من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

وہ اس بوڑھے بھکاری کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی۔ ہاتھ میں پکڑا آدھا برگر اس نے اس کے سامنے رکھ دیا۔ بوڑھا اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ وہ تاش کے پتوں سے گھر بنا رہا تھا… بے حد انہماک بے حد محویت سے یوں جیسے وہ واقعی اصلی گھر تھا… بلاکس سے بننے والا… وہ یوں بیٹھی انہماک سے اس گھر کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ اسی کام سے وہاں آئی تھی… 52 پتوں سے بننے والا گھر… وہ سانس روکے پلکیں جھپکائے بغیر پتوں کے اس گھر کو مکمل ہوتے ہوئے دیکھے جا رہی تھی… بوڑھا کپکپاتے ہاتھوں سے آخری دو پتے… رکھنے جا رہا تھا… آخری دو پتے… پھرگھر مکمل ہو جاتا… وہ اب پتے رکھ رہا تھا… اب… اب… ہوا کا ایک جھونکا آیا… یا شاید اس کا ہاتھ کانپا… یا شاید پتے ٹھیک سے رکھے نہیں جا سکے… کچھ ہوا تھا… پورا گھر زمین بوس ہوگیاتھا… بوڑھے نے ایک گالی دی… زینی نے گہرا سانس لیا… آج بھی گھر نہیں بن سکا تھا… ہرروز ان ہی آخری دو پتوں کو رکھتے رکھتے گھر ٹوٹ جاتا… وہ روز یونہی اسی انہماک سے بیٹھ کر گھر دیکھتی جیسے کسی دن تو وہ معجزہ ہو ہی جانا تھا… لیکن وہ معجزہ اب تک نہیں ہوا تھا۔
”Hard luck” اس نے بوڑھے سے افسوس کیا اور پانی کی آدھی بوتل بھی اس کے پاس ہی چھوڑ دی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ اس کا راستہ تھا وہ روز وہاں کام پر جاتے اور آتے ہوئے گزرتی تھی۔ جاتے ہوئے وہ جلدی میں ہوتی رکنے کا وقت نہیں ملتا تھا لیکن آتے ہوئے یہ فٹ پاتھ اور اس پر بیٹھے ہوئے یہ پانچ بھکاری اس کے لیے جیسے amusement parkمیں تبدیل ہوجاتے تھے۔ وہ انہیں تقریباً روزانہ ہی کچھ نہ کچھ دیتی تھی… کبھی چند سکے کبھی چند ڈالر… کبھی کھانے پینے کی چیزیں… اور کبھی آنسو… جو وہ وہاں کسی نہ کسی کے سامنے بیٹھ کر بہاتی تھی… وہاں کون اسے جانتا یا پہچانتا تھا کہ حیرت زدہ ہوتا یا اس پر ترس کھاتا یا اس سے پوچھتا… نہ وہ ان میں سے کسی سے کچھ پوچھتی تھی نہ ان میں سے کوئی اس سے کچھ پوچھتا تھا… جو واحد جملے ان کے درمیان کبھی کبھار exchange ہوتے وہ موسم کے بارے میں تھے… یا greetings یا شکریے کا اظہار… یا پھر وہی۔۔۔۔” bad luck” ،”hard luck” ، ”nice effort”، ”good show”… جو وہ ان میں سے کسی نہ کسی سے کہتی تھی۔
اگلا سیاہ فام گٹارسٹ اس دن پتہ نہیں کونسا گانا اپنے گٹار پر بجا رہا تھا وہ پہچان نہیں پائی ورنہ اتنے عرصے سے وہ ان پانچ چھ ٹیونز کو پہچاننے لگی تھی جو تقریباً وہ ہر روز بجاتا تھا… اور اس نے باری باری اس سے ان میں سے ہر گانے کے lyrics اور سنگر کے بارے میں پوچھا تھا۔
لانگ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ بے مقصد اس کے سامنے کھڑی اس کو سنتی رہی… اسے لگتا اسے دیکھ کر وہ ہمیشہ بڑی محنت اور زیادہ توجہ سے بجاتا تھا… وہ اسی کے پاس کھڑے گٹار کو سنتے سنتے بعض دفعہ رونے لگتی تھی… اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا تھا… جیسے آج بھی نہیں ہوا تھا۔ گانا ختم ہونے کے بعد لانگ کوٹ کی جیب میں موجود سکوں میں سے ایک سکہ نکال کر اس نے اس کے سامنے پڑے ہیٹ میں ڈالا تھا اور پھراپنے گیلے گالوں کو صاف کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔




