آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

’’میں اس کتاب کو ایڈٹ کروں گی۔‘‘ اس نے جواب دینے کے بجائے دوسری ہی بات کی۔ وہ جیسے کچھ اور محظوظ ہوا۔
’’یعنی مجھے مومن بنادوگی؟‘‘
’’وہ زندگی میں نہیں بناسکی تو کتاب میں کیا بناؤں گی؟‘‘ وہ کہے بغیر نہ رہ سکی۔
وہ پھر ہنسا۔ ’’یہ بات بھی ٹھیک ہے۔‘‘
اس نے سر کھجایا۔ بہت عرصے بعد وہ اس طرح بات کررہے تھے… ایسے جیسے زندگی میں آگے کوئی بھی مسئلہ نہیں تھا… سب ٹھیک تھا… کہیں کوئی تکلیف نہیں تھی۔
’’کیا نام رکھوگی پھر میری آٹو بائیو گرافی کا؟‘‘
’’آب حیات۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا… اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی… رنگ اُڑا، پھر وہ مسکرایا۔
’’وہ تو کوئی بھی پی کر نہیں آتا۔‘‘ امامہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس نے کہا۔
’’تلاش تو کرسکتا ہے۔‘‘ اس نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لاحاصل ہے۔‘‘
’’وہ تو پھر زندگی بھی ہے۔‘‘ وہ لاجواب ہوکر چپ ہوگیا۔
’’تم نے زندگی تاش کا کھیل سمجھ کر جی ہے اور اس کتاب کو بھی ایسے ہی لکھا ہے…‘‘ وہ کہہ رہی تھی، وہ سن رہا تھا۔ ’’زندگی 52 پتوں کا کھیل تو نہیں ہے… ان 250 صفحوں میں اعترافات ہیں لیکن کوئی ایسی بات نہیں جسے پڑھ کر تمہاری اولاد تمہارے جیسا بننا چاہے… میں چاہتی ہوں تم زندگی کو آب حیات سمجھ کر لکھو جسے پڑھ کر تمہاری اولاد تمہارے جیسا بننا چاہے۔ صرف تمہاری اولاد نہیں… کوئی بھی اسے پڑھ کر تمہارے جیسا بننا چاہے۔‘‘ وہ اس سے کہتی رہی۔
’’میرے پاس اب شاید مہلت نہیں اتنی۔‘‘ سالار نے مدھم آواز میں کہا۔
’’تو مہلت مانگو اللہ سے۔ تمہاری تو وہ ساری دعائیں پوری کردیتا ہے۔‘‘ وہ رنجیدہ ہوئی تھی۔
’’تم مانگو… جو چیز اللہ میرے مانگنے پر نہیں دیتا۔ تمہارے مانگنے پر دے دیتا ہے۔‘‘ سالار نے اس سے عجیب سے لہجے میں کہا۔
’’مجھے یقین ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ بے حد مایوسی، پریشانی اور تمہاری میڈیکل رپورٹس دیکھنے کے باوجود پتا نہیں سالار! مجھے یہ کیوں نہیں لگتا کہ تمہارا اور میرا ساتھ بس زندگی کے اتنے سالوں تک ہے۔ اس طرح ختم ہوسکتا ہے۔‘‘ اس نے سالار کا ہاتھ تھاما تھا۔
’’مجھے بھی نہیں لگتا۔‘‘ وہ بھی عجیب رنجیدگی سے مسکرایا تھا۔ ’’ابھی تو بہت کچھ ہے جو ہمیں ساتھ کرنا ہے… ساتھ حج کرنا ہے… تمہارے لئے ایک گھر بنانا ہے۔‘‘
وہ اب وہ ساری چیزیں گنوارہا تھا جو اسے کرنی تھیں… یوں جیسے اندھیرے میں جگنو ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہو۔
امامہ نے سرجھکا لیا… وہ بھی اندھیرے میں صرف جگنو دیکھنا چاہتی تھی، اندھیرا نہیں۔
٭…٭…٭




آپریشن ٹیبل پر لیٹے اینستھیزیا لینے کے بعد، بے ہوشی میں جانے سے پہلے، سالار ان سب کے بارے میں سوچتا رہا تھا جن سے وہ پیار کرتا تھا… امامہ جو آپریشن تھیٹر سے باہر بیٹھی تھی… سکندر عثمان جو اس عمر میں بھی اس کے منع کرنے کے باوجود اس کو اپنی نظروں کے سامنے سرجری کے لئے بھیجناچاہتے تھے… اس کی ماں جو اس کے بچوں کو پاکستان میں سنبھالے بیٹھی تھی…اور اس کی اولاد… جبریل… حمین… عنایہ… رئیسہ… اس کی نظروں کے سامنے باری باری ایک ایک چہرہ آرہا تھا۔ جبریل کے علاوہ اس کے سب بچوں کو صرف یہ پتا تھا کہ ان کے پاپا کا ایک چھوٹا سا آپریشن تھا اور بس آپریشن کروا کر وہ ٹھیک ہوجائیں گے لیکن امریکہ آنے سے پہلے اس انکشاف پر عنایہ پہلی دفعہ پریشان ہونا شروع ہوئی تھی… سالار کی تسلیوں کے باوجود آپریشن کا لفظ اسے سمجھ میں آرہا تھا۔
“Baba is a boy and boys are brave.”
