ناتمام — نبیلہ ابر راجہ

اللہ یار رات کو مولوی صاحب کے حجرے میں تھا۔ سامنے چائے کے دو کپ دھرے تھے۔ اللہ یار نے مولوی صاحب کو سامی کے لیے طارق کے رشتے کا بتایا تھا۔ تب سے وہ گہری سوچ میں غرق تھے۔ ’’اللہ یار! لڑکا کافی زیادہ ہے عمر میں سامی بیٹی سے۔‘‘
’’مولوی صاحب ہم غریب لوگ ہیں۔ یہاں طارق جیسا رشتہ بار بار آنے سے رہا۔ پھر مرد کی عمر کو کیا دیکھنا اس کی کمائی دیکھی جاتی ہے۔‘‘ اللہ یار نے کندھے جھٹک کر تلخی سے کہا۔
’’اللہ یار تمہاری بیٹی بہت چھوٹی ہے۔ اس میں باغی روح ہے۔ تم باپ ہوکر بھی اسے نہیں سمجھ پائے۔ میں نے تین سال قرآن پاک پڑھایا ہے اسے۔ اللہ کے فضل سے دل کی آنکھ روشن ہے میری۔ یہ لڑکی تمہارے لیے بہت دشواریاں پیدا کرے گی۔ اسکول ماسٹر کے رشتے کی مثال تمہارے سامنے ہے۔ ’’آنے والے برے وقت سے بچو۔‘‘ مولوی صاحب کے انداز میں جاہ و جلال کی خاص جھلک تھی۔ اللہ یار تو اندر تک لرز گیا۔ مولوی صاحب جیسا قابل احترام قابل عزت شخص یہ باتیں کررہا تھا جن کی سنگینی اپنی جگہ مسلم تھی۔
’’مولوی صاحب میں کیا کروں؟‘‘ اب وہ بچے کے مانند معصوم اور لاچار نظر آرہا تھا۔‘‘ میں استخارہ کروں گا تین دن۔ تم اس دوران سامی سے کسی قسم کی کوئی بات مت کرنا۔ باقی گھر والوں کو بھی منع کردو۔ ورنہ نقصان کے خود ذمہ دار ہوگے۔‘‘ مولوی صاحب آپ جیسا کہیں گے وہی ہوگا۔
مولوی صاحب کے حجرے سے نکل کر جب وہ گھر جارہے تھے، تو ان کے قدم جیسے من من بھر کے ہو گئے۔ انہیں پچھتاوا ہورہا تھا کہ سامی کے پیدا ہوتے ساتھ ہی اسے زندہ کیوں نہ گاڑ دیا۔ کاش مولوی صاحب نے انہیں ابھی کچھ نہ کہا ہوتا، تو گھر جاکر وہ سب سے پہلے سامی کا گلا دباتے۔
اس کی پیدائش پر وہ خوش نہیں ہوئے تھے۔ سامی کی پیدائش سے لے کر اب تک ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جب انہیں بیٹی نامی عفریت سے ذرہ بھر بھی خوشی نصیب ہوئی ہو۔ دُنیا میں بس ان کا بوجھ بڑھانے آگئی تھی۔ ان کا بس چلتا، تو اس کے بوجھ سے دنیا ہی کو نجات دلادیتے۔ جانے مولوی صاحب نے مستقبل میں کن دشواریوں کا ذکر کیا تھا جو انہیں سامی کی وجہ سے پیش آنے والی تھیں۔ کچھ بھی ہو مولوی صاحب کے استخارے تک انہیں انتظار کرنا تھا۔
٭…٭…٭
پھوپھی عائشہ کو سوفی صد یقین تھا کہ بھائی، بھابی اسے انکار نہیں کریں گے۔ اسی وجہ سے اس نے طارق کو پاکستان آنے کا کہہ دیا تھا۔ طارق اپنے ساتھ شادی کے لیے ضروری لوازمات اور ہونے والی دُلہن کے لیے تحائف بھی لارہا تھا۔ باقی چیزیں پھوپھی عائشہ اپنے ساتھ لے آئی تھیں۔ اس نے ابھی تک ملنے جلنے والوں میں ساتھ لائے تحائف تقسیم نہیں کیے تھے۔ اسے اُمید تھی یہ سب ہونے والی بہو کے کام آئیں گے۔ اس لیے سنبھال کر الگ کرلیے گئے تھے۔
