ناتمام — نبیلہ ابر راجہ

’’اماں کھاؤ اللہ کی قسم۔‘‘ مما نے یقین نہ آنے والے انداز میں کہا۔ ’’مجھے اللہ کی قسم ہے سامی، میں اپنے سوہنے نبی پاکﷺ کے دیس میں بیٹھی ہوں۔ تمہارے اس مشکل وقت میں جھوٹ کیوں بولوں گی۔‘‘
اماں تفصیل بتاتے ہوئے رو رہی تھیں’’ماسٹر نوید بڑا پولیس افسر بن گیا تھا۔ تیرے ابا کا ایک بس والے سے شدید جھگڑا ہوا گیا۔ ایک بندہ مرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ تیرے ابا کو پولیس پکڑ کرلے گئی۔ ماسٹر نوید اسی تھانے میں تعینات تھا۔ اس نے اس سارے معاملے میں تیرے ابا کی بہت مدد کی۔ وہ تو اس کا شکر گزار ہورہا تھا۔ پرانی باتیں چھڑیں تمہارا ذکر آیا، تو ماسٹر نوید نے بتایا کہ سامی بہت بھولی اور معصوم لڑکی تھی، اسے پڑھنے کا شوق تھا۔ تین ماہ کی فیس کی ادائی نہ ہونے پر کلاس میں اداس اور روہانسی بیٹھی تھی تو میں نے پوچھا اور پھر اس کی پریشانی دور کردی تاکہ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکے۔ سامی کی شرافت اور معصومیت نے اسے اپنا رشتہ بھیجنے پر مجبور کیا تاکہ وہ اپنی پڑھائی کا خواب پورا کرسکے۔ اس میں ماسٹر نوید کی بدنیتی شامل نہیں تھی۔ اللہ یار اتنا شرمندہ تھا کہ آنکھیں ہی نہیں اٹھا پار ہا تھا۔ پھر مولوی کی بھی حقیقت کھل گئی۔ اخبار والے آئے تھے تصویریں بنی تھیں۔ اخبار میں مولوی کی فوٹو کے نیچے شیطان لکھا تھا۔ میں نے اللہ یار کو آخری وقت میں، سب بتادیا تھا کہ ہماری معصوم سامی کو بھی مولوی نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ اللہ یار روتے روتے مرا کہ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ میں مولوی کا گلا اپنے ہاتھ سے کاٹتا۔
مولوی کو جب پیشی کے لیے عدالت لے جارہے تھے، تو اسے جمیلہ کے باپ اور بھائیوں نے گولیاں مار کر ختم کردیا۔ اس بات کا اللہ یار کو قلق تھا کہ کاش جمیلہ کے باپ اور بھائیوں کی جگہ میں خود ہوتا۔ تیرا باپ تجھے یاد کرتے کرتے موت کی گود میں اترا۔
سامی ایک بار تُو پلٹ کر دیکھتی۔ ہم نے تجھے کس کس طرح پکارا، کیسے کیسے یاد کیا۔ تیری شکل تیری آواز کو ترستے رہے۔ میری سامی کوئی ایسے بھی ناراض ہوتا ہے بھلا… نانی سے بولا ہی نہیں جارہا تھا۔
تب میں نے دیکھا۔ مما نے دعائیہ انداز میں دونوں ہاتھ چھت کی طرف اُٹھائے۔ ’’اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ میں اب آرام سے مرسکوں گی۔‘‘ ایسا دل چیر کر رکھنے والا تشکرانہ انداز تھا۔ میں اٹھ کر مما کے بیڈ کے پاس چلا گیا۔ مما نے مسکراتے ہوئے اپنے کمزور سوکھے پتلے پتلے استخوانی ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’تمہارے پیدا ہونے پر میں بہت خوش ہوئی تھی، تم جوں جوں بڑے ہوتے گئے میری خوشی، میری اُمیدیں بڑھتی گئیں۔ تم میرا سہارا میرا دائیں بازو تھے۔ تم نے اپنے بہن بھائیوں کو سنبھالنے میں ہمیشہ میری مدد کی۔ تم نہ ہوتے تو میں بہت مشکل میں ہوتی۔ تم نے ایک بیٹی کی طرح میری مدد کی۔ اس لیے میں نے بے فکر ہوکر زندگی گزاری۔ ہر سال ایک نونو میری گود میں آجاتا تھا۔ میں بیٹھ کر روتی تھی، لیکن تم نے میرا آدھا بوجھ بانٹا تھا۔ میرے بیٹے میرے فادی…‘‘
