فیس بک رائٹر — فریحہ واحد
قطرہ قطرہ بن میں نے چلنا سیکھا ہے ہوا کے ذروں میں مجھے سوارر ہنا ہے نزاکت لپیٹ کر شعاعوں سے ابھرناہے مگر پھوٹ پھوٹ
قطرہ قطرہ بن میں نے چلنا سیکھا ہے ہوا کے ذروں میں مجھے سوارر ہنا ہے نزاکت لپیٹ کر شعاعوں سے ابھرناہے مگر پھوٹ پھوٹ
’’دادی دیکھیں پھر میری گاڑی لے کر بھاگ رہی ہے۔ مجھے دے نہیں رہی۔‘‘ عون، ماہا کے پیچھے بھاگتا ہوا دادی کے کمرے میں داخل
اٹخ پٹخ، جھاڑ پونچھ، چیزیں یہاں سے اٹھا وہاں رکھ، وہاں کی اٹھائی سٹور میں اور سٹور کا فالتو سامان ردی والے کو، مہینوں سے
’’اللہ کے نام پر دے دو، معذور ہوں اللہ بھلا کرے گا۔‘‘ وہ خود کو سڑک پر تقریباً گھسیٹتے ہوئے ہماری گاڑی تک آیا تھا۔
شاہ میر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کھانے کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا! کفگیر سے اُٹھنے والا شور اور چوڑیوں کی کھنک آپس میں
تین گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے بعد میری باری آنے والی تھی مگر بڑی اماں کب سے آگے کھڑی شناختی کارڈ کا فارم وصول
جیسے ہی میسج کی بیپ بجی اس نے فورا موبائل اٹھایا اور میسج پڑھنے لگی۔ چہرے پر مدھم مسکراہٹ بکھر گئی۔ الٹے ہاتھ سے بریڈآملیٹ
یہ لاہور کے جدیدپوش علاقے کا پچھلا حصہ ہے جہاں کہیں کہیں خودرو جھاڑیوں اور جنگلی گھاس کی بہتات ہے اور اسی حصے کے بیچوں
آئیے! میں آپ کو اس پری پیکر سے متعارف کرواتا ہوں۔ میری اجلی صبح کا آغاز اس نازنین کے دیدار سے ہوتا ہے۔ سورج کی
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘وہ درخت کے موٹے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ ایک دم سے چونک کر اٹھ بیٹھا۔گھبرا کر چاروں