ناتمام — نبیلہ ابر راجہ

اس کی سانس رُک رُک کر چل رہی تھی۔ سفید چادر ٹانگوں پر پڑی تھی۔ چہرے پر موت کی زردی بند آنکھوں کے نیچے سے بھی جھانکتی محسوس ہورہی تھی۔ وہ سفید پڑتے چہرے کے ساتھ یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا۔ اسے یہ سوچنا بھی محال لگ رہا تھا کہ اس کانونو اس سے دور جارہا ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسے اپنے دل کی دھڑکن اور نبض دونوں ہی تھمی ہوئی لگ رہی تھی۔ وہ بیڈ سے ہٹ کے پیچھے کی طرف آیا جہاں پریشانی کے عالم میں عسل کھڑی نونو کو گھوررہی تھی۔ فواد اس کی طرف گھوما، تو وہ اس کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر دہشت سے ایک ثانیے کے لیے ڈرسی گئی۔ وہ اس کے بالکل قریب آچکا تھا۔ آناً فاناً اس کے دونوں ہاتھ عسل کی گردن کی طرف بڑھے۔
’’میں نے کہا تھا نا نونو کا خیال اپنی جان سے بڑھ کر رکھنا، لیکن تم سدا کی بیپروا… میرے نونو کو موت کے منہ میں اتنی آسانی سے جھونک دیا تم نے، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا، تُجھ جیسی ماؤں کو زندہ رہنا ہی نہیں چاہیے جو اپنے نونو کی حفاظت تک نہیں کرسکتیں۔‘‘
فواد کے ہاتھ عسل کی گردن کے گرد شکنجے کی طرح کس گئے تھے۔ اس کا لہجہ کسی قاتل اور خونی کا لگ رہا تھا۔ وہ عسل کو مار ڈالنا چاہتا تھا۔
’’میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا تاکہ پھر کوئی نونو موت کے منہ میں نہ جاسکے۔‘‘ اس کے منہ سے اب باقاعدہ درندوں کی سی غراہٹ نکل رہی تھی۔ انجکشن کی ٹرے اٹھائے اندر آتی نرس یہ دیکھ کر الٹے قدموں بھاگی۔ وہ فواد کے چہرے کے وحشی تاثرات دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ اس کے کپڑوں پر جا بہ جا نونو کے خون کے دھبے تھے جو اُسے اُٹھا کر ہاسپٹل لاتے ہوئے اس کی شرٹ، ہاتھوں، بازوؤں اور پینٹ پر بھی لگ گئے تھے۔ پورا کاریڈور نرس کی چیخوں سے گونج اُٹھا تھا۔
’’وہ مار دے گا اسے، وہ مار دے گا اسے… پلیز ہیلپ۔ کوئی بچاؤ اسے۔‘‘ وہ بھاگتے ہوئے ہذیانی انداز میں مسلسل بولتی جارہی تھی۔ دوسری طرف وارڈ میں موجود عسل کو اپنی زندگی کی ذرہ برابر بھی امید نہیں رہی تھی۔
اب ڈیوٹی روم میں موجود ڈاکٹر، دو وارڈ بوائے اور دیگر مریضوں کے ساتھ آنے والے افراد کا رخ روم نمبر 208کی طرف تھا۔
٭…٭…٭
سامی تھکے تھکے انداز میں گھر کے دروازے سے داخل ہوئی۔ چھوٹے سے صحن میں بیٹھی اس کی ماں دوپہر کے کھانے کے بعد برتن دھو رہی تھی۔
’’اماں آج کیا پکایا ہے؟‘‘ اس نے سلام دعالیے بغیر پوچھا۔
’’ماش کی پتلی دال بنائی ہے، خوب گھوٹا ہے۔‘‘ برتن دھوتی عورت نے تھکے تھکے لہجے میں ہی جواب دیا۔
’’نہیں کھاتی میں ماش کی دال، کبھی گوشت مرغی بھی بنا لیا کرو۔‘‘ ماں کے ہاتھ سے بنا کپڑے کا سیاہ بیگ پھینک کر وہ بدتمیزی سے بولی، تو ماں نے گھوم کر اس کی طرف دیکھا۔ صرف چوالیس سال کی عمر ہی میں اس کے چہرے پر جھریوں نے مکڑی کے جالوں کی طرح جال بُن دیا تھا۔
