زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

” زندگی گلزار ہے ” میری پہلی تحریر تھی جسے میں نے اپنی ہینڈ رائٹنگ بہتر کرنے کے لیے لکھنا شروع کیا تھا۔ اس وقت مجھے نہ تو یہ اندازہ تھا کہ مجھ میں لکھنے کی صلاحیت ہے نہ ہی یہ ارادہ تھا کہ میں اسے شائع کروائوں گی۔ ایک دوست کے کہنے پر میں نے اسے خواتین ڈائجسٹ میں شائع ہونے کے لیے بھجوا دیا۔ خلاف توقع یہ نہ صرف شائع ہو گئی بلکہ اس نے مجھے ایک شناخت بھی دے دی۔ حالانکہ میں اسے اپنی کمزور ترین تحریروں میں سے ایک سمجھتی ہوں مگر قارئین کی رائے اکثر رائٹر کی پسند اور رائے سے بہت مختلف ہوتی ہے یہی اس کہانی کے ساتھ ہوا۔
عمیرہ احمد
********
9 ستمبر
آج گورنمنٹ کالج میں میرا پہلا دن تھا۔ میری روم میٹ فرزانہ میرے ہی ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔ا س لیے صبح مجھے ٹینشن نہیں تھی کہ اکیلے کلاسز کیسے ڈھونڈوں گی۔ وہ خاصی بولڈ لڑکی ہے، بڑے شہروں میں رہنے والے شاید سب ہی ایسے ہوتے ہیں۔ صبح جب ہم لوگ کالج پہنچے تو بارش ہو رہی تھی اور ایسے موسم تعلیم کے لیے کافی نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن خلاف توقع کالج میں کافی لوگ تھے۔ آج صرف سر ابرار نے تعارفی کلاس لی تھی اور دوسرے کسی پروفیسر نے کلاس میں آنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ان کے بارے میں پہلے ہی بہت سے لوگوں سے سن چکی ہوں کہ وہ بہت وقت کے پابند ہیں۔ مجھے توقع تھی کہ وہ بہت سخت ہوں گے مگر پہلی ملاقات میں ان کا امپریشن بہت نرم دل آدمی کا تھا۔
آج کلاس میں اسٹوڈنٹس کم ہی تھے اور ان میں بھی لڑکیوں کی تعداد کافی کم تھی۔ آج میرے اور فرزانہ کے علاوہ صرف دو اور لڑکیاں آئی تھیں اسمارہ اور آئزہ دونوں بہت اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں تو شاید ان سے اپنا تعارف نہ ہی کرواتی لیکن فرزانہ ان کے پاس چلی گئی تھی۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ ہی ”کوئین میری ” سے گریجویشن کر کے آئی تھی اس لیے انہیں اچھی طرح جانتی تھی۔ فرزانہ کی وجہ سے مجبوراً مجھے بھی ان سے سلام دعا کرنی پڑی۔ باتوں کے دوران ان لوگوں نے مجھے نظر انداز کیا لیکن اس چیز نے مجھے زیادہ ہرٹ نہیں کیا، میری معمولی شکل اور لباس دیکھ کر وہ مجھے وی آئی پی ٹریٹمنٹ دینے سے تو رہیں ویسے بھی یہ چیز میرے لیے اب اتنی نئی نہیں رہی۔
سر ابرار نے کلاس میں سب سے پہلے اسمارہ سے ہی اپنا تعارف کروانے کے لیے کہا تھا۔
”میرا نام اسمارہ ابراہیم ہے۔ میں کوئین میری کالج سے فرسٹ ڈویژن میں گریجویشن کر کے آئی ہوں، ہر قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہوں۔ آپ کی کلاس میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوں گی۔”