حمین نے اسے تسلی دی تھی۔
اور رئیسہ… جو اس کے لئے ہمیشہ گھر آنے پر لان کا کوئی پھول یا پتا جو اسے اچھا لگتا تھا وہ توڑ کر رکھتی تھی۔ یہ اس کی عادت تھی… اس نے امامہ کو… اس نے سالار کو امریکہ سرجری کے لئے جانے سے پہلے ایک زرد رنگ کا پینزی دیا تھا… وہ اس موسم بہار کا پہلا پینزی تھا جو سکندر عثمان کے لان میں کھلا تھا۔ وہ پھول اس کے بیگ میں تھا…مرجھایا ہوا… اس نے پچھلی رات بیگ کھولنے پر اسے دیکھا تھا۔
غنودگی کی حالت میں جاتے ہوئے وہ عجیب چیزیں سوچنے اور دیکھنے لگا تھا یوں جیسے اپنے ذہن پر اتنا کنٹرول کھوبیٹھا ہو… آیتیں جو وہ پڑھ رہا تھا وہ پڑحتے ہوئے اب اس کی زبان آہستہ آہستہ موٹی ہونا شروع ہوگئی تھی… وہ اٹکنے لگا تھا پھر ذہن وہ لفظ کھوجنے میں ناکام ہونے لگا جو وہ پڑھ رہا تھا… چہرے، آوازیں، سوچیں، سب کچھ آہستہ آہستہ مدھم ہونا شروع ہوئیں پھر غائب ہوتی چلی گئیں۔
٭…٭…٭
چار گھنٹے کا وہ آپریشن چار سے پانچ، چھ ، سات اور پھر آٹھ گھنٹے تک چلا گیا تھا۔ وہ آٹھ گھنٹے امامہ کی زندگی کے سب سے مشکل ترین گھنٹے تھے۔ سکندر عثمان، فرقان اور سالار کے دونوں بڑے بھائی وہاں موجود تھے… اسے حوصلہ اور تسلی دے رہے تھے مگر وہ گم صم ان آٹھ گھنٹوں میں صرف دعائیں کرتی رہی تھی… وہ ذہن اور صلاحیتیں جو اللہ کی نعمت کے طور پر سالار سکندر کو عطا کی گئی تھیں۔ اس کی دعا تھی، اللہ ان نعمتوں کو سالار کو عطا کئے رکھے… صحت، زندگی جیسی نعمتوں کا زوال نہ ہو اس پر… آٹھ گھنٹے میں وہ اپنی فیملی کے اصرار اور خود باوجود کوشش کے کچھ کھاپی نہیں سکی تھی…وہ پچھلی ساری رات بھی جاگتی رہی تھی… وہ بھی سالار بھی، وہ باتیں بھی نہیں کرتے رہے تھے… بس خاموش بیٹھے رہے پھر کافی پینے چلے گئے… وہاں سے واپسی کے راستے میں بھی کافی کے کپ ہاتھ میں لئے چلتے ہوئے وہ دونوں کچھ بھی نہیں بولے تھے… اگر بات کی بھی تھی تو موسم کی… کافی کی… بچوں کی… اور کچھ بھی نہیں۔
آپریشن تھیٹرجانے سے پہلے وہ اس سے گلے ملا تھا… اسی انداز میں جس میں وہ ہمیشہ اس سے ملتا تھا… جب بھی اس سے رخصت ہوتا تھا اور اس نے ہمیشہ کی طرح سالار سے وہی کہا تھا جو وہ اس سے کہتی تھی۔ will be waiting وہ سرہلا کر مسکرا دیا تھا۔ اس سے نظریں چرائے شاید اور وہ جذباتی نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ بھی رونا نہیں چاہتی تھی ۔ کم از کم اس وقت… اور وہ نہیں روئی تھی کم از کم اس کے سامنے آپریشن تھیٹر کا دروازہ بند ہونے تک…
اس کے بعد وہ خود پر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔ اسے امید بھی تھی اور اللہ کی ذات پر یقین بھی… اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو واہموں، اندیشوں ، وسوسوں سے بے نیاز نہیں کر پارہی تھی۔ وہ اب اس کی زندگی کا حصہ بن گئے تھے۔
ان آٹھ گھنٹوں میں پتا نہیں اس نے کتنی دعائیں، کتنے وظیفے کئے تھے… اللہ کے رحم کو کتنی بار پکارا تھا… امامہ نے گنتی نہیں کی تھی۔
