آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

اپنے بیڈ روم میں داخل ہوکر پیچھے دیکھے بغیر بھی وہ جانتا تھا وہ اس کے پیچھے تھی اور میکانکی انداز میں اندر آئی تھی یوں جسے کسی ٹرانس میں تھی۔ سحر زدہ نہیں تھی… دہشت زدہ تھی۔ یوں جیسے بہت کچھ پوچھنے کے باوجود کچھ پوچھنا نہیں چاہتی تھی… جیسے اسے یقین تھا… اب جو بھی خبر ملنی تھی، بد سے بدترملنی تھی۔
سالار اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ڈنر جیکٹ کو صوفے پر پھینکتے ہوئے اس نے وہ فون، ٹراؤزر کی جیب سے نکال لیا تھا جو بج رہا تھا۔ وہ سکندر عثمان تھے… اس نے اس بار باپ سے صرفِ نظر نہیں کیا تھا۔ جب امامہ کو سب کچھ پتا چل چکا تھا تو پھر باقی کس سے کیا چھپانا تھا اسے؟
اس کی آواز سنتے ہی سکندر عثمان اپنا حوصلہ کھو بیٹھے تھے… سالار نے باپ کو زندگی میں پہلی بار روتے دیکھا تھا اور اس لمحے اسے پہلی بار احساس ہوا کہ صرف اولاد کے آنسو ہی تکلیف دہ نہیں ہوتے، ماں باپ کو اپنی نظروں کے سامنے اپنی وجہ سے روتے دیکھنا بھی بے حد مشکل ہوتا ہے۔
’’تم نے طے کر رکھا ہے کہ تم ساری عمر مجھے چین نہیں لینے دوگے۔‘‘
سکندر عثمان نے آنسوؤں کے درمیان اس سے کہا۔ وہ اولاد کی تکلیف پر پریشان ہونے والے باپ تھے، رو پڑنے والے باپ نہیں تھے۔ آج ان کا یہ زعم بھی اسی اولاد نے ختم کیا تھا جو اتنے سالوں سے ان کے لئے فخر کا باعث رہی تھی۔
’’اس بار تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا پاپا!‘‘ اس جملے نے سکندر عثمان کو مزید زخمی کیا تھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ واقعی اس بار تو اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
’’میں اور تمہاری ممی کنساشا آرہے ہیں، اسی ہفتے۔‘‘ انہوں نے اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔
’’پاپا! کیا فائدہ ہے؟ میں وقت نہیں دے پاؤں گا۔ سب کچھ وائنڈ اپ کررہا ہوں میں یہاں، کچھ دنوں کی بات ہے پھر میں آجاؤں گا آپ کے پاس، پاکستان۔‘‘
اس نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی… وہ ان دونوں کو ان حالات میں اپنے سامنے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
’’آپ پریشان نہ ہوں… میں فی الحال بالکل ٹھیک ہوں۔ ٹریٹمنٹ ہورہا ہے۔ آپ صرف دعا کریں۔ ممی سے میری بات کروادیں۔‘‘ اس نے سکندر عثمان کو دلاسادیتے ہوئے انہیں ماں سے بات کروانے کو کہا۔ طیبہ بھی اسی کیفیت میں تھی جس میں سکندر عثمان تھے… اس کی بیماری کا انکشاف جیسے ایک آتش فشاں کے پھٹنے کی طرح تھا جس نے منٹوں میں اس سے جڑے ہر شخص کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا۔





کمرے میں ٹہلتے ہوئے فون کان سے لگائے وہ اپنے ماں باپ کو تسلیاں دیتے ہوئے اس وجود سے بے خبر نہیں تھا جو کمرے کے درمیان اس ساری گفتگو کے دوران کسی بت کی طرح ساکت کھڑا تھا۔ ایک ایک لفظ کو سنتے ہوئے اور ایک بھی لفظ کو سمجھے بغیر۔
