نگار خانہ — مصباح علی سید

شام اداس اور ویران تھی۔ ٹھنڈا پڑتا سورج نارنجی تھال سے جھانکتا تھا۔ جیسے جیسے نیچے ہوا کے پھیکے جھونکوں میں تیرتے پنچھی اپنے اپنے آخری دانے دنکے چونچوں میں دبائے آگے بڑھ رہے تھے، وہ مٹھی میں باجرہ چاول لیے چھت پر آئی تھی۔ ڈوبتے سورج کے بعد آجانے والی سیاہی غم کو مزید بڑھانے لگی۔ اس نے دانے پھینک کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کہ پرندوں کی بے ہنگم شور نے اس کا وجد توڑ دیا۔ اس نے خفیف سی گردن گھما کر دیکھا، نگاہوں میں تحیر آبسا تھا۔
سب لوگ چھوٹے سے صحن میں بیٹھے تھے۔ ابا کچھ دیر پہلے ہی دکان سے آئے تھے۔ جیسے ہی ان کی آمد ہوتی، وہ سارے گھر میں وی آئی پی بن جاتے۔ باجی بھاگ کر پانی کا بھرا گلاس لے آتیں، ٹیپو بوٹوں کی طرف بڑھتا چپل پیش کرتا، آپا گرم گرم روٹیاں اتارنی شروع کر دیتیں اور اماں سب کو ہدایات دیتی کہ ابا کے روبرو بیٹھ جائیں۔ اب بھی ان کے برابر بیٹھی ہاتھ والے پنکھے کو گول گول گھماتی انہیں سارے دن کی روداد سناتے ہوا جھل رہی تھیں۔ ابا نے قمیص اتارتے ہوئے اپنے مخصوص بے زار لہجے میں کہا:
”تیرے ہاتھوں میں اگر دم نہیں تو ادھر دے۔”





انہوں نے نہ صرف پنکھے کی جانب ہاتھ بڑھایا بلکہ تقریباً چھین ہی لیا۔ اماں ”ایہہ” کہتی رہ گئیں۔ اب پنکھے کی ڈنڈی ابا کے ہاتھوں میں گھوم رہی تھی پھر اسی سے پشت کھجاتے کہنے لگے:
”جانے کب آئے گی کم بخت۔”
”ہائے مر گئے یہ واپڈا والے… ستیاناس ہو اُن کا۔”ابا کی تائید میں صحن کے بیچوں بیچ لگے جنگلے سے نیچے والی منزل کے بڑے میاں نے دہائی دی۔ نچلی منزل کا بند گھر، کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ اور پھر شدید حبس، غصے کے ساتھ گالیاں بھی بنتی تھیں۔
ابا ان کی بے قراری پر کُھل کر مُسکرا بھی نہ سکے کہ اپنے سٹور سے دھڑ دھڑ قیامت خیز کھڑاک کی آواز آئی تھی اور ساتھ آپا کی دل خراش چیخیں ابھریں:
”ہائے میں مرگئی۔”
”اسے کیا ہوا…؟ہائے! اسے کیا ہوا؟” اماں سینہ تھامے سٹور کی جانب بڑھیں جہاں بھوت نما آپا چلاتی ہوئی برآمد ہوئیں۔ کچھ دیر پہلے اچھی بھلی آپا کو روٹیاں اتارتے دیکھا گیا تھا۔ ابا کے سامنے ٹرے رکھ کر سٹور سے ان کا بستر ڈھونڈنے گئیں تھیں۔ چادر کا کونا ہاتھ لگا مگر پوری طرح قابو میں نہ آیا تھا، زور لگایا پیٹی پر رکھے بستر کے ساتھ کوئی بھاری سی چیز ان پر آن گری۔
