’’کیوں؟‘‘
اس کیوں کا کوئی معقول جواب نہیں تھا اس کے پاس، لیکن جواب کے بغیر حمین کو وہ قائل نہیں کرسکتا تھا۔
’’یہ ممی کا سیکرٹ ہے، وہ اسے ڈس کلوز (ظاہر) نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘
’’اوہ! ہاں۔‘‘ حمین کو فوری طور پر بات سمجھ میں آگئی۔
’’دادا نے ممی کو یہ بات بتائی تووہ اپ سیٹ ہوگئیں، اب تم کسی اور کو بتاؤگے تو وہ بھی اپ سیٹ ہوجائے گا۔‘‘
جبریل جتنے حفاظتی بند باندھ سکتا تھا، اس وقت باندھنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ ننھا بچہ ماں باپ کے اس راز کو راز رکھنے کے لئے ہلکان ہوتا جارہا تھا۔
’’اوہ مائی گاڈ! یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔‘‘
حمین کو یک دم خیال آیا۔ وہ جبریل کی بات نہ مان کر کتنا برا کام کرنے والا تھا۔
جبریل اب سونے کے لئے لیٹ چکا تھا۔
’’لوگو ں کو اپ سیٹ کرنا گناہ ہے نا؟‘‘ ایک پراسرار سرگوشی اس کے بائیں کان میں ایک بار پھر گونجی۔
’’ہاں، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ جبریل نے سرگوشی میں ہی اندھیرے میں چمکنے والی ان آنکھوں کو ڈرایا۔
’’آہاں… اوکے!‘‘
حمین کی آواز میں اس بات خوف تھا اور وہ سیدھا ہوکر لیٹ گیا… وہ آج کل ہر کام اور بات کو ایک ہی پیمانے پر جج کرتا تھا… کیا وہ sin (گناہ) ہے؟
جبریل کچھ دیر اسی طرح لیٹا رہا… نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ حمین کے خراٹے تھوڑی ہی دیر میں اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔ وہ اس کے خراٹوں سے بے حد چڑتا تھا اور ہمیشہ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ حمین سے پہلے سوئے کیوں کہ اگر وہ پہلے سوجاتا تو اس کے خراٹوں کی آواز سے وہ سو نہیں پاتا تھا… اور آج وہ جان بوجھ کر اس کے نینڈ میں جانے کا انتظار کرتا رہا، جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ سوچکا ہے تو وہ بڑی احتیاط سے بستر سے اٹھا اور دبے قدموں چلتا ہوا دروازہ کھول کر دوبارہ لاؤنج میں آگیا جس کی لائٹ اب آف تھی۔ جبریل نے لاؤنج کی لائٹ جلائے بغیر کمپیوٹر آن کیا اور دوبارہ ان ہی میڈیکل ویب سائٹس کو دیکھنے لگا جنہیں وہ سالار کے آنے سے پہلے دیکھ رہا تھا۔
ساڑھے نو سال کی عمر میں محمد جبریل سکندر نے پہلی بار برین ٹیومر کے بارے میں پڑھاتھا… نیورو سرجری کے بارے میں… Neurooncology کے بارے میں oligodendrogliomas کے بارے میں… اس کی ہر ٹائپ کے بارے میں… اور دماغ کے بارے میں… وہ پہلے بھی اپنی سائنس کی کلاسز میں دماغ کے بارے میں متجسس رہتا تھا لیکن اب وہ دماغ اور اس کو لاحق ایک بیماری اس شخص کی زندگی کو چیلنج کررہی تھی، جس سے اسے بے حد پیار تھا… وہ اس بیماری کا علاج ڈھونڈنا چاہتا تھا جس سے وہ اپنے باپ کی زندگی بچاسکے… ساڑھے نو سال کی عمر میں دماغ اور دماغ کی بیماریوں سے یہ دنیا کے کم عمر ترین اور قابل ترین سرجن کا پہلا تعارف تھا…
سالار سکندر اپنی بیماری کے بارے میں جتنا کچھ جانتا تھا، جبریل سکندر اس ایک رات میں اس سے دس گنا زیادہ جان چکا تھا… وہ پہلی رات نہیں تھی جب جبریل جاگ کر اس بیماری کی کھوج میں لگا تھا، وہ اس کی زندگی کی ان راتوں کا آغاز تھا جو اسے دماغ کی گتھیوں کو سلجھانے میں گزارنی تھیں۔
