ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

”سات پشتوں کا انتظار کیوں ہے آپ کو؟ مجھ سے شادی کر کے آپ میرے خاندان کا ایک حصہ بن سکتی ہیں۔”
وہ اس کی بات پر ایک بار پھر خاموش ہو گئی تھی۔
”سنبل! ایک بات تو طے ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے اور مجھے شادی بھی آپ سے ہی کرنی ہے۔ آج نہیں تو کل سہی۔ کل نہیں تو پرسوں۔ کوئی نہ کوئی دن ایسا ضرور آئے گا۔ جب آپ کو میری بات ماننا پڑے گی۔ مجھ میں انتظار کرنے کا حوصلہ ہے۔ آپ کو یہ اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ میں مستقل مزاج ہوں’ جو چیزیں مجھے اچھی لگتی ہیں وہ میں حاصل کر کے ہی رہتا ہوں چاہے آپ ایسی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں۔ میں اپنے فیصلے خود کرتا ہوں۔ بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہوں پھر انہیں بدلتا ہوں نہ ان میں ترمیم کرتا ہوں۔ آپ کی دلیل بھی میرا فیصلہ نہیں بدل سکتی۔ مجھے صرف آپ سے شادی کرنی ہے۔”
وہ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی تھی۔ وہ پہلی بار کسی میچور مرد کی طرح بات کر رہا تھا۔ بڑے پرسکون انداز میں۔ بہت ٹھہر ٹھہر کر۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی بس خاموشی سے اٹھ کر اندر آ گئی۔
اگلے دن ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا تھا۔ وہ ہاسپٹل نہیں آیا تھا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ پورا دن وہ لاشعوری طور پر اس کا انتظار کرتی رہی اور شام کو جب وہ واپس ہاسپٹل گئی تھی تو اس پر ایک عجیب سی بے چینی طاری تھی۔ ”آخر اس کے نہ آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟” بار بار اس کے ذہن میں ایک ہی سوال آ رہا تھا۔
دوسرے روز بھی وہ ہاسپٹل نہیں آیا تھا اور سنبل کی بے چینی میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ جیسے اس کے وجود کی عادی ہو چکی تھی۔ اب وہ چہرہ نہ دیکھنا وہ آواز نہ سننا اس کیلئے کس قدر تکلیف دہ ہو سکتا تھا یہ اسے اب اندازہ ہو رہا تھا۔
”اچھا ہے وہ نہ آئے میری جان تو چھوٹ جائے گی’ دوبارہ پہلے جیسی ٹینشن تو نہیں ہو گی۔” اس نے جیسے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی ور پھر وہ سارا دن خود کو ایسی ہی تسلیوں سے بہلاتی رہی رات کو سونے سے پہلے جو آخری چہرہ اس کے تصور میں آیا تھا۔ وہ حسن دانیال کا چہرہ تھا۔
پھر وہ ایک ہفتہ تک نہیں آیا تھا اور چوتھے دن ہی وہ اپنے آپ سے یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ وہ بھی حسن کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے اور یہ اعتراف بے حد تکلیف دہ تھا۔ ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہونا جو آپ سے سات آٹھ سال چھوٹا ہو اور جس کا حصول آپ کے لئے ناممکن ہو’ بے حد تکلیف دہ ہوتا ہے’ خاص طور پر تب جب آپ نے اس محبت سے بچنے کیلئے اپنی پوری کوشش کی ہو۔ وہ پورا ہفتہ جیسے ایک شاک کے عالم میں رہی تھی۔ ہر چہرے پر اسے حسن دانیال کے چہرے کا گمان ہوتا تھا۔ ہر آواز اسے چونکا دیتی تھی۔
…***…





”ہیلو سنبل کیسی ہیں؟” آٹھویں دن شام کو ہاسپٹل سے نکلتے ہوئے اس نے اپنے عقب میں وہ آواز سن لی تھی۔ اس کو پہلی بار اندازہ ہو ا کہ بعض آوازیں بھی جسم میں جان ڈال دیتی ہیں’ وہ رک گئی تھی۔ حسن اس کے سامنے آ گیا۔ پہلی دفعہ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کے چہرے پر نظر ڈال سکے۔ وہ یونیفارم میں ملبوس تھا۔ وہ اس کے سینے پر لگے ہوئے نام کو پڑھتی رہی۔