درد اپنی جگہ، اس سوغات کی خوشبو و رنگینی اپنی جگہ۔ دراصل ٹیپو حد سے زیادہ چٹورا ہو گیا تھا۔ جو چیز دیکھی پیٹ کے دوزخ میں منتقل کرلی۔ اماں نے چُھپ کر اچار ڈال مرتبان اونچی پیٹی پر بستروں کے پیچھے خاصا چھپا کر رکھا تھا۔ چادر کھینچنے سے وہ بھی بدلحاظ بنا آپا سے گلے ملنے آگیا۔ پھر کیا تھا، تیل کی تل چھٹ میں رنگ برنگے مصالحہ جات، آم، آملے اور پھلیوں نے آپا کے وجود پر عجیب وغریب نقش و نگار بنا دیئے۔ عجائب خانے میں رکھتے تو ایک مہینے کا راشن نکل آتا۔ ہاتھ لگانے سے بھی کراہت آرہی تھی۔ اماں کو پہلے اچار کے ضائع ہونے کا قلق ٹھہرا، دو چار اس کے گھونسے جڑے پھر ہنسی آگئی۔ ابا بھاگ کر لالٹین اٹھا لائے، بچی پہچانی تب ساری بات سمجھ میں آئی اور ٹیپو اندھیرے میں ہی اچار کی پھانکیں اٹھا کر بھا گ گیا۔
”ستیاناس ہو جائے، اس کلموہی حکومت کا، زندگی سے سارا سکھ چین ہی چھین لیا، جب دیکھو بتی بند، کبھی سالن میں نمک کی جگہ چینی ڈل جاتی ہے تو کبھی چائے میں پتی کی جگہ کلونجی، کہاں تک اپنے دیدوں کی روشنی سے کام لیں؟” اماں کو بے انتہا غصہ آیا۔ سارا اچار بھی تو بدبخت لوڈشیڈنگ کی نذر ہو گیا تھا جیسے ہی اچار کی یاد آئی آپا کی کمر پر جھانپڑ جڑا۔





”منحوس! دِکھ نہیں رہا تھا چادر کہیں پھنسی ہوئی ہے، مرتبان نہیں اسے چھوڑ رہا تو تو ہی چھوڑ دیتی۔ اب دفع ہو، جاکر نہا بدن سے تیل کا کیچڑ اتار…”
”اوئے ہوئے مِس!…کیسے نہائو گی۔ پانی ختم ہے اور بتی آنے والی نہیں۔”ٹیپو انگوٹھے دکھاتا ناچ رہا تھا۔
”ہائے میرے ربّا…” یقین مانو اب آپا کو تیل میں مرچ ہلدی کا احساس ہوا تھا پھر تو سارے بدن میں بھوری چیونٹیاں بھر گئیں۔
”میرے اللہ!” اس کی نگاہ آسمان نامی چھوٹے سے نیلے ٹکڑے پر جا ٹھہری۔
”قیامت والے دن اس حکومت کو بخشنا نہیں، جس طرح مجھے مرچیں کاٹ رہی ہیں ، انہیں سانپ بچھو ڈسیں۔”
یہ اس گھر کی ہی نہیں بلکہ چھوٹے سے پیچ دار گلیوں والے علاقے کے دیوار سے دیوار جڑے ہر گھر کی کہانی تھی۔ ڈھونڈتے کچھ ملتا کچھ، پکاتے کچھ پک کچھ جاتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نئی نئی لوڈشیڈنگ شروع ہوئی تھی۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونے پر بتی جانے لگی۔ لوگ بلبلاتے شور مچاتے، ہڑتالیں، توڑ پھوڑ، ایک دن حکومت نے چھوٹا سا بیان زخم پر برف کی طرح رکھا۔
”چند سالوں کے لیے ملک مسائل میں گھرا ہے، تسلی رکھیں پانچ سالوں بعد ہمارے پیارے وطن میں لوڈشیڈنگ کا تصور بھی نہیں رہے گا۔”
لوجی خوب کہی، پہلے واپڈا اوقات پر پھر اوقات سے باہر ہی ہو گیا۔ لوڈشیڈنگ کا تصور دفعتاً نہیں بچا تھا۔ غالباً لوگ اندھیروں کے عادی ہو گئے تھے۔ اگر کوئی وقت پوچھ لیتا صبح سوا نو سے رات سوا نو تک کی کہانی انگلیوں پر سنا دیتے۔
