا چاہتی ہو تو کرلینا۔‘‘ کیا وہ اجازت دے رہا تھا۔ اسے جیسے کہہ رہا ہو تم یاد رکھنا چاہتی ہو یہ عرصہ تو یاد رکھ لینا۔
’’کہاں ہے کتاب؟‘‘ وہ یہ سب نہیں پوچھنا چاہتی تھی، پھر بھی پوچھتی جارہی تھی۔
’’اسی کمپیوٹر میںہے۔‘‘ وہ دوبارہ کمپیوٹر آن کرنے لگا اور ڈیسک ٹاپ پر پڑے ایک فولڈ کو کھول کر اس نے امامہ کو دکھایا۔ فولڈر کے اوپر ایک نام چمک رہا تھا۔ تاش…
’’تاش؟‘‘ امامہ نے رندھی آواز میں پوچھا۔
’’نام ہے میری آتو بائیو گرافی کا۔‘‘ وہ اب اسے دیکھے بغیر فولڈر کھولے، اسے فائلز دکھا رہا تھا۔
’’انگلش میں لکھی جانے والی آٹو بائیوگرافی کا نام اردو میں رکھو گے؟‘‘ اسٹڈی ٹیبل کے کونے سے ٹکی وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’میری زندگی کو اس لفظ سے زیادہ بہتر کوئی (بیان) نہیں کرسکتا۔ کیا فرق پڑتا ہے ، تم لوگوں کے لئے لکھی ہے۔ تم لوگ تو سمجھ سکتے ہو، تاش کیا ہے۔‘‘
وہ ا س کی طرف دیکھے بغیر مدھم آواز میں بولتا ہواصفحات کو اسکرول ڈاؤن کررہا تھا۔ لفظ بھاگتے جارہے تھے، پھر غائب ہورہے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس کی زندگی کے سال غائب ہوئے تھے۔ پھر وہ آخری چیپٹر ، آخری صفحے پر جا رکا تھا۔ آدھا صفحہ لکھا ہوا تھا، آدھا صفحہ خالی تھا۔ سالار نے اس فولڈ ر کو کھولنے کے بعد پہلی بار سراٹھا کر امامہ کو دیکھا، نم آنکھوں کے ساتھ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
’’تم پڑھنا چاہوگی؟‘‘ اس نے مدھم آواز میں امامہ سے پوچھا۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

کارآمد — عریشہ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!