امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)
”تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو عمر؟ ” ایاز حیدر فون پر درشت لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ”آخر کتنی بار مجھ تک تمہاری شکایات
”تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو عمر؟ ” ایاز حیدر فون پر درشت لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ”آخر کتنی بار مجھ تک تمہاری شکایات
آرمی مانیٹرنگ کمیٹی… اب یہ کیا بکواس ہے؟” عمر جہانگیر نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل کو میز پر تقریباً پٹختے ہوئے کہا۔ فوجی حکومت
”ہاشم …” اس پکار میں گہراکرب چھپا تھا۔ ”چل پتر! گھر چل۔” شام کے سرمئی اندھیرے میں قدرے ایک پرانی قبر کے پاس بے ترتیب
”ریت زک سے سیاہ ہوتی ہے اور اعمال سے رو سیاہ یا بلند۔” وہ اپنے اندر کی بہتی ندی کی ذرا سی بوچھاڑ اپنی بے
عمر نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد اگلے دو سال لاہور اور اسلام آباد میں گزارے تھے۔ وہ نانو کے گھر نہیں رہا
علیزہ کچھ دیر بستر میں لیٹی رہی۔ دروازے کے باہر اب بالکل بھی آواز نہیں تھی’ پھر اسے دور ایک گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی
اس سے ہونے والی اس لمبی چوڑی گفتگو کے چوتھے دن عمر امریکہ چلا گیا۔ علیزہ نے اس بار پہلی دفعہ اس کے جانے کو
”موڈ ٹھیک ہوگیا تمہارے کزن کا؟” شہلا نے ساتھ چلتے چلتے اچانک علیزہ سے پوچھا۔ ”ہاں۔” وہ ہلکے سے مسکرائی۔ ”چلو شکر ہے کم از
”عمر کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے؟” وہ بھی کچھ فکر مند ہو گئی تھی۔ نانو اب بہت الجھی ہو ئی لگ رہی
”کیا دیکھ رہی ہیں آپ اس آئینے میں؟” مثال نے کچھ تجسس آمیز انداز میں عکس سے پوچھا جو اس Cheval mirror کے سامنے کھڑی