بڑی رواں انگلش میں اس نے کہا تھا۔ اس کا لہجہ بے حد پر اعتماد تھا اور میں صرف یہ سوچ کر رہ گئی تھی کہ کیا دولت اور خوبصورتی کے بغیر اتنے اعتماد سے بات کی جا سکتی ہے؟





فرزانہ، اسمارہ اور آئزہ سے متعارف ہونے کے بعد سر ابرار میری طرف متوجہ ہوئے تھے۔ مجھے فوراً تعارف کروانے کے لیے کہنے کے بجائے وہ کچھ دیر تک بغور مجھے دیکھتے رہے پھر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ بھی ہماری ہی کلاس کی ہیں؟”
”یس سر۔” میں ان کے سوال پر حیران ہوئی تھی۔
”میں نے اس لیے پوچھا ہے کیونکہ آپ بہت چھوٹی سی لگ رہی ہیں۔”
”نو سر ! میں چھوٹی سی تو نہیں ہوں۔ میری ہائیٹ پانچ فیٹ چار انچ ہے۔” میں نے ان کی بات سمجھے بغیر فوراً کہہ دیا۔ میرے جملے پر سر ابرار ہنس پڑے اور اگلی رو میں بیٹھے ہوئے دو لڑکوں نے یک دم پیچھے مڑ کر دیکھا تھا ان کے چہرے پر مجھے مسکراہٹ نظر آئی پھر ان میں سے ایک نے سر ابرار سے کہا۔
Sir! that is just the right height for a girl neither too tall nor too short.
”سر ! یہ لڑکی کے لیے بالکل مناسب قد ہے، نہ بہت لمبا ہے، نہ بہت چھوٹا ہے۔”
ساری کلاس ایک دم قہقہوں سے گونج اٹھی تھی۔ سر ابرار نے کھنکار کر اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا اور لڑکے سے کہا۔
No Zaroon! don’t try to embarras her
(نہیں زارون ! اسے پریشان نہ کرو۔)
پھر انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا۔
”میرا نام کشف مرتضیٰ ہے۔ میں گجرات سے آئی ہوں۔”
میں نے مختصراً اپنا تعارف کرایا، میرے تعارف کے بعد سر ابرار نے لڑکوں کا تعارف لیا اور جب اس لڑکے جس کا نام زارون تھا، نے خود کو متعارف کروایا تو میں نے بھی اسی طرح مداخلت کی جیسے اس نے کی تھی، شاید میں ایسا نہ کرتی لیکن اس کا انداز ہی مجھے اتنا برا لگا کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر بیٹھی اس وقت تو مجھے اپنی مداخلت ٹھیک نہیں لگی تھی لیکن اب میں سوچ رہی ہوں کہ شاید میں نے غلط کیا تھا۔ میں یہاں اس قسم کی فضول جھڑپوں کے لیے تو نہیں آئی میں اب دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گی۔ ایک دن گزر گیا کاش باقی دن بھی عزت سے گزر جائیں۔
…**…
9 ستمبر
آج کا دن خراب ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ کالج میں ایم اے کلاسز کا پہلا دن اور پہلے دن ہی۔
صبح میں بہت اچھے موڈ میں کالج گیا تھا کیونکہ موسم بہت اچھا تھا پہلی اور آج ہونے والی واحد تعارفی کلاس سر ابرار کی تھی اور ان کی کلاس میں بی اے میں مس نہیں کر سکا تو اب کیسے کرتا اب ان سے تعلقات اچھے کرنا اور رکھنا میری مجبوری ہے۔ ظاہر ہے وہ پاپا کے اچھے بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ بہترین دوست ہیں ورنہ پاپا کتھارسس کے موڈ میں ہمیشہ ان کے گھر نہ پائے جائیں۔ پاپا پر ان کا بہت اثر ہے۔ بعض دفعہ میری جو بات پاپا ویسے نہیں مانتے وہ صرف ان کے کہنے پر مان لیتے ہیں۔ویسے کبھی کبھی تو مجھے سر ابرار بہت سپر نیچرل قسم کی چیز لگتے ہیں انہیں میری ہر ایکیٹویٹی کا پتا ہوتا ہے۔ بی اے میں میں جب ان کی کلاس میں دیر سے آتا تھا تو وہ میرے نہ آنے کی اصل وجہ خود ہی تیار کرتے تھے انہیں بہت اچھی طرح پتا ہوتا تھا کہ میں نے کس دن کتنی کلاسز چھوڑیں، آج کل کن لڑکیوں کے ساتھ پھر رہا ہوں کون سے پروفیسر میرے بار ے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں اور کون سے مجھ سے تنگ ہیں، پھر بھی یہ ان کا احسان ہی تھا کہ وہ پاپا کو کسی بات سے مطلع نہیں کرتے تھے۔ کافی مہربان ہیں وہ مجھ پر۔
جب میں کلاس میں گیا تھا تو وہاں زیادہ لوگ نہیں تھے۔ اسامہ اور فاروق مجھے کلاس سے باہر ہی مل گئے تھے۔ ان کے ساتھ جب میں اگلی رو کی طرف گیا تو میں نے دیکھا کہ دوسری رو میں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان میں سے دو کوتو میں فوراً پہچان گیا ایک اسمارہ ابراہیم تھی اور دوسری آئزہ مسعود دونوں کزنز ہیں اور سوشل گیدرنگز میں اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے اسمارہ کو میں خاصا پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ خوبصور ت ہے۔ فرینک ہے اور ایسی ہی لڑکیاں مجھے اپیل کرتی ہیں وہ دونوں مجھے دیکھتے ہی اپنی رو سے باہر آ گئیں۔ جب میں ان سے رسمی ہیلو ہائے میں مصروف تھا تو دوسری رو میں بیٹھی ہوئی دو لڑکیوں میں سے ایک کی خوبصورت آنکھیں دیکھی تھیں اور اس کے ساتھ وہ بیٹھی تھی جس نے واقعی مجھے کلاس میں ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔
کلاس شروع ہونے سے پہلے جب میں نے اس پر ایک سرسری نظر ڈالی تھی تو مجھے اس میں ایسی کوئی خوبی نظر نہیں آئی جو مجھے دوبارہ اسے دیکھنے پر مجبور کرتی۔ لائٹ پنک کلر کے لباس میں ملبوس وہ خود کو ایک بڑی سی چادر میں چھپائے ہوئے تھی اور وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بال پوائنٹ سے اپنی فائل کو مسلسل سکریچ کر رہی تھی، میں چونکہ اسمارہ اور آئزہ کے ساتھ باتوں کے دوران وقتاً فوقتاً فرزانہ کو بھی دیکھ رہا تھا اور وہ چونکہ فرزانہ کے ساتھ بیٹھی تھی اس لیے اس کی یہ حرکت میری نظر میں آ گئی۔
سر ابرار کلاس میں آنے کے بعد مجھے دیکھ کر مسکرائے تھے۔ دو دن پہلے انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اب لیٹ آنے پر کچھ اچھے اور موزوں بہانے بنا کر پیش کروں کیونکہ وہ پرانے گھسے پٹے بہانے سن سن کر تنگ آ گئے ہیں اور میں نے انہیں تسلی دی تھی کہ اب میں پرانے بہانوں سے انہیں بور نہیں کروں گا۔ آخر میں ایک تخلیقی بندہ ہوں، لیکن پہلے ہی دن صحیح وقت پر کلاس میں موجود پا کر وہ شاید یہ سمجھے تھے کہ میں نے دیر سے آنے کی پرانی حرکتیں چھوڑ دی ہیں۔ اسی لیے وہ مجھے دیکھ کر بڑی خوش دلی سے مسکرائے تھے۔
