یہ پہلا موقع نہیں تھا جب حمین سکندر نے مہاتما بدھ بننے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کے کھلونے دان کئے تھے اور اس کے بہن بھائیو ں میں اگر بلا کا تحمل نہ ہوتا تو اس کے اس کارنامے پر ہر بار بلاکا رن پڑتا۔
عنایہ کی آنکھیں اب آنسوؤں سے لباب بھر گئی تھیں۔ اس ’’چھوٹے بھائی‘‘ نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ ان کی ہر چیز کو کسی بھی وقت مشنری جذبہ کے تحت کسی کو بھی دے سکتا تھا۔
’’ممی!‘‘ عنایہ بری طرح بلبلائی تھی۔
“Charity is not a sim.” (چیریٹی گناہ نہیں ہے)
حمین نے اپنی آنکھیں عادتاً گول کرتے ہوئے ان دو الفاظ کا ایک بار پھر استعمال کیا جو پچھلے کچھ دنوں سے بار بار اس کی گفتگو میں آرہے تھے۔ رئیسہ اس ساری گفتگو کے دوران اپنے بیڈ پر لیٹے ان دونوں کو خاموشی سے سن رہی تھی۔
’’تم نے میرے کھلونے چرائے؟‘‘
عنایہ کا بس چلتا تو وہ اس کو پیٹ ڈالتی۔ کم از کم رات کے اس پہر جب اسے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کا کون سا کھلونا چیریٹی میں دے آیا تھا۔
’’صبح بات کریں گے اس بارے میں۔ ابھی نہیں۔‘‘
امامہ نے مداخلت کی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی، صوفہ پر پڑا اس کا سیل فون بجنے لگا تھا۔ اس کا خیال تھا وہ سالار کی کال تھی۔
’’حمین جاکر اپنے بیڈ پہ لیٹو۔ میں خود بلالاتی ہوں جبریل کو۔‘‘
امامہ نے صوفہ کی طرف جاتے ہوئے کمرے کے دروازے کی طرف جاتے حمین کو ٹوکا۔ وہ بے حد فرماں برداری سے واپس اپنے بیڈ کی طرف آگیا تھا۔ امامہ نے سیل فون پر سکندر عثمان کا نام چمکتے دیکھا اور کال ریسیو کرتے ہوئے اس نے تینوں بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
’’سالار کہاں ہے؟‘‘ سکندر عثمان نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہی عجیب اضطراب میں اس سے پوچھا تھا۔
’’ایک ڈنر میں گئے ہیں بس ابھی آنے والے ہیں۔‘‘
’’میں اسے کال کررہا تھا، وہ میری کال ریسیو نہیں کررہا۔‘‘ امامہ کو ان کے لہجے میں عجیب سی پریشانی اور گھبراہٹ محسوس ہوئی تھی۔
’’ہوسکتا ہے ڈنر میں آپ کی کال نہ لے پارہے ہوں۔ وہ اکثر اپنا فون فنکشنز میں سائیلنٹ کردیتے ہیں۔ خیریت ہے نا پاپا۔‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتی۔
’’تم لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ اتنی بڑی بات مجھ سے کیوں چھپائی ہے؟‘‘
سکندر عثمان حواس باختگی میں کہتے چلے گئے۔ انہیں کچھ دیر پہلے ان کے ایک قریبی عزیز نے اس حوالے سے فون کیا تھا۔
اس عزیز نے سالار کی بیماری کے حوالے سے یہ خبر کسی چینل پر دیکھی تھی اور پھر فوری طور پر افسوس کا اظہار کرنے کے لئے سکندر کو فون کیا تھا اور سکندر عثمان ان کے اظہار افسوس پر شاکڈ رہ گئے تھے۔ انہیں یقین نہیں آیا کہ سالار کے بارے میں جو وہ کہہ رہے تھے، وہ ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد اگلے دس، پندرہ منٹوں میں انہیں اوپر تلے کئی کالز آئی تھیں اور انہوں نے حواس باختگی کے عالم میں سالار کو کالز کرنا شروع کردی تھیں جو اس نے ریسیو نہیں کیں۔
