نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

مجھے کبھی لگتا نہیں تھا کہ مجھے محبت ہو گی، وہ بھی کسی لڑکی سے۔ویسے تو مجھے بہت سے لوگوں سے محبت ہے۔اپنے والدین سے،اپنے بھائی بہنوں سے،اپنے رشتے داروں سے،دوستوں سے، اپنے وطن سے، لیکن لڑکی سے محبت! ایسا ممکن ہی نہیں۔وہ بھی تب جب میں زندگی کی پچیس بہاریں دیکھ چکا ہوں۔پھر وہ اچانک آئی اور میری زندگی میں ہلچل مچا گئی۔میری راتوں کی نیند اور دل کا چین سب چرا کر لے گئی۔ بظاہر یہ فلمی سا لگتا ہے،لیکن ایسا حقیقت میں ہوا تھا۔مجھے محبت ہو گئی ہے۔کائنات سے۔وہ مجھے سڑک پہ ملی تھی اور پہلی ہی نظر میں دل میں اتر گئی تھی۔ مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولتا جب میری گاڑی اس کی گاڑی سے ٹکرائی اور دونوں گاڑیوں کے پہیے چرچرائے۔میں ایک دم گھبرا کر گاڑی سے باہر آیا کہ کہیں کوئی مر تو نہیں گیا لیکن یہ کیا ۔۔؟، گاڑی کے اندر سے چار لڑکیاں برآمد ہوئیں اور مجھے غصے سے گھورنے لگیں۔ان میں ایک لڑکی نسبتاً خاموش طبع تھی۔ وہ مجھے مسلسل گھور رہی تھی۔ اس کی آنکھیں گہری نیلی تھیں جیسے کوئی جھیل ہوتی ہے۔
“آپ لوگوں کو تمیز نہیں ہے گاڑی چلانے کی۔” میں نے کہا۔
“اے مسٹر۔۔۔۔!ان میں سے ایک لڑکی بولی جو شکل سے کافی چالاک دکھائی دیتی تھی۔
“میرا نام ایان ہے”میں نے اس کی بات اُچک لی۔
“”جو بھی ہو تم،لیکن کسی نے اتنا نہیں بتایا کہ لڑکیوں سے کیسے بات کرتے ہیں۔؟ وہ لڑکی سخت لہجے میں بولی۔
“دیکھیے محترمہ! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا جس میں آپ کی توہین ہوئی ہو”، میں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
“ہماری گاڑی کو ٹکر مار دی اور کہتے ہیں کہ کچھ نہیں کہا”۔ ایک او ر لڑکی سخت لہجے میں بولی۔
“دیکھیے لیڈیز۔۔! میری کوئی غلطی نہیں ہے آپ لوگ غلط روٹ پر گاڑی چلا رہے ہیں۔” میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی۔
“اچھی طرح جانتی ہوں تم جیسے مردوں کی چالاکی،اچھا بہانہ ہے لڑکیوں سے بات کرنے کا۔” وہ خاموش طبع اور نیلی آنکھوں والی لڑکی غصے سے بولی۔اس کے چہرے پہ گہری سنجیدگی تھی اور آنکھوں میں ایک عجب سی اداسی چھلک رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتا، چوتھی لڑکی بولی:
“چھوڑو کائنات۔۔! ایسے چھچھورے مردوں کو منہ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔”،اس نے کائنات نامی لڑکی کا بازو پکڑا اور گاڑی کی طرف چل دی۔باقی دونوں لڑکیوں نے بھی ان کی پیروی کی۔وہ چاروں لڑکیاں گاڑی میں بیٹھ کر جا چکی تھیں۔
“کائنات۔۔! میں نے یہ نام زیرِ لب دہرایا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔اس بات سے بے خبر کہ کائنات نا م کی وہ لڑکی میرے دل کی کائنات اجاڑ کر چلی گئی تھی۔
٭…٭…٭





