میں بے زباں —- رفا قریشی
کراچی شہر کی مشہور و معروف مارکیٹ میں اس وقت لوگوں کا بے تحاشا رش تھا۔ لوگ خریداری میں مصروف تھے۔ منال بھی اپنی ماں
کراچی شہر کی مشہور و معروف مارکیٹ میں اس وقت لوگوں کا بے تحاشا رش تھا۔ لوگ خریداری میں مصروف تھے۔ منال بھی اپنی ماں
کبھی پھولوں کو روتے دیکھا ہے تم نے؟ پھول نہیں روتے ۔۔ روتے بھی ہوں تو اپنا درد اپنے اندر پنہاں کسی کونے میں چھپا
”تم جیسی عورتوں کا تو طریقہ یہی ہے کہ جب اپنا شوہر سنبھالا نہیں گیا تو دوسرے مردوں پر دانت مارنے شروع کر دئیے. .
تیتری کی کوک گائوں میں سنائی دے رہی تھی۔ روٹی پکانے کے بعد خواتین نے سردی کی شدت کو کم کرنے کے لیے کوئلے انگیٹھیوں
کمرے میں گھُپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ وہ کھڑکیاں دروازے سب بند کئے ایک کونے میں سمٹی بال بکھیرے بیٹھی تھی ۔ اس کے کانوں
اس کے ننھے ننھے سے قدم اُس کچی ٹیڑھی میڑھی پگ ڈنڈی پر دوڑ رہے تھے جس کے ایک طرف نالہ بہتا تھا تو دوسری
ادھیڑ عمراجوکے لئے ستار ہوٹل اندھیرے میں جلتا ایک ایسا دیا تھا جس کی پھوٹتی روشنی میں وہ اپنے جینے کے راستے تلاش کیا کرتا
گو کہ امریکا آنے سے پہلے ہی ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس حسین دیار کے دلکش باشندے ہمیں ہمیشہ غیر ہی سمجھیں گے،
شام اداس اور ویران تھی۔ ٹھنڈا پڑتا سورج نارنجی تھال سے جھانکتا تھا۔ جیسے جیسے نیچے ہوا کے پھیکے جھونکوں میں تیرتے پنچھی اپنے اپنے
ہوا میں تازگی قدرے کم تھی، اب تک لوگ شاید اِس سوکھی ہوا کے عادی ہوچکے تھے ۔سورج نے بھی اپنی فوج میں چند ہزار
Alif Kitab Publications Dismiss