میں جانتا تھا کہ سر ابرار سب سے پہلے لڑکیوں سے ہی تعارف لیں گے اور میں فرزانہ کے بارے میں جاننے کے لیے کافی مشتاق ہو رہا تھا کیونکہ اس کی آنکھوں نے مجھے بہت متاثر کیا تھا اس لیے بڑے صبر کے ساتھ میں اس کے تعارف کا انتظار کر رہا تھا اور اس کے تعارف کے بعد مجھے اور کسی کے تعارف میں دلچسپی نہیں رہی تھی سوائے اپنے لیکن جب سر ابرار نے اس لڑکی سے کہا کہ وہ بہت چھوٹی سی لگ رہی ہے تو اس کے جواب نے مجھے مسکرانے اور پیچھے مڑنے پر مجبور کر دیا وہ واقعی کافی کم عمر لگتی تھی میں نے اس کی بوکھلاہٹ دیکھ کر اس پر بے اختیار ریمارکس پاس کئے یہ کر کے مجھے کافی خوشی ہوئی تھی ہمیشہ کی طرح۔
پھر جب سر ابرار نے مجھے اپنا تعارف کروانے کے لیے کہا تو میں اپنی جگہ سے اٹھ کر ڈائس کے پاس چلا گیا۔ سر ابرار مسکراتے ہوئے خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے شاید وہ جاننا چاہتے تھے کہ میں کیا چاہتا ہوں۔
”میرا نام زارون جنید ہے۔ میری اسکولنگ ایچی سن میں ہوئی ہے اور وہاں تھرو آؤٹ میں فرسٹ پوزیشن لیتا رہا ہوں پچھلے سال میں نے اسپورٹس میں کالج کلر حاصل کیا اور بی اے میں ٹاپ کیا گریجویشن کے دوران میں کالج کی تقریباً تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جو اس کالج میں تو کیا شاید اس شہر میں بھی نئے ہوں گے اور میں یہاں کا پرانا سٹوڈنٹ ہوں ، سو آپ میں سے کسی کواگر میری مدد کی ضرورت پڑے تو مجھے مدد کر کے بہت خوشی ہوگی شکریہ بہت بہت۔”
میں نے اپنا بڑا تفصیلی تعارف کرایا تھا اور پھر اپنی چیئر پر آ کر بیٹھ گیا۔ سر ابرار کی مسکراہٹ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ جان چکے ہیں کہ میں آج بہت موڈ میں تھا۔ اسی لیے جب میں اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھا تو انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اس ساری تقریر کو آپ کیا سمجھتے ہیں؟”
”سر ! آئندہ یونین الیکشنز میں کھڑا ہونے کے لیے کنویسنگ کی ایک کوشش۔”
جواب وہاں سے آیا تھا جہاں سے ایسے کسی جملے کی میں توقع بھی نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کشف مرتضیٰ تھی صرف ایک لمحہ کے لیے میں ساکت ہوا تھا پھر بڑے اطمینان سے پیچھے مڑتے ہوئے سیدھا اس کی آنکھوں میں جھانک کر میں نے پوچھا۔
”تو کیا میں یہ امید رکھوں کہ آپ مجھے ووٹ دیں گی؟”
”ہرگز نہیں آپ مجھ سے ووٹ کی امید نہ رکھیں۔”
اس کے فوری جواب نے مجھے حیران کر دیا۔
”تو کیا میں یہ توقع رکھوں کہ اگر میں الیکشن میں ایک ووٹ سے ہاروں گا تو وہ ووٹ آپ کا ہی ہو گا۔”
”آپ کو یہ خوش فہمی کیوں ہے کہ آپ صرف ایک ہی ووٹ سے ہاریں گے۔ میں آپ کو گارنٹی دے سکتی ہوں کہ آپ لمبی لیڈ سے ہاریں گے۔”