میں رو رہا تھا۔مجھے رونا ہی تھا۔ میں تو ساری حقیقتوں سے واقف تھا۔ پھر بھی میں نے مما کے ساتھ ایسا سلوک کیا…؟
٭…٭…٭





نانی کو یہاں آئے تیسرا دن تھا۔
نومبر کی تیس تاریخ تھی۔ آسمان کالے بادلوں سے چھپ گیا اور گاہے گاہے بجلی کڑک رہی تھی۔ جدہ میں سالوں بارش نہیں ہوتی، لیکن آج آسمان کے تیور بتارہے تھے کہ وہ کھل کر برسے گا۔
’’فادی کھڑکی کھول دو۔ مجھے بادل دیکھنے ہیں آسمان دیکھنا ہے۔‘‘ مما نے کمزور سے لہجے میں کہا۔ ان کا سرنانی کی گود میں تھا۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ سائیں سائیں کا شور پورے کمرے کو لپیٹ میں لے چکا تھا۔
’’اماں آپ کویاد ہے نا مجھے بارش کتنی پسند ہے۔ مجھے بادل کتنے اچھے لگتے ہیں۔ پاکستان میں کتنی بارشیں ہوتی تھیں۔ میرا دل کرتا تھا گلی کی نکڑ پر کھڑے ہوکر بھیگوں، پرندوں کی طرح نیلے آسمان پر اُڑوں۔ مجھے سانس لینے کے لیے مٹھی بھر تازہ ہوا درکار تھی۔ بس اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ اماں کیا میری خواہش میری ضرورت بہت بڑی تھی؟‘‘ مما نے آخری بار سوالیہ انداز میں نانی کی طرف دیکھا۔ اف میں دہل گیا تھا۔ مما کی آنکھوں میں اتنا درد، اتنا دکھ اور اتنا غم تھا جو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ’’نہیں میری سامی تیری خواہش بہت چھوٹی تھی، بالکل تیرے جیسی ننھی منی سی۔‘‘ نانی نے مما کے ماتھے کو چوما۔
اچانک مما کا چہرہ تکلیف کی شدت سے لال ہوگیا۔ ان کے ہاتھ اپنے گلے پر تھے۔ انہوں نے بہت تکلیف کے ساتھ سانس لی۔ میں ڈاکٹر کو بلانے کے لیے لپکا پر مما نے روک دیا۔ آسمان پر چھائے بادلوں کا رنگ اور بھی گہرا ہوگیا تھا۔ بارش کی موٹی موٹی بوندیں پیاسی دھرتی کو سیراب کرنے لگی تھیں۔ ’’فادی مجھے کھڑکی کے پاس چیئر رکھ دو۔‘‘ مما نے فرمائش کی۔میں نے انہیں اُٹھا کر چیئر پر بٹھایا۔ انہوں نے اپنا ہاتھ کھڑکی سے باہر نکالا جو بھیگ گیا۔ ان کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت تھی۔ ’’اب میں جتنی بھی سانسیں لوں گی نا، تازہ ہوا میں لوں گی۔ میری روح آزاد ہوگئی ہے۔‘‘ مما نے آخری بار مجھے اور نانی کو دیکھا۔
٭…٭…٭
مما کی روح برستی بارش میں کھلے آسمانوں سے بھی اُوپر پرواز کرگئی۔ مما کو دیارغیر کی مٹی نصیب ہونا تھی اس لیے ان کی تدفین یہیں عمل میں لائی گئی۔ نانی کی حالت بہت خراب تھی۔ رو رو کر ان کا گلا بیٹھ گیا ۔ ان کے منہ سے میری سامی میری سامی کے سوا اور کوئی لفظ ہی نہیں نکل رہا تھا۔
اوپر والے سے شاید ان کی یہ بے قراری دیکھی نہیں گئی۔ ٹھیک چھٹے دن وہ بھی اپنی بیٹی کے پاس چلی گئیں۔ ستائیس سال کی طویل جدائی کے بعد دونوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مل گئیں۔ ماما اور نانی کی قبریں قریب قریب تھیں۔ اِدھر ہم سب کا جو حال تھا وہ صاحب دل اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں، لیکن جو حسد میرے دل کے اندر بپا تھا، اسے صرف میں ہی جانتا تھا۔