تین تین ریال کی رنگ گورا کرنے والی کریمیں، لوشن، سکرب، چائنا کے سینڈل، پانچ پانچ ریال کے پرس، ہلکی کوالٹی کے کلپ، گولڈ پلٹڈ، سونے کی چوڑیاں، سستے نقلی پرفیوم، گھڑیاں اور ایسی کتنی ہی چیزیں تھیں جن پر پاکستان میں رہنے والے سب رشتہ دار مرتے اور دن گن گن کر عائشہ کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔ یہ سب چیزیں اب سامی کی ملکیت بننے جارہی تھیں۔ وہ سامی جس کو پھوپھی عائشہ کے آنے کے بعد ان کی کسی لائی ہوئی سوغات سے دلچسپی نہیں رہی تھی حالانکہ پہلے اپنے تحائف میں اس کی جان تھی۔
٭…٭…٭





مولوی صاحب نے استخارے کے لیے پورا ہفتہ انتظار کروایا تھا۔
’’میں نے محلے کی بچیوں کی دینی اصولوں پر تربیت کے لیے خاتون عالمہ کا انتظام کیا ہے۔ وہ دو سے تین دن میں مدرسے کا انتظام و انصرام سنبھال لیں گی اور بچیاں بھی درس سے فیض یاب ہونے کے لیے آئیں گی۔ اللہ یار تم سامی کو بھی بھیجنا۔ دیکھنا اس کی ذہنی کایا کیسے پلٹے گی۔ آج کل کے ماحول نے بچیوں کو اسلام اور اپنے دین سے بہت دور کردیا ہے۔ ہفتے میں تین دن بچیوں اور دو دن عورتوں کے لیے درس ہوا کرے گا۔ تمہارے مسئلے کا یہ سب سے بہترین حل ہے۔ سامی ہنسی خوشی شادی کے لیے راضی ہوجائے گی اور اپنے سسرال سدھارے گی۔‘‘ مولوی صاحب حسب معمول تاثر انگیز دل نشین لہجے میں بات کررہے تھے۔
اللہ یار نے کسی مقدس ہستی کے مانند ان کی باتوں کو دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کرلیا۔
جس سامی کو قرآنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسے جانے کی اجازت نہیں ملی تھی اسے بہت خوشی اور عزت کے ساتھ درس کے لیے مولوی صاحب کے مدرسے روانہ کیا گیا۔ اللہ یار اسے خود دروازے تک چھوڑ کر گیا تھا۔ ہفتہ وار درس کی محفل تھی۔
سامی اندر داخل ہوئی تو کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا سوائے مولوی صاحب کے۔ وہ جیسے اسی انتظار میں تھے۔
’’میں نے اللہ یار سے تمہیں یہاں بلوانے کے لیے بڑی مشکل سے اجازت لی ہے۔ تمہیں نوید سے ملوانے کے لیے۔‘‘ انہوں نے بڑی چالاکی سے ترپ کا پتہ پھینکا تھا۔ سامی چال سمجھ نہ پائی۔ آنکھوں پر ناسمجھی و نادانی کی پٹی بندھی تھی۔ کچی عمر کے اپنے دکھ اپنے روگ تھے۔
’’مولوی صاحب میں بہت دُکھی ہوں ابا نے بہت ظلم کیا ہے میرے ساتھ۔ سرنوید نے رشتہ بھیجا اس میں میرا کیا قصور تھا۔ میں نے تو انہیں ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا۔ پھر کاظم بھائی نے سرنوید کو دوستوں کے ساتھ مل کر بہت مارا۔ مجھے بھی مارا۔ میرا دل کرتا ہے۔خودکشی کرلوں۔ ایسی زندگی سے موت اچھی ہے میرے لیے۔‘‘
