آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

’’ممی! میں آپ کو سیب کاٹ کر لاکر دوں؟‘‘
امامہ جبریل کی بات پر حیران ہوئی تھی۔ گھر کے سامان کی پیکنگ کا سلسلہ شروع ہوچکاتھا اور وہ ہر روز تھوڑا تھوڑا سامان پیک کرکے اسٹور کرتی جارہی تھی۔ اس وقت بھی وہ گھر کے ایک کمرے میں اسی کام میں مصروف تھی جب جبریل نے اس کا ہاتھ بٹاتے بٹاتے یک دم اس سے کہا تھا۔ امامہ کی حیرانی بجا تھی… پھل کاٹ کر کھلانے کی آفر حمین کی طرف سے تو ’’نارمل‘‘ بات تھی لیکن جبریل اس طرح کے کام نہیں کرتا تھا، نہ ہی وہ خود پھل کھانے کا شوقین تھا۔
’’تمہیں… تم کھانا چاہ رہے ہو تو میں تمہیں کاٹ دوں؟‘‘ امامہ نے جواباً اسے آفر کی۔
’’نہیں۔‘‘ جبریل نے جواب دیا۔ وہ اس کمرے کی کھلی ہوئی وارڈ روب سے کپڑے نکال نکال کر امامہ کے قریب بیڈ پر رکھ رہاتھا جنہیں امامہ ایک بیگ میں رکھ رہی تھی۔ وہ شاید اتنے مہینوں میں پہلا موقع تھا جب امامہ کو تشویش ہوئی تھی۔ اس کے بچے اس کی پریشانی اور تکلیف کو محسوس کرنا شروع ہوگئے تھے اور یہ کوئی اچھی علامت نہیں تھی، کئی مہینوں کے بعد اس نے جبریل کو غور سے دیکھا تھا… وہ ایک دو مہینے میں دس سال کا ہونے والا تھااور وہ دس سال کا ہونے کے باوجود اپنے قد کاٹھ سے دس سال سے بڑا لگتا تھا۔ وہ شکل و صورت میں سالار کی نسبت اس سے زیادہ مشابہت رکھتا تھا اور حمین سالار سے… لیکن اس کے دونوں بیٹوں کی آنکھیں سالار کی طرح تھیں… بڑی ، گہری، ذہانت سے چمکتی ہوئی… کوئی اگر کسی اور چیز سے نہیں تو آنکھوں سے یہ ضرورپہچان لیتا کہ وہ سالار سکندر کی اولاد تھے۔
’’آپ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں؟‘‘ جبریل نے ماں کی نظریں خود پر مبذول پاکر پوچھا تھا۔ وہ مسکرادی۔
’’تم بڑے ہوگئے ہو۔‘‘ جبریل نے کچھ جھینپ کر ماں کو دیکھا پھر ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ ماں سے کہا۔
’’تھوڑا سا۔‘‘
’’ہاں۔ تھوڑے سے… جلد ہی پورے بڑے بھی ہوجاؤگے۔‘‘ وہ بیڈ پر پڑے کپڑے اٹھاتے ہوئے اس سے بولی۔
’’لیکن میں بڑا ہونا نہیں چاہتا۔‘‘ بیگ میں کپڑے رکھتے ہوئے امامہ نے اسے کہتے سنا، وہ وارڈ روب کی ایک اور شیلف خالی کررہا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ اسے … اچنبھا ہوا۔




’’ایسے ہی۔‘‘ اس نے بڑے عام سے انداز میں ماں سے کہا۔
وہ پہلا موقع تھا جب امامہ کو اس کا انداز عجیب الجھا ہوا محسوس ہوا، اس گھر میں صرف وہ نہیں تھے جو پریشان تھے… ان کی سب سے بڑی اولاد بھی ایسی ہی پریشانی سے گزر رہی تھی لیکن اس پریشانی کی نوعیت کو امامہ تب بوجھ نہیں سکی تھی… وہ اسے صرف ایک ردعمل سمجھی تھی۔ جبریل پہلے بھی ماں کے حوالے سے بے حد حساس تھا۔ اسے کوئی بھی پریشانی ہوتی تو وہ سب سے پہلے محسوس کرلیتا تھا۔ پھر وہ ماں سے کریدے بغیر نہیں رہتا تھا… یہ اس کی فطرت کا حصہ تھا۔
امامہ نے اس پھل کاٹنے کی آفر کو بھی اسی تشویش کا حصہ سمجھا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ کوئی بھی اسے ان دنوں دیکھ کر یہ اندازہ لگا ئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ وہ پریشان تھی… دنوں میں اس کی گرتی ہوئی صحت، اس کے آنکھوں کے سیاہ حلقے اور اس کی اکثر رونے کی وجہ سے سرخ اور سوجی رہنے والی آنکھیں کسی کو بھی اس کی ذہنی اور جذباتی حالت کا پتا دے سکتی تھیں، اس لئے جبریل اگر کوئی اندازہ لگا رہا تھا تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔
وہ کچھ الجھتی سوچتی ہوئی اسی طرح سامان پیک کرتی رہی اور وقفے وقفے سے سامان لاکر رکھتے ہوئے جبریل کو دیکھتی رہی، پھر جیسے اسے خیال آیا تھا کہ اسے جبریل کو اپنے حوالے سے کوئی تسلی اور دلاسا دینا چاہیے تھا اس کی تشویش کو کم کرنے کے لئے۔
’’جبریل! میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ اسے یہ جملہ بولتے ہی اس جملے کے ہلکے پن کا احساس ہوگیا تھا۔ جبریل نے وارڈ روب کے پاس کھڑے کھڑے یک دم جیسے پلٹ کر ماں کو دیکھا اور پھر بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’مجھے پتا ہے۔‘‘
امامہ اس سے نظریں چرا گئی تھی۔ جبریل نے جیسے ماں کا پردہ رکھا تھا… وہ ماں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا، نہ ہی اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا کیوں کہ کئی دنوں کے بعد، ان دونوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کا موقع مل رہا تھا۔
ایک بار پھر سے وہ دونوں کام میں مصروف ہوگئے تھے اور تب ہی کام کرتے کرتے امامہ نے پہلی بار کمرے کی خاموشی کو محسوس کیا۔ وہ دونوں اتنی دیر سے کام کررہے تھے لیکن ان کے درمیان بہت کم جملوں کا تبادلہ ہو اتھا، معمول میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اسے اور جبریل کو جب بھی اکیلے کچھ وقت گزارنے کا موقع ملتا تھا، وہ دونوں بہت اچھی گپ شپ کرتے تھے۔ جبریل اسے اسکول کی بہت سی باتیں سناتا… اپنے دوستوں کے بارے میں… ٹیچرز کے بارے میں… وہ باتونی ہونے کے باوجود ایسے مواقع پر ماں سے بہت کچھ شیئر کرتا تھا… آج پہلا موقع تھا کہ چھوٹے بہن بھائیوں کی عدم موجودگی میں بھی وہ اتنا خاموش تھا۔
امامہ کی چھٹی حس نے ایک عجیب سا سگنل دیا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ سب کچھ جانتا تھا۔ یہ ممکن نہیں تھا لیکن ناممکن بھی نہیں تھا۔
’’جبریل!‘‘
’’جی ممی۔‘‘ وہ اس کے مخاطب کرنے پر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ سوال کرتے کرتے رہ گئی… کیا پتا یہ اس کا واہمہ ہی ہو، وہ واقعی بے خبر ہو اور اگر وہ بے خبر تھا تو اس سے یہ سوال کرنا… وہ بات بدل گئی ۔
’’تمہارا قرآن پاک ختم ہونے والا ہے بس تھوڑے ہی دن میں… پھر ماشاء اللہ تم حافظ قرآن ہوجاؤ گے… تم نے قرآن پاک سے ابھی تک کیا سیکھا؟‘‘ وہ گفتگو کو اس موضوع پرلے آئی جس پر وہ اکثر اس سے بات کرتی تھی۔
وہ اب وارڈ روب کی ایک دراز خالی کرنے والا تھا… ماں کے سوال پر کام کرتے کرتے ٹھٹک گیا۔
’’بہت ساری چیزیں ہیں۔‘‘ اس نے ذرا سا سوچ کر ماں سے کہا۔
’’لیکن اگر کوئی ایک چیز ہو جو تمہیں سب سے امپورٹنٹ بھی لگتی ہو اور سب سے اچھی بھی…‘‘ وہ مطمئن تھی، ان دونوں کے درمیان بات چیت شروع ہوگئی تھی۔
’’آپ کو پتا ہے، مجھے کیا چیز سے سب سے امپورٹنٹ لگتی ہے قرآن پاک میں؟‘‘ وہ بھی اب بے حد دلچسپی سے بات کرنے لگا تھا۔
’’کیا؟‘‘ … ’’Hope(امید۔)‘‘
امامہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔ ’’کیسے؟‘‘ پتا نہیں اس نے کیوں پوچھا تھا لیکن جواب وہ ملا تھا جس نے کسی مرہم کی طرح اس کے زخموں کو ڈھانپا تھا۔
’’دیکھیں، سارا قرآن ایک دعا ہے تو دعا Hope(امید) ہوتی ہے نا… ہر چیز کے لئے دعا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے نا کہ اللہ ہر مشکل میں ہمیں امید بھی دے رہا ہے… یہ مجھے سب سے اچھی چیز لگتی ہے قرآن پاک کی… کہ ہم کبھی hopeless (ناامید) نہ ہوں۔ کوئی گناہ ہوجائے تب بھی اور کوئی مشکل پڑے تب بھی… کیوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔‘‘ اس کا دس سالہ بیٹا بے حد آسان الفاظ میں اسے وہ چیز تھما رہا تھا جو اسکے ہاتھ سے چھوٹ چکی تھی… جو باتیں دانائی سمجھا نہیں پاتی، وہ معصومیت سمجھادیتیہے۔