اس ڈنر میں بیٹھے سکندر عثمان کی کال آنے سے بہت پہلے سالار کو یہ پتا چل گیا تھا کہ میڈیا میں اس کی بیماری کی خبر بریک ہوچکی تھی۔ اس کے اسٹاف نے اسے اطلاع دی تھی اور ڈنر ٹیبل پر بیٹھا ہوا سالار سکتے میں آگیا تھا۔ اسے اس اسٹیج پر اس خبر کے آوٹ ہونے کے مضمرات کا اندازہ چند ثانیوں میں ہوگیا تھا۔
وہ آگے نہیں سوچ سکا تھا۔ وہ چند گھنٹے پہلے گھر سے نکلتے ہوئے گھر پر ایک بہت خوش و خرم خاندان چھوڑ کر آیا تھا۔ جو بھی لاوا تھا اس کے اندر تھا۔ کوئی دوسرا اس کی لپیٹ میں آکر خاکستر نہیں ہوا تھا اور اب… سالار سکندر کا فون، ٹیکسٹ میسجز اور مسڈ کالز سے اٹ گیا تھا اور وہ اس ڈنر ٹیبل پر بیٹھے صرف اس نقصان کو کنٹرول کرنے کے طریقے سوچ رہا تھا جو اس خبر سے پہنچ سکتا تھا۔
’’کیا نہیں بتایا پاپا؟ کیا چھپایا ہے آپ سے؟‘‘ امامہ کی سمجھ میں سکندر عثمان کی بات نہیں آئی تھی۔ اسے لگا اس نے شاید اس کی بات سننے اور سمجھنے میں کوئی غلطی کی تھی۔
’’برین ٹیومر کے بارے میں۔‘‘ سکندر عثمان نے جیسے کراہتے ہوئے کہا تھا مگر اس کے باوجود وہ سالار کا نام نہیں لے سکے تھے۔ امامہ اب بھی کچھ نہیں سمجھی۔
’’برین ٹیومر؟ کس کے برین ٹیومر کے بارے میں ؟‘‘ وہ الجھی اور وہ پہلا موقع تھا جب سکندر عثمان کو احساس ہوا کہ وہ بھی ان کی طرح بے خبر تھی۔
’’پاپا! آپ کس کے برین ٹیومر کی بات کررہے ہیں؟‘‘ امامہ نے ان کو خاموش پاکر ایک بار پھر پوچھا۔ جواب سکندر عثمان کے حلق میں اٹک گیا تھا۔
’’پاپا…!‘‘ امامہ ان کے مسلسل خاموش رہنے پر ایک بار پھر اپنا سوال دہرانا چاہتی تھی مگر دہرا نہیں سکی۔
بجلی کے کوندے کی طرح اس کے دماغ میں اپنے ہی سوال کا جواب آیا تھا۔ سکندر عثمان کس کی بیماری پر یوں بے چین ہوسکتے تھے۔ سالار… کیا وہ سالار کی بات کررہے تھے؟ سالار کے برین ٹیومر کی؟ ایک جھماکے کے ساتھ اسے کئی ہفتے پہلے کی فرقان اور اپنی بات چیت یاد آئی۔ ہاسپٹل کا وزٹ… کچھ ہفتوں سے سالار کا بدلا ہوا رویہ…
وہ بے یقینی کے عالم میں فون ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی۔ یہ اس کا وہم تھا۔ اسے وہم ہی ہونا چاہیے۔ اس نے جیسے گڑگڑا کر دعا کی تھی۔ اب کچھ اور نہیں… کوئی آزمائش نہیں… اس نے اپنے مفلوج ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ عنایہ، حمین، رئیسہ کو دیکھا جو خوش گپیاں کرتے ہوئے سونے کی تیاری میں مصروف تھے۔
فون پر اب دونوں طرف خاموشی تھی۔ نہ سکندر عثمان بول پارہے تھے، نہ وہ … وہاں پچھتاوا تھا، یہاں بے یقینی… سالار کا نام لینے کی نہ ان میں ہمت تھی، نہ اس میں حوصلہ…
’’آپ سے کس نے کہا؟‘‘ امامہ نے بالآخر جیسے اپنے اوسان پر قابو پاتے ہوئے کانپتی ہوئی آواز میں ان سے پوچھا۔ اس نے اپنے پچھلے سوال کے جواب پر اصرار نہیں کیا تھا۔
’’اس نے تمہیں نہیں بتایا؟‘‘ سکندر عثمان نے عجیب بے بسی کے ساتھ اس سے پوچھا، یوں جیسے یہ نہیں کہنا چاہتے تھے۔ یہ کہنا چاہتے تھے کہ وہ خبر غلط تھی… کاش کہہ سکتے…