سامی بھری بیٹھی تھی۔ مولوی صاحب اس بپھرے سمندر کے آگے بند باندھنا چاہتے ہی نہیں تھے۔ ’’واقعی اللہ یار نے اچھا نہیں کیا۔ بیٹی بھی تمہارے جیسی اتنی پیاری اور معصوم اس پر بھلا کون ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ اسلام میں عورت کے بہت حقوق ہیں۔ اسے ہر روپ میں عزت دی گئی ہے۔ عورت کسی طرح بھی تذلیل کے لائق نہیں۔ ہمارے مذہب میں عورت کو بہت آزادی دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ شادی جیسے اہم معاملے میں بھی بیٹی کی مرضی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔‘‘
مولوی صاحب سامی کو گھیر رہے تھے اور وہ گھیرے میں آتی جارہی تھی۔
’’آپ ابا کو کیوں نہیں سمجھاتے؟‘‘ وہ رو پڑی۔ ’’اس نے اپنی بہن کے بیٹے سے تمہارا رشتہ طے کردیا ہے اور وہ بہت جلد شادی کرنے والا ہے تمہاری۔‘‘ مولوی صاحب اب اسے ڈرا رہے تھے۔
’’پھر میں کیا کروں؟‘‘ وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔ ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ انہوں نے سامی کو ٹٹولا۔ ’’میں اپنی پھوپھی کے بیٹے سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ تو پھر تم نوید اسکول ماسٹر کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘ اس بار وہ محض سر ہی ہلاسکی۔
’’دیکھو یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔تمہارا ماسٹر کے ساتھ کسی طرح کا رابطہ نہیں ہے۔ نہ تمہیں اس کے گھر بار کا پتا ہے۔تم گھر سے نکلوگی، تو اللہ یار اور تمہارا بھائی ٹکڑے کردے گا تمہارے۔ بہت ظالم ہیں وہ۔ اللہ یار تو تمہیں جان سے مارنا چاہتا ہے۔ میرے پاس آیا تھا۔ میں نے مشکل سے روکا ہے اسے۔‘‘
سامی کا چھوٹا سا دل دھک دھک کرتا جیسے اس کے کانوں کو پھاڑنے لگا تھا۔ ’’مولوی صاحب آپ میری مدد کریں۔‘‘ چڑیا پنجرے میں پھنسنے کے لیے آرہی تھی۔ اس سنہرے موقعے کا کب سے انتظار تھا اُنہیں۔ ’’تمہاری مدد کرنے کے لیے ہی تو تمہیں یہاں بلوایا ہے۔ تمہارے گھر آکر میں یہ سب نہیں کرسکتا تھا۔ یہاں کس مشکل سے تمہیں بلایا ہے تمہیں نہیں پتا۔ ابھی تھوڑی دیر میں استانی صاحبہ آنے والی ہیں درس کے لیے۔ ان کے سامنے مودب رہنا۔ میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا کہ کیسے کرنا ہے۔‘‘ انہیں اچانک استانی صاحبہ یاد آگئی تھیں۔ سامی جی بھر کر روئی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پر لگا کر گھر جیسے قفس سے اُڑ جائے۔
تم گھر جاکر کسی طرح نوید ماسٹر کے نام خط لکھ کر لانا۔ میں اس کے اسکول جاکر اس کے گھر کا پتا معلوم کرلوں گا۔ پھر تمہارا خط اور حال اس تک پہنچادوں گا۔‘‘ اُمیدوں کا سنہرا چمکتا دمکتا در پوری قوت سے واہوا تھا۔ مولوی صاحب اس کے نجات دہندہ تھے اور وہ خواہ مخواہ انہیں غلط سمجھتی رہی۔ استانی صاحبہ کے آنے سے پہلے وہ آدھا گھنٹا ان کے ساتھ اکیلی رہی تھی، لیکن انہوں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی جس سے سامی کو غصہ آتا۔
