تنگ گلی کے دونوں کناروں پر بنے فٹ پاتھ انہی لوگوں کے قبضے میں تھے۔ جن کی صورت بھک منگوں جیسی اور حرکتیں پاگل دیوانوں جیسی تھیں۔ دیواروں سے ٹیک لگائے، آنکھیں بند کیے چند جلالی پیر بھی تھے جنہیں ہر گزرتے شخص کے قدموں کی آہٹ پر ”حق اللہ” کا نعرہ لگانا یاد آجاتا۔ غیر متوجہ زائرین کے گزرجانے کے بعد وہ اپنی کمر کے پیچھے چھپے ہاتھ کو باہر لاتے اور سیاہ ہونٹوں کے کنارے پر باقی ماندہ چرس کا سگریٹ اڑس لیا جاتا۔
مزار کے سامنے لوگوں کی کثیر تعداد دیکھ کر وہ بہت پہلے ہی گاڑی سے اترگئی تھی۔ یہاں تک چل کر آتے آتے اسے رستے کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکا اور شاید غلطی سے وہ اس پچھلی سڑک پر آگئی تھی۔ جہاں ڈیرہ ڈالے تمام افراد کا کھانا پینا چڑھاوے چڑھانے والوں کی ذمہ داری تھا۔ منت مانگنے، اتارنے آئے اکثر لوگ صاحب مزار کے پاس پہنچنے سے قبل ان فقیروں کے منہ سے اپنے لیے دعائے خیر سننے کے عوض جیبیں خالی کردیتے۔ ان کے نزدیک یہ بھی اللہ والے تھے جو اپنا گھر بار چھوڑے یہاں صاحب مزار کے عشق میں چُور محض لوگوں کی بھلائی کی خاطر رل رہے تھے۔ گندگی اور غلاظت کی بو اور تیز اگربتیوں کی مہک آپس میں دست و گریبان تھیں…. کبھی ایک حاوی ہوجاتی تو کبھی دوسری…. فضا ایسی تھی جیسے کثیف دھوئیں کے غبار گلاب کی خوشبو میں لپیٹ دیے گئے ہوں۔ وہ سیاہ بڑی سی چادر اوڑھے تیز قدموں سے چلنے کی کوشش کرتی ہوئی مزار کے اندر پہنچنا چاہتی تھی۔ مگر چلنے کا رستہ کہاں تھا… ہر دو قدم پر اسے ٹھہرجانا پڑتا۔ جب تک نکلنے کی راہ ملتی وہ ان فقیروں کو حسرت سے دیکھتی جو بہ ظاہر دنیا کے جھمیلوں سے آزاد مست زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ پھر آگے بڑھتے وہ اپنی چادر درست کرتی چلنے لگتی۔ اسے یوں چادر میں چھپنے کا کوئی شوق نہیں تھا یہ تو مجبوری تھی، بیلا نے کہا تھا اپنے معمول کے حلیہ میں اسے مزار میں داخل ہونے کی اجازت ہر گز نہ ملے گی مجبوراً اسی کا شلوار قمیص پہننا پڑا جو اس کے ناپ سے کافی بڑا تھا۔ جھبلا نما قمیص اور جھول والی شلوار… اوپر سے نہایت میلا اور بدبودار اس کی ماں کی ہدایت پر ہر دم گھر کو چمکانے میں مصروف اس ملازمہ کا پسینے میں شرابور وجود شاید اس قابل نہیں تھا کہ اس پر توجہ دی جاتی یا کم از کم اتنا ریلیف تو دیا جاتا کہ وہ خود بھی اسی طرح صاف ستھری رہے جیسا گھر کی رکھتی ہے۔ اس کا دل اور دماغ اتنے well trained تھے کہ بنا سوچے سمجھے ہر مسئلہ کی جڑ اس کی ماں ہی قرارپاتی اور نہیں تو کیا؟ میں جو بے چین روح کی طرح پورے شہر میں …. جی ماری پھرتی ہوں…. سکون کی تلاش میں ….. اس میں قصور کس کا ہے؟
اس کا دھیان حال میں تب واپس آیا جب وہ مزار کے احاطے میں داخل ہوکر سیڑھیوں کے سامنے پہنچ گیا سو ڈیڑھ سو سیڑھیاں چڑھ کر عقیدت مند صاحب مزار سے اپنی مرادیں مانگنے جارہے تھے۔ وہ بھی ان میں شامل ہوگئی۔