٭…٭…٭
اس رات امامہ کو نیند نہیں آئی… سالار کے سوجانے کے بعد بھی وہ اس طرح جاگتی رہی تھی جیسے نیند نامی کسی شے سے واقف ہی نہ ہو۔
اسے خوف رہتا تھا، وہ جس سے پیار کرتی تھی وہ اس سے چھن جاتا تھا۔ وہ سالار سے پیار نہیں کرتی تھی۔ کرنے لگی تو اس کا اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ ضروری ہوگیا تووہ اس کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ وہ اس کو کھو دینے سے ڈرتی تھی… پیار کیسی قاتل شے ہے… کسی تیر تلوار سے نہیں مارتا… ’’ہو‘‘ جانے سے ماردیتا ہے۔
اس نے لاہور میں نہر کنارے ملنے والی اس بوڑھی خانہ بدوش عورت کے بارے میں سالار کو بھی بتایا تھا… جب وہ اس کے پاس امریکہ واپس گئی تھی اور وہ حیران رہ گیا تھا کہ وہ موم کیسے ہوئی۔ اس کا دل کیسے بدل گیا۔
سالار نے اس بوڑھی عورت کے قصے کو دلچسپی سے سنا تھا۔ یقین نہیں کیا تھا۔ اس کا خیال تھا امامہ اس وقت جس ذہنی حالت میں تھی وہ چیزوں کے بارے میں ضرورت سے زیادہ حساسیت دکھا رہی تھی۔ اس نے امامہ کی اس بات کو بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کہ وہ اس عورت کو کوشش کے باوجود ڈھونڈ نہ سکی۔
اور آج اتنے سالوں کے بعد امامہ کو ایک بار پھر وہی عورت یاد آئی تھی۔ وہ کہیں اسے ملتی تو وہ اسے بتاتی کہ اسے وہم نہیں تھا… وہ جس سے پیار کرتی تھی، وہ اس سے چھن جاتا تھا۔
سالار کی آنکھ رات کے کسی پل کھلی تھی، امامہ برابر کے بستر میں نہیں تھی، صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے بستر کی طرف کے پڑے ہوئے صوفے پر… اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کردیا۔ وہ واقعی وہیں تھی۔ صوفے پر سرجھکائے… وہ کمرے میں روشنی ہونے پر بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئی تھی، ایک گہرا سانس لے کر سالار نے اپنی آنکھوں کو رگڑا تھا، پھر وہ اٹھ کر اس کے برابر صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔
’’تمہیں پتا ہے میں کیوں تمہیں یہ سب نہیں بتانا چاہتا تھا۔ صرف اسی وجہ سے؟ تم مجھے بہت پریشان کررہی ہو۔‘‘ وہ مدھم آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ وہ اسے ڈانٹنا چاہتا تھا… ڈانٹ نہیں سکا…
اس نے سراٹھا کر سالار کا چہرہ دیکھا۔ ’’مجھے نیند نہیں آرہی ۔‘‘
’’تم سونے کے لئے لیٹو گی تو نیند آجائے گی۔‘‘ ا س نے جواباً کہا۔
وہ چپ چاپ اس کے پاس سے اٹھ کر بیڈ پر جاکر لیٹ گئی۔ اس کی اس اطاعت نے سالار کو بری طرح کاٹا۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ بجھا کر وہ بھی سونے کے لئے بستر پرلیٹ گیا تھا لیکن نیند اب اس کی آنکھوں سے بھی غائب ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭
بیماری کے انکشاف کے اثرات اسے اگلے دن ہی پتا چلنے شروع ہوگئے تھے… بورڈ آف گورنرز کے پانچوں ارکان کے بعد باری باری بہت سے ایسے لوگوں نے اسے میسجز اور کالز کرنی شروع کردی تھیں جو ان کے اس مالیاتی نظام سے وابستہ ہونے کے لئے فنانشل امداد دے رہے تھے۔ وہ سالار سکندر کی زندگی کے حوالے سے تشویش کا شکار نہیں تھے، وہ اس ادارے میں اپنی انویسٹمنٹ کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہوگئے تھے، جس سے وہ سالار سکندر کے نام کی وجہ سے جڑنا چاہتے تھے۔