آپریشن کا بڑھتا ہی جانے والا وقت جیسے اس کی تکلیف، اذیت اور اس کے خوف کو بھی بڑھاتا جارہا تاھ۔
آٹھ گھنٹے کے بعد بالآخر اسے آپریشن کے کامیاب ہونے کی اطلاع تو مل گئی تھی۔ ڈاکٹر نے اس کا ایک ٹیومر ختم کردیا تھا… دوسرا نہیں کرسکے تھے… اسے سرجری کے ذریعے ریموو کرنا بے حد خطرناک تھا… وہ بے حد نازک جگہ پر تھا… بے حد کامیابی سے اسے ہٹانے کی صورت میں بھی ڈاکٹرز کو خدشہ تھا کہ سالار کے دماغ کو کوئی نقصان پہنچے بغیر یہ نہیں ہوسکتا تھا… سرجری کے بغیر اسے ادویات اور دوسرے طریقوں سے کنٹرول کرنا زیادہ بہتر تھا کیوں کہ اس میں فوری طور پر سالار کی زندگی اور دماغ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تھا۔
ساڑھے آٹھ گھنٹے کے بعد امامہ اور سکندر عثمان نے بالآخر اسے دیکھا تھا… وہ ابھی ہوش میں نہیں تھا اور اسے کچھ گھنٹوں کے بعد ہوش آنا تھا۔ ہوش میں آنے کے بعد ڈاکٹرز آپریشن کی صحیح طرح کامیابی بتاسکتے تھے، جب وہ ہوش میں آنے کے بعد بات چیت کرنا شروع کرتا، اپنی فیملی کو پہچانتا… اپنے ذہن کے متاثر نہ ہونے کا ثبوت دیتا۔
امامہ ایک دریا پار کر آئی تھی۔ اب آگے ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ امامہ، سالار کو بہت دیر تک نہیں دیکھ سکی۔ وہ زندگی میں دوسری بار اسے اس طرح دیکھ رہی تھی… بے بسی کی حالت میں زندگی اور موت سے لڑتے ہوئے۔
پہلی بار اس نے اپنی شادی سے پہلے اسے تب دیکھا تھا جب اس نے کلائی کاٹ کرخودکشی کی کوشش کی تھی… اور اب اتنے سالوں بعد وہ اسے ایک بار پھر اس حالت میں دیکھ رہی تھی۔ تاروں اور ٹیوبز میں جکڑا ہوا… وہ اسے دیکھنے کی کوشش کرنے کے باوجود اس پر نظر نہیں جماسکی ، وہ وہ وہاں سے باہر آگئی۔
وہ لوگ اب اسپتال میں نہیں ٹھہر سکتے تھے… نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اسپتال سے واپس اس کرائے کے اپارٹمنٹ میں آنا پڑا تھا جہاں وہ لوگ رہ رہے تھے۔
سکندر عثمان اس کے ساتھ تھے… سالار کے دونوں بھائی اور فرقان اسپتال کے قریب اپنے کچھ دوستوں کے ہاں رہ رہے تھے۔ سکندر عثمان کو ان کے کمرے میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں آئی… وہاں عجیب سناٹا تھا یا شاید وحشت تھی… وہ بے حد تھکی ہوئی تھی، سونا چاہتی تھی، اس کے باوجود سو نہیں پا رہی تھی۔ یوں جیسے وہ بے خوابی کا شکار ہوگئی تھی۔
اس کے اسمارٹ فون پر جبریل اسکائپ پر آن لائن نظر آرہا تھا۔ وہ بے اختیار اسے کال کرنے لگی۔
’’بابا کیسے ہیں؟‘‘ اس نے سلام دعا کے بعد پہلا سوال کیا۔
’’وہ ٹھیک ہیں، آپریشن ٹھیک ہوگیا ہے۔ ڈاکٹرز اب ان کے ہوش میں آنے کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ وہ اس کو بتانے لگی۔
’’آپ پریشان نہ ہوں، وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح ماں کو تسلی دے رہا تھا۔
’’جبریل! تم تلاوت کرو کسی ایسی سورۃ کی… کہ مجھے نیند آجائے۔‘‘
وہ اولاد کے سامنے اتنی بے بس اور کمزور ہوکر آنا نہیں چاہتی تھی لیکن ہوگئی تھی۔
جبریل نے لیپ ٹاپ کی اسکرین اور اس کا سُتا ہوا چہرہ دیکھا پھر جیسے اس نے ماں کی تکلیف کم کرنے کی کوشش کی۔