جبریل باتیں کرتے کرتے رک گیا۔ اس نے امامہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک دیکھی۔
’’کیا میں نے کچھ غلط کہہ دیا؟‘‘ اسنے یک دم بے حد محتاط ہوتے ہوئے ماں سے پوچھا۔
امامہ نے نم آنکھوں اورمسکراہٹ کے ساتھ نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں، تم نے بالکل ٹھیک کہا اور تم نے بالکل ٹھیک چیز چنی۔‘‘
وہ اب دوبارہ پیکنگ کرنے لگی تھی اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے اور اس سے پوچھتے ہوئے کہ اس نے اور کیا چیز سیکھی قرآن پاک سے۔
٭…٭…٭
’’آپ بے حد خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اپنے ٹیومر کے بارے میں اتفاقی طور پر تپا چلا۔ ان اثرات سے پتا نہیں چلا جو ٹیومر کی وجہ سے جسم پر ہونا شروع ہوچکے ہوتے ہیں۔‘‘ امریکہ میں ایک اور ٹیسٹ کے بعد وہاں ایک بہترین نیوروسرجننے سالار سکندر کو ’’خوش خبری‘‘ دی تھی جو صرف اس کے نزدیک خوشخبری تھی۔
’’دو ٹیومر ہیں… ایک بے حد چھوٹے سائز کا اور کچھ بڑا لیکن دونوں فی الحال اس اسٹیج پر ہیں کہ انہیں سرجری کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے بغیر کوئی زیادہ نقصان ہوئے۔‘‘ وہ اب رپورٹس اور ٹیسٹوں کے بعد اس کے آپریشن کے حوالے سے صورت حال وک ڈسکس کررہا تھا۔
’’اور کم سے کم نقصان کیا ہے جو ہوسکتا ہے۔‘‘ سالار نے اسے ٹوکا۔
’’نیورو سرجری ایک خطرناک سرجری ہے جس جگہ یہ دونوں ٹیومرز ہیں وہ جگہ بھی بہت نازک ہے… آپ کا دماغ متاثر ہوسکتا ہے… آپ کی یادداشت متاثر ہوسکتی ہے… اعصاب پر اثر پڑسکتا ہے… جس کے نتیجے میں آپ کو رعشہ کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھارمرگی کا حملہ ہوسکتا ہے۔ آپ کی نظر متاثر ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ ڈاکٹر یوں مضر اثرات کو دہرا رہا تھا جیسے کسی ہوٹل کا ویٹر مینو کا رڈ دیکھے بغیر بھی وہاں ملنے والے کھانوں کی فہرست پڑھ رہا ہو۔
’’اور میں سرجری نہ کرواؤں تو؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’’کچھ عرصہ آپ سرجری کے بغیر گزار سکتے ہیں کیوں کہ میں نے آپ کو بتایا ہے، ابھی ان ٹیومرز نے آپ کے دماغ اور جسم کو متاثر کرنا شروع نہیں کیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایسا ہونا شروع ہوجائے گا، اس وقت سرجری بے حد خطرناک ہوجائے گی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ یہ چھوٹا ٹیومر فوری طور پر remove کروالیں کیوں کہ یہ ذرا بھی بڑا ہو اتو آپ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجائے گا… دوسرے ٹیومر کو دواؤں اور دوسرے طریقوں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے کہ اس کے بڑھنے کو مکمل طورپر روک دیا جائے۔‘‘ ڈاکٹر غیر جذباتی اندازمیں اسے بتارہا تھا۔
وہ بھی غیر جذباتی انداز میں یہ اندازے لگانے میں مصروف تھا کہ وہ سرجری کے بغیر کتنا عرصہ نکال سکتا تھا۔
’’چھ سات ماہ… لیکن میں یہ advise نہیں کروں گا کہ آپ اسے زیادہ delay (دیر) کریں… جو میڈیسنز آپ استعمال کررہے ہیں،و ہ اس سے زیادہ مدد نہیں کرسکیں گی آپکی…‘‘ سالار سرہلاکر رہ گیا تھا۔