سارے راستے میں اسی کے بارے میںسوچتا رہا کائنات نامی لڑکی کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے مسلسل گھوم رہا تھا۔ اس کا غصیلا لہجہ، اس کی آنکھوں میں چھپی اداسی، گھر پہنچا تو ماما میرا انتظار کر رہی تھیں۔ میں نے ان سے سلام لیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کھانے کا پوچھا۔لیکن میں نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر دیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔کمرے میں پہنچ کر بھی کائنات میرے دماغ پر حاوی رہی۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ میں کب نیند کی وادی میں چلا گیا۔رات کے نوبج گئے تھے جب ماما نے مجھے جگایا۔میں آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔
“کافی تھکے تھکے سے لگ رہے ہو۔۔۔؟ انہوں نے میرے چہرے کا جائزہ لیا جیسے کچھ جاننے کی کوشش کر رہی ہوں۔
“جی ماما آج آفس میں کام بہت تھا۔”، میں نے جھوٹ بولا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے ان سے جھوٹ بولاتھا۔
“اچھا تم فریش ہوجائو میں کھانا لگاتی ہوں۔ انہوں نے کہا اور کمرے سے چلی گئیں۔میں پھر چادر لے کر لیٹ گیا۔
٭…٭…٭
میرا نام ایان ہے اور میں ایک بزنس مین ہوں۔امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتا ہوں۔ میرے پاپا کا انتقال ہو چکا ہے اور اپنی میں ماما کے ساتھ ایک بڑے سے گھر میں رہتا ہوں۔ پاپا کے انتقال کے بعد میں نے بزنس سنبھال لیا تھا اور اب بڑی کامیابی سے چلا رہا ہوں،میں نے ایم بی اے کیا ہے۔میں بہت خوبصورت تو نہیں لیکن کافی وجیہہ ہوں۔ اور لڑکیاں ایک نظر ڈالنے کے بعد دوسری نظر ضرور ڈالتی ہیں۔ میرے پاپا نہایت ہی ایمان دار، نیک اور شریف آدمی تھے۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اتنی دولت ہوتے ہوئے بھی کبھی کسی دوسری عورت کی طرف نہ دیکھا۔ اور نہ ہی کوئی اور برائی ان کے اندر تھی۔یہی وجہ تھی کے انہوں نے امی کے ساتھ چھبیس ستائیس سال نہایت خوش گوار گزار دیے۔جب میں ان کا ہاتھ بٹانے کے قابل ہوا تو وہ دنیا سے چلے گئے۔اب میں ہوں اور ماما ہیں۔ وہ مجھے جاتے ہوئے نصیحت کر گئے تھے کہ ہمیشہ حلال رزق کھانا اور خود کو برائیوں سے بچائے رکھنا۔ چند دن کی دنیاکی زندگی کی خاطر اپنی آخرت خراب مت کرنا۔وہ پانچ وقت کے نمازی تھے اور مجھے بھی اپنے ساتھ مسجد لے جاتے تھے۔ وہیں سے مجھ میں مسجد جانے کی عادت پختہ ہوگئی۔وہاں پہ میں مولوی کو اذان دیتے ہوئے سنتا تو بہت اچھا لگتا۔اذان کی آوازکانوں میں بہت بھلی لگتی تھی۔ میرے دل نے بھی اذان دینے کی خواہش جاگی میں نے پاپا سے بات کی اور انہوں نے مولوی عبدالقدوس سے بات کی یوں میں نے پندرہ سال کی عمر میں پہلی اذان دی۔پاپا اور ماما بہت خوش ہوئے اور اب بھی جب بھی مجھے ٹائم ملتا ہے تو میں مسجد میں اذان دینے ضرور جاتا ہوں۔ مولوی عبدالقدوس صاحب تب نوجوا ن تھے۔ ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔اب ان کے بچے بھی جوانی کی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔ میری زندگی بہت سادہ ہے۔گھر سے آفس،آفس سے گھر یا کبھی کبھار باہر دوستوں کے ساتھ آئوٹنگ کے لیے چلا جاتا ہوں۔میں نے زیادہ دوست نہیں بنائے۔ اور نہ ہی اب تک میری زندگی میں کوئی لڑکی آئی تھی۔ حالاں کہ یونیورسٹی کی آدھی سے زیادہ لڑکیاں مجھ سے دوستی کی خواہش مند تھیں۔لیکن میں ایسا ویسا لڑکا نہیں تھی۔ اس لیے سب کے ساتھ بس ہیلو ہائے تھے۔آفس میں بھی کئی لڑکیاں کام کرتی تھیں لیکن ان کے ساتھ بھی بس کام کی حد تک بات ہوتی ہے۔
