لبِ بام — باذلہ سردار
ناجیہ صبح صبح نجویٰ کے کمرے میں آئیں۔ ایک پیار بھری نظرسے سوئی ہوئی نجویٰ کو دیکھا۔ اُس کے ماتھے پے بوسا دیا۔ وہ ہمیشہ
ناجیہ صبح صبح نجویٰ کے کمرے میں آئیں۔ ایک پیار بھری نظرسے سوئی ہوئی نجویٰ کو دیکھا۔ اُس کے ماتھے پے بوسا دیا۔ وہ ہمیشہ
کھٹکے کی آواز سے داروغہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کھٹکے کو اپنے وسوسے سے تعبیر کرتا، اپنی گھاس پھونس
ڈگا ڈگ کے اسٹیشن پر جب گاڑیوں کی آمد کا وقت قریب ہوتا تو سگریٹ فروش گاہشا وہاں ہمیشہ سب سے پہلے آپہنچتا۔ وہ ٹھیک
ہم روزانہ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے طفیل، اپنے گرد و نواح میں ہونے والے حالات و واقعات سے آگاہ رہنے میں دلچسپی رکھتے
جس شخص کی یہ سرگزشت ہے وہ اپنے قصبے کا امیر ترین اور بار سوخ دہقان تھا۔ اس کا نام تھورڈا دراس تھا۔ ایک دن
”معطر دیوانی ہو گئی۔” بات صرف گھر سے نہیں نکلی تھی بلکہ کوٹھے چڑھ گئی تھی۔بہ ظاہر افسوس اور ہمدردی کے رنگ میں دُہرا یا
ایف آئی اے کی سائبر کرائم برانچ کے انچارج اس وقت میری ”عزت افزائی” کرنے میں مصروف تھے۔ میں خاموش کھڑا سر جھکائے سنتا رہا
خوشبو کبھی ٹھہر نہیں سکتی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بے چینی سے گھومتی پھیلتی رہتی ہے کیوں کہ اس کی کوکھ میں ایک اسرار ہوتا
یوں تو کوئی بھی فیس بکی محبت کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور اگر اس کی مخالفت کرنے کی بات کی جائے تو
”یہ جو کہتے ہیں اورنگزیب ٹوپیاں بیچ کر گزارہ کرتا تھا، یہ سب کہانیاں گھڑی ہوتی ہیں۔” قمر صاحب کی آواز کانوں پر ہتھوڑے کی