ایک مہینے کے بعد اسے کنشاسا چھوڑ کر پاکستان چلے جانا تھا… اس کے تین مہینے کے بعد اسے اپنا ادارہ لانچ کرنا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اس کے لئے یہ تھا کہ وہ ورلڈ بینک کی جاب چھوڑنے کے فوری بعد ایک بار پھر سے اپنے ادارے کے لئے فنڈز پول کرنے کی کوشش کرتا اور ایک بار ادارہ لانچ ہوجاتا تو اس کے فوراً بعد وہ سرجری کے لئے کبھی نہیں جاسکتا تھا کیوں کہ اسے اس وقت بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی اور وہ بھی سامنے آکر… وہ غائب نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہوتا اس کے ادارے کے لئے، خاص طور پر تب اگر خدانخواستہ اس کی سرجری ٹھیک نہ رہتی… وہ چھ سات ماہ کے بعد سرجری نہیں کرواسکتا تھا اور وہ فوری طور پر سرجری کروانے کی ہمت نہیں کرپارہا تھا۔
تین دن کے بعد کنشاسا واپس آنے پر اس نے امامہ کو یہ ساری صورت حال بتادی تھی۔ وہ اس کے مخمصے اور الجھن کو سمجھ پارہی تھی مگر کوئی حل وہ بھی اسے نہیں دے پارہی تھی اور حل ایک بار پھر جبریل نے ہی دیا تھا۔ سالار اس رات اتفاقی طور پر کسی کام سے لاؤنج میں نکلا تھا جب اس نے دروازہ کھولتے ہی جبریل کو ڈیسک ٹاپ کے سامنے بیٹھا دیکھ لیا تھا۔ سالار کے یک دم رات گئے وہاں آنے پر اس نے برق رفتاری سے وہ سب کچھ بند کرنا شروع کیا تھا جو سائٹس وہ کھولے بیٹھا تھا مگر وہ کمپیوٹر بند نہیں کرسکتا تھا۔
’’تم کیا کررہے ہو جبریل؟‘‘ سالار نے لاؤنج کے وال کلاس پر دو بجے کا وقت دیکھا تھا۔
’’کچھ نہیں بابامجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں کارڈز کھیل رہا تھا۔‘‘ جبریل نے ڈیسک ٹاپ پر شٹ ڈاؤن کو کلک کرتے ہوئے باپ سے کہا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے جیسے کھڑے ہوتے ہوئے ڈیسک ٹاپ کو اپنے عقب یں چھپا لیا تھا یوں جیسے اسے خدشہ تھا کہ باپ تاریک سکرین میں سے بھی یہ بوجھ لے گاکہ وہ کیا کررہا تھا۔
وہ جواب اگر حمین دیتا تو سالار کی سمجھ میں آسکتا تھا لیکن جبریل کی زبان سے وہ جواب بے حد غیر معمولی تھا۔ وہ اس کے بچوں میں سب سے زیادہ نظم و ضبط کا پابند تھا، آدھی رات کو ڈیسک ٹاپ پر بیٹھ کر کارڈز کھیلنے والا بچہ نہیں تھا۔
سالار نے بے حد نارمل گفتگوکرتے ہوئے کرسی پر بیٹھ کر ڈیسک ٹاپ آن کرلیا تھا۔ جبریل کا رنگ فق ہوگیا۔
’’نیند کیوں نہیں آرہی تمہیں؟‘‘ سالار نے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھا جو اس کے اتنا قریب کھڑا تھا کہ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک سکتا تھا اور وہ دیکھ سکتا تھا کہ اس کا بیٹا گھبرایا ہوا تھا۔ تو انٹر نیٹ پر وہ کون سی ایسی چیزیں دیکھ رہا تھا کہ اس کے چہرے کا رنگ یوں فق ہوگیا تھا۔
سالار کے اپنے پیروں کے نیچے سے بھی اس وقت زمین نکل گئی تھی۔ یہ تو پتا تھا اسے کہ وہ بیٹوں کا باپ تھا اور اس کے بیٹے بڑے ہورہے تھے اور کبھی نہ کبھی ان کی بلوغت کے دوران اسے ایسی ناخوشگوار صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا تھا۔ وہ پرانی سوچ اور اقدار رکھنے والا باپ نہیں تھا… جس کے پاس غلطی کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی… وہ لبرل تھا۔ اس کے باوجود وہ ہل گیا تھا کیوں کہ اس کا بیٹا ابھی صرف دس سال کا تھا اور حافظ قرآن بن رہا تھا۔




Loading

Read Previous

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

کارآمد — عریشہ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!