”کیوں ؟ آپ یہ گارنٹی کیسے دے سکتی ہیں کہ میں لمبی لیڈ سے ہاروں گا آپ کیا جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کی ماہر ہیں؟”
”نہیں جی ، یہ کام آپ کو ہی مبارک ہو۔ مہارت حاصل کرنے کے لیے اور بہت سے شعبے ہیں۔ جو لوگ زیادہ خوش فہم ہوتے ہیں وہ ہارتے ہمیشہ ہی بری طرح ہیں۔”
”ہو سکتا ہے۔ اس بار آپ کا اندازہ غلط ثابت ہو۔”
”چلیں دیکھ لیں گے، ویسے دنیا بھی تو امید پر قائم ہے۔”
اس کا لہجہ بہت دو ٹوک تھا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی سیدھا ہو گیا۔ سر ابرار مجھے ہی دیکھ رہے تھے اور ان کی مسکراہٹ بہت گہری تھی۔ وہ لڑکی پہلی نظر میں مجھے بے وقوف لگی تھی لیکن اب میں اس کے بارے میں اپنا خیال بدل چکا ہوں وہ اتنی بے وقوف نہیں ہے جتنی مجھے لگی تھی آئندہ اس سے بات کرتے ہوئے میں کافی محتاط رہوں گا تاکہ آج کی طرح دوبارہ مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
…**…
17 ستمبر
آج کالج میں جاتے ہوئے مجھے پورا ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔ اس ایک ہفتہ کے دوران اتنی باقاعدگی سے کلاسز نہیں ہوئیں اور میں فکر مند ہوں کہ اگر اسی رفتار سے کلاسز ہوں گی تو کورس کیسے پورا ہو گا۔ خیر ابھی تو ایک ہفتہ ہی ہوا ہے۔
پہلے دن زارون جنید کے ساتھ میری بحث ہوئی تھی اور اس کے بعد اس کا رویہ کافی عجیب سا ہے۔ اس کا گروپ ڈیپارٹمنٹ کے سب سے ذہین ترین لڑکوں پر مشتمل ہے اور پورے کالج میں ان کی دھاک جمی ہوئی ہے ویسے بھی جب کسی کے پاس ذہانت خوبصورتی اور دولت کی فراوانی ہو تو کسی جگہ بھی دھاک جمانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر مجھے وہ بات شدت سے یاد آتی ہے کہ خدا کسی بھی آدمی کو سب کچھ نہیں دیتا، کوئی نہ کوئی کمی ضرور رکھتا ہے مگر آخر اس گروپ کے لوگوں میں کیا کمی ہے؟ کیا وہ خوبصورت نہیں ہیں؟ کیا ان کے پاس روپیہ نہیں ہے؟ کیا ان کے پاس ذہانت نہیں ہے یا اچھا فیملی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔ آخر ایسی کون سی چیز ہے جو ان کے پاس نہیں ہے۔ مجھے بالکل بھی اس بات پر یقین نہیں ہے کہ خدا کسی بھی شخص کو سب کچھ نہیں دیتا۔ بعض لوگوں کو تو اللہ نے سب کچھ دے دیا ہے اور بعض کو کچھ بھی نہیں۔ جیسے میرے جیسے لوگ جنہیں نہ اچھا کھانے کو ملتا ہے نہ پہننے کو جو بیمار ہو جائیں تو گورنمنٹ ہاسپٹل ڈھونڈتے پھرتے ہیں، عزت کی بنیاد تقویٰ پر کہاں ہوتی ہے کون عزت کرتا ہے آپ کے تقویٰ کی؟ عزت تو روپے سے ہوتی ہے اور تقویٰ تو ویسے بھی غریبوں کی میراث بن کر رہ گیا ہے غریب کی عبادت تو کسی کھاتے میں نہیں آئی۔ ہاں امیر عبادت کرے تو پورے زمانہ میں اس کی دھوم مچ جاتی ہے اور دعائیں بھی تو امیروں کی ہی قبول ہوتی ہیں جو خدا کی راہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں خرچ کرتے ہیں بھلا مجھ جیسے لوگ جو روپیہ دو روپیہ خیرات کرتے ہیں ان کی دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں۔ پھر میرے جیسے لوگ یہ کہہ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ضرور ہم میں ہی کوئی خرابی ہوگی جو دعا قبول نہیں ہوتی۔
