رنگ ریز — قرۃ العین خرم ہاشمی
”دنیا میں ایسا کوئی رنگ نہیں بنا ، جو شالارنگ والا کے ہاتھوں میں آکر کھلا نہ ہو ! بابو جمیل میں ایسا رنگ رنگتا
”دنیا میں ایسا کوئی رنگ نہیں بنا ، جو شالارنگ والا کے ہاتھوں میں آکر کھلا نہ ہو ! بابو جمیل میں ایسا رنگ رنگتا
طغرل نے اس آئینے میں پہلے اپنے آپ کو دیکھا پھر اپنے عقب میں آئے شیردل اور عکس کو دیکھا۔ اسے وہاں رکے دیکھ کر
اس آئینے نے کئی سال پہلے کی طرح آج بھی شہربانو کی نظر کو خود سے ہٹنے نہیں دیا… گزر جانے نہیں دیا۔ وہ آئینے
یہ ایک خواب زادی کی کہانی ہے۔ داستان گو نے لمبا سانس کھینچا اور پھر سامنے بیٹھی لڑکی کی بھیدوں بھری آنکھوں میں جھانکا ۔
چند لمحے پہلے آئینے میں نظر آنے والے اپنے عکس کو اس بار اس نے خیردین کی آنکھوں میں منعکس ہوتے دیکھا تھا۔ ایک سرخ
”میں بہت جلد واپس آئوں گی۔” نہایت گرم جوشی سے الوداع کہتے ہوئے اس نے بیپ سے رخصت لی۔ اپنے ریستوران کے مالک گرومیل کو
عکس نے گاڑی سے اترتے ہوئے سر اٹھا کر اس آئینے کو دیکھا جو اس گھر کے برآمدے میں دروازے کے پاس رکھا تھا اور
دنیا میں سات ارب سے زیادہ انسان ہیں ،آپ ان سات ارب سے زیادہ انسانوں میں سے دو ایسے انسان بہ مشکل ہی ڈھونڈ پائیں
”مما جانی… آپ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں؟” گول مٹول سے ریان نے سکول سے واپسی پہ اپنی پیاری ماں سے پوچھا۔ اس کے
خراب اور رکی ہوئی گھڑیوں سے اسے بہت وحشت ہوتی تھی. بھلا وقت بھی کبھی رکا ہے؟ رکی ہوئی گھڑی سے بڑا دھوکا کوئی اور
Alif Kitab Publications Dismiss