
کچی کاگر — افشاں علی
اس کے ننھے ننھے سے قدم اُس کچی ٹیڑھی میڑھی پگ ڈنڈی پر دوڑ رہے تھے جس کے ایک طرف نالہ بہتا تھا تو دوسری
اس کے ننھے ننھے سے قدم اُس کچی ٹیڑھی میڑھی پگ ڈنڈی پر دوڑ رہے تھے جس کے ایک طرف نالہ بہتا تھا تو دوسری
ادھیڑ عمراجوکے لئے ستار ہوٹل اندھیرے میں جلتا ایک ایسا دیا تھا جس کی پھوٹتی روشنی میں وہ اپنے جینے کے راستے تلاش کیا کرتا
جادو کا آئینہ احمد عدنان طارق سین نمبر ١ ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم ہر وقت غصّے میں رہ کر کیوں ماتھے پر تیوریاں
ہوا اور بادل سارہ قیوم ایک تھا بادل! نرم نرم، جیسے کہ روئی کا کوئی گالا، اس میں بہت سا پانی بھرا ہواتھا، اتنا کہ
گو کہ امریکا آنے سے پہلے ہی ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس حسین دیار کے دلکش باشندے ہمیں ہمیشہ غیر ہی سمجھیں گے،
شام اداس اور ویران تھی۔ ٹھنڈا پڑتا سورج نارنجی تھال سے جھانکتا تھا۔ جیسے جیسے نیچے ہوا کے پھیکے جھونکوں میں تیرتے پنچھی اپنے اپنے
ہوا میں تازگی قدرے کم تھی، اب تک لوگ شاید اِس سوکھی ہوا کے عادی ہوچکے تھے ۔سورج نے بھی اپنی فوج میں چند ہزار
چھم چھم بادل برس رہا ہے۔ ٹین کی چھتوں پر ساز بُنتا، کہیں درختوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا، پھولوں کے رنگ نکھارتا، دورکہیں پربتوں پر
”فراز اُٹھ جا! پانی ختم ہو گیا ہے جا کے بالٹی بھر لا۔” پروین نے ہاتھ میں پکڑی بالٹی زمین پر رکھی اور خود بھی
”پتھر کا دور واپس آگیا ہے.. اور اب کی بار سب کچھ پتھر کا بنا کر دم لے گا۔” وہ کمرے میں بیٹھے ہم کلامی