بلا عنوان — ثناء شبیر سندھو
”زینب تم پلیز امی سے بات کرو۔” ثمرہ نے منت بھرے انداز میں میرے ہاتھ پکڑے۔ ”تم فکر مت کرو ثمرہ، میں اُن سے بات
”زینب تم پلیز امی سے بات کرو۔” ثمرہ نے منت بھرے انداز میں میرے ہاتھ پکڑے۔ ”تم فکر مت کرو ثمرہ، میں اُن سے بات
ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب لوگ نہ جانے کب کے سو چکے تھے۔ روہاب نے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نظریں ہٹا
دل فگار الفاظ لکھتے ہوئے میری انگلیاں کبھی نہیں تھکیں۔ میری نگاہ و دل کی گہرائی و گیرائی اپنے مکمل عروج پر تھی۔ درد لکھنے
بچپن سے پچپن تک میں اسی شش و پنج کا شکار رہا کہ وہ میری آپا ہیں یا میں ان کا بھیا ہوں؟ کیوں کہ
چھوٹے چھوٹے کنکر پاؤں میں چبھ کر جب انہیں زخمی کرتے تو اس کی روح کلبلا اٹھتی۔ آسمان پر چمکتا سورج قہر برساتا تو اسے
نسرین نے کلائی پر بندھی چھوٹے ڈائل والی گھڑی میں گھومتی سوئیوں کو دیکھا اور نائیلون کی چارپائی پر سوئے ناصر کو کندھے سے پکڑ
میرا دل ہوا کی سرسراہٹ کے ساتھ بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ایسا زندگی کے پچیس سالوں میں پہلی بار ہوا تھا کہ میںیوں
مختار شیرازی دراز قد وجیہہ انسان اور سندھ کے ایک وڈیرے خاندان کا وارث تھا۔اس کے جاہ و جلال کی وجہ سے پورا گاوؑں اس
گرمی کی تپش سے تارکول کی سڑک جلتا انگارہ بنی ہوئی تھی۔ گاڑی کا اے سی بند کیا ذرا دیر کو، تو یوں لگا جیسے
”سر پر ڈوپٹا لے لے۔” اماں نے اسے زور کی جھڑکی دی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی منہ بسور کر اس نے اماں کے حکم کی
Alif Kitab Publications Dismiss