میں نے مما کے ساتھ بہت بُرا کیا تھا۔
میں ہر چیز، ہر جذبے اور ہر دکھ کو گہرائی کے ساتھ محسوس کرتا تھا۔ میں مما سے صرف سترہ سال چھوٹا تھا۔ اب مجھے سب یاد آرہا ہے۔ مما بہت پیار کرتی تھیں میرے ساتھ۔ میں ناسمجھ تھا بہت ساری باتوں کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتا تھا، لیکن مما کو جب بھی رونا ہوتا، وہ میرے بالوں میں منہ چھپا کر روتیں۔ ’’فادی دیکھو نا سب مجھ سے لڑتے ہیں۔ تمہاری پھوپھیاں ہر وقت مجھے برا بھلا کہتی ہیں۔ انہیں تمہارے بابا کے لیے پیسے والی بھابی چاہیے تھی۔ میرے ابا کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہے۔ اتنی مشکل سے تو وہ گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ پھوپھی کو تو ہمارے گھر کا سارا علم تھا۔ انہوں نے خود تمہارے بابا کے لیے میرا رشتہ مانگا تھا۔‘‘ وہ چھوٹی چھوٹی سب باتیں مجھ سے کرتیں۔ میں سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ ٹکر ٹکر ان کی صورت تکتا۔ وقت تھوڑا آگے سرکا۔ ’’فادی تمہارے بابا اتنا لیٹ گھر آتے ہیں۔ ان کے پاس ہمارے لیے وقت نہیں ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ وہ ہمیں اپنی گاڑی میں باہر لے کر جائیں۔ ہم ان کے ساتھ مکہ مدینہ جائیں۔ خوب گھومیں پھریں۔ میں جب یہ کہتی ہوں، تو وہ میرے ساتھ لڑتے ہیں۔ میں کیا کروں؟‘‘ وہ معصوم انداز میں ایسے یہ سوال کرتیں، جیسے میرے پاس اس کا جواب ہوگا۔
’’فادی میں چھوٹے نونو کو سنبھال نہیں پاتی۔ تمہارے پاس بٹھا کر جاتی ہوں۔ تم بس ا س کے پاس بیٹھ جاؤ، میں کپڑے دھولوں اور سب کے لیے کھانا بنا لوں۔‘‘
وہ تھکے تھکے انداز میں توشی اور فتومی کو میرے پاس بٹھاتیں۔ ’’مما! میں یہ کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مجھے مطبغ کھانا ہے۔ پیسے دو میں سب کے لیے مطاعم سے لے آتا ہوں۔‘‘ میں آفر کرتا تو مما جھٹ مان کر پیسے میرے حوالے کردیتیں۔ رفتہ رفتہ ہم سب کو باہر کا رنگا رنگ کھانا اور فاسٹ فوڈ اچھا لگنے لگا۔ مما گھر میں کھانا بناتیں تو کوئی کھاتا ہی نہیں تھا۔
بابا گھر سے مکمل طور پر بے پروا تھے۔ انہیں بچوں کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ بابا کی عدم توجہ کے باعث ہم سب بہن بھائی جھگڑالو اور بدتمیز ہوتے گئے۔ بات بات پر ہم ایک دوسرے کا گریبان پکڑلیتے۔ غلیظ گالیاں بکنا ہم سب کا شیوہ تھا۔ مما جانی جب بابا کو بتاتیں، تو وہ غصے میں آکر ہم سب کو مارتے۔ اس کے بعد ویسا ہی رویہ وہی بے پروائی اور وہی عدم توجہ۔
ہم گالیاں دیتے ایک دوسرے کو مارتے، تو مما کو بھی غصہ آجاتا اور وہ ہمیں مارتیں۔ بابا ہمارے ساتھ جتنا بھی غصہ کرتے مجھے اثر نہیں پڑتا تھا، لیکن مما کی کوئی بات مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔
مما اگر بابا کو شکایت کرتیں، تو وہ الٹا انہیں قصور وار ٹھہراتے کہ تم ایک کند ذہن، جاہل اور بھوکے گھر کی عورت ہو۔ میرے بچوں کی خاک تربیت کروگی۔
وہ ہمارے سامنے مماکو گالیاں دیتے، نازیبا باتیں کرتے۔ یہ ان کا ایک الگ ہی روپ تھا۔ ورنہ باقی وہ ہر وقت خاموش، نرم خو نظر آتے۔ مما اپنے شریک سفر کی عدم توجہ، محبت کی کمی سے ڈپریشن کا شکار ہو گئی تھیں۔ انہیں گھر سے دلچسپی ہی نہیں رہی تھی۔ وہ ہمارا خیال رکھنا چھوڑ چکی تھیں۔ وہ اس گھٹن زدہ ماحول سے فرار کی متلاشی تھیں۔ اس لیے شام کو سہیلیوں کے ساتھ گھومنے پھرنے چلی جاتیں۔
ہمارے اسکول سے شکایتوں پر شکایتیں آتی۔ مما کئی بار بابا سے التجا کرتیں کہ میرے ساتھ بچوں کے اسکول چلیں،مگر ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ بابا کو ہماری تعلیم سے دلچسپی ہی نہیں تھی۔ رفتہ رفتہ مما بھی مایوس ہوگئیں اور میں یہ سمجھنے لگا کہ مما ہماری تعلیم کی دشمن ہیں۔ انہیں ہم سے محبت نہیں ہے۔ اس لیے وہ دلچسپی نہیں لے رہیں۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ مما کس عذاب اور اذیت سے گزر رہی ہیں۔ وہ ہمیں لائق فائق طلبہ کے روپ میں دیکھنا پسند کرتی تھیں، لیکن انہوں نے قرآن پاک پڑھوانے کی خاطر ہمیں گھر پر کسی قاری صاحب کا بندوبست نہیں کروایا تھا۔ وہ ڈرتی تھیں اور اس کے پیچھے ان کے ساتھ پیش آنے والا تلخ واقعہ تھا۔
فتومی ہر وقت پانی میں گھسی رہتی تھی۔ مما اس کے چار چار سوٹ بدل کر تنگ آجاتی۔ زچ ہو کر وہ فتومی کو مارتی۔ سب گھر سورہا ہوتا اور فتومی چپکے سے باتھ روم میں گھس کر پانی کا نل کھول کر کھڑی ہوجاتی۔ فتومی چھوٹی بچی تھی۔ ہر وقت اے سی چلنے کی وجہ سے گھر ٹھنڈا رہتا۔ پانی میں لگا تار گھسے رہنے کے شوق نے فتومی کو ڈبل نمونیہ میں مبتلا کردیا۔ بیماری سے ہونے والی اس کی موت کو بھی میں نے مما کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔
توشی جیسے جیسے بڑی ہورہی تھی، اتنی ہی بدزبان اور ہتھ چھٹ بھی بن رہی تھی۔ ماں کے سمجھانے پر ان کے ساتھ لڑنے کھڑی ہوجاتی، جیسے وہ چھوٹی سی بچی ہو۔ وہ انہیں دوبدو جواب اور گالیاں دیتی۔ وہ بارہ سال کی ہوچکی تھی، لیکن ابھی تک پوری بلڈنگ میں دوڑتی پھرتی تھی۔ کتنی بار پڑوسیوں نے سمجھایا کہ توشی کو گھر سے نکلنے مت دیا کریں ، لیکن وہ نظریں بچا کر نکل ہی جاتی تھی۔
مما کہاں تک دیکھ بھال کرتیں۔ ہم سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ وہ سارا دن ہمارے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک جاتیں۔ بابا نے مما کو شوہرانہ محبت اور تحفظ تو نہیں دیا، لیکن ہر سال ایک بچے کا تحفہ ضرور دیا تھا اور پھر بھول گئے تھے کہ ان کی بھی کوئی ذمہ داری ہے۔ سب کچھ مما کے سپرد تھا۔ بابا پیسے مما کے ہاتھ پر رکھ کر ہر فکر سے آزاد ہوجاتے تھے۔