لیکن اب نیلی آنکھوں والی میرے دل کے پرسکون سمندر میں طلاطم پیداکر گئی تھی۔
٭…٭…٭
وہ نیلی آنکھوں والی میرے اعصاب پر سوار ہو گئی تھی۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے میں بے قرار ہو رہا تھا۔لیکن وہ ہوا کے جھونکے کی طرح آئی اور چلی گئی۔ماما نے بھی میری کیفیت نوٹ کر لی تھی لیکن میں نے انہیں مطمئن کردیا تھا۔میرے دل نے شدت سے اس سے ملنے کی دعا مانگی۔کہتے ہیں نا کہ قبولیت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔میرے دوست کی شادی تھی۔اس نے مجھے سختی سے تاکید تھی کہ میں اس کی شادی میں ضرورت شرکت کروں۔ عزیر میرا یونیورسٹی فیلو ہے۔ اس کی مہندی پہ میں گیا تو وہ بھی وہاں آئی ہوئی تھی۔اس نے بہت سادہ سا سوٹ پہنا ہو اتھا۔میک اپ بھی برائے نام تھالیکن اس سادگی میں بھی وہ دلکش لگ رہی تھی۔اس کی سہیلیاں چہک رہی تھیں لیکن اس کے چہرے پہ سنجیدگی اس دن کی طرح نمایاں تھی۔اس کی گہری نیلی آنکھوں میں بلا کی اداسی تھی۔ جسے وہ چھپانے میں ناکام رہی تھی۔
مہندی کی تقریب جاری تھی۔ناچ گانا اور ہلہ گلا چل رہا تھا۔ لیکن میری نظریں بدستو ر نیلی آنکھوں والی کا طواف کر رہی تھیں۔لیکن اس نے ایک بار بھی میری طرف یا ادھر ادھر نہیں دیکھا۔وہ بس سامنے ہی دیکھ رہی تھی جیسے کسی سوچ میں گم ہو،خواتین کے جھرمٹ میں وہ نمایاں لگ رہی تھی۔کاش ایک بار وہ مجھے دیکھ لے میں نے دل میں سوچا۔لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔لڑکے کو اب مہندی لگانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔خواتین باری باری آتیں اور اسے مہندی لگاتیں۔نیلی آنکھوں والی لڑکی بھی آئی تھی۔ میرا دل چاہا کہ اس کی تصویر بنا لوں لیکن ہمت نہ کر سکا۔ اسی دوران میرے موبائل کی بیل بج اٹھی۔فون ماما کا تھا، وہاں شور بہت تھا۔اس لیے میں ایک کونے میں چلا گیا۔جب واپس آیا تو وہ بھی میری طرف آ رہی تھی۔ مجھے اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوئیں،میں وہی پہ ساکت کھڑا رہا، اس نے فون کان کے ساتھ لگایا ہو اتھا اور وہ بے دھیانی میں آرہی تھی۔شاید یہ اس کی عادت تھی کہ وہ زیادہ ادھر اودھر نہیں دیکھتی۔ اب وہ میرے بالکل قریب آگئی تھی اور اس سے پہلے کہ میں ایک طرف ہوتا وہ مجھ سے ٹکرا گئی۔ فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرنیچے گر گیا تھا اور وہ ہکا بکا نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔چند لمحے ایسے ہی گزر گئے۔ میں نے جلدی سے زمین سے موبائل فون اٹھایا اور اسے پکڑا دیا۔اس کا چہرہ غصے سے مزید لال ہو گیاتھا۔ وہ قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔اس کا ہاتھ اٹھا اور میرے منہ پر پڑ گیا ۔میں ہکا بکا کھڑا گال پہ ہاتھ رکھے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔اس وقت یہ نازک سی لڑکی کسی خوفناک شیرنی کا روپ دھارے ہوئے تھی۔
“خوب جانتی ہوں تم جیسے مردوں کو میں، جہاں لڑکی دیکھی بس رال ٹپک پڑی اور اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈنے لگ پڑے۔”، اس نے غصے سے ہنکار بھرا اور الٹے قدموں واپس لوٹ گئی۔میں حیرت کی تصویر بنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

لیپ ٹاپ — ثناء سعید

Read Next

صدیاں — سائرہ اقبال

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!