جب تک چھوٹی تھی۔ خود کو بہلا لیا کرتی تھی لیکن جب سے یہاں آئی ہوں اور لوگوں کے پاس اتنا روپیہ اور آسائشیں دیکھیں کہ اپنی ذات اور بھی حقیر لگنے لگی ہے۔ کچھ تو ایسا میرے پاس بھی ہوتا جو دوسروں سے موازنہ کرتی اور خود کو بہتر پاتی۔ یہاں آ کر میرے کمپلیکسز اور بھی زیادہ ہو گئے ہیں لیکن میں اپنی تعلیم چھوڑ کر یہاں سے جا بھی تو نہیں سکتی۔
میری روم میٹ فرزانہ سو چکی ہے اور میں اس وقت کسی سے باتیں کرنا چاہتی ہوں لیکن اس سے نہیں کر سکتی کیونکہ وہ میری صرف روم میٹ ہے دوست نہیں۔ وہ جس کلاس سے تعلق رکھتی ہے وہ کلاس صرف اسٹیٹس دیکھ کر دوست بناتی ہے اور وہ تو ویسے بھی زارون جنید کے گروپ میں ہوتی ہے۔ اس کے رویے نے مجھے تکلیف نہیں پہنچائی ہر شخص کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے دوست بنائے۔ لیکن کیا واقعی مجھے تکلیف نہیں ہوتی؟ ہاں مجھے تکلیف پہنچتی ہے کیا اس بات سے آپ کو تکلیف نہیں ہوتی کہ کوئی صرف اس لیے آپ کو نظر انداز کرتا ہے کیونکہ آپ کے پاس روپیہ نہیں ہے آپ کا لباس مہنگا نہیں ہے آپ کسی اونچی فیملی سے تعلق نہیں رکھتے۔
ہر گزرتا دن اس بات پر میرا اعتقاد پختہ کرتا جا رہا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی طاقت روپیہ ہے اور یہی روپیہ مجھے حاصل کرنا ہے کیونکہ صرف یہی وہ چیز ہے جو اس معاشرہ میں میرے خاندان کو عزت دلوا سکتی ہے۔ کیا کبھی میرے پاس اتنا روپیہ ہو گا کہ میں اپنی ساری خواہشات کو پورا کر سکوں۔ خواب صرف خواب وہ کسی نے کہا ہے نا۔
خواب تو خواب ہے فقط خواب ہی سے کیا ہو گا ہمارے بیچ جو حائل ہے وہ حقیقت ہے۔
…**…
25 ستمبر
آج پہلا دن تھا جب ساری کلاسز ہوئیں اب اسٹڈیز کا سلسلہ باقاعدہ ہو جائے گا، کالج میں اب مجھے صرف دو سال گزارنے ہیں اور پھر عملی زندگی کا آغاز ہو جائے گا اور میں ان دو سالوں کو پوری طرح سے انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔
اس وقت رات کے گیارہ بجے ہیں اور میں اس قدر تھکا ہوا ہوں کہ سونے کے علاوہ کچھ اور کرنے کا موڈ نہیں ہے لیکن بہر حال میری ڈائری اس کچھ میں شامل نہیں ہے۔ ڈائری لکھے بغیر تو میں سو ہی نہیں سکتا۔