”وہ دیکھو اس پر حاضری آئی ہے” اپنے ساتھ چلتی دو عورتوں میں سے ایک کو نہایت جوش سے کہتے اور سامنے دیکھا، کچھ بھی سمجھ نہ آیا جائے۔ وہ کس طرف متوجہ ہوئی تھیں جو تیزی سے آخری چار سیڑھی پھلانگتی مزار سے پہلے والے کمرے کے دروازے پر جا کھڑی ہوئیں اور ایڑیاں اچک اچک کر سروں کے اوپر سے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ابھی اندر داخل نہیں ہوا جاسکتا تھا اور نہ ہی کوئی باہر جاسکتا تھا سب جہاں کے تہاں ٹھہرگئے تھے۔ اس چوکھٹ پر جہاں رنگ بہ رنگ موتیوں کی جھالر کچھ تازے کچھ باسی پھولوں کی لڑیاں جابجا لٹک رہی تھیں۔ کھلے صحن کے ایک طرف دیوار پر جالی خانوں میں کبوتر بیٹھے تھے اور کچھ کابکیں خالی تھیں۔ اس نے بھرپور نظر چاروں اطراف دوڑائی، دیوار کے کونے سے…. جہاں چپلیں سنبھال کے بیٹھا شخص لوگوں کو نمبروالی تختیاں پکڑارہا تھا۔ چند پھول فروش تھالیوں میں پھولوں کی پتیاں لیے بیٹھے تھے نیچے گلی میں بھی تو ایسی کئی دکانیں تھیں اس نے، پھولوں کی بھی اور چادروں کی بھی چادریں جن پر اللہ اور رسول کے صفاتی نام خوشنما رنگوں سے چھپے جھلمل ستاروں، ابرق اور افشاں سے سجے تھے ایک قطار میں آخر تک چلتے اس نے ہر شوخ رنگ کپڑے پر لکھے کلمات پڑھ ڈالے تھے یہ چادریں قبر پر چڑھائی جاتی ہیں یا انہیں شانوں پر اوڑھا جاتا ہے اسے دونوں باتوں کا علم نہیں تھا۔ کسی بھی مزار پر آنے کا یہ پہلا تجربہ تھا جب سے سنا تھا درگاہوں پر سکون ملتا ہے۔ مرادیں پوری ہوتی ہیں، اس نے یہ در بھی کھٹکھٹانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور آج صاحب قبر کی کرامت کا امتحان لینے پہنچ گئی تھی۔
یہاں آکر دیکھا تو بھانت بھانت کے لوگ نظر آئے۔ نیاز دینے والوں کا رش، لنگر کھانے والوں کو ہجوم، مانگنے والے فقیر، ناچتے ملنگ، دھمال ڈالتے مرید، نرینگے پھونکنے والے، سارنگی بجانے اور گانے والے جانے کون سا کلام پڑھ رہے تھے وہ سمجھ ہی نہ پائی۔ عجب میلہ سا لگا تھا، یہ ماحول یہ شور کچھ عجیب ہی تھا جیسے کسی نئی دنیا میں آگئی تھی وہ۔ مزار میں داخل ہونے سے پہلے وہ اس شخص کے پاس سے گزری جو تہ شدہ بوری پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ایک جوڑی جوتے کی حفاظت کے عوض چار روپے وصول کرتا اپنی ٹوپی میں ڈال رہا تھا جسے اسے الٹا زمین پر رکھا ہوا تھا۔ ایک لمبی ڈوری کا آخری سرا مسلسل اس کے ہاتھ میں تھا جس میں نمبر والی تختیاں پروکر ڈالی ہوئی تھیں پیسے لے کر وہ ایک تختی جوتے میں ڈالتا اور دوسری زائر کو پکڑادیتا۔ مگر اسے تو جوتے اتارنے ہی نہیں تھے وہ پہلے ہی سے ننگے پائوں تھی۔ یونہی مزار کے اندر داخل ہوگئی وہاں موجود بھیڑ انہی جیسے لوگوں پر مشتمل تھی جنہیں وہ باہر چھوڑ آئی تھی۔ اس نے سامنے قبر کی طرف دیکھاجس کے گرد سب دعائیہ انداز میں ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے، چند ایک غموں سے چور قبر کے سرے پکڑ کر زمین پر بیٹھے رورہے تھے۔ گڑگڑانے اور گھگیانے سے اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی وہ کھڑے ہوئوں کے نزدیک چلی آئی باری باری وہ ہر ایک کے قریب چند سیکنڈرز کے لیے پنجوں کے بل اچک کر ان کی دعا کے الفاظ سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتی پھر آگے بڑھ جاتی۔ بآواز بلند دعا مانگنے والوں کی مہربانی سے اس کا آدھا وقت یوں ضائع ہونے سے بچ گیا۔
