آبِ حیات — قسط نمبر ۱۰ (یا مجیب السائلین)

’’سالار! کچھ دیر کے لئے یہ سب چھوڑ دو۔‘‘ امامہ نے اس رات بالآخر اس سے کہا تھا۔
وہ بہت دیر تک فون پر کسی سے بات کرتا رہا تھا اور ڈنر کے دوران آنے والی اس کال کو لینے کے بعد ڈنر بھول گیا تھا۔ امامہ بہت دیر تک ٹیبل پر اس کا انتظار کرنے کے بعد وقفے وقفے سے اسے دیکھنے بیڈروم میں آتی رہی لیکن اسے مسلسل فون کال میں مصروف دیکھ کر اس نے بالآخر بچوں کو کھانا کھلادیا اور اب جب وہ بالآخر بیڈ روم میں آئی تو سالار فون کال ختم کررہا تھا۔
کھانے کا پوچھنے پر اس نے انکار کردیا تھا۔ وہ صوفہ پر بیٹھا اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی آنکھیں مسل رہا تھا۔ اور بے حد تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ وہ جس کرائسس میں تھا، وہ اس سے بے خبر نہیں تھی لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اسے زیادہ سے زیادہ تسلی ہی دے سکتی تھی لیکن اسے اندازہ تھا کہ اس کی تسلیاں طفل تسلیوں سے زیادہ کچھ نہیں…سالار سکندر کی راتوں کی نیند اگر حرام ہوئی تھی تو اس کی وجوہات یقینا سنگین ہی تھیں۔
وہ اور سالار کئی دنوں سے آپس میں بہت کم بات چیت کرپارہے تھے۔ جو بات چیت ہوتی بھی تو وہ بھی صرف اس کے علاج کے حوالے سے اور امامہ کی زندگی کا مرکز صرف اس کی زندگی ہی رہ گیا تھا۔ وہ کوشش اور جدوجہد کے باوجود اپنے ذہن کو کسی اور چیز میں الجھا نہیں پاتی تھی اور سالار کے پاس کنساشا میں اپنے ان آخری مہیوں میں اپنی بیماری کے بارے میں روز بیٹھ کر بات کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔
’’کیا چھوڑ دوں؟‘‘ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے چونکا اور اس کی طر ف متوجہ ہوا۔
’’کام۔‘‘
’’اچھا!‘‘ وہ ہنس پڑا۔




’’سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنے علاج پر توجہ دو… اپنی صحت، اپنی زندگی پر۔ ہمارے لئے صرف وہ اہم ہے۔‘‘ وہ اب جیسے اسے سمجھانے کی کوشش کررہی تھی۔
’’امامہ! میرے پاس چوائس نہیں ہے اور میرے پاس وقت بھی نہیں ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک کام کروں۔‘‘ وہ اس کی بات سن کر کچھ لمحوں کے لئے جیسے کچھ بال ہی نہیں پائی۔ وہ کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا تھا۔
’’میں ہر طرح سے مشکل میں ہوں، آج کل، برے وقت میں نے پہلے بھی دیکھے ہیں لیکن ایسا برا وقت نہیں کہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاؤں ریت ہوجائے۔‘‘
وہ سرجھکائے کہہ رہا تھا… امامہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں… وہ کئی ہفتوں سے لگاتار رو رہی تھی۔ اس کے باوجود آنکھوں کا پانی ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ کنواں ہی بن گئی تھیں۔
’’گناہ گار تو ہوں میں… ہمیشہ سے ہوں۔ گمان اور غرور تو کبھی نہیں کیا میں نے، کیا بھی تو توبہ کر لی… لیکن پتا نہیں کیا گناہ کر بیٹھا ہوں کہ یوں پکڑ میں آیا ہوں۔‘‘
’’آزمائش ہے سالار…! گناہ کی سزا کیوں سمجھ رہے ہو؟‘‘ امامہ نے اس کی کلائی پر ہاتھ رکھا۔
’’کاش آزمائش ہی ہو اور ختم ہوجائے، نہ ختم ہونے والی سزا نہ ہو۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
’’تمہارے پاس کتنی سیونگز ہیں؟‘‘ اس نے بات کرتے کرتے موضوع بدل دیا۔