آج میں نے کالج میں کافی مصروف دن گزارا لیکن کسی بھی کلاس میں کسی قسم کی بحث کے بغیر حتیٰ کہ کشف نے بھی آج مجھ سے بحث کرنے کی کوشش نہیں کی۔ خاص طور پر سر ابرار کی کلاس میں ایک پوائنٹ پر میں امید کر رہا تھا کہ وہ ضرور کچھ نہ کہے گی مگر غیر متوقع طور پر وہ خاموش رہی۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ سر ابرار کی کلاس میں اپنی پوزیشن بہت مستحکم کرتی جا رہی ہے اور پتہ نہیں سر ابرار کو بھی کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس کی بات کو بہت اہمیت دینے لگے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں۔ چند دن کی ہی تو بات ہے ، ابھی وہ یہاں نئی ہے اس لیے ریزرو ہے، کچھ دن بعد جب اسے کالج کی ہوا لگے گی تو پھر ایسی لڑکیاں کلاسز اٹینڈ کرنے کے بجائے لان اور کیفے ٹیریا میں زیادہ پائی جاتی ہیں کیونکہ یہ مڈل کلاس کی لڑکیاں کالج جیسی جگہ پر پڑھنے نہیں لڑکے پھانسنے آتی ہیں تاکہ اپنی کلاس سے نکل کر وہ اس کلاس میں آ سکیں اور وہ بھی مڈل کلاس کی ہی ایک لڑکی ہے۔وہ کیا مختلف ہوگی فرزانہ نے بتایا تھا کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ ٹیوشنز بھی کرتی ہے تو ایسی لڑکیوں کے لیے دولت میں ویسے ہی بہت چارم ہوتا ہے۔ میں بھی دیکھوں گا وہ کب تک اس امیج کو برقرار رکھتی ہے۔
آج اسمارہ نے مجھے اپنی برتھ ڈے پر انوائیٹ کیا تھا سو میری آج کی شام بہت اچھی گزری ہے۔ اس جیسی لڑکی کے ساتھ انسان شام توکیا زندگی بھی گزار سکتا ہے۔ میں تو آج کل اس سے کافی امپریس ہوں اور اس کا حال مجھ سے بھی برا ہے۔ میرے ایک ڈائیلاگ کے جواب میں وہ ایسے دس ڈائیلاگ بولتی ہے۔ شاید وہ یہ سمجھ رہی ہے کہ میں اس کے بارے میں بہت سیریس ہو چکا ہوں اور میں اس کی اس خوش فہمی کو ختم نہیں کر نا چاہتا کم از کم اس وقت تک توبالکل نہیں جب تک مجھے کالج میں کوئی اور اچھا پیس نہیں مل جاتا کیونکہ اس وقت تک گھومنے پھرنے کے لیے کالج میں اسمارہ سے زیادہ آئیڈیل کوئی لڑکی نہیں ہے۔ آج پارٹی میں اسامہ نے مجھ سے کہا تھا۔
”یار زندگی تو تم گزار رہے ہو۔ ایک سے ایک لڑکی کو پھانسا ہوا ہے۔”
مجھے اس کی بات بہت بری لگی ، اس لیے میں نے اسے کہا تھا ”مائنڈیور لینگوئج اسامہ! میں نے کسی کو نہیں پھانسا، میں صرف لڑکیوں کی کمپنی کو انجوائے کرتا ہوں جسے تم فلرٹ کرنا بھی کہہ سکتے ہو اور بس ہم کوئی ٹین ایجر تو نہیں ہیں جو بے وقوف بن جائیں، یہ بہت میچور لڑکیاں ہیں اور یہ تو خود انجوائے منٹ کے لیے بوائے فرینڈز بناتی ہیں، انہیں اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ کون کس حد تک سیریس ہے اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ان افیئر ز کو دل کا روگ نہیں بناتا ویسے تم خود جتنے شریف ہو وہ بھی میں جانتا ہوں۔”
میں نے کافی سنجیدگی سے اس کی کھنچائی کی تھی وہ جھینپ کر ہنسنے لگا تھا۔
میرے خیال میں آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ مجھے آج کچھ زیادہ ہی نیند آ رہی ہے۔ سو مائی سویٹ ڈائری اب تم بھی سو جاؤ۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!