”سوا نو بجے آئے گی، پھر سوا دس بجے جائے گی، پھر سوا گیارہ، سوا بارہ…” آپا نے تو مہارت دکھائی۔ کلاک کے ہندسے ہٹا کر بتی آئی، بتی گئی کا کلاک بنا لیا۔ نئی طرز کا ڈیکوریشن پِیس، پڑوسی پوچھ پوچھ جاتے کہاں سے خریدا ہے۔ حکومت کی پانچ سالہ برف کی نظر کسی کا جمع جتھا، کمیٹیاں، کل پونجی، یو پی ایس کی نظر ہو گئے۔ پھر یہ دیکھا دیکھی ڈینگی کی وبا سے بھی تیز پھیلے۔ پانچ سال گزرے۔ واپڈا اوقات سے کیا سرحدوں سے باہر ہو گیا۔ بتی آئی گئی کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ کبھی آرہی ہے تو بے تحاشہ اور کبھی نہیں ہے تو بھلے ساکٹ میں انگلیاں دے لو یا دروازے کے باہر گزرتی تاروں پر پینگیں ڈال لو اور کبھی حسینہ کی طرح پلکیں جھپک جھپک کر چیزیں ساڑ دیتی اور پھر پورے کنبے میں دھینگا مشتی شروع تو کبھی ڈھیٹ بنی سارا دن آوارہ مٹرگشت کرتی۔ میٹرگھما کر اماں ابا کی اتنی لڑائی کرواتی آدھے برتن تو یوں ہی ٹوٹ گئے تھے۔ ”بل کون بھرے۔”
کچھ دن پہلے کی بات ہے اماں چوکی پر بیٹھی ساگ کی گندلیں صاف کر رہی تھیں کہ یک لخت اپنی اسرافیل کی پھونک جیسی چنگھاڑ نکالی۔
”او ٹیپو! اس منحوس فریج کو بند کر دے، آج پاگلوں کی طرح بتی آرہی ہے کہیں چیزوں کو ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ پھر تیرا باپ آکر مجھے ٹھنڈا کرے گا۔” نیچے والی منزل کے مائی بابے نے سنا تو قہقہوں سے پیٹ میں بل پڑ گئے۔
”اماں!” ٹیپو چھوٹی سی انگلی ٹھوڑی پر جمائے سامنے آکھڑا ہوا۔
”آج لائٹ اب تک کیوں آرہی ہے؟” اس نے فریج کی تار کھینچ کر بڑی معصومیت سے پوچھا تھا۔ اماں بدک گئیں۔
”آج وہ بدبخت ٹی وی پر بیٹھے گا، اس کی آواز سننے اور تصویر دیکھنے کے لیے دے رہے ہیں۔”
”اماں!آج ایگزیکٹو ہمارے ٹی وی پر بیٹھنے آئے گا…” ٹیپو کی مارے حسرت کے آواز پھٹ گئی۔ آواز میں دنیا بھر کا درد اس لیے تھا کہ اگر ایسا ہو تو مخمنی سا ٹی وی کئی حصوں میں بکھر جائے گا اور ابا دوسرا ٹی وی تو قیامت تک نہ لے کر دیں گے۔
”ہاں! آکر بیٹھے تو سہی، ڈویاں مار مار سر نہ پھاڑ دوں اس کا… خود تو اے سی لائٹوں والے کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی پر آتے ہیں، ایک ہم بے چارے… ہک ہا”
اماں صد افسوس کرتیں اپنی سبزی اُٹھا کچن کی جانب بڑھیں جہاں ایک اور آفت ان سے لپٹنے کو تیار تھی۔ چند سالوں میں بہ مشکل خود کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عادی بنایا۔ کچھ دن احتجاج کیا، کھمبے گرائے، تاریں توڑیں، گالیاں بکیں اور پھر بھول بھال گئے۔ عادت بنا لی تھی تو نیا عذاب وارد کر دیا گیا۔ یخ بستہ موسم اوپر سے چولہے ٹھنڈے۔ جب جلائو ”سوں” سائرن بجاتی کان پھاڑ آوازیں جیسے بہت سی ایمبولینیس اکٹھے ہی گزرنا چاہ رہی ہوں۔ کتنی دیا سلائیاں تو اسی جانچ میں ختم ہوئیں کہ اب آئی کہ تب آئی۔ پر ناجی چولہے سے تو کچھ نہ نکلا البتہ اماں کے وزن سے بھی بھاری مغلظات ان کے منہ سے ابلیں۔ حکومت کی آنے جانے والی دس دس نسلوں کو کوسا۔