’’اپنے ابا سے کہنا وہ لادیں، میں تمہارے لیے بنادوں گی۔‘‘ ماں نے بغیر کسی غصے کے سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’ہونہہ! ابا سے کہو۔ اُنہیں خدمت خلق سے فرصت ملے تو گھر کو بھی دیکھیں نا۔ سارے جہان کا درد اُنہی کے جگر میں ہے، صرف ہم نظر نہیں آتے۔‘‘ وہ زہر خند لہجے میں بولتی گھر کے اکلوتے کمرے میں غائب ہوگئی۔
باہر موجود تھکی ہاری عورت کے چہرے کی جھریاں اور بھی گہری ہونے لگی تھیں۔
٭…٭…٭





’’بے شرمو! ذرا بھی شرم اور شکر گزاری نہیں ہے تم میں۔ اگر کھانے کو مل ہی گیا ہے، تو آپے میں رہ کر کھاؤ۔‘‘ جوان عمر عورت نے سامنے بیٹھے سات سالہ بچے کو پوری قوت سے تھپڑ مارا، تو باقی بہن بھائی سہم گئے۔ ’’اور تُو دوھوشی (آوارہ) اِدھر آ، یہ کپڑے نہیں پہنے گی؟ تیرا تو باپ بھی پہنے گا۔ تیری آنکھیں جو پھٹنے لگ گئی ہیں نا انہیں ڈھیلوں کے اندر فٹ کرنا آتا ہے مجھے۔‘‘ عورت کا رخ اب بارہ سال کی ایک لڑکی کی طرف تھا۔ لڑکی کے گھنے بال اس نے پوری طاقت سے اپنی مُٹھی میں جکڑے اور منہ اپنی طرف گھمایا۔ لڑکی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے۔ باقی بچے اپنی اپنی جگہ بیٹھے خوف سے یہ سب کارروائی دیکھ رہے تھے۔ جب سے وہ اس گھر آئے تھے تب ہی سے روز روز کی مار اور معمولی باتوں پر بے عزتی ان سب کا مقدر بن چکی تھی۔
اس عورت نے بچی کے بالوں کو ہاتھ میں پکڑ کر لگاتار جھٹکے دینا شروع کیے، تو وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگی۔
’’مما چھوڑ دے نا توشی کو، اب نہیں ضد کرے گی میں سمجھاؤں گا اسے۔‘‘ توشی نامی بچی سے دو سال بڑا لڑکا اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔
’’تُو ماں ہے اس کی…؟ تھانے دار لگا ہے گھر کا جو اسے عقل دے گا؟‘‘ خاتون اس لڑکے پر چلاّئی۔ اس کے ہاتھ کی گرفت لمحہ بھر کے لیے بچی کے بالوں پر ہلکی ہوئی تو موقع پاتے ہی وہ بھاگ نکلی۔ اس نے اندر کمرے میں گھس کر دروازہ لاک کرلیا تھا۔
توشی کا غصہ فادی پر اُترا۔ عورت نے اس کے بال جکڑ لیے۔
’’میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔ تیرے باپ کو تو ذرا بھی فکر نہیں ہے تیری۔ صرف پیدا کرکے میرے متھے مارنے کا شوق تھا اور تُو بہت ہم درد ہے اس کا۔ ساری ہم دردی ناک کے راستے نکالتی ہوں تیری۔‘‘
’’اس کے ہاتھ دھڑا دھڑ چل رہے تھے۔ چودہ سالہ فادی دانت پر دانت جمائے خاموشی سے مار کھا رہا تھا جب کہ باقی نفوس خاموشی کی تصویر بنے چپ کھڑے تھے۔ کوئی بھی بولنے کی جرأت نہیں کرپارہا تھا، ایسی جرأت کا انجام وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے عورت کے راستے میں وہ کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کررہے تھے۔