’’آپ کو سورہ رحمان سناؤں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اوکے، میں وضو کرکے آتا ہوں… آپ بستر پر لیٹ جائیں۔‘‘ وہ پچھلے دو دن میں پہلی بار مسکرائی تھی۔
وہ وضو کے بغیر زبانی کوئی چھوٹی بڑی آیت بھی نہیں پڑھتا تھا… یہ احترام انہوں نے اسے نہیں سکھایا تھا…یہ اس کے اندر تھا… قرآن پاک کو حفظ کرنے کی خواہش کا اظہار بھی ان کی طرف سے ہونے سے بہت پہلے اس کی طرف سے ہوا تھا۔ وہ تب صرف تین سال کا تھا اور سالار کو روزانہ بلاناغہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے دیکھتا تھا، پھر ایک دن اس نے امامہ سے پوچھا تھا۔
’’بابا کیا پڑھتے ہیں؟‘‘
’’وہ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں جیسے تم قاعدہ پڑھتے ہو۔‘‘ امامہ نے اسے بتایا۔
’’لیکن قاعدہ تو بہت چھوٹا ہے۔‘‘ جبریل نے جیسے اپنی مایوسی ظاہر کی۔
’’جب تم قاعدہ پڑھ لو گے پھر قرآن پاک پڑھنا۔‘‘
’’لیکن وہ تو میں بہت دفعہ پڑھ چکا ہوں۔‘‘ وہ اپنا قرآنی قاعدہ واقعی کئی دفعہ پڑھ چکا تھا۔ اسے سبق دینے، دہرائی کروانے اور اگلے دن سننے کی ضرورت نہیں پڑھتی تھی… وہ قرآن قاعدے کا کوئی حرف، کوئی آواز نہیں بھولتا تھا اور یہ اس پہلے دن سے تھا جب اس نے قرآنی قاعدہ پڑھنا شروع کیا تھا۔ اس کے باوجود امامہ اور سالار اسے فوری طور پر پہلے سپارے پر نہیں لائے تھے، وہ اسے چھوٹی چھوٹی سورتیں اور قرآنی دعائیں یاد کرواتے تھے… اور جبریل وہ بھی بر ق رفتاری سے کررہا تھا… سالاراسے قرآن پاک اس عمر میں پڑھانا چاہتا تھا جب وہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے سمجھ بھی پائے۔
’’بابا کو یہ ساری کتاب یاد ہے؟‘‘ جبریل نے اس قرآن پاک کی ضخامت کو اپنے ننھے سے ہاتھ کی انگلیوں میں لے کر ناپنے کی کوشش کی جو سالار کچھ دیر پہلے پڑھ رہا تھا اور پڑھتے ہوئے ٹیبل پر چھوڑ کر گیا تھا۔
’’ہاں!‘‘ جبریل نے جیسے کچھ بے یقینی سے ماں سے پوچھا۔
’’ساری۔‘‘ امامہ نے اس کے تجسس کو جیسے اور بڑھایا۔
جبریل میز کے قریب کھڑا سوچ میں گم قرآن پاک کی چوڑائی اور موٹائی کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے ناپتا رہا، پھر اس نے اپنا کام ختم کرتے ہوئے امامہ سے کہا۔
’’واؤ!!‘‘
امامہ بے اختیار ہنسی۔ اس نے باپ کو پورے حساب کتاب کے بعد داد دی تھی۔
’’مجھے بھی قرآن پاک زبانی یاد کرنا ہے… میں کرسکتا ہوں کیا؟‘‘ اس نے امامہ کی ہنسی سے کچھ نادم ہونے کے باوجود ماں سے پوچھا۔
’’ہاں بالکل کرسکتے ہو… اور انشاء اللہ کروگے۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’جب تم بڑے ہوجاؤگے۔‘‘
’’بابا جتنا؟‘‘ جبریل کچھ خوش نہیں ہوا تھا۔
’’نہیں، بس تھوڑا سا بڑا۔‘‘ امامہ نے اسے تسلی دی۔
’’اوکے، اور جب میں قرآن پاک حفظ کرلوں گا تو میں بھی بابا کی طرح قرآن پاک کھو لے بغیر پڑھا کروں گا۔‘‘
’’بالکل پڑھنا۔‘‘ امامہ نے جیسے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