مولوی صاحب فرشتہ تھے فرشتہ۔ اس نے اس عقیدت کااظہار نم آنکھوں کے ساتھ کیا۔
’’مولوی صاحب مجھے معاف کردیں۔ میں اتنا عرصہ آپ کی طرف سے بدگمان رہی۔ مجھے کیا پتا تھا آپ توانسان کے بھیس میں فرشتہ ہیں میرے لیے۔‘‘ سرجھکائے ایک بار پھر وہ روتی ہوئی شرمسار ہوگئی اور پاس بیٹھے ’’شیطان‘‘ نے ایک معنی خیز مسکراہٹ سے سامی کی طرف دیکھا۔
٭…٭…٭
سامی نے سب حالات قلمبند کرکے خط مولوی صاحب کے حوالے کردیا جو انہوں نے ماسٹر نوید تک فوراً پہنچایا اور جواب بھی لے آئے۔ سامی کو مدرسہ جاتے ہوئے ایک ہفتے سے اوپر ہوگیا تھا اور مولوی صاحب اس کی مدد کرنے کے لیے بڑی دوڑ دھوپ کررہے تھے۔
پھوپھی عائشہ کا بیٹا طارق پاکستان پہنچ چکا تھا۔ بظاہر سامی کے گھر میں شادی والے کوئی حالات نہیں تھے، لیکن اس کا دل دہلا جارہا تھا۔ مولوی صاحب نے سامی کے ساتھ مل بیٹھ کر پورے منصوبے کا ہر ہر پہلو سے جائزہ لیا تھا۔
٭…٭…٭
’’ماسٹر نویدبالکل تیار ہے۔ وہ تم سے ملنے کے لیے یہاں مدرسے میں آنے کی ضد کررہا تھا، لیکن میں نے منع کردیا۔ اس کے لیے خطرہ ہے۔ ایسا نہ ہو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے اور کل کو روتی پھروتم۔‘‘ مولوی صاحب سامی کے چہرے پر نظریں جمائے ایک ایک لفظ ناپ تول کر بول رہے تھے۔ ’’آپ نے اچھا کیا جو منع کردیا۔ ‘‘ اس نے مولوی صاحب کی تائید کی۔
’’کل تم نے پوری تیاری سے آنا ہے۔ میں نے ماسٹر نوید کے ساتھ مل کر گواہوں کا بندوبست بھی کرلیا ہے۔ نکاح کرتے ساتھ ہی وہ تمہیں لاہور لے جائے گا۔ اس نے وہاں گھر بھی خرید لیا ہے۔ دُلہن بننے کے بعد مجھے بھول مت جانا۔ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر تمہارا اور ماسٹر نوید کا ساتھ دے رہا ہوں۔ صرف اور صرف اس لیے کہ تمہیں ظلم سے بچا سکوں۔ ہمارے مذہب کی بھی یہی تعلیمات ہیں کہ مظلوم کا ساتھ دو۔ ظالم کا ہاتھ روکو۔‘‘ مولوی صاحب ایک جذب کے عالم میں بول رہے تھے۔ ’’مولوی صاحب وہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن کوئی خطرہ تو نہیں ہے؟‘‘ سامی نے یہ سوال پانچویں بار پوچھا تھا۔ مولوی صاحب نے پانچویں بار بھی جواب رسان اور نرمی سے دیا۔ ’’خطرہ کیسا۔ تم دونوں کے نکاح کے انتظامات مکمل ہیں۔ اللہ یار کل اندرون پنجاب جارہا ہے کسی کام سے کاظم بھی اس کے ساتھ ہوگا۔ باقی تمہارے دونوں بھائیوں سے ہمیں یا تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تم روز دو گھنٹے کے لیے مدرسے آتی ہو۔ میں نے کل تمہاری خاطر بہانہ بناکر مدرسے کا وقت تبدیل کردیا ہے۔ تم جلدی آجانا۔ کم سے کم تین چار گھنٹے تک تمہاری گمشدگی کا کسی کو علم نہیں ہوگا۔ جب علم ہوگا تب تک تم ماسٹر نوید کی منکوحہ بن کر لاہور کے لیے نکل چکی ہوگی۔‘‘ انہوں نے اسے حوصلہ دیا۔