وہ Spanish ہپی آج نہ گیندوں کو ہوا میں آچھال رہا تھا نہ گلاسز کو… وہ آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا… اور ایسا تب ہوتا جب وہ بہت زیادہ نشے میں ہوتا… اور ہفتے میں ایک دو بار ایسا ضرور ہوتا جب وہ بالکل کسی مردہ جانور کی طرح فٹ پاتھ پر اپنی مخصوص جگہ پر پڑا رہتا… کوئی اسے کچھ دے کر جاتا یا اس کے سامنے پڑے سکے لے جاتا اس کو پتہ نہیں چل سکتا تھا۔ وہ کرتب دکھا رہا ہوتا تو وہ کچھ دیر اس کے سامنے کھڑی رہتی… ہوا میں اچھالی جانے والی چیزوں میں کوئی دلچسپی لیے بغیر… وہ صرف اس کی انگلیوں، کلائیوں اور گلے میں پڑے عجیب عجیب پتھروں والے بینڈز اور زیورات کو دیکھتی رہتی تھی… ان میں سے کون سا پتھر اس نے کس مقصد کے تحت پہنا تھا یہ شاید وہ اب خود بھی نہیں بتا سکتا تھا… جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک سکہ اس نے اس کے سامنے پڑے گلاس میں ڈال دیا وہ اس دن کا پہلا سکہ تھا جو کسی نے اس ہپی کے گلاس میں ڈالا تھا۔
اگلا بھکاری ایک سیاہ فام نوجوان تھا… اور یہ واحد بھکاری تھا جس کے پا س وہ سب سے کم وقت گزارتی تھی… وہ فلوٹ بجاتا تھا اور اسے بے حد عجیب لگتا تھا… اس نے کسی کو اتنا برا فلوٹ بجاتے زندگی میں نہیں سنا تھا اور وہ شاید یہ سمجھتا تھا کہ وہ بہت اچھا بجاتا تھا اس لیے وہ اپنے پاس رکنے پر ہر شخص کے لیے پہلے سے بھی کوئی خراب دھن بجاتا تھا… زینی کو بعض دفعہ اس کی ”محنت” پر ہنسی آتی… اسنے اپنے سامنے ڈرمز اور سکسا فون بھی رکھے ہوئے تھے لیکن ایسا بہت کم ہوا کہ زینی نے اسے ان میں سے کسی انسٹرومنٹ کو بجاتے دیکھا ہو… وہ صرف فلوٹ ہی بجاتا تھا… کم از کم زینی کے آنے پر… اور آہستہ آہستہ زینی کو احساس ہو نے لگا کہ وہ اسے asian سمجھ کر صرف اس کے لیے فلوٹ بجا رہا تھا… اسے pleaseکرنے کے لیے اسے یقین تھا وہ اسے انڈین سمجھ رہا ہو گا… بعض دفعہ وہ اسے بھکاری نہیں لگتا تھا… چند ایک بار وہ کچھ دنوں کے لیے وہ وہاں سے غائب بھی ہوا… لیکن پھرواپس آگیا… زینی کو وہ کبھی نشے میں محسوس نہیں ہوا تھا اس کے باوجود اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ وہاں اس فٹ پاتھ پر کیوں بیٹھا رہتا تھا… بھیک کیوں مانگتا تھا… اور ہر وقت فلوٹ کیوں بجاتا تھا… جیب سے ایک سکہ نکال کر اس نے ہمیشہ کی طرح اس کے پاس پڑے ایک ڈبے میں اچھال دیا… پھر ہمیشہ کی طرح چلتی ہوئی فٹ پاتھ کے آخر میں بیٹھی اس میکسیکن عورت کے پاس پہنچ گئی جو پھر وہی سکیچ بنا رہی تھی جو وہ ہمیشہ بناتی تھی… ہمیشہ… وہی مرد… وہی خوبصورت مرد… زینی آنکھیں بند کیے بھی اس مرد کے نقوش بتا سکتی تھی… وہ میکسیکن عورت کاغذ پر اس مرد کا چہرہ سکیچ کرتی تھی اور اس کے ہاتھ کی ہر حرکت کے ساتھ زینی کے ذہن پر کسی ”اور” مرد کے نقوش ابھرنے لگتے تھے… اس عورت نے اس مرد کا چہرہ بناتے ہوئے کبھی سر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا… بس پاگلوں کی طرح وہ اپنے کام میں لگی رہتی تھی… اور بعض دفعہ تو