نگار خانہ — مصباح علی سید
شام اداس اور ویران تھی۔ ٹھنڈا پڑتا سورج نارنجی تھال سے جھانکتا تھا۔ جیسے جیسے نیچے ہوا کے پھیکے جھونکوں میں تیرتے پنچھی اپنے اپنے
شام اداس اور ویران تھی۔ ٹھنڈا پڑتا سورج نارنجی تھال سے جھانکتا تھا۔ جیسے جیسے نیچے ہوا کے پھیکے جھونکوں میں تیرتے پنچھی اپنے اپنے
”فراز اُٹھ جا! پانی ختم ہو گیا ہے جا کے بالٹی بھر لا۔” پروین نے ہاتھ میں پکڑی بالٹی زمین پر رکھی اور خود بھی
”پتھر کا دور واپس آگیا ہے.. اور اب کی بار سب کچھ پتھر کا بنا کر دم لے گا۔” وہ کمرے میں بیٹھے ہم کلامی
یہ شاید 1988ء کے آس پاس کی بات ہے، یاد نہیں کیوں میں ان دنوں گائوں گیا ہوا تھا۔ باہر زمینوں میں ہریالی تھی، یعنی
پرانے دور کی بات ہے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی، جو کہ نئے دور میں بھی مستقل مزاجی سے وہیں موجود ہے۔
میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی
حضرت موسیٰ کے وصال کے بعد بنی اسرائیل نے کچھ عرصہ تو راہِ ہدایت پر گزارا۔ لیکن بعد میں وہ بدعت اور گمراہی کے راستے
جب کبھی میں اخبار اٹھاتی ہوں اور خبروں پر میری نظر پڑتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ لوگ ان سے نکل کر ہمارا گریبان
عجیب بات ہے کہ مجھے آیا اچھی نہیں لگتی تھی مگر اس کی بیٹی اچھی لگنے لگی تھی۔ آمنہ۔۔۔ آمنہ فرمان ۔۔۔ آمنہ ۔۔۔عبداللہ آمنہ
وہ گونگا نہیں تھا۔ گونگے تو ہمہ وقت ”آں آں، غوں غوں ” کر کے اپنے ہاتھوں کو زور زور سے حرکت دے کر دوسرے
Alif Kitab Publications Dismiss