شریکِ حیات قسط ۵

شریکِ حیات قسط ۵

باب پنجم 

 

کسی نے سنا؟

مولا بخش مر گیا۔

اس کے مرنے کا یقین کون کرے گا؟

چارپائی پر خاموش پڑا بے فکر سا وجود، ہلکا پھلکا سا، کوئی فکر نہ فاقہ۔

اوہ مولا بخش تو اپنی ساری فکریں یہاں ہی چھوڑ گیا۔

اب کہنے سننے کو کچھ نہ تھا۔ کہا نہ تھا کہ بندہ خاک ہے، ایک دن خاک میں مل جانا ہے۔مٹی کو مٹی میں دفن ہونے دے۔

”سبھاگی اب دل بجھ گیا ہے۔تیرا مولا بخش تھک گیا ہے۔” چار چھ دن پہلے بخارمیں تپتے وجود پرجب اس نے ہاتھ رکھا تومولا بخش کا جسم تپ رہا تھا۔

”لگتا ہے بخار تیرے سر چڑھ گیا ہے سندھیا کے ابا۔ سٹھیا گیا ہے تو، دماغ پھر گیا ہے تیرا، کیا اُلٹی سیدھی ہانکے جا رہا ہے۔” وہ بگڑاُٹھی۔

”اب نہ بگڑیں، نہ کاوڑ جیں (خفا ہونا) نہ بُرا بھلا کہیں۔ اپنے سارے نخرے اپنے مولا بخش تک رکھیں مگر خوش رہیں۔”

”توچریا ہو گیا ہے مولا بخش۔ مت ماری گئی ہے تیری۔”

” او مت نہیں مری میری سندھو کی ماں۔ دعا کر مت کبھی نہ مرے، مت مرنے سے پہلے مولا بخش مر جائے۔ ”

”اللہ نہ کرے مولا بخش۔ بس بھی کردے۔”

”تجھے پتا ہے سندھو کی ماں! مٹی کا پتلا جب زمین پر چل چل کر تھک جاتا ہے، جب اُسے دانہ اُگانے کی سکت نہ رہے تو سمجھو دانہ پانی ختم ہوا، اُٹھ گیا۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ کھیتوں کے کاموں سے بے زار ہوا،جی چرایا یا یہ کہا کہ تھک گیا ہوں۔”

پہلی بار کہا تولمحہ بھرکے لیے توسبھاگی نے بھی بھری آنکھوں سے دیکھتے ہی دل تھام لیا۔” ایسا نہ کہو مولا بخش تو ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟سندھو کی خوشیاں کون دیکھے گا بھلا ؟چریا ہواہے کیا؟ ”

”چریا نہیں سیاٹا ہوں۔ تیرا مولا بخش سیاٹا ہے۔ او سبھاگی دیکھ، مٹی کو مٹی سے بڑا قرار آتا ہے۔ تیرا مولا بخش راج کرے گا، وہاں سکھی رہے گا۔پھر دیکھ زمین کے اندر کھیتی کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، بغیر کھیتی کے اناج دیتی ہے۔ وہاں شاید اناج کی بھی حاجت اور ضرورت نہ ہو۔”

”دیکھ تو نے آج مجھے رُلا دیا۔ اپنی سبھاگی کو رُلا دیا ہے تو نے۔” اُٹھ کر جیجی کے پاس گئی۔ ”جیجی ماں کوئی دم درود؟ کوئی تسبیح صلوٰة مولا بخش سٹھیا گیا ہے۔ بخار سر چڑھ گیا ہے، الٹی سیدھی ہانکے جا رہا ہے۔ چپ ہی نہیں ہوتا ۔”

جیجی اٹھ کر مولا بخش کے کمرے تک آئیں، سر پہ ہاتھ رکھا۔ ”بخار تو اب کم ہے اس کا۔”

”لے تو کیا گالھ کر رہا ہے مولا بخش، سبھاگی کو رلایا ہو اہے آج تو نے۔”

”جیجی ماںگود میں سر رکھنے دے پھر بتاتا ہوں۔”

جیجی ماں نے گود میں پناہ دی۔ مولا بخش نے سر ٹیکا۔

”او دیکھ جیجی ماں!

دنیا کے سارے مرد روکھے۔

ساری مائیاں سوکھیں۔

شوہر سارے نکمے۔

بیویاں سگھڑ سوہنڑیں۔

مولا بخش کوجا سبھاگی چاندی۔”

”اس کی باتوں کا اعتبار نہ کریں جیجی ماں۔یہ پل میں کچھ تو پل میں کچھ کہتا ہے۔”

”یہ کہہ کیا رہا تھا تو ہی بتا دے۔”

مولا بخش نے آنکھوں کے اشارے سے اُسے کچھ کہنے سے روکا۔ یہ نہیں کہ مولابخش کا ڈر تھا بلکہ بات ہی ایسی تھی، جو وہ منہ سے نہیں کہہ سکتی تھی۔کہتے ہوئے سو دفعہ ڈرتی تھی۔ کبھی کہتے ہیں منہ کا کہا بھی سُن لیا جاتا ہے۔

وہ چپ ہو گئی خاموش رہی کچھ نہ بولی۔جیجی کو تسلی ہوئی کہ چلو بخار تھا جو ہلکا ہو گیا ہے۔ اب سب ٹھیک ہے۔

سب ٹھیک ہے کا کھیل کس قدر جان لیوا ہوتا ہے کبھی کبھار۔ وہ جب انسان سب ٹھیک ہے اپنی زبان سے کہتا ہے اور دل و دماغ نفی کرتے ہیں تو لگ پتا جاتا ہے۔

دھڑکا لگ جاتا ہے اور پھر تب تک لگا رہتا ہے، جب تک ہاتھ دھڑکن پر رہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!