امامہ کو اس سوال کا جواب دینے یا سوچنے کا موقع نہیں ملا۔ اس نے باہر ہارن کی آواز سنی تھی۔
’’میں کچھ دیر میں آپ سے بات کرتی ہوں پاپا۔‘‘ اس نے اپنے سرد پڑتے ہاتھ میں تھامے فون کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے سکندر عثمان سے کہا۔
’’مجھے تمہیں نہیں بتانا چاہیے تھا۔‘‘ وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ پائے۔ اس حالت میں بھی انہیں اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے اس انکشاف پر امامہ پر کیا گزری ہوگی۔
امامہ نے جواب نہیں دیا، فون بند کردیا۔ سب کچھ یک دم ہی مہمل، بے معنی ہوگیا تھا۔ کسی بت کی طرح فون کو گود میں رکھے وہ ساکت بیٹھی رہی۔
وہ ساری زندگی ’’برے وقت‘‘ سے ڈرتی رہی تھی اور بے وقت کی آہٹ پر کام لگائے رکھتی تھی اور اب بس کچھ ہی سال تو ایسے گزرے تھے کہ اس نے آہٹوں پر کان لگانے بند کئے اور برا وقت … وہ جیسے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ اتنا دبے پاؤں… اتنا اچانک کہ وہ ہل بھی نہیں پارہی تھی۔
اس سے کچھ فاصلے پر عنایہ اور رئیسہ کے ساتھ وقتاً فوقتاً گفتگوکرتا ہوا حمین سونے کی کوشش میں بھی صوفے پر بت کی طرح بیٹھی ماں پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ ممی نے دادا سے فون پر بات کی تھی اور پھر ممی خاموش بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ ہارن بجنے پر بھی پاپا کو ریسیو کرنے نہیں گئی تھیں۔ حمین نے جمائی لیتے ہوئے صورت حال کا تجزیہ کیا۔ امامہ کو ایک بار پھر دیکھا، پھر عنایہ اور رئیسہ کو جو تقریباً نیند کی وادی میں جانے والی تھیں۔ ایک اور جماہی لے کر اس نے امامہ کو مخاطب کیا۔
’’ممی! آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
امامہ نے چونک کر خالی نظروں سے حمین کو دیکھا وہ حمین کا سوال سمجھ نہیں سکی تھی۔ بس یہ پتا چلا تھا کہ اس نے کچھ کہا تھا۔ جواب دینے یا کوئی اور سوال کرنے کے بجائے وہ اٹھ کر باہر نکل گئی تھی۔ حمین کچھ اور الجھا تھا۔ اس کی ماں انہیں خدا حافظ کہے بغیر اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیئے بغیر ایسے نہیں جاتی تھی، جیسے وہ اس وقت گئی، یہ زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔ حمین کی زندگی میں… اس کا دماغ الجھا تھا۔ اس گھرکے افراد باری باری اس طوفان کے ہچکولوں کو محسوس کرنا شروع ہوگئے تھے۔
’’تم ابھی تک جاگ رہے ہو؟‘‘ سالار نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے ہی وہاں پڑے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے جبریل کو دیکھ لیا تھا۔ باپ کی آواز جبریل کو کسی کرنٹ کی طرح لگی تھی۔ برق رفتاری سے اس نے کمپیوٹر کی اسکرین پر وہ سائٹ بند کی جو وہ کھولے بیٹھا تھا اور پھر مزید کچھ بھی بند کئے بغیر وہ ریوالونگ چیئر پر بیٹھے بیٹھے گھوما۔
وہ اب باپ کا استقبال کرنے کے لئے تیار تھا جو لاؤنج کے بیرونی دروازے سے سیدھا اندر آیا تھا لیکن ابھی تک اس کے قریب نہیں پہنچا تھا۔ امامہ ہارن کی آواز سن کر بھی نہیں آئی تھی۔ جبریل ہارن کی آواز سن ہی نہیں سکاتھا۔ اس کا ذہن جس گرداب میں پھنسا ہوا تھا وہاں وہ سن بھی نہیں سکتاتھا۔