سالار نے بالآخر فون بند کیا اور اسے سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔ ایک عجیب سا احساس جرم تھا جس کا شکار وہ اس وقت ہورہا تھا۔ پتا نہیں احساس جرم تھا یا خود ترسی… اس کی بیماری نے اسے بڑے غلط انداز میں سب کی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ سب کی توجہ کا مرکز اور ہر ایک کی تکلیف کا باعث۔
اس نے فون رکھ کر امامہ کو دیکھا… اس کا چہرہ سفید تھا۔ بالکل بے رنگ یوں جیسے اس نے کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو، اس پر نظریں جمائے پلکیں جھپکائے بغیر… شاکی نظریں بے یقینی سے بھری ہوئی۔
’’بیٹھ کر بات کرتے ہیں!‘‘ خاموشی کو سالار نے توڑا تھا، وہ اس کی نظروں کا سامنا نہیں کرپارہا تھا… اس نے ہاتھ بڑھا کر امامہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے صوفے کی طرف لے آیا… وہ کھنچی چلی آئی تھی… یوں جیسے ایک روبوٹ ہو۔
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
بہت دیر صوفے پر برابر ایک دوسرے کو دیکھے بغیر گم صم بیٹھے سالار نے بالآخر یہ اندازہ لگالیا تھا کہ گفتگو کا آغاز اب بھی اسے ہی کرنا تھا۔ سوال کا جواب جاننے کے باوجود اس نے پوچھا تھا۔
اس سوال کے علاوہ سارے سوال مہلک تھے… سارے سوالوں سے وہ بچنا چاہتا تھا۔ کسی دوسرے کے بارے میں پوچھنا اور بات کرنا اور بات تھی۔ اپنے بارے میں بات کرنا… اپنی بیماری… اپنی زندگی… اپنی موت… یہ انسان نہیں کرسکتا، وہ بھی انسان تھا۔
’’تم نے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ سوال کا جواب وہ نہیں آیا تھا جس کی اسے توقع تھی۔ سوال کا جواب سوال سے ہی آیا تھا… گلے میں پھنسی ہوئی رندھی ہوئی زخمی سی آواز میں… وہ امامہ کی آواز نہیں تھی۔ بے بسی اور بے یقینی کی آواز تھی۔ کیا ہوا…؟ کب ہوا…؟ سے بھی زیادہ چبھنے والا سوال… اس نے اسے اس قابل کیوں نہیں سمجھا تھا کہ اپنی زندگی کی اتنی بڑی تکلیف دہ خبر کو اس کے ساتھ بانٹتا… چھپانا کیوں ضروری سمجھا تھا۔ زندگی کے اتنے سال ساتھ گزارنے کے باوجود بھی۔
’’ہمت نہیں پڑی۔‘‘ جواب نے امامہ کی ہمت بھی توڑی تھی۔ وہ کم حوصلہ تو کبھی نہیں تھا، تو کیا وہ خبر اس بیماری کی اس نوعیت اس حد تک خراب تھی کہ وہ کم ہمت ہورہا تھا۔
وہ اسے دیکھے بغیر اب جوتوں کے تسمے کھولتے ہوئے اسے اپنی بیماری کے بارے میں بتارہا تھا۔
ٹیومر کی تشخیص… نوعیت، ممکنہ علاج، متوقع مضمرات… مدھم آواز میں اسے دیکھے اس سے نظریں ملائے بغیر وہ اسے سب کچھ بتاتا چلا گیا۔ وہ دم سادھے سب کچھ سنتی گئی، یوں جیسے وہ اپنے کسی بھیانک خواب کے بارے میں بتارہا تھا۔
’’تم ٹھیک ہوجاؤگے نا؟‘‘