’’میرے پاس؟‘‘ وہ الجھی… پتا نہیں… پاکستان میں بینک میں کافی رقم ہوگی۔ شادی سے پہلے کی بھی تھی، بعد میں بھی جمع کرواتی رہی لیکن مجھے اماؤنٹ نہیں پتا… تمہیں ضرورت ہے کیا؟‘‘ اس نے یک دم سالار سے پوچھا۔
’’نہیں… مجھے ضرورت نہیں ہے لیکن تمہیں شاید اب اسے استعمال کرنا پڑے بچوں کے لئے۔ یہاں سے پاکستان جائیں گے تو وہاں کتنا عرصہ پاپا کے پاس تمہیں بچوں کے ساتھ ٹھہرنا پڑے، مجھے ابھی اندازہ نہیں… چند مہینے ٹھہرنا پڑتا ہے یا چند سال، مجھے نہیں پتا۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا۔
’’وہاں پاپا کے پاس بچوں کی تعلیم کم از کم متاثر نہیں ہوگی… امریکہ میں میں فی الحال تم سب کو رکھنا افورڈ نہیں کرسکتا، خاص طور پر اب جب میری جاب ختم ہورہی ہے اور میں اپنے ادارے کو لانچ کرنے کے پروسس میں بھی بے حد مسائل کا شکار ہوں اور اس پر یہ ٹیومر … ورلڈ بینک کی جاب کے ساتھ میڈیکل انشورنس بھی ختم ہوجائے گی جو امریکہ میں میری ہیلتھ انشورنس ہے، وہ کینسر ٹریٹمنٹ کورر نہیں کرتی۔‘‘
سالار نے ایک گہری سانس لیا۔
’’اس لئے میری سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ میں کیا چیز کروں اور کیا نہیں۔‘‘
’’سالار! تم اس وقت صرف ایک چیز پر دھیان دو… اپنے آپریشن اور علاج پر… باقی ساری چیزیں ہوجائیں گی۔ بچوں کی تعلیم… تمہارا ادارہ… سب کچھ… اور پیسوں کے بارے میں پریشان مت ہو۔ بہت کچھ ہے میرے پاس جو بیچاجاسکتا ہے…‘‘
سالار نے اسے ٹوک دیا۔ ’’نہیں، کوئی بھی چیز میں اب نہیں بیچوں گا۔تمہارے پاس یہ سب کچھ ہونا چاہیے۔ میں گھر نہیں دے سکا تمہیں۔ تو کچھ تو ہونا چاہیے تمہارے پاس کہ…‘‘
امامہ نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’اب اس سے آگے کچھ مت کہنا… مجھ سے یہ مت کہنا کہ میں مستقبل کاسوچوں… یہ سب کچھ میرے پاس ہو اور تم میرے پاس نہ ہو تو میں مستقبل کا کیا کروں گی۔‘‘ پانی اس کے گالوں پر کسی آبشار کی طرح گر رہا تھا۔
’’مستقبل کچھ بھی نہیں ہے سالار…! جو ہے بس حال ہے۔ آج ہے آنے والا کل نہیں… پڑح لکھ جائیں گے بچے… بہت اعلیٰ اسکولز میں نہیں بھی تو بھی… میں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے کل کے بارے میں۔‘‘ وہ روتی رہی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے امامہ! مجھے کس چیز کا رنج سب سے زیادہ ہے؟‘‘
سالار نے بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے آنسوؤں کوروکنے کے لئے وہ اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ ’’تم ٹھیک کہتی تھیں کہ میں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت سود پر کھڑے اداروں کے لئے کام کرتے کرتے گزار دیا۔ صرف کچھ سال پہلے میں نے کام کرنا شروع کیا ہوتا اپنے ادارے کے لئے تو آج یہ ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا ہوتا… مجھے یہ بیماری تب ہوئی ہوتی تو مجھے یہ رنج نہ ہوتا کہ میں اپنے کئے کا ازالہ نہیں کرسکا۔ یہ بہت بڑا پچھتاوا ہے میرا… جو کسی طوق کی طرح میری گردن میں لٹکا ہوا ہے۔‘‘ وہ بے حد رنجیدہ تھا۔
’’تم کیوں سوچ رہے ہو ایسے، تم کوشش تو کررہے ہو… محنت تو کررہے ہو۔ اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش تو کررہے ہو…‘‘ وہ اس کی باتوں پر جیسے تڑپ اٹھی تھی۔
’’ہاں، لیکن اب بہت دیر ہوگئی ہے۔‘‘
’’تم امید چھوڑ بیٹھے ہو؟‘‘