وہ عورت ان کی ماں تھی لیکن درپردہ ماں کے روپ میں انتہائی سخت گیر اور اذیت پرست عورت۔ یہ خوب صورت عورت صرف تیس سال کی تھی۔ تیس سال کی عمر میں اس کا سب سے بڑا بیٹا چودہ سال اور بیٹی بارہ سال کی تھی جب کہ سب سے چھوٹا بیٹا دو سال کا تھا۔ وہ سات بہن بھائی تھے۔ ایک بیٹی پچھلے سال ڈبل نمونیہ کا شکار ہوکر اس دنیا سے چل بسی تھی۔ لیکن تب بھی اس عورت کا دل موم نہ ہوا تھا۔ وہ اب بھی ویسی ہی دل کش، بے رحم اور اذیت پرست تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نازک اندام سات بچوں کی ماں ہے۔ وہ ماں جس سے وہ سب بہن بھائی خوف کھاتے تھے کیوں کہ وہ ان پر رحم نہیں کھاتی تھی۔
٭…٭…٭
سرجھکائے پلاسٹک کی چٹائی پر بیٹھے سامی سمیت سبھی لوگ کھانا کھا رہے تھے۔ اس کا بڑا بھائی آہستہ سے نوالہ چبا کر حلق سے اُتار رہا تھا۔ صرف اسی پر کیا موقوف باقی دو بھائی بھی ڈر ڈر کے ایسے ہی کھانا کھار ہے تھے جیسے روٹی شیشے کی بنی ہو۔ ابا کو کھانا کھاتے ہوئے کسی بھی قسم کی آواز پسند نہیں تھی۔ بڑے بھائی سلیمان کو چپڑ چپڑ کی آوازیں نکالنے پر کتنی بار مار پڑچکی تھی۔ ابا ویسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے دریغ مارنے کے عادی تھے۔ تینوں بھائی اور خود سامی بھی اپنے ابا سے بے تحاشا خوف کھاتی تھی۔ خاص طور پرسامی کو وہ آتے جاتے جس طرح گھورتے، اس کا دل چاہتا دنیا ہی سے غائب ہوجائے۔
تینوں بھائی زیادہ تر گھر سے باہر رہ کر ابا سے بچاؤ کرلیتے لیکن سامی لڑکی تھی، وہ ایک کمرے کے گھر سے نکل کر جاتی بھی تو کہاں جاتی۔ اس محلے میں سب انہی کی طرح معمولی کام کرنے والے خاندان آباد تھے۔ راولپنڈی کے نواح میں ریلوے لائن کے پاس ’’غریب آباد‘‘ کے نام سے یہ انتہائی پسماندہ کالونی تھی جہاں گندگی اور غلاظت کے ساتھ ساتھ بیماریاں اور غربت بھی عام تھی۔ بجلی چند سال پہلے اس کالونی میں آئی تھی اس سے پہلے لوگ مٹی کے تیل سے لالٹین جلا کر یا موم بتیوں کی مدد سے اپنے گھروں پر چھایا اندھیرا دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ بجلی آئی تو سب کی خوشی دیدنی تھی۔
شام ہوتے ہی گھروں کی لائٹیں جل اُٹھتیں۔ پوری کالونی میں مشکل سے چھے سات گھروں میں ٹی وی تھا۔ جہاں سامی کے تینوں بھائی ابا کے ڈر اور مار کے باوجود بھی ڈراما دیکھنے جاتے۔ شام پانچ سے چھے بجے کے دوران ٹی وی پر بچوں کے پروگرام دکھائے جاتے تھے جسے سلیمان سمیت باقی دونوں بھائی بھی بہت شوق سے دیکھتے۔ ان کا بس چلتا تو رات بارہ بجے فرمانِ الٰہی دیکھ کر ہی گھر آتے لیکن ابا کا خوف اور پلاسٹک کا پانی والا پائپ اس شوق میں رکاوٹ بن جاتا۔ آئے دن تینوں کو مار پڑتی۔ اماں ان کے نیل دیکھ دیکھ کر روتی۔ ابا پلاسٹک کے پائپ کے ساتھ انہیں بے دردی سے مارتے تھے۔ اماں میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ ان کا ہاتھ پکڑ سکتیں کیوں کہ وہ اماں پر بھی اتنے مہربان نہیں تھے۔ بے بس اور کمزور عورت رونے کے سوا کیا کرتی۔ تینوں بھائی اسکول سے آکر ابا کے گھر آنے سے پہلے پاس پڑوس کے گھروں میں ٹی وی دیکھنے چلے جاتے۔ آخر اماں نے پائی پائی جوڑ کر اور کمیٹی ڈال کر چودہ انچ کا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لے لیا۔