اس نے ساری گفتگو سننے کے بعد اس کا کندھا دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر منت والے انداز میں پوچھا تھا، یوں جیسے وہ مریض نہیں ڈاکٹر تھا اور اس کی زندگی اور بیماری خود اس کے ہاتھ میں تھی… وہ جواب ہی نہیں دے سکا۔ بول ہی نہیں سکا۔ وہ سوال تھوڑی تھا وہ تو آس اور امید تھی جو وہ اسے کم از کم اپنے لفظوں سے دینا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے اپنی بیماری کے بارے میں پاکستان اور امریکہ کے ڈاکٹر ز کی آراء بتادی تھیں اور اس کے باوجود وہ اس سے ایک احمقانہ سوال پوچھ رہی تھی۔ سالار نے خفگی محسوس کی، غصہ نہیں آنا چاہیے تھا لیکن غصہ آیا تھا۔
’’امامہ! تم جاکر سوجاؤ۔‘‘ اس نے اپنے کندھے سے اس کے دونوں ہاتھ ہٹاتے ہوئے اسے کچھ کھردرے لہجے میں ایک ویسا ہی احمقانہ مشورہ دیا۔ وہ اپنے جوتے اٹھا کر صوفے سے اٹھ جانا چاہتا تھا۔ وہ اٹھ نہیں سکا۔ وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ بچوں کی طرح اس کے کندھے سے لگی… وہ اسے سونے کا کہہ رہا تھا۔ نیند تو ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی اب اس کی زندگی سے… وہ جو ایک گھر اتنی مشکل سے بنایا تھا وہ ٹوٹنے جارہا تھا۔ سائبان ہٹنے والا تھا اور وہ اسے کہہ رہا تھا وہ سوجائے۔
وہ اس سے لپٹی ہچکیوں کے ساتھ روتی رہی، وہ مجرموں کی طرح چپ سرجھکائے بیٹھا رہا… تسلی دلاسا دے سکتا تھا۔ پر کیا دیتا… ابھی اسے وہ سارے لفظ ڈھونڈنے اور سوچنے تھے،جن میں وہ اپنی بیوی کو یہ کہتا کہ وہ اب اپنے مستقبل کو اس کے بغیر سوچے، اپنے حال میں سے اسے نکالنا سیکھے… یہ ناامیدی اور مایوسی نہیں تھی۔ حقیقت پسندی تھی… وہ حقیقت پسندی جس سے امامہ نفرت کرتی تھی۔
’’میں رپورٹس دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ روتے روتے یک دم بولی تھی۔ پتا نہیں اب کیا گما ن تھا جسے وہ وہم بنانا چاہتی تھی۔ سالار نے ایک لفظ کہے بغیر اٹھ کر کمرے میں پڑی ایک کیبنٹ سے فائلز کا ایک پلندہ لاکر اس کے سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ وہ کپکپاتے ہاتھوں سے ان رپورٹس کو دیکھنے لگی، دھند لائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ وہ ان کاغذات کو دیکھتے ہوئے جیسے یہ یقین کرنا چاہتی تھی کہ کچھ اور تو نہیں تھا جو وہ چھپا رہا تھا۔ کوئی اور بری خبر، پیروں کے نیچے سے باقی ماندہ زمین بھی نکال دینے والا انکشاف… ہر کاغذ اس کی آنکھوں کی دھند کو گہرا کررہا تھا۔ وہ میڈیکل کی اسٹوڈنٹ رہ چکی تھی۔ رپورٹس میں استعمال شدہ ٹرمز کو پڑھ بھی سکتی تھی، سمجھ بھی سکتی تھی۔ آخری فائل کو بند کرکے وپس رکھتے ہوئے اس نے سالار کو دیکھا۔
’’میڈیکل سائنس غلط بھی تو کہہ سکتی ہے۔‘‘
سالار رندھی ہوئی آواز میں کہے گئے اس جملے پر ہنس پڑا۔ وہ غلط آدمی کو غلط جملے سے امید دلانے کی کوشش کررہی تھی، بلکہ شاید یہ جملہ اس سے نہیں اپنے آپ سے کہہ رہی تھی۔ اپنے دماغ میں چلنے والے جکڑ روکنے کے لئے۔
’’ہاں! سائنس غلط بھی کہہ سکتی ہے… ڈاکٹرز کی تشخیص بھی غلط ہوسکتی ہے، علاج بھی۔‘‘ اس نے امامہ ہاشم کی بات کو رد نہیں کیا تھا… اس کی اذیت کو وہ اور نہیں بڑھانا چاہتا تھا۔
’’تم ٹھیک ہوجاؤگے نا؟‘‘ اس کا بازو ایک بار پھر تھاما گیا تھا۔ سوال پھر دہرایا گیا تھا… وہ خاموش نہیں رہ سکا غصہ بھی نہیں دکھا سکا۔
