موبائل یاریاں — عرشیہ ہاشمی
’’ابرار… اٹھ جائو نا اب … کبھی تو وقت پر بات سُن لیا کرو۔‘‘ امی کوئی پانچ بار اسے آواز دے چکی تھیں وہ موبائل
’’ابرار… اٹھ جائو نا اب … کبھی تو وقت پر بات سُن لیا کرو۔‘‘ امی کوئی پانچ بار اسے آواز دے چکی تھیں وہ موبائل
جب سے ہادیہ سات سال کی ہوئی وہ اُس کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہو گئی تھی۔ ہر وقت دھیان رکھتی کہ وہ کہاں
’’آپ کو اپنی بیوی کی جان لینی ہے کیا؟‘‘ لیڈی ڈاکٹر نے رضیہ کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعد مبشر کو اندر کمرے میں
’’روحان ! تنگ مت کرو، میںماروں گا اب۔‘‘ فاران ٹی وی پر اہم خبریں سننے میں مصروف تھا اور روحان مسلسل آئس کریم کے لیے
’’میں تو وہاں ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔ کسٹم آفیسر اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھ رہا تھا۔ بھئی ایک گل دان ہی تو
لاری اڈّے پر ہمیشہ کی طرح ٹریفک کی بہت گہما گہمی تھی۔ میں موٹر بائیک سے اُتر کر بک سنٹر سے دل والے لفافے خریدنے
توبہ ہے یار ۔۔۔ ابھی تک تم سے ایک فیصلہ نہی ہو پا رہا ۔۔۔؟ اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے ۔۔۔ موبائل
’’ کل پہلا روزہ ہے نا امی‘‘ رات کو کھانے کی میز پر اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں‘‘ امی نے تائید کی۔
تعلیم کی اہمیت پر ابا جی کے بہت لیکچر سنے، اماں کی صلواتیں بھی سنیں مگر اپنی ازلی ڈھٹائی کی بہ دولت ہم نے مانا
’’آپ سے کوئی ملنے آیا ہے‘‘ آنے والے نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’کہاں؟ ویٹنگ روم میں ہے ؟‘‘ اس نے سر اُٹھا کر