”آپ کیسی ہیں؟”وہ سوال ایک بار پھر دہرایا گیا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔” اس نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
”کبھی تو میرے بارے میں بھی پوچھا کریں کہ میں کیسا ہوں۔” وہ اس کا چہرہ نہ دیکھنے کے باوجود جانتی تھی کہ وہ مسکرا رہا ہو گا۔
”مجھ سے پوچھیں گی نہیں کہ میں ایک ہفتہ کہاں رہا؟ آپ کے پاس کیوں نہیں آیا؟” وہ کہہ رہا تھا۔
”مجھے جانا ہے۔” اس نے بمشکل کہا تھا۔
”سنبل! آپ پتھر نہیں ہو سکتیں۔ پتھر میں بھی دراڑ آ جاتی ہے آپ تو۔”
”مجھے جانا ہے۔ آپ سامنے سے ہٹ جائیں۔” اس نے حسن کی بات کاٹ کر کہا تھا۔
”آپ نے میرے بارے میں کیا سوچا؟” وہ اب بھی راستہ روکے کھڑا تھا۔
سنبل نے چلنا شروع کر دیا۔
”میری بات کا جواب دئیے بغیر آپ کیسے جا سکتی ہیں؟”و ہ اس کے ساتھ چل رہا تھا۔
”آپ جانتی ہیں۔ میں آپ سے محبت کرتا ہوں پھر آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتی ہیں۔” وہ کہہ رہا تھا۔ اس نے سر نہیں اٹھایا تھا۔
”آپ نے کبھی کسی کو مرتے دیکھا ہے۔ ضرور دیکھا ہو گا۔ آپ نرس ہیں۔ آپ کے سامنے بہت سے بیمار اور زخمی لوگ مرے ہوں گے مگر کسی تندرست آدمی کو اپنے ہی ہاتھوں مرتے نہیں دیکھا ہو گا۔ اب آپ حسن دانیال کو مرتے دیکھئے گا۔”
اسے جیسے ٹھوکر لگی تھی۔ حسن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سہارا دیا اور وہ سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”مطلب بہت واضح ہے۔ میں آپ کی وجہ سے خودکشی کر لوں گا۔” اس کا لہجہ بہت سرد تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
”تم یہ کیسے کر سکتے ہو؟”
”کیوں نہیں کر سکتا آپ مجھے قتل کر سکتی ہیں۔ میں خودکشی نہیں کر سکتا؟”
”میں نے تمہیں کب قتل…”
”جو آپ کر رہی ہیں’ وہ قتل سے کم نہیں ہے۔ میں نے کوئی گناہ تو نہیں کیا’ مجھے آپ سے محبت ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو شادی کی آفر کی۔ اس میں غلط چیز کیا ہے؟ آپ دوستی نہیں کر سکتیں’ شادی تو کر سکتی ہیں۔”
وہ ابھی تک اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ سنبل نے غیر محسوس انداز میں ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ اس کی گرفت اور سخت ہو گئی۔
”میرا ہاتھ چھوڑو۔”
”پہلے آپ مجھے میری بات کا جواب دیں۔”
”میں سوچوں گی’ اب تم ہاتھ چھوڑو۔”
”کتنا وقت چاہیے آپ کو؟ ایک دن’ دو دن’ دس دن۔ آپ یہ بتائیں؟” اس نے ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔
”دس دن۔”
حسن نے ہاتھ چھوڑ دیا۔ ”ٹھیک ہے اب میں دس دن بعد آؤں گا گڈ بائے۔”
وہ وہیں کھڑی اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
”اوہ خدایا اب کیا پھر میں اسے دس دن تک نہیں دیکھوں گی۔” اس نے ہاسٹل کی طرف جاتے ہوئے سوچا تھا۔
…***…
”کیا تمہارے ماں باپ اس شادی پر رضامند ہو جائیں گے؟” دسویں دن وہ پھر آ گیا تھا سنبل نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
”کبھی نہیں۔” اس نے بڑے دوٹوک انداز میں کہا تھا۔
”تو پھر یہ پرپوزل دینے کا کیا مطلب ہے؟”
”شادی مجھے کرنا ہے میرے ماں باپ کو نہیں۔ میں ماں باپ کا محتاج نہیں ہوں شادی کر سکتا ہوں اور گھر بھی چلا سکتا ہوں اور جب ایک بار شادی ہو جائے گی تو کچھ عرصہ کے بعد وہ یہ شادی قبول کر لیں گے۔”