اُس دن سامی سمیت تینوں بھائی زندگی میں غالباً پہلی بار بہت خوش تھے کیوں کہ جن گھروں میں وہ ٹی وی دیکھنے جاتے تھے وہاں کے افرادِ خانہ خاص طور پر عورتیں ٹی وی کے بہانے گھر کے بہت سے کام بھی کروالیتی تھیں جو وہ خوشی خوشی کرتے۔ اب ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر آرام سے ٹی وی دیکھ سکتے تھے۔ سلیمان بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اسے انگلش ٹی وی سیریز ’’دی فال گائے‘‘ ’’نائٹ رائیڈر‘‘ اور ’’ائیر وولف‘‘ بہت پسند تھی جب کہ اماں پنجابی ڈراما جو ساڑھے پانچ بجے لگتا تھا بہت شوق سے دیکھتی تھی۔ رات آٹھ بجے لگنے والا ڈراما تو ان سب کو ہی بہت پسند تھا۔
کبھی کبھی ٹی وی دیکھتے ہوئے ابا کا موڈ خوش گوار ہوتا تو پورا گھر سکون کا سانس لیتا، لیکن یہ سکون بخش لمحات عارضی ہوتے تھے۔ رات نو بجے کا خبرنامہ دیکھنے کے بعد ٹی وی ابا خود بند کرتے اور غصے میں سونے کا بولتے۔ اس کے بعد کسی کو چوں بھی کرنے کی مجال نہ ہوتی۔
ابا سوزوکی چلاتے تھے جس دن کام زیادہ ہوتا یا انہیں دوستوں سے ملنے جانا ہوتا وہ دن مثل عید ہوتا۔ وہ سب اماں سمیت آزادی سے ٹی وی دیکھ سکتے تھے۔ بلکہ اس دن اماں اپنا کالے رنگ کاریڈیو ٹرنک سے نکال کر رات دس بجے والا فرمائشی گیتوں کا پروگرام سنتیں۔ انہوں نے اپنے ریڈیو کو بہت پیار سے غلاف پہنا رکھا تھا۔ اماں نے اس کا کروشیے کا غلاف اپنے ہاتھ سے بنایا تھا۔ گیتوں کا پروگرام سنتے ہوئے وہ خود بھی گنگناتیں۔ رونا لیلیٰ، نور جہاں، ناہید اختر، احمد رشدی، مہدی حسن اور مالا بیگم کے سب گانے انہیں ازبر تھے۔ بات صرف اسی پر موقوف نہیں، انہیں محمد علی اور وحید مراد کی فلمیں بھی بہت پسند تھیں۔ انہیں دونوں اداکاروں کی فلموں کے نام اور مکالمے تک یاد تھے، تو ادکارہ رانی کے فلمی پہناوے ان کی حسرت تھی لیکن ابا بہت سخت تھے۔ ان کی یہ حسرت ہی رہی۔
شادی کے بعد وہ آگے سے دو پردوں والا برقع اوڑھتی تھیں۔ سامی نے جو نہی قد نکالا اسے بھی برقع پہنا دیا گیا۔ تینوں بھائی سامی کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ درمیان والا اسے اسکول چھوڑنے اور لانے خود جاتا۔ وہ اس پر کڑی نگاہ رکھتا تھا۔ سامی بھائیوں سے سخت خوف کھاتی تھی، جیسے وہ بھائی نہیں جلاد ہوں۔
جب وہ بیٹھی ڈراما دیکھ رہی ہوتی تب بھی ابا اور درمیان والا بھائی اسے ایسے گھورتے جیسے کچا چبا جائیں گے۔
کھانا آج بغیر کسی بدمزگی کے کھایا گیا۔ ابا تنکے سے دانتوں میں خلال کرتے ہوئے کچھ سوچ رہے تھے۔ انہوں نے باری باری بیوی بچوں کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ پھر فیصلہ کن انداز میں بیوی کی طرف مڑتے ہوئے بولے۔