’’نہیں۔ امید تو نہیں چھوڑی لیکن…‘‘ وہ بات کرتے کرتے ہونٹ کاٹنے لگا۔ ’’مجھے کبھی یہ لگا ہی نہیں تھا کہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔ جب تک سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، ہمیں لگتا ہے ہمارے پاس بہت وقت ہے۔ ہر کام کرلیں گے۔ ہر کام ہوجائے گا… ہم وہ سارے کام پہلے کرلینا چاہتے ہیں جو ہمارے نفس کو پسند ہیں، وہ سارے کام زندگی کے آخری حصے کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ میں بھی مختلف نہیں تھا۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا…‘‘
سالار اپنے ہاتھ مسل رہا تھا بے حد رنج کے عالم میں۔
’’قرآن کہتا ہے ناکہ جب انسان جزا سزا کے لئے روز قیامت اللہ کے سامنے پیش ہوگا تو وہ پکار پکار کر کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے ایک بار دوبارہ دنیا میں لوٹا دے۔ ایک موقع اور دے اور اس بار میں تیری اطاعت کروں گا… گناہ سے دور رہوں گا… مجھ سے بہتر کوئی یہ سمجھ نہیں سکتا کہ وہ روز قیاومت کیسی ہوگی، وہ ایک بار پھر دنیا میں لوٹادینے کی پکار کیسی ہوگی۔ وہ ایک اور موقع مانگنے کی التجا کیا ہوگی۔‘‘
اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
’’ایک بار میں نے مارگلہ کی پہاڑی پر ایک درخت سے بندھے آدھی رات میں ایڑیاں رگڑرگڑ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے ایک موقع دے کہ میں گناہ سے تائب ہوجاؤں۔ میں وہ نہ کروں جو کچھ میں کرتا رہا ہوں… اللہ نے مجھے موقع دیا اور میرا خیال تھا کہ میں سب گناہوں سے تائب ہوگیا… ایسا نہیں تھا… میں چھوٹے گناہوں سے تائب ہوکر بڑے گناہوں میں پھنس گیا تھا… اب ایک موقع میں اللہ تعالیٰ سے اور مانگنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں ہمت ہی نہیں… مجھے اللہ سے بہت شرم آنے لگی ہے۔‘‘
سالار اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ہنس پڑا تھا۔
’’اب میں صرف اللہ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ میری زندگی نہیں صرف مجھے اس کام کی تکمیل کرلینے دے جو میں کرنا چاہتا ہوں اور اگریہ کام میں نہ کرسکا تو پھر میری دعا ہے کہ یہ کام میری اولاد پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ اگر میں نہ رہا تو پھر تم جبریل کو ایک اکانومسٹ…‘‘
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’کیوں سوچتے ہو تم ایسے۔‘‘
’’سوچنا چاہیے امامہ۔‘‘
’’تم ہی کروگے یہ کام سالار…! کوئی اور نہیں کرسکے گا… تمہاری اولاد میں سے بھی کوئی نہیں… ہر کوئی سالار سکندر نہیں ہوتا۔‘‘
وہ شاید زندگی میں پہلی بار اعتراف کررہی تھی۔ اس کے غیر معمولی ہونے کا… اس کے خاص ہونے کا… اس کے تمام اعترافات اور اظہار ندامت کے باوجود… ا س کی زندگی کے ہر نشیب و فراز سے واقف ہونے کے باوجود اسے یہ ماننے میں معمولی سا بھی شائبہ نہیں تھا کہ اس کا شوہر عام انسان نہیں تھا۔
سالار نے اس رات اس سے بحث نہیں کی تھی۔ اس کی اپنی ہمت جتنی ٹوٹی ہوئیتھی، وہ امامہ کی ہمت اس طرح توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک ہفتے بعد اسے ایک اور چیک اپ اور ٹیسٹ کے لئے امریکہ جانا تھا اور وہ مزید کسی بری خبر کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار بھی کررہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نئے موسموں کی خوشبو — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

کارآمد — عریشہ سہیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!