یہاں بھی فضا میں اگر بتیوں کے ساتھ وہی بو شامل تھی جو خوش گوار تو ہر گز نہیں تھی مگر دماغ کی نسوں میں گھسی چلتی رہی تھی…. معلوم نہیں کیا تھا؟…. پر کچھ اثر تھا ضرور…. جو اسے پیچھے رہ جانے والی دنیا کے ہر خیال سے دامن چھڑالینے میں مدد دے رہا تھا۔ اپنا وجود یک دم بھاری سا محسوس ہونے لگا تو وہ زمین پر ہی دیوار سے ٹیک لگائے چند زائرین کے درمیان جگہ بنا کر بیٹھ گئی۔
اس نے پہلے بائیں طرف دیکھا سیاہ چمڑی اور سفید جاٹوں والا، گردن میں رنگ بہ رنگے موتیوں کی ان گنت مالائیں ہزار دانوں کی تسبیح ہاتھ میں لپیٹ کر منہ ہی منہ میں جانے کیا بدبداتا وہ ٹوٹے ناخنوں سے بدرنگ چوغے میں لپٹے بدبودار وجود پر خارش کرتے کرتے اس کی جانب متوجہ ہوا۔ اس کے چہرے پر جابجا سلوٹیں تھیں اور ماتھے پر گہری لکیریں مگر آنکھوں میں شعلوں میں لپک تھی۔ جب کہ اس کی دائیں جانب ایک عورت بیٹھی تھی دھواں دھواں منظر میں تحلیل ہوتی۔
عام حالات میں شاید وہ ایسے لوگوں کو دور سے دیکھتے ہی بھاگ کھڑی ہوتی پریوں نزدیک آنے کی ہمت ہر گز نہ کرنا مگر اس کی زندگی میں تو عام حالات بھی تھے ہی نہیں… سب کچھ خاص تھا ہمیشہ سے…. بے حد خاص۔ سفید جاٹوں والے بابا نے اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ میں جانے کیا دیا…. اس نے بھی ساتھ بیٹھی عورت کی دیکھا دیکھی ایک کش لگایا…. بیہوش و خرد آہستگی سے ہاتھ چھڑا کر بھیڑ میں گم ہوگئے۔ ہر کش کے ساتھ منظر دھواں دھواں ہو رہی اور بس ”وہ” یاد آتے تھے پر کیف لمحے…. بے خودی کا عالم….!
کاش زندگی اسی جنت میں بسر ہو…. ہمیشہ ہمیشہ کے لیے…. اس نے آنکھیں بند کریں اور اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئی۔
******
ثروت کافی کے گھونٹ بھرتے ہوئے اخبار کی شہ سرخیوں پر نظر دوڑارہی تھی۔ صبح کا یہ مختصر سا وقت اس کی فراغت کا ہوا کرتا تھا ورنہ باقی دن تو یوں دوڑتے بھاگتے گزرجاتا تھا کہ سانس لینے کی بھی فہرست نہیں ملتی تھی۔ اسی لیے وہ پوری کوشش کرتی تھی کہ ان اوقات میں وہ اطمینان سے بیٹھ کر اپنی کافی انجوائے کرسکے۔
ہمیشہ کی طرح اعجاز جلدی میں تھا، اسے پھر دیر ہوگئی تھی۔ صبح بیٹی کو اسکول چھوڑ کر واپس آنے کے بعد اس کے پاس اپنے کپڑے استری کرنے اور تیار ہونے کے لیے کافی کم وقت ملا کرتا۔ پہلے پہل اس نے ثروت سے کپڑے استری کرنے کے لیے کہا تو جواباً لمبی تقدیر سننے کو ملی تھی اس کے بعد یہ گستاخی کم از کم اس نے نہیں دہرائی تھی۔ بہ قول ثروت کے رانا نواز علی کی اکلوتی بیٹی ان کاموں کے لیے پیدا نہیں کی گئی۔ یہ نوکروں کے کام ہیں، اعجاز نے مان لیا مگر کپڑے ہمیشہ خود استری کیے۔ اسے بیلا کے ہاتھ سے کی گئی استری شدہ کپڑے پسند نہیں تھے۔ کہیں نہ کہیں شکن رہ جایا کرتی تھی جسے وہ دوبارہ استری کرکے پہنا کرتا اور پھر نہایت غیر محسوس طریقے سے ان دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو سمجھ لیا۔ اعجاز کو معلوم ہوگیا کسی بھی کام پر اعتراض کرنے سے بہتر ہے اسے خود کرلیا جائے اور ثروت…. اس کے لیے یہی کافی تھا کہ اعجاز نے اسے سمجھ لیا ہے۔