وہ زینی کو پاگل ہی لگتی تھی… بعض دفعہ ہر کوئی کسی دوسرے کو پاگل ہی لگتا ہے… وہ ادھیڑعمر عورت تھی… وہ نوجوان مرد تھا… پتہ نہیں وہ کتنے سالوں سے اسی ایک چہرے کو بناتی آرہی تھی… یا ہو سکتا ہے وہ ابھی کچھ عرصہ پہلے سے… اندازہ لگانا مشکل تھا… لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس مرد کے ساتھ عورت کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا… اس کے نقوش میں اس عورت کے نقوش نہیں تھے۔
وہ بہت دیر اس عورت کے پاس کھڑی اس چہرے کو کاغذ پر ابھرتے دیکھتی جب سکیچ مکمل ہو جاتا تو عورت بہت سارے دوسرے سکیچز کے ساتھ اس کاغذ کو رکھ کر ایک نیا سکیچ بنانے لگتی تھی… زینی کو کبھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ان پرانے سکیچز کو کیا کرتی تھی… پھینکتی تھی… پھاڑتی تھی یا کہیں رکھ آتی تھی۔
اس نے اپنی جیب میں موجود آخری سکہ اس عورت کے سامنے رکھا اور فٹ پاتھ کا موڑ مڑ آئی… اداسی آج بھی اتنی ہی گہری تھی جتنی روز ہوتی تھی… اور صرف سڑک کا یہ وہ حصہ تھا جس سے گزر کر چند لمحوں کے لیے کم ہو جاتی تھی… پھروہ اس فٹ پاتھ کو پیچھے چھوڑ آتی… آگے وہ بلڈنگ تھی جہاں 23 ویں منزل پر اس کا اپارٹمنٹ تھا… اور جہاں کی حالت اتنی ہی ڈپریسنگ تھی جتنا باہر سڑک کا ماحول تھا۔
وہ کینیڈا آنے کے بعد شروع میں ایک بہتر علاقے میں تھی… بہتر لیکن مہنگے… اور چند ماہ میں کام حاصل نہ کر پانے پر اسے وہ علاقہ چھوڑنا پڑا تھا… جہاں بالآخر اسے کام ملا اس کے قریب ترین یہی علاقہ تھا… یہاں وہ لوگ رہتے تھے جو کینیڈا میں آجانے کے بعد struggle کرنے کے دور سے گزر رہے تھے… جو اپنے اپنے ملکوں اور اپنی اپنی سوسائٹیز کے outcast تھے اور وہ اس خواب کے ساتھ وہاں آئے تھے کہ ایک دن وہ کسی نہ کسی فیلڈ میں کسی نہ کسی طرح excel کریں گے… وہ علاقہ کسی کا بھی ”انتخاب” نہیں تھا… ”مجبوری” تھی… سیڑھی کا پہلا پائیدان… صرف وہ تھی جو سیڑھی کے آخری پائیدان سے اتر کر پہلے پائیدان پر آکر کھڑی ہوئی تھی… کامیابی کو ”چکھ ” لینے کے بعد کامیابی کی خواہش یا خواب کے بغیر… ایک ایک پائی بچانے کی جدوجہد کے بغیر وہ وہاں شاید اپنی زندگی گزارنے نہیں آئی تھی… زندگی ضائع کرنے آئی تھی۔
اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر وہ اندر چلی آئی۔ ہمیشہ کی طرح بے حد ”سرد خاموشی” نے اس کا استقبال کیا تھا۔ دن ڈوب رہا تھا۔ سٹنگ ایریا کی کھڑکیاں اب روشنی اندر لانے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ اس نے لائٹ آن کر دی۔ اپنا لانگ کوٹ اور جوتے اتارتے ہوئے وہ آگے بڑھ آئی۔ ہاتھ میں پکڑا پرس کچن کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ کھڑکیوں کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی… یہ اس کا روز کا معمول تھا کام سے واپس آنے کے بعد ان کھڑکیوں کے سامنے کھڑے ہو کر باہر دیکھنا… گزری ہوئی زندگی کو کسی فلم کی طرح ان کھڑکیوں کے شیشوں پر دیکھنا… تکلیف دہ مناظر سے بچنے کی کوشش کرنا… چبھنے والے جملوں کو سماعتوں سے غائب کرنے کی جستجو کرنا… اور پھر پچھتاوا… وہ جیسے روز خود احتسابی کے عمل سے گزرتی تھی… وہ جیسے روز بے یقینی کا شکار ہوتی تھی… جو کچھ ”پری زاد” کرتی رہی تھی… وہ ”زینب ضیائ” کیسے کر سکتی تھی… کیسے؟ اس کے اندر اتنی نفرت، اتنا غصہ، انتقام کا ایسا جذبہ کہاں سے آگیا تھا… یہ عفریت اس نے کس طرح پال لیا تھا… وہ تو زینی تھی اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر اس کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہہ دینے والی سیدھی سادھی لڑکی… پھر اسے کیا ہو گیا تھا؟