’’اور آپ کو بھی سناؤں گا… پھر آپ بھی آنکھیں بند کرکے سننا جیسے آپ بابا کو سنتی ہیں۔‘‘ اس نے ماں سے کہا تھا۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ وقت اتنا جلدی آئے گا کہ وہ خود اس سے قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی فرمائش کرے گی۔
’’ممی… آپ سوگئیں؟‘‘ اس نے جبریل کی آواز پر ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں اور سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون اٹھالیا۔ وہ اسکائپ کی ونڈو میں نظر آرہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ امامہ نے کہا۔
’’میں شروع کروں؟‘‘ جبریل نے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ سرپر ٹوپی رکھے ہاتھ سینے پر باندھے وہ اپنی خوب صورت آواز میں سورہ رحمان کی تلاوت کررہا تھا… اسے سالار سکندر یاد آنا شروع ہوگیا… وہ اس سے یہی سورۃ سنتی تھی اور جبریل کو جیسے یہ بات بھی یاد تھی۔
یہ پہلا واقع تھا جب اسے اندازہ ہوا کہ صرف سالار سکندر کی تلاوت اس پر اثر نہیں کرتی تھی… دس سال کی عمر میں اس کا بیٹا اس سورۃ کی تلاوت کرتے ہوئے اپنی ماں کو اسی طرح مسحور اور دم بخود کررہا تھا… اس کی آواز میں سوز تھا… اس کا دل جیسے پگھل رہا تھا… ایسے جیسے کوئی ٹھنڈے پھاہوں کے ساتھ اس کے جسم کے رستے زخموں کو صاف کررہا ہو۔
’’فَبِاَیِّ اٰلَآ ئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔‘‘ (اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔)
وہ ہر بار پڑھتا، ہر بار اس کا دل بھر آتا… بے شک اللہ تعالیٰ کی نعتمیں بے شمار تھیں۔ وہ شکر ادا نہیں کرسکتی تھی… اور سب سے بڑی نعمت وہ اولاد تھی جس کی آواز میں اللہ تعالیٰ کا وہ اعلان اس کے کانوں تک پہنچ رہا تھا۔ باربار پہنچ رہا تھا۔
’’می!‘‘ جبریل نے تلاوت ختم کرنے کے بعد بے حد مدھم آواز میں اسے پکارا۔ یوں جیسے اسے آنکھیں بند کئے دیکھ کر اسے خیال آیا ہو کہ شاید وہ تلاوت سنتے ہوئے سوگئی ہے اور وہ اسے جگانا نہ چاہتا ہو… وہ سوئی نہیں تھی لیکن سکون میں تھی جیسے کسی نے اس کے سر اور کندھوں کا بوجھ اتار کر اسے ہلکا کردیا ہو۔
’’جبریل! تم عالم بننا۔‘‘ آنکھیں بند کئے کئے اس نے جبریل سے کہا۔ ’’تمہاری آواز میں بہت تاثیر ہے۔‘‘
’’ممی! مجھے نیوروسرجن بننا ہے۔‘‘ وہ ایک لمحہ خاموش رہا تھا اور پھر اسی مدھم آواز میں اس نے ماں کو اپنی زندگی کی اگلی منزل بتادی تھی۔
امامہ نے آنکھیں کھول لیں۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
’’میری خواہش ہے کہ تم عالم بنو۔‘‘ امامہ نے اس بار زور دے کر کہا۔ وہ جانتی تھی، وہ نیوروسرجن کیوں بننا چاہتا تھا۔
’’حمین زیادہ اچھا عالم بن سکتا ہے… میں نہیں۔‘‘ وہ الجھا، جھجکا۔
’’تم زیادہ لائق اور قابل ہو بیٹا…‘‘
’’سوچوں گا… آپ سوجائیں۔‘‘ اس نے ماں سے بحث نہیں کی، بات بدل دی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

کارآمد — عریشہ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!