عام دنوں میں اعجاز ہاتھ میں جوتے پکڑے ڈائننگ ٹیبل تک آتا تھا۔ انہیں وہاں پھینک کر کرسی پر بیٹھ کے ناشتہ زہر مار کرتے ہوئے وہ پائوں جوتوں میں ڈال کر جلد سے جلد گھر سے روانہ ہونے کی کوشش کرتا تھا، مگر آج ایسا نہیں ہوا تھا کیونکہ گزرا کل بہت خاص دن تھا جسے ثروت کی بے حسی نے برباد کردیا تھا۔ رات کو ان کے جھگڑے کے بعد مسئلہ مزید گھمبیر ہوگیا تھا۔ اعجاز کا موڈ ابھی تک خراب تھا شاید اسی لیے ثروت کو یوں اطمینان سے کافی پیتا دیکھ کر وہ مزید جھنجھلاگیا تھا ”ناشتہ تیار نہیں ہوا ابھی تک….؟”
ثروت نے بنا اس کی طرف دیکھے جواب دیا، ”بیلا بنا کر لارہی ہے….”
اعجاز نے بڑی جدوجہد سے اپنے پیر بند تسموں والے جوتوں میں گھسیٹتے ہوئے کہا،
”جلدی کروادو مجھے دیر ہورہی ہے۔”
ثروت کو یوں بار بار ڈسٹرب کیا جانا کھولا گیا، اس نے اخبار میز پر پٹختے ہوئے اور سے بیلا کو آواز دی، hurry up بیلا…. فوراً بریک فاسٹ لائو ٹیبل پر….” ”یوں جاہلوں کی طرح چلانے کے بجائے تم خود اٹھ کر میرا ناشتہ لے آئو تو بہتر ہوگا…” اعجاز نے ثروت کو تنگ کرنے کے لیے کہا اور کامیاب رہا۔ ثروت نے جل کر جواب دیا ”میں تمہاری نوکر نہیں ہوں…. بیلا ہے ‘وہ’ پکارہی ہے تو لا بھی دے گی….”
اعجاز پھر بھی باز نہیں آیا اس نے پکا ارادہ کرلیا تھا جس طرح ثروت نے کل کا پورا دن اور رات برباد کی تھی وہ بھی آج کا دن خراب ضرور کرے گا۔
”بیلا میری بیوی نہیں ہے…. تم ہو…. میرا خیال رکھنا تمہارا فرض ہے….” ثروت سلگ اٹھی، ”اور مجھے پریشان کرنا تمہارا…. سکون سے نیوز پیپر بھی نہیں پڑھ سکتی…. تم جج بن کر فیصلے صادر کرتے رہا کرو…. اور میں حکم بجا لاتی رہوں۔” ہر وقت تمہارے ذہن پر اپنا کام سوا رہتا ہے…. آج جج کہہ دیا ہے کل ملزم کہہ دوگی… واہ کیا بات ہے وکیل صاحبہ کی….” اعجاز جان بوجھ کر اسے تنگ کررہا تھا۔
”اپنا طنز اپنے پاس رکھو سمجھے…”، ثروت کے جواب نے اسے سمجھادیا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے۔ ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے اس نے ثروت کے آگے پڑا اخبار اٹھاتے ہوئے بیلا کے لائے ناشتے کی جگہ بنائی۔ ثروت نے ایک نظر ناشتے کی طرف دیکھا اور زیر لب مسکرادی۔ اب جلنے کلسنے کی باری اعجاز کی تھی جس کا موڈ آف ہوچکا تھا۔
”یہ کیا بنایا ہے؟” اس نے جلا ہوا ٹوسٹ اٹھا کر غصے سے پوچھا تو بیلا گڑبڑاگئی، ”وہ …. صاحب آپ کو دیر ہورہی تھی تو میں نے آنچ تیز کردی… تھوڑا جل گیا…. آپ ٹھہریں… میں دوسرا لادیتی ہوں….” تیزی سے واپس جاے لگی، مگر اعجاز اسے فوراً روک دیا اور کہا،” رہنے دو میں پہلے ہی لیٹ ہوچکا ہوں…. یہ اسپیشل ناشتہ اپنی میڈم کو، کھلادینا،” پلیٹ کو ثروت کے سامنے پٹختے ہوئے اعجاز اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
ثروت نے بلاتاخیر پلیٹ کو واپس دھکیل دیا، اس کا دل جلانے کی غرض سے مسکراتا ہوا اعجاز سیٹی بجاتا رخصت ہوگیا۔ بیلا خاموشی سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی پھر ثروت کی جانب مڑی، تو وہ بھی پیر پٹختی اپنے کمرے میں جاتی نظر آئی…. بیلا نے ایک سرد آہ بھر کر ناشتے کی چیزیں واپس سمیٹتے ہوئے سوچا، ”بڑے ناشکرے لوگ ہیں… اللہ نے ساری نعمتیں دیں پھر بھی جب دیکھو…. لڑتے ہی رہتے ہیں۔”