یہ سالار سکندر اور اس کے ساتھیوں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا… اس اسٹیج پر اس طرح کی عدم اعتمادی ان کے ادارے کی ساکھ کے لئے بے حد نقصان دہ تھی…
اگلے چند دن سالار سکندر نے دنیا جہاں سے مافیہا صرف کالز ، ای میلز ، میسجز کے ساتھ گزارے تھے… کچھ بڑے سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے تھے اور وہ واپس تب آنے پر تیار تھے جب انہیں ان کا ادارہ کام کرتا اور کامیاب ہوتا نظر آتا… باقی کے سرمایہ کاروں کو روکنے کے لئے جان توڑ کوششوں کی ضرورت تھی جو وہ سب کررہے تھے۔
ایک Capitalistic(سرمایہ دارانہ) دنیا کے اندر روپیہ صرف روپے کے پیچھے بھاگتا ہے… اور روپیہ سانپ کی طرح ڈرپوک ہوتا ہے۔ ایک ہلکے سے خطرے کی آہٹ پر بھی بھاگ جاتا ہے… دوستیاں، تعلقات، اعتماد… کوئی چیز اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنتی سوائے ایک چیز کے… تحفظ اور ترقی… وہ صرف وہاں ٹکتا ہے جہاں پھل پھول سکتا ہے… دن دگنی رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے… وہاں نہیں جہاں اس کی ترقی کو خدشات لاحق ہوجائیں۔
سالار سکندر نے زندگی کا ایک بڑا حصہ مالیاتی اداروں اور انویسٹمنٹ بینکنگ میں گزارا تھا، وہ سرمایہ کاروں کی نفسیات اور ذہنیت کو اپنے بائیں ہاتھ کی طرح جانتا تھا… وہ کب درخت پر بیٹھے پرندوں کی طرح اڑتے ہیں اور کب دانے کے پیچھے آتے ہیں، یہ کوئی اس سے بہتر نہیں جان سکتا تھا… اس کے باوجود وہ اپنے موجودہ آقاؤں کی کرم نوازی کی وجہ سے ایک بے حد مشکل صورت حال میں پھنس چکا تھا۔
اگلے چند ہفتے ان ابتدائی چند دنوں سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہوئے تھے…ان کے سارے بڑے سرمایہ کار انہیں چھوڑ چکے تھے… جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا ستر فی صد فنانس ان کے پاس آنے سے بھی پہلے ختم ہوگیا تھا، تیس فی صد فنانس وہ تھا جو بورڈ آف ڈائریکٹر کی اپنی کنٹر بیوشن تھی او روہ سارا ان انویسٹرز کی شکل میں موجود تھا جو وہ ان پانچ سالوں میں اپنے ادارے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں کرنے آئے تھے… ان کے پاس رننگ کیپٹل بہت کم تھا… وہ کیپٹل جس کی بنیاد پر انہوں نے بین الاقوامی طور پر اس ادارے کا آغاز کرنا تھا… ایک بڑے سرمایہ کار کے معاہدہ کرکے بھاگ جانے کا مطلب تھا کہ ہزاروں دوسرے پوٹینشل انویسٹر آپ کو اپنے ریڈ زون میں رکھ دیں… جانے والا بڑا انویسٹرز کئی ممکنہ آنے والے انویسٹرز کو بھی پہلے ہی غائب کردیتا ہے، پانچ سال میں دن رات کی جانے والی محنت چند ہفتوں میں دھوئیں کی طرح اڑ گئی تھی۔ وہ اگر پھر سے زیرو پر نہیں بھی آئے تھے تب بھی انکی ساکھ کی کمر ٹوٹی تھی۔
اور اس سارے کرائسس نے سالار کو ایک اور چیز سکھائی تھی… کوئی بھی ادارہ فرد واحد پر کھڑا نہیں ہونا چاہیے… ون مین شو اس ون مین کے ختم ہونے کے بعد آدھی سیٹوں کے تماشائی بھی کھینچ کر نہیں لاسکتا… یہ بہت بڑا سبق تھا جو سالار سکندر نے بہت بڑی قیمت ادا کرکے حاصل کیا تھا۔