پچھلے ہفتے کی بات تھی۔ ابا کو بخار چڑھا تھا، ان کے لیے نرم غذا کے طور پر دلیہ بنانا تھا۔ اماں نے سارا دن تھاپی مار مار ٹھنڈے پانی میں کپڑے دھوئے، جسم اکڑ گیا اور ٹھنڈ چڑھ گئی تو آپا سے ابلے انڈے اور چائے کے پیالے کی فرمائش کی۔ اکتاہٹ بھری آپا نے اپنے ناگوار منہ کو مزید بے زاریت سے سجایا۔ مرے قدموں سے جا کر چولہا جلایا، جو حسبِ عادت رانجھا بنا سارنگی بجا رہا تھا۔ آپا دھر سے چلائیں۔ ”اماں گیس نہیں آرہی۔”





”چولہے کو اٹھا، باہر پھینک دے منحوس کو، خواہ مخوا رش بڑھا رکھا ہے۔” اماں نے بلبلا کر کہا آپا تو اس مزاح کو انجوائے کرتی کمرے میں چلی گئیں، اپنی کہانی جو پوری کرنی تھی۔ البتہ ٹیپو سمجھا شاید چولہا پھینکنے سے گیس آجائے گی۔ آپا کی حکم عدولی پر تلخ نگاہ سے انہیں گھورا اور تیزی سے کچن کی جانب بڑھا، والوسے پائپ کھینچ، چولہا اٹھا کر گلی کی کھڑکی کی جانب بڑھنے لگا، صحن میں لگے سیاہ جنگلے میں پائوں پھنسا اور نچلی منزل والے بڑے میاں کے آدھے خالی سر پر برنر کی آہنی ٹھیکری جا گری۔ لو بتائو کوئی پوچھے اس عمر میں کیا تُک بنتی ہے صحن کے بیچ و بیچ جنگلے کے نیچے بیٹھ کر گنگناتے ہوئے اپنے جھالر نما بالوں پر خضاب لگانے کی؟ مانا بتی نہیں تھی پر کبھی تو آتی۔ کون سا ابھی بارات چڑھ رہی تھی۔ مگر نابھئی، پھڑوالیا اپنا طبلے جیسا ماتھا، حالاں کہ اچھی طرح پتا ہے پچھلے ہفتے کروشیابنتی بڑی اماں کے اوپر غلطی سے باجی سے چائے چھلک گئی تھی اور اماں کے پائوں سڑ گئے تھے۔ تب تو بڑے میاں گردن گرائے بیگم پر خوب ہنسے تھے مگر آج اف! کچھ نہ پوچھو۔ بابا جی نے جو قیامت خیز ہوٹر بجائے، چیخ و پکار، گالی گلوچ، چولہا تو وہاں ہی دھرا رہ گیا اور دونوں گھروں کے تمام افراد آپس میں خوب گتھم گتھا ہوئے۔ بڑے میاں کی بہویں نکل آئیں، پوتا پوتی اماں کی ٹانگوں پر چوہوں کی طرح دندیاں ماریں، کسی کے بال کسی کے ہاتھ۔ بڑے میاں کا خضاب اور خون ایک ہو کر چہرہ بہت ہول ناک لگ رہا تھا۔ ایسے میں بخار میں پھنکتے ابا گھر داخل میں ہوئے ان کا جی چاہا سب مل کر مجھے ہی مارو شاید بخار سے ٹوٹتے بدن کو کچھ افاقہ ہو۔ دوا تو پہنچ سے دور تھی۔ کچھ محلے کے لوگ بیچ میں پڑے، صلح صفائی ہوئی تب سب نے مل کر واپڈا پلس گیس کا غائبانہ جنازہ اٹھایا۔ ایسے جنازے دھکا کالونی میں روز اٹھتے تھے۔ نام پر حیرت ہو رہی ہو گی۔ بھئی یہ کالونی ایک مشہور سیاسی لیڈر نے اپنے سیاسی عزائم پورے کرنے کے لیے ناجائز تجاوزات پر غریبوں کے لیے آباد کی تھی اور فی الوقت رہائش پذیر اپنی قسمت کے دھکوں سے اسے چلا رہے تھے۔ خیر…