******
وہ لڑکی piercing کروانے کے دوران غش کھاگئی جونہی اس کی گردن ایک طرف ڈھلکی بون بھی ڈھیلا ہوکر کرسی کی پشت سے ٹک گیا جواد ہڑبڑا کر آدھی اڑی بالی کو یونہی چھوڑ کر اس کی جانب لپکا۔ چلو میں تھوڑا پانی لے کر اس لڑکی کے چہرے چھڑکا مگر پوری طرح بے ہوش ہوچکی تھی۔ چند منٹ پہلے جب وہ لڑکی اس کی دکان کے اندر آئی تھی تو اس کی آمد کا مقصد جان کر اسے شک ہوا تھا کہ وہ لڑکی شاید مذاق کررہی ہے۔ ہاں اس کے پاس عورتیں اپنے کان ناک چھدوانے آیا کرتی تھیں اور آئی بروز کے پاس ایک دور کی piercing بھی کرچکا تھا وہ۔ مگر اس لڑکی کو ناف پر بالی چھدوانی تھی۔ ٹی شرٹ جینز میں ملبوس وہ پر اعتماد لڑکی بہ مشکل پندرہ سال کی ہوگی جو بلا خوف شاپنگ پلازہ کی آخری کونے والی چاندی کے زیورات والی دکان میں یہ کام کروانے پہنچ گئی تھی، اور وہ تن تنہا اس وقت بارہ بج رہے تھے۔ پلازہ میں ایک ایک کرکے تمام دکانیں کھلتی جارہی تھیں۔ مگر گاہکوں کا رش نہیں تھا۔ جواد نے اس کے اصرار پر بالآخر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے شوکیس کے نیچے سے سپرٹ کی بوتل اور روئی کا ٹکڑا نکال لیا۔ اس دوران وہ لڑکی اس چھوٹی سی کرسی پر براجمان ہوگئی اور اپنی ٹی شرٹ کو تھوڑا اوپر سِرکا لیا۔ جواد کے لیے یہ اپنی طرز کا انوکھا تجربہ تھا جب ایک نوجوان لڑکی اس سے یہ کام کرواتے ہوئے بالکل بھی شرم محسوس نہیں کررہی تھی۔ جب کہ وہ خود ایک لڑکا ہونے کے باوجود جھجک رہا تھا۔ بڑی ہمت کرکے اس نے خود کو اس کام کے لیے آمادہ کیا اور اب وہ لڑکی بے ہوش ہوچکی تھی تو جواد اس لمحے کو کوس رہا تھا جب اس نے ہمت کا ارادہ کیا تھا۔ اسے فوراً کسی کو بلانا چاہیے ورنہ خود سے کوئی آگیا تو جانے کیا سمجھے۔ ابھی اس نے سامنے والی دکان پر موجود سلیم بھائی کو آواز دینے کے لیے دروازے کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے اسی وقت دو خواتین باہر شوکیس میں سجے چاندی کے سیٹ کی قیمت پوچھتی ہوئی اندر داخل ہو گئیں۔ جیسے ہی ان کی نگاہ اس بے ہوش لڑکی پر پڑی وہ ٹھٹھک کروہیں رک گئیں جواد کے تو اوسان خطا ہو گئے، بہ مشکل تھوک نگلتے ہوئے اپنی وضاحت پیش کرتا وہ تقریباً ہلاک ہونے لگا، ”وہ … یہ بالی چھدواتے ہوئے درد سے بے ہوش ہوگئیں شاید…. میں کسی کو مدد کے لیے بلانے ہی والا تھا۔”
ہر چند کہ وہ سچ بول رہا تھا پر اس کا انداز ان عورتوں کی نظر میں اسے مشکوک بناگیا تھا۔ شاید انہوں نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا تھا۔ دونوں برقع پوش خواتین میں سے ایک تو اس لڑکی کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی جو ذرا بڑی عمر کی خاتون تھیں وہ جواد کے سر ہوگئی ”تم نے کیا کیا ہے اس لڑکی کے ساتھ؟”
”باجی…. آپ یقین کریں میں تو صرف اپنا کام کررہا تھا…. یہ بے ہوش ہوگئی…. میں نے پانی بھی ڈالا مگر….”
