آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)
وہ پہلی صبح تھی جب اس کی آنکھ سالار سے پہلے کھلی تھی، الارم سیٹ ٹائم سے بھی دس منٹ پہلے۔ چند منٹ وہ اسی
وہ پہلی صبح تھی جب اس کی آنکھ سالار سے پہلے کھلی تھی، الارم سیٹ ٹائم سے بھی دس منٹ پہلے۔ چند منٹ وہ اسی
پیر کاملؐ سے آبِ حیات تک ’’آب حیات‘‘ پیر کاملؐ کا دوسرا حصہ ہے جسے میں نے 2004ء میں پیر کاملؐ کی اشاعت کے فوراً
’’دیکھو تو ذرا اس کے کپڑے!‘‘ سمیرا نے خرد کی طرف اپنا موبائل بڑھایا۔ سکرین پر پاکستانی شوبز کا صفحہ کھلا تھا جس میں ملک
ماہا آج بہت خوش تھی کیوں کہ چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اور اس بار تو عید بھی چھٹیوں میں آنی تھی۔ بڑی عید بھی
“بابا آج مجھے فائیو سٹار میں ڈنر کرنا ہے ۔” میرب آصف کے گلے میں جھولتے ہوئےفرمائش کر رہی تھی۔ “جہاں میری جان کہے گی
قطرہ قطرہ بن میں نے چلنا سیکھا ہے ہوا کے ذروں میں مجھے سوارر ہنا ہے نزاکت لپیٹ کر شعاعوں سے ابھرناہے مگر پھوٹ پھوٹ
وہ اس سے تین قدم آگے کھڑا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ ہاتھ بڑھاتی تو اس کا کندھا چھولیتی۔ وہاں ان دونوں کے علاوہ اور
’’دادی دیکھیں پھر میری گاڑی لے کر بھاگ رہی ہے۔ مجھے دے نہیں رہی۔‘‘ عون، ماہا کے پیچھے بھاگتا ہوا دادی کے کمرے میں داخل
لاہور پہنچنے کے بعد اس کے لیے اگلا مرحلہ کسی کی مدد حاصل کرنے کا تھا مگر کس کی؟ وہ ہاسٹل نہیں جاسکتی تھی۔ وہ
اٹخ پٹخ، جھاڑ پونچھ، چیزیں یہاں سے اٹھا وہاں رکھ، وہاں کی اٹھائی سٹور میں اور سٹور کا فالتو سامان ردی والے کو، مہینوں سے