’’لیکن مولوی صاحب آپ کا کیا ہوگا۔ میری گمشدگی کے بعد ابا اور بھائیوں کا پورا شک آپ پر ہوگا۔ آپ کیا کریں گے؟‘‘ پہلی بار سامی نے اپنے سے ہٹ کر کوئی بات کی تھی۔ مولوی صاحب کو اپنے لیے اس کی فکر مندی بہت اچھی لگی۔ ’’میری فکر مت کرو۔ اپنی آیندہ آنے والی زندگی کے بارے میں سوچو۔ بہت سی خوشیاں تمہارا انتظارکررہی ہیں۔ ماسٹر نوید کے ساتھ خوشی خوشی جاؤ۔ میں سب سنبھال لوں گا بلکہ دیکھنا شادی کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی صلح کروادوں گا۔ بس ایک بار شادی ہوجائے پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کوئی کچھ نہیں کرسکے گا۔ میں ہوں نا۔‘‘
خوش فہمی کے سبز باغوں کی سیر سامی کا مقدر بننے والی تھی۔ مولوی صاحب تو مہان ہستی تھے۔ وہ خواہ مخواہ ہی آنے والے کل کی فکر کررہی تھی۔ اس کے لیے یہ احساس ہی خوش کن تھا کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کچھ بھی سہی اسے اماں، سلیمان اور چھوٹے بھائی سے بہت محبت تھی۔ وہ ان کے ساتھ رابطے بحال رکھنا چاہتی تھی۔
آزادی کے خوش کن تصورات، ماسٹر نوید کے ساتھ شادی اور گھر سے بچھڑنے کا تصور اتنا دل گیر تھا کہ پوری رات اسے نیند ہی نہیں آئی، لیکن ان سب میں اپنی ذاتی اور شخصی آزادی کا احساس باقی ہر احساس پر حاوی تھا۔
ابا اور کاظم بھائی گھر پر نہیں تھے وہ آج ہی پنجاب گئے تھے۔ ان کی واپسی دو تین دن بعد ہونی تھی۔رات فرمان الٰہی کے بعد جب سلیمان نے ٹی وی بند کیا، تو وہ تب بھی جاگ رہی تھی۔ باہر سے آتی چاند کی ملگجی روشنی میں کمرے میں سوئے نفوس کے چہرے دھندلے دھندلے نظر آرہے تھے۔ سارے دن کی تھکی ہاری سکینہ ایک کونے میں سکڑی سمٹی پڑی سو رہی تھی۔ سلیمان ماں کے دائیں ہاتھ پر اور اس کے ساتھ ہی چھوٹا بھائی سو رہا تھا۔ آنسوؤں کے کتنے ہی نمکین قطرے اس کے گالوں سے پھسلتے تکیے میں جذب ہوگئے۔
٭…٭…٭
مدرسہ خالی ڈھنڈار پڑا تھا۔ سوائے سامی اور مولوی صاحب کے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ انہوں نے مدرسے کی بچیوں کو شام تین بجے کا وقت دیا تھا جبکہ سامی صبح نو بجے ہی مدرسے میں موجود تھی۔ پاس پڑوس کے سب مرد اپنے اپنے کاموں پر تھے۔ سامی بہت احتیاط کے ساتھ سب کی نظروں سے بچ بچا کر مدرسہ پہنچی تھی۔ مبادا کوئی مدرسے کی بچی پوچھ لے کہ تم کہاں جارہی ہو آج تو مولوی صاحب نے شام تین بجے بلایا ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Read Next

قرض — وقاص اسلم کمبوہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!