”اس طرح تو میں شادی نہیں کر سکتی۔ تمہارے گھر والوں کی مرضی کے بغیر یہ سب نہیں ہو سکتا۔ میرے گھر والے اس طرح کا رشتہ کبھی قبول نہیں کریں گے۔”
”دیکھو سنبل! میرے بھائی نے بھی اسی طرح اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ کچھ عرصہ تک ممی اور پاپا ناراض رہے پھر بعد میں انہوں نے اس شادی کو قبول کر لیا۔ میرے ساتھ بھی یہی ہو گا۔ میں کوئی بچہ نہیں ہوں۔ میچور آدمی ہوں تمہیں میری بات پر اعتبار کرنا چاہیے۔”
وہ اسے تسلی دے رہا تھا۔
”مگر میرے گھر والے کبھی اس رشتہ پر رضامند نہیں ہوں گے۔”
”تم ان سے بات تو کرو۔ اگر وہ رضامند ہو گئے تو ٹھیک ہے۔ ورنہ ہم دونوں ان کی مرضی کے بغیر شادی کر لیں گے۔” وہ حسن کے جواب پر حیران ہوئی تھی۔ وہ بہت مطمئن تھا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کر سکتی۔”
”میرے بغیر رہ سکتی ہو؟” اس نے سنبل کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”رہ سکتی ہوں۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”اچھا!” حسن نے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔ ”ایک بار پھر سوچنا کیا واقعی میرے بغیر رہ لوگی۔ میرا خیال ہے’ نہیں تم یہ بات مانو یا نہ مانو’ بہرحال تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو۔ اتنی محبت نہ سہی جتنی میں کرتا ہوں مگر محبت ضرور کرتی ہو۔”
اس نے تھکے ہوئے انداز میں سرجھکا لیا تھا۔
”اپنے گھر والوں سے بات کرو۔ ہو سکتا ہے وہ مان جائیں ورنہ شادی تو ان کی مرضی کے بغیر بھی ہو ہی سکتی ہے۔” وہ چلا گیا تھا۔
”واقعی میں اس شخص کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ مگر جو یہ کہہ رہا ہے وہ…” وہ بہت دیر تک اسی کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔
حسن کو کچھ دن ضرور لگے مگر پھر وہ مکمل طور پر اس کی گرفت میں آ چکی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی برین واشنگ کرتا رہا مگر عجیب بات یہ ہوئی تھی کہ وہ آہستہ آہستہ خود بھی اس کی محبت میں گرفتار ہوتا گیا تھا مگر جب تک اسے اس بات کا احساس ہوا’ تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اب وہ چاہتا بھی تو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتا تھا کہ وہ سنبل سے محبت کرتا ہے وہ جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ کبھی اس رشتہ پر تیار نہیں ہوں گے۔ خاص طور پر اس کے والد جو سلوک اس کے ساتھ کرتے۔ وہ اس سے خائف تھا۔ مگر وہ پھر بھی سنبل سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اس نے یہی سوچا تھا کہ وہ اپنے والدین کو بتائے بغیر شادی کر لے گا۔
…***…
سنبل کو اس نے اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں سے اس کے بارے میں بات کرے۔ سنبل نے جھجکتے ہوئے اپنی ماں سے اس رشتے کے بارے میں بات کی تھی اور ان کا ردعمل اس کی توقع کے مطابق تھا۔ انہوں نے ایسے رشتہ سے صاف انکار کر دیا تھا۔ جس میں لڑکا نہ صرف اس سے کم عمر تھا بلکہ وہ اپنے والدین کو بتائے بغیر شادی کرنا چاہتا تھا۔ سنبل نے اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ اس کی بات سننے پر تیار ہی نہیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ایسے لڑکے سے شادی کرکے کنویں میں چھلانگ لگانا چاہتی ہے اور یہ نہ صرف ان کا خیال تھا بلکہ اس کے بھائی’ بہنوئی اور بہنوں کی بھی رائے تھی۔ وہ کسی طرح اس رشتہ کے بار ے میں بات کرنے پر تیار نہیں تھے۔ سنبل نے گھر سے واپسی پر حسن کو اپنے گھر والوں کے ردعمل سے آگاہ کر دیا تھا اور وہ یہ سب سن کر جیسے بھڑک اٹھا تھا۔