وہ کھڑکی کے سامنے سے ہٹ آئی… ہر بار اس سوال کے آتے ہی وہ شکست خوردہ انداز میں کھڑکی کے سامنے سے ہٹ آتی تھی… فریج میں کل کا پکایا ہوا کھانا ابھی بھی پڑا تھا… وہ اسے نکال کر گرم کرنے لگی… کئی سالوں کے بعد وہ یہاں آکر کھانا پکانے لگی تھی… اور جب پکانے لگی تو اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ بھی نہیں بھولی تھی… ہر کھانے کی ترکیب وہ جیسے مشینی انداز میں ذہن میں لاتی… لیکن کسی بھی کھانے کا ذائقہ ویسا نہیں تھا جیسا پہلے تھا… جیسا اس کے گھر میں ”زینی” پکاتی تھی کوئی بھی چیز لاکھ جدوجہد کے بعد اب ویسی نہیں بنتی تھی… اسے پہلے بے بسی کا احساس ہوتا تھا… رونا بھی آتا تھا پھر جیسے اس نے اس بدلے ہوئے ذائقے کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا… یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اس کے ہاتھ کی تاثیر میں کمی آگئی تھی…
وہ اب رزق حلال کماتی تھی… رزق حلال کھاتی تھی… وہ یہاں آنے سے پہلے ہر وہ چیز کسی نہ کسی کو دے آئی تھی یا چھوڑ آئی تھی جسے اس نے رزق حرام سے پایا تھا… جو چند لاکھ روپے وہ یہاں لے کر آئی تھی وہ اس گھر کو بیچ کر لائی تھی جو ضیاء کا تھا وہ واحد اثاثہ تھا جو اس نے اپنی فیملی سے مانگ کر لیا تھا… کہیں نہ کہیں وہ اپنے ذہن میں آج بھی اپنے باپ کی بات پر یقین رکھے ہوئے تھی کہ رزق حلال میں برکت ہوتی ہے… وہ اس برکت کا اثر اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتی تھی… کہیں نہ کہیں وہ آج بھی اپنے باپ کی بات کی آزمائش چاہتی تھی… اور وہ پیسے واقعی ابھی تک ختم نہیں ہوئے تھے… کسی نہ کسی طرح سے چل رہے تھے… اس کی زندگی میں ویسا سکون نہیں تھا جیسا وہ چاہتی تھی لیکن سکون تھا… وہ مقابلے کی دوڑ سے نکل کر جیسے اطمینان سے تماشائیوں میں جا کھڑی ہوئی تھی۔
سٹر فرائیڈ، ویجیٹیبلز اوربوائلڈ رائس، وہ یہاں آکر کئی سالوں کے بعد ”کھانا” کھانے لگی تھی… ڈائیٹنگ کے نام پر چھوڑی جانے والی تمام چیزیں… وہ انگلیوں کی پوروں کے ساتھ لقمے بنا کر چاول کھاتی رہی… اسے کینیڈا میں آئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہونے لگا تھا… پیچھے پاکستان میں کیا ہو رہا تھا… شوبزمیں کیا ہو رہا تھا… وہ جیسے بھول گئی تھی۔
واحد رابطہ جو اس کا کسی کے ساتھ تھا وہ نفیسہ تھیں… جنہیں وہ کبھی کبھار فون کرتی… ان کی شادی کر لینے کی ہدایت اور تشویش سنتی… اپنے بہن بھائیوں کے بارے میں جانتی اور فون رکھ دیتی… وہ اس کے لیے روٹین کی باتیں ہوتی تھیں… وہ سب اب امریکہ میں اکٹھے تھے… ایک سٹیٹ میں… تھوڑے سے فاصلے پر… اور اپنی اپنی زندگی میں settled اور خوش تھے… ان میں سے کسی کی زندگی میں زینی نام کا کوئی خلا نہیں تھا جسے وہ جا کر پر کرتی… ان سب کے لیے وہ اب ایک outsider تھی اور زینی نے اپنے اس سٹیٹس کو قبول کر لیا تھا۔