’’میں ایک اسائنمنٹ کی تیاری کررہا تھا۔‘‘ جبریل نے اپنے سامنے کھڑے سالار کو دیکھے بغیر، نظریں ملائے بغیر کہا۔ وہ باپ کا چہرہ کیوں نہیں دیکھ پارہا تھا۔ وہ ساڑھے نو سال کا بچہ اس وقت نہیں سمجھ پارہا تھا۔ اس نے جیسے بے خبر میں ایک ایسا راز پالیا تھا جسے اب وہ کسی کے سامنے عیاں ہوجانے سے ڈر رہا تھا۔
سالار نے جبریل کا چہرہ دیکھا۔ اس کے عقب میں ڈیسک ٹاپ پر ورلڈ بینک کا ہوم پیج دیکھا، پھر اس نے اپنی ڈنر جیکٹ اتارتے ہوئے اس سے کہا۔
’’بہت دیر ہوگئی ہے۔ ساڑھے دس ہورہے ہیں اور تمہیں دس بجے سے پہلے پہلے سب کام کرلینا چاہیے، یاد ہے؟‘‘
سالار نے جیسے اسے یاد دہانی کرائی تھی۔ وہ اس گھر کے بچوں کے لئے ایک طے شدہ معمول تھا، دس بجے سے پہلے پہلے… اپنا کام مکمل کرکے سوجانا۔
جبریل نے اس بار بھی باپ کو دیکھے بغیر سرہلایا اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’تمہاری ممی کہاں ہیں؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا… ہارن کی آواز کے باوجود بھی اس کا استقبال کرنے نہیں آئی تھی اور جبریل رات کے اس پہر لاؤنج پر ڈیسک ٹاپ پر اکیلا موجود تھا۔ اس کے گھر میں یہ خلاف معمول تھا… وہ خدشہ جو اسے ڈنر میں لاحق ہوا تھا وہ جیسے یقین میں بدلتا جارہا تھا۔
جبریل کو جواب دینا نہیں پڑا… بچوں کے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ آگئی تھی۔ سالار نے اسے دیکھا اور اس کے چہرے پرپڑنے والی ایک نظر ہی اسے یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ اس کے بدترین خدشات ٹھیک ثابت ہوئے تھے۔
اس لاؤنج میں موجود تینوں افراد عجیب ڈرامائی انداز میں وہاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ کسی اسٹیج پلے کے ایکٹرزکی طرح جو ڈرامے کے درمیان اپنی لائنز بھولنے کے ساتھ ساتھ اسٹیج پر آمد اور جانے کا راستہ بھی بھول چکے تھے اور اس با ت کے منتظر تھے کہ پہلے دوسرا جائے۔
وہ خاموشی اس ساڑھے نو سال کے بچے نے پہلی بار اپنے گھر میں اپنے ماں باپ کے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہوتی دیکھی تھی اور اس خاموشی نے اس کے خوف کو بڑھایا تھا۔ وہ بلا کا ذہین تھا لیکن دنیا کی کوئی ذہانت انسانی رشتوں کے الجھے دھاگوں کو سلجھا نہیں سکتی۔ نہ جذباتیت کو مات دے سکتی ہے، نہ بے حسی کو توڑ سکتی ہے۔ نہ خاموشی کی دیواریں چھید سکتی ہے۔
سالار کی طرح جبریل نے بھی یہ تو جان لیا تھا کہ امامہ بھی سالار کی بیماری کے بارے میں جان گئی تھی لیکن یہ انکشاف اسے کس حد تک اذیت دے رہا تھا۔ جبریل اس کا اندازہ نہیں کرپارہا تھا، نہ اس کے ردعمل کا…
’’گڈ نائٹ۔‘‘ اسے جیسے راہ فرار سوجھ گئی تھی۔ وہ دو لفظ بول کر ماں کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے غیر متوازن چال کے ساتھ گیا تھا۔ لاؤنج میں کھڑے رہ جانے والے ان دونوں افراد نے اسے نہیں دیکھا تھا۔