جب شروع شروع گیس جانے لگی تو لگا شاید کہیں نئی پائپ لائن بچھ رہی ہے پھر خیال گزرا بلوچیوں کے ڈیرے پر لڑائی ہو گئی ہو گی ایک دوسرے کا سرپھاڑنے کے بجائے راکٹ مار کہ گیس کا کنواں پھاڑ دیا ہوگا۔ لیکن جب تواتر یہی مصیبت نازل رہی تو سب عورتیں اکٹھی ہوئیں اور تھانے دار کی طرح تنی بیلن، چمٹے، ڈویاں اٹھا پہنچ گئیں چوک پر، بے چارے بھوکے پیٹ یا سوکھے پاپے کھا کر رزق کی تلاش میں سکول اور دفاتر کو نکلے پسماندگان کا رستہ روک لیا۔ ٹریفک جام… کیا ان خواتین نے خاندانوں میں آگ لگائی ہو گی جو اس وقت سڑک پر لگائی۔ ایک بے چارہ سردی سے ٹھٹھرا مسافر لمحے کے لیے ہاتھ سینکنے کھڑا ہو گیا۔ بوڑھی سی اماں نے ہاتھ لمبا کر کے اس کے بازو پر ڈوئی ماری۔
”اوہ منحوس! تیرے سینکنے کو نہیں دہکائی، اس کا دھواں حکمرانوں کے دیدوں میں چبھانے کے لیے لگائی۔” اتنا ہنگامہ برپا ہوا۔ میڈیا اکٹھا ہو گیا، حکومت کے خلاف نعرے بازی، گالیاں، بددعائیں۔ جلتے پتوں کی خبر حکومت تک بھی پہنچی۔ انہیں بھی ٹھنڈی برف کا گولہ مرہم کی طرح تھما دیا۔
”حکومت اقدام کر رہی ہے، جلد حل نکلے گا۔”
اور حل نکل بھی آیا۔ گھروں میں گھنٹہ بھر کے لیے گیس آنے لگی۔ وہی خواتین جو آٹھ آٹھ بجے تک چارپائیوں پر کھٹمل کی طرح اینٹھی بیٹھی رہتیں۔ پھرکی کی طرح گھوم کر اٹھتیں، نشئیوں کی طرح جھومتی جھامتی ٹم ٹم جلتے چولہے پر ہانڈیاں پکانے لگیں۔ ساری کالونی کے چولہے یک لخت جل اٹھے۔ گیس ٹم ٹم سے ٹماٹم ہو گئی۔ کسی کی ہانڈی پکی، کسی کی کچی، باہر نکل نکل اک دوجے کے دروازے بجا بجا کر اپنا چولہا ہلکا کرنے کی استدعا، پھر حکم اور پھر وہی دھینگا مشتی۔ مفت میں پوری دنیا ہالی وڈ کی ریہرسل سے مستفید ہوئی بلکہ کچھ من چلوں کے دل کی مراد پوری ہو گئی۔ جب حسینہ دروازہ بجاتے آتی تو اک محبت نامہ ہاتھ میں تھما دیتے۔ کوئی بڑھا ہاتھ جھٹک دیتی اور کوئی رقعہ پلوسے باندھے مٹکتی اپنے گھر کی طرف۔ پرسوں آپا گئیں تھیں۔ مٹھی میں رقعہ لے آئیں دس بار پڑھا۔ حکومت کی پالیسی کو دعائیں دیں رابطے کہ کا ذریعہ بنایا۔ آج صُبح دروازہ بجا، سامنے والا رشید انتظار میں تھا۔ دروازہ کھولتے ہی نازُک ہاتھ تھامنا چاہا اور چنگھاڑ نکلی۔ غالباً آج اماں گئیں تھیں۔ اس کی حرکت پر ہاتھ میں پکڑا گرم چمٹا دے مارا۔
”منحوس مارے میں تو چولہا ہلکا کرنے کا کہنے آئی تھی، تو آوارگی پر اتر آیا…”
پھر کیا بتائیں کتنوں کی ایسی حرکتوں پر کیسی کیسی ٹھکائی ہونا۔ روز کا معمول بن گیا۔