دس منٹ میں کھانا ختم کرنے کے بعد اس نے ان چند برتنوں کو صاف کیا اور کچن سے باہر آگئی۔
مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد عشاء کی نماز تک وہ قرآن پاک پڑھتی رہی… یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ یہ وہ قرآن پاک تھا جسے کبھی ضیاء پڑھا کرتے تھے اور اسے پڑھتے ہوئے بہت بار وہ اپنے ارد گرد ضیاء کی مہک محسوس کرنے لگتی تھی… بہت بار اسے لگتا وہ وہیں کہیں ہیں اس کے آس پاس بہت قریب… لیکن بہت دور… بہت دفعہ اسے قرآن پاک کے صفحات پر اپنے باپ کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہونے لگتا… وہ ہر لائن کے نیچے انگلی پھیرتے تھے… وہ بھی ہر لائن کے نیچے انگلی پھیرا کرتی تھی… کبھی کبھار بھول جاتی… اور پھر احساس ہونے پر دوبارہ اسی طرح انگلی پھیرنے لگتی تھی۔
ضیاء کو اتنے سالوں میں اس نے کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا… کبھی نہیں… لیکن ان کی خوشبو کو بھی اس نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا جس طرح وہ اب کرنے لگی تھی… اس ایک سال میں بہت بار تہجدمیں روتے ہوئے اسے لگتا ضیاء اس کے پاس آبیٹھے تھے… ناراض لیکن بے چین… خفا لیکن اس کے پاس… سارا قصور اس کا قصور تھا… ساری غلطی اس کی غلطی تھی… وہ ہمیشہ روتی تھی لیکن کچھ کہے بغیر… کوئی گلہ کوئی شکایت کیے بغیر… سب نے اس سے بہت کچھ کہا تھا صرف ایک ضیا نے ہی کچھ نہیں کہا تھا… وہ اب سننا چاہتی تھی باپ سے… یہ جاننے کے باوجود کہ اس نے ضیاء سے کیا کہا تھا… وہ جیسے چاہتی تھی کہ باپ بھی ملامت کرے… سب کچھ کہہ دے… پر بات کرے اس سے… لیکن وہاں خاموشی تھی… اور خاموشی اسے رلاتی تھی… باپ کی خفگی اتنے سالوں میں اس طرح پہلی بار چبھی تھی اسے… تب جب وہ ”میں جو کچھ کر رہی ہوں ٹھیک کر رہی ہوں” کے زعم سے باہر آگئی تھی۔
”اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑارحیم ہوتا ہے زینی۔” وہ شاید پانچ چھ سال کی تھی جب اس نے پہلی بار اپنے باپ کے منہ سے سنا تھا۔ وہ رات کو ان کے ساتھ سوتی تھی اور سوال پوچھ پوچھ کر ان کا کتنا وقت ضائع کرتی تھی اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ”سب کو معاف کر دیتا ہے؟” اس نے باپ کے سینے سے سر اٹھا کر ضیاء کا چہرہ دیکھا۔
”ہاں سب کو” ضیاء نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟” وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسے۔
”کیونکہ وہ ہمارا رب ہے۔ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ وہ ہم سے بڑی محبت کرتا ہے۔” انہوں نے اس کے ماتھے پر آئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے کہا۔
”کتنی محبت کرتا ہے؟” وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
”ستر ماؤں جتنی۔”
”آپ جتنی نہیں۔” وہ جیسے بے حد مایوس ہوئی۔
ضیاء کھلکھلا کر ہنستے رہے۔ انہوں نے اسے لپٹا لیا تھا۔
”ہاں میرے جتنی بھی بلکہ مجھ سے بہت زیادہ۔”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!