
امربیل — قسط نمبر ۱۱
علیزہ کچھ دیر بستر میں لیٹی رہی۔ دروازے کے باہر اب بالکل بھی آواز نہیں تھی’ پھر اسے دور ایک گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی
علیزہ کچھ دیر بستر میں لیٹی رہی۔ دروازے کے باہر اب بالکل بھی آواز نہیں تھی’ پھر اسے دور ایک گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی
اس سے ہونے والی اس لمبی چوڑی گفتگو کے چوتھے دن عمر امریکہ چلا گیا۔ علیزہ نے اس بار پہلی دفعہ اس کے جانے کو
”موڈ ٹھیک ہوگیا تمہارے کزن کا؟” شہلا نے ساتھ چلتے چلتے اچانک علیزہ سے پوچھا۔ ”ہاں۔” وہ ہلکے سے مسکرائی۔ ”چلو شکر ہے کم از
”عمر کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے؟” وہ بھی کچھ فکر مند ہو گئی تھی۔ نانو اب بہت الجھی ہو ئی لگ رہی
”کیا دیکھ رہی ہیں آپ اس آئینے میں؟” مثال نے کچھ تجسس آمیز انداز میں عکس سے پوچھا جو اس Cheval mirror کے سامنے کھڑی
عصر کا وقت تھا جب وہ دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلنے لگا ۔اُسے لان میں بیٹھکر تسبیح پڑھتے دادا ابو
”دنیا میں ایسا کوئی رنگ نہیں بنا ، جو شالارنگ والا کے ہاتھوں میں آکر کھلا نہ ہو ! بابو جمیل میں ایسا رنگ رنگتا
طغرل نے اس آئینے میں پہلے اپنے آپ کو دیکھا پھر اپنے عقب میں آئے شیردل اور عکس کو دیکھا۔ اسے وہاں رکے دیکھ کر
اس آئینے نے کئی سال پہلے کی طرح آج بھی شہربانو کی نظر کو خود سے ہٹنے نہیں دیا… گزر جانے نہیں دیا۔ وہ آئینے
یہ ایک خواب زادی کی کہانی ہے۔ داستان گو نے لمبا سانس کھینچا اور پھر سامنے بیٹھی لڑکی کی بھیدوں بھری آنکھوں میں جھانکا ۔