عوام بھی کہاں تک احتجاج کرتی؟ حکومت تو بھیجے میں میخیں ٹھونکے نشے میں چور تھی۔ مفاہمت پسند عوام نے متبادل ڈھونڈ لیا۔ پہلے سے کم خرچے مزید گھٹائے اور کسی نے چھوٹے سلنڈر، تو کسی نے تیل کے چولہے رکھ لیے۔ اماں تیل کے چولہے سے خوف زدہ تھیں۔ پچھلی گلی کی جوان لڑکی مری تھی۔ انہوں نے ابا سے سلنڈر کی فرمائش کی۔ وہ لے بھی آئے اور رات کو اپنی چارپائی کے نیچے رکھ کر سوتے کہ کہیں گھر کی گیس سمجھ کر راتوں کو عیاشی شروع نہ ہو جائے۔ دن میں اس دوکلو گیس پر اماں پہرہ بٹھا دیتیں۔ آپا جیسے ہی سلنڈر کی طرف بڑھتیں، اماں اپنی پاٹ دار آواز میں دھاڑتیں، ساتھ ہی بونس میں اڑتی ہوئی جوتی بھی آتی۔
”اے منحوس ماری! بلینک (بلیک) میں بھروائی ہے پانچ سو کی… اب آنے بہانے اڑا نہ دئیو…” خیر جیسے تیسے بچے پراٹھے کھا کر سکول جانے لگے۔ گیس بجلی کا نہ ہونا معمولات میں شامل ہو گیا اور ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنے مسائل حل کرنے کے بہ جائے پہلے معمولات بناتے ہیں پھر اُن سے لطف اندوز ہونے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ پٹرول، سی این جی کم ہونے کا رونا پڑا، کچھ دن جلسے جلوس نکالے لیکن پھر عقل پر ماتم کیا۔ لوبھلا یہ تو حکومت نے بلامعاوضہ تفریحی سیشن کا بندوبست کیا ہے۔ غالباً جو مزہ لائنیں دیکھنے کا ہے وہ کہیں بھی نہیں، خاص کر اگر اس میں بارات کھڑی ہو۔
ارے واہ! کہاوت تو اب صحیح مانوں میں پوری ہوئی تھی۔ پہلے لوگ جوتیاں گھسا کر دلہن لاتے تھے اب ٹائر رگڑوا کر اور بسا اوقات یہی ٹائر کچھ آگے پیچھے کرنے کے چکر میں بندے کچکچاتے دروازے کھول باہر نکل آتے، یقین مانو کیا مجنوں چاک گریباں لیلیٰ کے شہر پہنچا تھا جو دلہا حاضرِ خدمت دلہن ہوتا۔ باراتیوں کے ہیئراسٹائل الگ بدل جاتے۔ جب ایسی صورتِ حال پانی کے فلٹراسٹیشن پر ہونے لگی۔ خالی کینوں والے بھرے کین والے پر ٹوٹ پڑتے اور بھرے کین والا طیش میں آکر اپنا بھاری بھرکم کین سامنے والے کو مارتا۔ پانی سے توخیر ہاتھ دھوتا سو دھوتا سامنے والا دانتوں سے بھی دھل جاتا۔ باقی حاضرین کو ہنسی کے دورے پڑتے۔ پیٹ کے اکثر امراض تو ایسے مجمع کو دیکھ کر ہی ٹھیک ہو جاتے۔ ابا کا بھی جب پیٹ خراب ہوتا یا بجلی کے انتظار میں فارغ بیٹھے بیٹھے تنگ پڑ جاتے تو اپنی پیکو فیشن ڈھک سائیکل اٹھا کر کبھی سی این جی اسٹیشن تو کبھی پانی کے سرکاری فلٹر کا رخ کرتے ۔ مفت کا اسٹیج شو خاصا دل بہلا دیتا، بغیر دوا کے بندہ ٹھیک۔ بھئی اتنی شان دار پرفارمنس اور سلطان راہی، مصطفی قریشی اور شان کی نہ رہی تھی جتنا ٹیلنٹ اس ”نیوجنریشن” میں تھا۔




Loading

Read Previous

سال ۲۰۴۰ کی سیر —- فریحہ واحد

Read Next

قصہ بیری اور کنکریوں کا —- ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!