وہ زندگی میں بہت کم مایوس ہوا تھا، بہت کم اسے یہ لگا تھا کہ وہ کچھ نہیں کرسکے گا اور یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اسے بیٹھ کر یہ سوچنا پڑگیا تھا کہ کیا یہ سب کچھ ایسا تو نہیں ہے جو وہ نہیں کرسکتا۔ کیا وہ اپنی صلاحیتوں اور استطاعت سے بڑا خواب دیکھ رہا تھا؟ کیا اس کی فیملی کے لوگ اور احباب ٹھیک تھے جب وہ اسے اس راستے پر چلنے سے روک رہے تھے… وہ نہیں سمجھ پایا کہ وہ اتنا منفی ہوکر کیوں سوچ رہا تھا۔ شاید اس کی ایک بنیادی وجہ وہ بیماری تھی جس کا وہ شکار تھا، جو اسے زندگی میں پہلی بار زندگی کے آخری لمحے کے بارے میں ٹک ٹک کرتے ہوئے بتارہی تھی… سات سے دس سال … اسے جو بھی کرنا تھا… اس سے بھی کم مدت میں کرنا تھا… لیکن دھاگے کا سرا کہاں تھا؟ اور سرا پکڑا کیسے جائے فوری طور پر یہ سمجھ سے باہر تھا۔
٭…٭…٭
’’اگر میں تمہیں ایک بیڈ نیوز بتاؤں تو کیا تم اپ سیٹ ہوجاؤگی؟‘‘ اگلے دن اسکول ختم ہونے کے بعد گاڑی کے انتظار میں کھڑے حمین سکندر نے رئیسہ سے کہا… عنایہ اور جبریل کو پک کرنے سے پہلے ڈرائیور ان دونوں کو پک کرتا تھا، پھر اسی اسکول کے ایک دوسرے کیمپس سے جبریل اور عنایہ کو…
ایک لمحہ کے لئے رئیسہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ حمین کے اس سوال کا کیا جواب دے… جبریل کے خوب سمجھانے بجھانے اور دھمکیوں کے باوجود وہ کوئی خبر اتنی ہی دیر ہضم کرسکتا تھا جتنی دیر اس نے ہضم کرلی تھی اور گھر میں رئیسہ وہ سب سے پہلا فرد ہوتی تھی جسے وہ ہر بریکنگ نیوز دیتا تھا، کیوں کہ گھر میں رئیسہ کے علاوہ اسے کوئی اس جیسا سامع نہیں ملتا تھا جو اس کی ہر بات کو نہ صرف دلچسپی سے سنتا رہتا بلکہ آمنا و صدقنا کہہ کر اس پر یقین بھی کرلیتا۔
گھر میں اب چوں کے دو گروپ تھے… جبریل اور عنایہ… سوبر اور سمجھ دار… اور حمین اور رئیسہ ان دونوں کو کس کیٹیگری میں ڈالا جاتا یہ مشکل تھا کیوں کہ وہ دونوں ایک کیٹیگری میں نہیں آتے تھے، حمین بے حد شرارتی اور باتونی تھا… سوالات کی بھرمار کے ساتھ… لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے انتہا ذہین… پڑھائی اس کا مسئلہ نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ کا مسئلہ تھا… رئیسہ اس کا الٹ تھی… خاموش ، مؤدب، سوچ سمجھ کر بولنے والی… لیکن اوسط ذہانت کے ساتھ… وہ فطرت اور عادات کے حساب سے جبریل اور عنایہ کے گروپ میں زیادہ بہتر طور پر ایڈجسٹ ہوتی لیکن ذہانت کے حساب سے اسے کہیں رکھنا ہوتا تو وہ دونوں ہی گروپ میں نہیں رکھی جاسکتی تھی۔
سالار اور امامہ کے تینوں بچوں کے آئی کیو میں انیس بیس کا فرق ہوسکتا تھا مگر ایک اور بیس کا نہیں لیکن ذہانت اور عادات کا فرق ہونے کے باوجود حمین سکندرکے ساتھ اس کا بلا کا اتفاق تھا… وہ دونوں گھر کے چھوٹے تھے اور دونوں اکٹھے رہنا پسند کرتے تھے… جبریل اور عنایہ کی طرح…
رئیسہ اس کی بات آدھی سمجھی تھی، آدھی نہیں سمجھی تھی لیکن اسے تجسس ہوا تھا۔
’’نہیں، میں اپ سیٹ نہیں ہوں گی۔‘‘ اس نے چند لمحے سوچ کر کہا۔