وہ عورتیں اس کے گال زور زور سے تھپتھپانے لگیں: ”یہ مرتو نہیں گئی؟ یا اللہ! پانی دو گلاس میں…”، جواد نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ کم عمر عورت نے گلاس لے کر ہاتھ میں پانی بھر بھر کر چہرے پر ڈالا، آوازیں دیں اس کے باوجود وہ ہوش میں نہیں آئی، ”اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا کیا؟…. اتنی سی بچی کو کوئی اکیلے اس کام کے لیے کیوں بھیجے گا…. ؟”بڑی اماں جی مسلسل جواد پر ہی شک کررہی تھیں۔ ”تم کہہ رہے ہو یہ بالی چھدواتے ہوئے درد سے بے ہوش ہوئی پر اس کے کانوں میں تو کوئی بالی نظر نہیں آرہی… کہاں ہے بالی…؟” انہوں نے دونوں کانوں کی بالی چیک کی۔ ”جی، وہ…. یہاں piercing کی ہے میں نے….” جواد نے اس کی ٹی شرٹ کی طرف اشارہ کیا۔
”کہاں…” وہ کچھ بھی نہ سمجھیں تب جواد کو اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے انہیں تفصیل بتانا پڑی۔ بس مصیبت ہوگئی، دونوں عورتیں توبہ توبہ کہتی اپنے کلے پیٹنے لگیں۔ کم عمر عورت نے کسی خیال کے تحت پیروں کے پاس گرا اسکا بینڈ بیگ اٹھاکر شوکیس پر رکھا اور کھول لیا تھوڑی سی تلاش بسیار کے بعد الم غلم سامان سے بھرے بیگ میں سے بالآخر موبائل برآمد ہوگیا۔ اس نے کالز لسٹ کھول کر نام پڑھنا شروع کیے انتہائی بیش قیمت لیٹسٹ ماڈل کا سیل فون…. اس نے ایک بار پھر غور سے اس لڑکی کی طرف دیکھا، ”ہونہہ آج کل ماں باپ بس اولاد کو ڈھیروں آسائشیں خرید کر دینا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں… کچھ ہوش ہی نہیں بچے کیا کرتے پھررہے ہیں…” Mom کے نیچے درج نمبر کو پریس کرتے ہی کال خود بہ خود ڈائل ہونے لگی۔ ”بیل جارہی ہے۔” اس نے گردن موڑ کر اماں جی کو بتایا جو اس لڑکی کے پرس میں تاکا جھانکی کررہی تھی، چار پانچ بیلوں کے بعد دوسری طرف سے فون ریسیو کرلیا۔
اس خاتون کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرکے چند مزید باتوں کے بعد کے بعد کال ڈس کنیکٹ کردی، اماں جی نے اپنی بہو کے کندھے پر ہاتھ رکھا: ”کیا کہا اس کی ماں نے….؟ کیا آرہی ہے اسے لینے کے لیے؟”
”نہیں!… کہہ رہی تھی ڈرائیور باہر پارکنگ لاٹ میں ہوگا۔ اسے فون پر دکان کا نام اور نمبر وغیرہ بتاکر یہاں بھیجتا ہے وہی لے کر جائے گا اسے….”
انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس لڑکی کا ڈرائیور جلد ہی وہاں پہنچ گیا۔ پہلے اس نے باہر سے شاپ کا نام اور نمبر بورڈ پر پڑھ کر زیر لب دہرایا پھر اندر داخل ہوکر اپنی بے ہوش ”چھوٹی میم صاحبہ” کی طرف دیکھا۔ حیرانی کی بات یہی تھی اسے ایسی حالت میں دیکھنے کے باوجود ڈرائیور کے چہرے پر بالکل بھی حیرانی نہیں تھی۔ ڈرائیور نے کوئی سوال پوچھے بغیر اپنی مالکن کا ہینڈ بیگ ایک کندھے پر ڈالا پھر جھک کر اس کا بازو اپنے کندھوں پر پھیلاتے ہوئے سہارا دے کر اسے کرسی سے اٹھالیا اور یونہی ساتھ لگائے ہوا دکان سے باہر نکل آیا۔ دونوں عورتیں بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر نکل آئیں۔ انہیں کیا خریدنا تھا وہ کس کے لیے بازار آئی تھیں؟ فی الحال یہ سب کچھ غیر اہم ہوگیا تھا۔ وہ ڈرائیور سے بات کیے بغیر آپس میں کھسر پھسر کرتی اس کے ساتھ گاڑی تک پہنچ گئیں۔ ”باجی میری مدد کریںگی؟ آپ چھوٹی میم صاحب کو پکڑلیں یا گاڑی کا لاک کھول دیں۔” اماں جی نے آگے بڑھ کر لڑکی کو ایک جانب سے سہارا دیا تو ڈرائیور نے جیب سے گاڑی کی چابی نکالی بہو نے ڈرائیور کے ہاتھ سے چابی لے کر ہنڈا سٹی کا دروازہ کھول دیا۔ اس لڑکی کو پچھلی سیٹ پر لٹانے میں انہیں دونوں عورتوں نے مدد کی۔ ڈرائیور ان کابے حد شکر گزار تھا، اچھے طریقے سے شکریہ ادا کرتا گاڑی میں جا بیٹھا اور چند منٹ بعد ہی وہاں سے روانہ ہوگیا۔ بہ ظاہر وہ لڑکی محفوظ ہوگئی تھی ڈرائیور انہیں بتاگیا تھا کہ سیدھا ہسپتال جائے گا جہاں اس کی ماں آکر اسے سنبھال لے گی۔ ان دونوں کا اس لڑکی سے کوئی رشتہ نہیں تھا اس کے باوجود وہ اس کے لیے نہایت فکر مند تھیں۔ اگر ڈرائیور نے اس کے ساتھ کچھ الٹا سیدھا کرنے کی کوشش کی تو کون بچائے گا اسے؟ آخر کو وہ بھی غیر مرد ہے اور جوان بھی۔ ”چلیں امی گھر چلیں۔” بہو نے اماں جی کو مخاطب کیا جو ابھی تک اس جاتی گاڑی کو دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے مُڑ کر اپنی بہو سے کہا: ”ضرور یہ لڑکی نشہ کرتی ہے۔”
******
شام کو اعجاز گھر کا دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر داخل ہوا ثروت اسے لائونج میں صوفے پر بیٹھی کسی شخص سے بات کرتی نظر آئی۔ اس نے اعجاز کی آمد محسوس کرنے کے باوجود اپنی گفت گو جاری رکھی، ”کیا نام ہے تمہارا….؟”
”جی دلاور…. میں بیرسٹر شفیق صاحب کے گھر آیا ہوں۔”
”ہاں مجھے بتایا تھا انہوں نے… چلو ٹھیک ہے تم صبح سات بجے آنا…. تمہاری نوکری پکی…” ”شکریہ میڈم…” دلاور ممنونیت سے کہتا جیسے ہی مڑا اسے اعجاز نظر آیا:” السلامُ علیکم صاحب….”، اعجاز نے خفیف اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیا اور دلاور کے جاتے ہی ثروت سے پوچھا: ”کون تھا یہ؟”
”میں نے حسن سے بات کی تھی ڈرائیور کے لیے… اس نے اپنے جاننے والوں کے پاس سے بھجوادیا اسے” ”اور تم نے اسے کام پر رکھ لیا…؟” اعجاز کا دماغ گھوم گیا۔
”ہاں تو… ہمیں ضرورت تھی ایک ڈرائیور کی… عماریہ کے اسکول پک اینڈ ڈراپ میں مسئلہ نہیں ہوگا….” ثروت نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا اور اسی انداز پر اعجاز کو غصہ آگیا ”میں نے صرف ایک بار تم سے عماریہ کو پک کرنے کے لیے کہا اور تم نے ڈرائیور بلالیا… کوئی ضروت نہیں ہے… میں ہر گز اجازت نہیں دوںگا کہ میری بیٹی ایک غیر آدمی کے ساتھ آئے جائے۔”