مما بہت گہرے ڈپریشن میں تھیں۔ جب ماموں سلیمان پہلی بار ان سے اتنے سال بعد ملے۔ میں نے ان کے بارے میں غلط سوچا۔ حالاں کہ میں نے چھپ کر ان کا پیچھا کرکے سب معلومات حاصل کی تھیں۔لیکن اس کے باوجود مجھے لگ رہا تھاکہ مما جھوٹ بول رہی ہیں۔ پھر توشی اور نواف والا واقفہ ہواجس میں زیادہ قصور توشی کی خودسری اور نافرمانی کا تھا۔ میں نے سب سے پہلے چھپ کر بابا کو فون کیا اور سب کچھ بتایا۔
جب بابا گھر آئے تو ہم سب نے بڑھا چڑھا کر انہیں چھوٹی سے چھوٹی بات بتائی، جو حقیقت سے کوسوں دور تھی۔ اسی دن میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جھوٹ بابا سے بولا کہ مما سے ملنے ایک آدمی گھر پر آیا تھا۔
بابا نے مما کو خوب مارا اور باز پرس کی۔ مما نے خاموشی اختیار کرلی۔ ہم بہن بھائی بڑھ چڑھ کر ان کے خلاف بولے۔ شدید صدمے نے مما کے لبوں پر مہر لگادی۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ سب کو مما کے خلاف اُکسانے بھڑکانے والا میں تھا۔ بچپن سے وہ میرے ساتھ میرے قریب رہیں، میری ہر بات پر آنکھ بند کرکے یقین کیا۔
شروع دن ہی سے میں مما کے بہت قریب تھا۔ وہ ڈپریشن میں گرفتار ہوکر مجھ سے بے پروا ہوئیں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ اپنے تئیں میں نے ان سے اس بے پروائی کا بدلہ لیا تھا۔ اس کا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ بابا نے گھر پر توجہ دینا شروع کردی۔ وہ گھر آکر کرید کرید کر ہم سے مما کے بارے میں سوال کرتے کہ آج گھر میں کون آیا، مما کہاں گئی تھی وغیرہ وغیرہ۔
ہم خود کو اس وقت بہت معتبر تصور کرتے۔ بابا کی معمولی سی توجہ نے ہمیں مما سے دور کردیا تھا۔
مما کو یقین نہیں آتا تھا کہ ان کی اپنی اولاد نے ان کے ساتھ یہ سب کیا ہے، اس کا ذمہ دار میں تھا۔ اپنی بے پناہ حساسیت یا پھر خودغرضی نے مجھے حقیقت کی دنیا سے تصوراتی دنیا میں لاپٹخا۔ میں اپنی مما کو ظالم، جابر اور اذیت پرست عورت کے روپ میں دیکھتا، نفرت کرتا، باقی بھائی اور توشی بھی میری پیروی کرتے تھے۔ حقیقت میں مما مظلوم تھی۔ اس کے بعد ان پر ڈپریشن کے لگاتار حملے ہوئے۔ بابا کی دوسری شادی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
وہ بالکل چپ اور گوشۂ نشیں ہوگئیں۔ ان کی خاموشی نے مجھے اور بھی شیر بنادیا اور وہ خود ہی اپنے سارے حقوق سے دستبردار ہوتی چلی گئیں۔ ہم سب کی بے حسی اور ناانصافی پر مبنی رویے نے انہیں اندر ہی اندر توڑ دیا تھااور وہ کینسر جیسا مرض پال بیٹھیں۔
میں چاہتا، تو توشی اور نواف والے واقعے کے روز ہی سب ٹھیک ہوسکتا تھا لیکن بابا نے جو توجہ دے کر مجھے معتبر کردیا تھا۔ میں اس سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔
پھر مما ٹوٹتی چلی گئیں۔ میں گھر میں داخل ہوتا، تو وہ ترسی نگاہوں سے مجھے تکتی میں نظر انداز کردیتا۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی لیکن میں توجہ ہی نہ کرتا۔ پھر مما نے شکست تسلیم کرلی اور ہتھیار ڈال دیے۔ انہوں نے بابا کے آگے ایک بار بھی صفائی نہیں دی اور نہ ہی زبان کھولی۔