’’گریٹ۔‘‘ حمین کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ ایک گناہ سے بھی بچنے والا تھا اور وہ اپنے دل و دماغ کا بوجھ بھی بٹاسکتا تھا۔
’’تمہیں پتا ہے، ممی اور بابا آج کل اپ سیٹ کیوں ہیں؟‘‘
وہ اب بڑے ڈرامائی انداز میں سالار اور امامہ کی ناشتے کی میز پر ’’پراسرار‘‘ خاموشی کا راز فاش کرنے والا تھا۔
’’کیوں…؟‘‘ رئیسہ کا تجسس بڑھا۔
’’دادا کو برین ٹیومر ہوگیا ہے۔‘‘
رئیسہ نے بغیر تاثر کے اس کا چہرہ دیکھا۔’’یہ ایک بیماری ہے، لیکن وہ اس سے مریں گے نہیں۔‘‘ اس نے رئیسہ کو سمجھایا۔ رئیسہ کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی تھی۔
’’اوکے۔‘‘ اس نے حسب عادت حمین کی بات کے جواب میں کہا اور فراک کی جیب میں پڑی ہوئی وہ چاکلیٹ نکال کر کھانے لگی جو کچھ دیر پہلے حمین نے اسے تھمائی تھی۔
’’یہ بہت بڑا سیکرٹ ہے، بلکہ ٹاپ سیکرٹ۔‘‘ حمین اسے زیادہ متاثر نہ دیکھ کر اسے متاثر کرنے کی کوشش کی۔
رئیسہ نے چاکلیٹ چباتے رک کر اسے دیکھا۔ ’’واؤ…‘‘ اس نے متاثر ہونے کی کوشش کی اور حمین بری طرح تپا۔
’’میں نے تمہیں ایک بری خبر سنائی ہے اور تم کہہ رہی ہو واؤ…‘‘
’’مجھے کیا کہنا تھا؟‘‘ وہ خائف ہوگئی تھی۔
حمین دونوں ہاتھ کمر پر رکھے بے حد خفا انداز میں اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’تمہیں کہنا چاہیے تھا۔ اوہ مائی گاڈ!‘‘ حمین نے اپنا معمول کا جملہ پورے تاثرات کے ساتھ اسے رٹانے کی کوششکی۔
’’اوہ …! مائی گاڈ۔‘‘ رئیسہ نے اس جملے اور اس کے تاثرات کی نقل اتارنے کی بھرپور کوشش کی۔
’’ہاں! بالکل اسی طرح۔‘‘ حمین نے اس کی پرفارمنس سے مطمئن ہوتے ہوئے جیسے اسے سراہا۔ ’’تم اب کسی سے بھی یہ سیکرٹ شیئر نہیں کروگی… اوکے؟‘‘ اس نے رئیسہ کو تاکید کی۔ ’’یاد رکھو، لوگوں کو اپ سیٹ کرنا گناہ ہے۔‘‘ وہ اسے ہمیشہ کی طرح سبق دے رہا تھا۔
رئیسہ نے ہمیشہ کی طرح سرہلا دیا۔ حمین کی بات آدھی اس کی سمجھ میں آئی تھی آدھی نہیں… لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی۔ حمین اسے اتنی لمبی چوڑی نصیحت نہ بھی کرتا تو بھی رئیسہ اس گھر میں ان چاروں میں کم بولنے والی تھی… وہ حمین سے بے حد قریب ہونے کے باوجود اس سے بھی گفتگو کا آغاز خود نہیں کرپاتی تھی۔ وہ شرماتی تھی، جھجکتی تھی یا عدم اعتماد کا شکار تھی لیکن رئیسہ سالار کے لئے گفتگو کا آغاز کرنا ایک مشکل کام تھا۔ وہ صرف بات کا جواب دیتی تھی، اکسانے پرسوال کرتی تھی لیکن اگر کوئی اسے مخاطب نہ کرتا تو وہ گھنٹوں خاموش بیٹھی رہ سکتی تھی… اپنے کام ی اکسی بھی اس کھلونے میں مگن جس کے ساتھ وہ کھیل رہی ہوتی۔
’’کار آگئی…‘‘ حمین نے اسے تاکید کرنے کے بعد گیٹ سے نمودار ہونے والے ڈرائیور کو دیکھتے ہوئے پرجوش انداز میں اعلان کیا اور ساتھ اسے متنبہ کیا۔
’’یاد رکھو، یہ ایک سیکرٹ ہے۔‘‘ حمین نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر ایک انگلی رکھی… پھر اسی ہتھیلی کو مٹھی کی شکل میں بند کیا۔ رئیسہ نے بیگ اٹھانے سے پہلے اس کے ایکشن کی نقل کی، پھر حمین نے high five کے لئے ہوا میں ہاتھ بلند کیا۔ رئیسہ نے بھی بے حد ایکسائیٹڈانداز میں اپنے ہاتھ کا پنجہ اس کے ہاتھ سے ٹکراتے ہوئے high fiveکیا۔
٭…٭…٭