’’اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو ضرور… لیکن یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لئے انشاء اللہ۔‘‘
وہ پھر ہچکیوں سے رو پڑی تھی۔ اس بار سالار نے اسے لپٹالیا۔ وہ مرد تھا رونا نہیں چاہتا تھا مگر جذباتی ہورہا تھا… وہ آنسو نہیں تھے۔ وہ سارے خوف اور خدشات تھے جو اس کی بیماری ان کی زندگی میں لے آئی تھی۔ چار کم سن بچوں کے ساتھ وہ ایک عورت، اپنی زندگی کو کیسے اکیلے بسر کرلینے کا تصور کرلیتی۔ جب وہ پچھلے گیارہ سالوں سے اس پر ہر لحاظ سے انحصار کرتی رہی تھی۔ خوف بے شمار تھے اور وہ اس کے اظہار کے بغیر بھی جیسے اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔
’’امامہ! تمہیں بہادر بن کر اس سب کا مقابلہ کرنا ہے۔‘‘
اس نے بالآخر اس کے لئے ایک جملہ ڈھونڈا تھا کہنے کے لئے… صدیوں پرانا روایتی جملہ… تکلیف میں ان بے حس تو ہوسکتا ہے بہاد رکیسے ہوتا ہے…؟ وہ اس سے کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہیں سکی۔
زندگی میں پہلی بار اس نے سالار کی کسی بات پر اعتراض کے باوجود اعتراض اس تک نہیں پہنچایا… لڑنا جھگڑنا بحث مباحثہ یہ تو تب ہوتا ہے جب سالوں کا ساتھ ہو… سالوں کا ساتھ گزر گیا تھا… اب جو رہ گیا تھا، وہ مہلت تھی اور اس مہلت نے اسے کچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑ ا تھا۔ شکوہ… شکایت… گلہ… اعتراض… کچھ بھی… وہ روتی رہی وہ اسے ساتھ لگائے تھپکتا رہا۔
’’تم ٹھیک ہوجاؤگے۔‘‘ بہت دیر تک اس سے لپٹ کر روتے رہنے کے بعد وہ اس سے الگ ہوئی اور اس نے جیسے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’تم پھر سوال کررہی ہو؟‘‘ سالار کو لگا اس کی ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں تھی۔
’’نہیں، سوال نہیں کررہی۔ بتارہی ہوں… تمہیں بہاد ربن کر اس سب کا مقابلہ کرنا ہے۔‘‘
وہ اس کا جملہ اسی سے دہرا رہی تھی ، وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
’’بیماری ہے، موت تو نہیں ہے۔‘‘ کیسی تسلی تھی جو اس نے دی تھی۔ اسے شاید خیال آیا تھا کہ اسے سالار کو تسلی دینا چاہیے تھی۔ اس کے آنسو اسے پریشان کررہے ہوں گے… مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے الفاظ اس کے چہرے کا ساتھ نہیں دے رہے ہوں گے۔
امامہ سرخ سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ لڑکھڑاتی زبان میں اسے جو امید دلارہی تھی، اس کی حقیقت اسے بھی پتا تھی اور وہ اس کو بھی جیسے وہ امید دلا رہی تھی۔
’’تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں۔‘‘ وہ مسکرایا… امامہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک اور سیلاب آیا۔
’’میں نے زندگی میں تمہیں بہت سارے آنسو دیئے ہیں،تمہارے رونے کی بہت ساری وجوہات کا باعث بنا ہوں میں۔‘‘ اس کے آنسوؤں نے عجیب کانٹا چبھویا تھا سالار کو…