البتہ ماموں سلیمان نے صفائی بھی دی اور زبان بھی کھولی۔ بابا، توشی، چاروں بھائی مجھ سمیت سب نادم تھے، لیکن مما نے کسی کو ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ اپنی شرمندہ اولاد کو کچھ بولے بغیر سینے میں سمیٹ لیا تھا۔
مما اندر سے بچوں کی طرح تھیں۔ وہ بابا کی محبت کی طالب تھیں، وہاں سے ناکام ہوکر اپنی اولاد سے اُمید لگالی۔ ان کے چھوٹے چھوٹے خواب تھے۔ بالکل ننھے منے معصوم بچے کے مانند۔
٭…٭…٭
’’سامی تمہیں پرندے کی طرح کھلی فضا میں اڑنے کا شوق تھا۔ تمہیں بارش کی بوندوں کو ہتھیلی پر سمیٹ لینے کی تمنا تھی۔ بہت معصوم اور بھولی تھی تم۔ ساری عمر اماں، ابا اور ہم سب کا سامنا نہ کرنے کی قسم کھالی تھی۔ تم سچی تھی، جیت گئی۔‘‘
ماموں سلیمان اور میں قبرستان میں تھے۔ ہم فاتحہ پڑھنے آئے تھے۔
ماموں اب پاکستان جارہے تھے۔ آخری بار اپنی بہن سے باتیں کررہے تھے۔ میں بھی مما سے باتیں کررہا تھا لیکن دل میں۔
’’مما مجھے پتا ہے آپ نے مجھے معاف کردیا ہے۔ آپ مجھ سے نفرت کر ہی نہیں سکتیں۔ مجھے یقین ہے اور مجھے اس کا بھی یقین ہے کہ آپ اوپر اللہ کے پاس جاکر بہت خوش ہوں گی۔ کیوں کہ وہاں آپ کے تازہ ہوا میں سانس لینے پر پابندی نہیں ہے۔ وہاں آپ کو مٹھی بھر آسمان نہیں لامحدود آسمان میسر ہوگا اور میں بھی ماموں کے ساتھ پاکستان جارہا ہوں عسل اور نونو کو لے کر۔ میں اس سرزمین میں جارہا ہوں جہاں آپ نے سانسیں لی تھیں، خواب دیکھے تھے، اڑنے کی تمنا کی تھی۔ میں وہاں اپنا گھر بناؤں گا۔ وہیں رہوں گا۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے کیوں کہ وہاں آپ تھیں۔ آپ یہاں بھی ہیں۔ میں یہاں بھی آیا کروں گا آپ سے باتیں کیا کروں گا لیکن رہوں گا پاکستان میں ہی۔ میں وہاں آپ کے نام پر ایک اسکول بناؤں گا۔ آپ کے خواب پورے کروں گا۔ مما آپ نے مجھے معاف کردیا نا؟‘‘
آخر میں دُعا مانگ کر میں نے ہزاروں بار کا دہرایا ہوا سوال پھر پوچھا۔
٭…٭…٭
ماموں میرا انتظار کررہے ہیں۔ گاڑی میں عسل اور نونو بھی ہماری راہ دیکھ رہے ہیں ۔
’’چند گھنٹے بعد ہم پاکستان میں ہوں گے۔‘‘ ماموں نے کہا۔
واپسی پر میں اور ماموں بہت اداس تھے۔
لیکن نونو اور عسل خوش ہیں کیوں کہ وہ میری مما کے گھر جارہے ہیں۔ قبرستان کے گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے میں نے پلٹ کر مما کی قبر کی طرف دیکھا۔ ایسے لگا جیسے مما وہاں بیٹھی ہنس رہی ہیں اور پیار سے مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی ہیں۔ میرا ہاتھ بھی بے اختیار اُوپر اُٹھا۔
’’الوداع مما۔‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا اور میری آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے۔ مما کے نام کے آنسو۔
اور دور بہت دور آسمانوں میں مما کی روح آزادی سے اُڑتی پھر رہی ہے۔ خوش، بہت ہی خوش۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Read Next

قرض — وقاص اسلم کمبوہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!