’’سکینہ میرا ایک جاننے والا کل اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ آرہا ہے۔ بے چارہ بہت پریشانی میں ہے۔ ضرورت مند اور پریشان حال ہے۔ ہمارے گھر رہیں گے جب تک ان کا کوئی اپنا انتظام نہیں ہوجاتا۔‘‘ بالآخر ابا نے بلی تھیلے سے باہر نکال ہی دی۔
’’مرد کو میں مولوی صاحب کے حجرے میں ٹھہرا دوں گا جب کہ اس کی بیوی اور دوبچے گھر میں ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ’’ابا آہستہ آہستہ بول رہے تھے۔ اماں بے چاری بے بس انداز میں سرہلارہی تھیں۔ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ ان کے مجازی خدا آئے دن کسی نہ کسی پریشان حال ضرورت مند کو گھر لے آتے۔ وہ کل ایک کمرے کا مکان تھا۔ درمیانے سائز کا ایک کمرا تھا جس کے اماں نے تین حصے کردیے تھے۔ ایک حصے میں وہ سب زمین پر چٹائی بچھا کر سوتے تھے جب کہ ایک حصے کو اماں نے کچن اور باقی کو اسٹور کی صورت دے رکھی تھی۔ وہ بہت سلیقہ مند تھیں۔ پیسے جوڑ جوڑ کر پہلے انہوں نے ٹی وی اور پھر چھت والا بجلی کا پنکھا خریدا تھا۔ بڑی مشکلوں کے بعد پیٹ کاٹ کر مختصر سے چند گز والے صحن کے لیے اماں نے ایک بان کی چارپائی بھی لے لی تھی۔ یہ بان کی چارپائی ایک نعمت تھی اور اس نعمت کو استعمال کرنے کی باری مقرر تھی۔ وہ بہن بھائی باری باری اس پر سوتے تھے۔ جب وہ چاروں اسکول اور ابا کام پر ہوتے تب اماں کھلے صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹ کر دھیمی آواز میں ریڈیو پر فرمائشی گانے سنتیں اور زیرِلب خود بھی گنگناتیں۔
محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
انڈین گانے انہیں اتنے زیادہ پسند نہ تھے۔ پاکستانی فلمی موسیقی میں ان کی جان تھی لیکن ابا کو یہ سب پسند نہیں تھا اس لیے اماں نے اپنا ریڈیو تک چھپا کر رکھا ہوا تھا۔
’’مہمانوں کی خوب خاطر خدمت کرنا سکینہ۔ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ ابا ہدایات دے کر فرشی بستر پر دراز ہوچکے اور کمرے کا اکلوتا بلب بجھ چکا تھا۔
سامی اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ مہمانوں کی آمد کا سن کر اس کا جی بُرا ہورہا تھا، لیکن اماں کا سوچ کر اسے افسوس بھی ہورہا تھا۔ بے چاری اماں کی مصروفیت اور بڑھ جانی تھی۔ تینوں بھائی بھی ناخوش تھے۔ سلیمان کو خاص طور پر بہت تاؤ آرہا تھا۔ ایک کمرے کے گھر میں تین مزید نفوس کی گنجائش کیسے نکالی جائے گی، وہ یہی سوچ رہا تھا۔
سامی اور سلیمان کی سوچ ایک ہی نقطے پر مرتکز تھی۔ اس لیے دونوں بہت دیر سے سوئے۔ صبح جمعرات تھی اور اسکول بھی لازمی جانا تھا۔ نہ جاتے تو ابا نے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دینا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Read Next

قرض — وقاص اسلم کمبوہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!