بہتے آنسوؤں کے ساتھ سرہلاتے ہوئے وہ ہنسی۔
’’ہاں! پر میری زندگی میں خوشی اور ہنسی کے سارے لمحات کی وجہ بھی تم ہو۔‘‘
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا… پھر یک دم اٹھ کھڑا ہوا۔
سوجاؤ… بہت رات ہوگئی ہے۔‘‘ وہ کپڑے تبدیل کرنے کے لئے واش روم میں چلا گیا تھا۔ جب واپس آیا، وہ اسی طرح وہاں بیٹھی تھی… ان ہی فائلوں کے پلندے کو ایک بار پھر گود میں لئے… یوں جیسے اس میں جھوٹ ڈھونڈ رہی وہ… کوئی غلطی کوئی غلط فہمی… امید تو وہاں نہیں تھی۔
سالار نے کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس کی گود سے وہ ساری فائلیں اٹھالیں، اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
’’امامہ! ایک وعدہ کرو؟‘‘ فائلوں کو اس کیبنٹ میں لاک میں لاک کرتے ہوئے سالار نے اس سے کہا۔
’’کیا؟‘‘ اس نے دوپٹے سے اپنا چہرہ رگڑتے ہوئے اس سے کہا۔
’’بچوں کو کچھ پتا نہیں چلنا چاہیے۔ وہ بہت چھوٹے ہیں۔‘‘
امامہ نے سرہلادیا۔
٭…٭…٭
’’برین ٹیومر کیا ہوتا ہے؟‘‘ حمین نے دعا کا آخری لفظ پڑھتے ہی جبریل سے پوچھا، جبریل کا رنگ اڑ گیا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی کمرے میں آیا تھا۔
’’تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ جبریل کو لگا جیسے حمین نے وہ سوال اس سے جان بوجھ کر کیا تھا۔ یوں جیسے اس کی چوری پکڑلی تھی۔ ’’کوئی disease (بیماری) ہوتی ہے؟‘‘ وہ جبریل سے پوچھنے کے باوجود اندازہ لگا چکا تھا۔
’’تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ جبریل نے ایک بار پھر اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اپنا سوال دہرایا، لیکن اس نے دل میں جیسے دعا کی تھی کہ اسے کچھ پتا نہ ہو۔
’’ہماری فیملی میں کسی کو برین ٹیومر ہے۔‘‘ حمین نے بالآخر اعلان کیا۔ جبریل نے عنایہ اور رئیسہ کو دیکھا، وہ دونوں سوچکی تھیں۔
’’ I think dada has got brain tumor. ‘‘ اس نے جبریل کے تبصرے سے پہلے اپنا اگلا نتیجہ اس کے ساتھ بانٹا۔
“He told Mummy and Mummy got upset.”
جبریل اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔ تو اس کی ماں تک بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی… اور اس کے دادا تک بھی… اور پوری فیملی تک… وہ بچہ سوچ رہا تھا۔
ـ”Is dada going to die?” (کیا دادا مرنے والے ہیں؟)
حمین نے اس بار لیٹے لیٹے بے حد راز دارانہ انداز میں جبریل سے پوچھا۔
’’نہیں ۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔
“I Thank God….. I love him so much.”
حمین نے اپنے ننھے ننھے ہاتھ سینے پر رکھ کر جیسے سکون کا سانس لیا۔
’’تب ٹھیک ہے۔‘‘
’’حمین! تم یہ بات کسی کو مت بتانا۔‘‘ جبریل نے یک دم اسے ٹوکا۔
’’دادا کے برین ٹیومر والی؟‘‘ وہ متجسس ہوا۔
’’ہاں۔‘‘




Loading

Read Previous

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

کارآمد — عریشہ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!