”تمہارے گھر والے فضول اعتراض کر رہے ہیں۔ زندگی ہم نے گزارنی ہے انہوں نے نہیں پھر اس طرح کی باتیں کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ مجھے لگتا ہے سنبل! تم نے انہیں منانے کی کوشش ہی نہیں کی۔” وہ اس کی بات پر ناراض ہو گئی تھی۔
”تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ میں نے کوشش ہی نہیں کی۔ اگر مجھے کوشش نہ کرنا ہوتی تو میں اپنے گھر والوں کے سامنے تمہارا ذکر ہی کیوں کرتی۔ خوامخواہ ان کی نظروں میں بری کیوں بنتی۔ مگر میرا خیال ہے’ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ تمہارے گھر والوں کی مرضی۔”
”سنبل! دوبارہ میرے گھر والوں کا ذکر مت کرنا۔ میں تم سے کہہ چکا ہوں تمہیں شادی مجھ سے کرنی ہے’ میرے گھر والوں سے نہیں مگر شاید تم کیپٹن حسن دانیال سے شادی کرنا نہیں چاہتیں جنرل بابر کریم کے بیٹے سے شادی کرنا چاہتی ہو اور میرا خیال ہے’ تمہارے گھر والے بھی مجھ سے نہیں جنرل بابر کریم کے خاندان سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں۔” اس کا لہجہ بے حد تلخ تھا اور اسے حسن کی بات پر بہت تکلیف پہنچی تھی۔
”تم کیسی باتیں کر رہے ہوحسن؟”
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوتی۔ میری ضرورت ہوتی تو تم اپنے گھر والوں کے یہ اعتراضات میرے سامنے پیش نہ کرتیں۔ انہیں سمجھاتیں۔ انہیں قائل کرتیں۔ دنیا میں گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کرنے والا میں واحد آدمی نہیں ہوں اور بھی بہت سے ہیں اور بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے سنبل کہ تمہارے گھر والے تمہاری شادی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ساری زندگی تم انہیں سپورٹ کرتی رہو۔ آفٹر آل سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے کون جانے دیتا ہے۔”
سنبل اس کی بات پر شاکڈ رہ گئی تھی۔ ”تمہیں شرم آنی چاہیے ایسی بات کرتے ہوئے۔”
”تمہارے گھر والوں کو ایسا کام کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ ” اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”میرے گھر والے ایسے نہیں ہیں۔” وہ تیز لہجے میں بولی تھی۔
”ایسے نہیں ہیں تو تمہاری بات کیوں نہیں مانتے انہیں پروا ہونی چاہیے تمہاری تم نے اپنی زندگی کا بہترین وقت ان کے لیے قربان کر دیا ہے اور وہ تمہاری ایک چھوٹی سی خواہش پوری نہیں کر سکتے۔”
”حسن! میں اور برداشت نہیں کر سکتی۔ تم یہاں سے چلے جاؤ۔” اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
”ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔ دوبارہ تمہیں اپنا چہرہ نہیں دکھاؤں گا۔” وہ غصے کے عالم میں وہاں سے چلا گیا تھا۔ وہ ساری رات روتی رہی۔
وہ اگلے کئی دن نہیں آیا تھا۔ تھک ہار کر اس نے خود ہی اسے فون کیا تھا اور وہ جیسے اسی بات کا منتظر تھا۔ سنبل کو اسے کچھ کہنے یا منانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ وہ خود ہی اس کے پاس آ گیا تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!