میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی
”محبت کے دل میں اترنے کا کوئی خاص موسم نہیں ہوتا کہ وہ آئے اور اپنی روپہلی کرنوں سے کسی وجود کا احاطہ کر کے
”محبت کے دل میں اترنے کا کوئی خاص موسم نہیں ہوتا کہ وہ آئے اور اپنی روپہلی کرنوں سے کسی وجود کا احاطہ کر کے
ایف ایم پر ایس کے کا پروگرام شروع ہونے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے جب وہ سارے کام ادھورے چھوڑ کر کانوں میں ہینڈ
حیدرآباد سے کراچی تک دو گھنٹے کا سفر اذیت ناک تھا ۔ سارے راستے موبائل کان سے لگائے میں امی کو تسلیاں دیتی رہی، لیکن
”ہاشم …” اس پکار میں گہراکرب چھپا تھا۔ ”چل پتر! گھر چل۔” شام کے سرمئی اندھیرے میں قدرے ایک پرانی قبر کے پاس بے ترتیب
”ریت زک سے سیاہ ہوتی ہے اور اعمال سے رو سیاہ یا بلند۔” وہ اپنے اندر کی بہتی ندی کی ذرا سی بوچھاڑ اپنی بے
برسات اسماعیل میرٹھی وہ دیکھو اُٹھی کالی کالی گھٹا ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہُوئی ہوا میں بھی
عصر کا وقت تھا جب وہ دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلنے لگا ۔اُسے لان میں بیٹھکر تسبیح پڑھتے دادا ابو
چلتا جا تُو الف نگر میں! ضیاء اللہ محسن چاند چکوری ہوتا بھیّا تارے ہوتے گول سورج چاچو لمبے ہوتے کھمبے گول مٹول چُوں چُوں
میں نے پالے طوطے چار ارسلان اللہ خان میں نے پالے طوطے چار جن سے کرتا ہوں میں پیار پانی پیتے ہیں یہ خوب کھانا
”دنیا میں ایسا کوئی رنگ نہیں بنا ، جو شالارنگ والا کے ہاتھوں میں آکر کھلا نہ ہو ! بابو جمیل میں ایسا رنگ رنگتا