”اور میں بھی ہر گز اجازت نہیں دوںگی کہ تم عماریہ کو اسکول سے لاتے لے جاتے اسے میرے خلاف بھڑکاتے رہو…” ثروت بھی بھری بیٹھی تھی آج دوپہر میں اعجاز نے میٹنگ کی وجہ سے ثروت کو عماریہ کے اسکول جاکر اسے پک کرنے کے لیے کہا تھا، وہ بھی عین وقت پر، آفس سے نکلتے وہاں پہنچتے ثروت کو کافی وقت لگ گیا اور تب اسکول خالی ہوچکا تھا۔
گاڑی میں بیٹھ کر عماریہ ماں سے سیدھے مُنہ بات نہیں کررہی تھی جب ثروت نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کے پاپا نے ہی دیر میں اطلاع دی اور اس کا اتنا قصور نہیں۔ اس وضاحت کو اس نے قبول نہیں کیا تھا، اس کے خیال میں ثروت اپنے کام میں اس قدر مگن رہی کہ اسے اعجاز کی کال ریسیو کرنے کی فرصت نہیں ملی تھی بالکل اسی طرح جس طرح دو دن پہلے وہ عماریہ کی برتھ ڈے بھول گئی تھی، آج عماریہ کو بھی بھول گئی تھی۔
اپنی بیٹی کی بدگمانی دیکھ کر ثروت کو شاک لگا تھا۔ ہاں یہ بات درست تھی کہ اس دن وہ مصروفیت کے سبب اعجاز کی کال ریسیو نہیں کررہی تھی لیکن اگر وہ واقعی چاہتا تھا کہ بیٹی کے سالگرہ میں اسے شامل کرے تو ایک دن پہلے اسے بتا تو سکتا تھا۔ وہ بھول گئی تھی تو یاد کروادیتا مگر اس نے ایسا کرنے کے بجائے بیٹی کی نظروں میں ماں کو ویمپ میں بناکر جس طرح پیش کیا وہ ثروت کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اور اس بات کا حساب وہ اعجاز سے بے باک نہ کرتی یہ ممکن نہیں تھا۔
”تم اتنے شاطر انسان ہو…. میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی… تم نے گھر میں پارٹی رکھی عماریہ کے سب دوستوں کو بلالیا لیکن مجھے بتایا تک نہیں….”
”کیوں؟ تمہیں اپنی اکلوتی بیٹی کا برتھ ڈے یاد نہیں تھا۔ تم پیدا کرکے اسے بھول گئی ہو اسے…” اعجاز کے ترکش میں بھی تیروں کی کمی نہیں تھی۔
ثروت پل بھر کے لیے لاجواب ہوئی، پھر جیسے اسے اعجاز کا مسئلہ سمجھ آگیا: ”دراصل تم مجھ سے جیلس ہو… اس لیے خوامخواہscene createکرتے رہتے ہو….”
اعجاز کو اس کی سوچ پر افسوس ہوا،” تم ماں ہوکر بیٹی کی ضروریات کو اتنا سرسری لیتی ہو؟ کیا تمہیں نظر نہیں آتا وہ دن بہ دن تم سے دور ہوتی جارہی ہے؟”
”تم تم ہر وقت اسے میرے خلاف بھڑکاتے رہوگے، poison کرتے رہوگے تو یہی ہوگا،”
اعجاز نے جواباً اسے چیلنج کیا،” اگر تمہیں لگتا ہے یہ میری باتوں کا اثر ہے تو جائو…. غلط ثابت کردو مجھے…. اپنا کام چھوڑو گھر پر بیٹھو… اسے ٹائم دو… تاکہ اسے یقین آجائے کہ تم اس سے واقعی محبت کرتی ہو،”
”تمہاری نظرمیں تو ہر مسئلے کا حل بس یہی ہے کہ میں کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جائوں۔” ”بالکل… ہمارے مسئلے ہی تمہارے کام کی وجہ سے ہیں۔”
”دراصل تم یہ برداشت نہیں کرپارہے کہ میں تم سے زیادہ کامیاب ہوں۔”
”میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تم نہایت غیر ذمہ دار عورت ہو…. اور ایک بہت بری ماں…”. ثروت جاہل عورتوں کی طرح ہاتھ نچاتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔
”تم بہت اچھے باپ ہونا….. آئندہ مجھ سے مت کہنا اسے pick کرنے کے لیے…. ”اس کے پیچھے آتے ہوئے اعجاز دھاڑا ”نہیں کہوںگا…. عماریہ میری بیٹی ہے… اور میں اس کے لیے وہ سب کچھ کروںگا جو تم نہیں کرسکتیں… میری طرف سے جہنم میں جائو… ”ثروت نے کمرے کا دروازہ اس کے منہ پر بند کرتے ہوئے کہا، “You too go to hell!””
*******