۱۳ ڈی — نفیسہ سعید

آج مسز قریشی کے گھر قرآن خوانی تھی اور کبریٰ جو کہ ان کی بہو کی ٹوہ لینے کے لیے نہ جا سکی تھی، اُسی لڑکی کو دیکھنے کی خاطر چار بجے ہی تیار ہو کر وہاں جا پہنچی۔ دیکھا تو سامنے ہی حمنیٰ بیٹھی تھی جسے دیکھتے ہی کبریٰ کو خاصا ترس آیا کیوںکہ فاطمہ نے بتایا تھا کہ ان کا بڑا بیٹا شاید کوئی نشہ وغیرہ کرنے لگا تھا جس کے باعث وہ ہر دم اپنی بیوہ ماں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا لیکن چاہ کر بھی وہ حمنٰی سے اس کے بیٹے فیصل کی بابت نہ پوچھ سکی کیوںکہ جب بھی وہ کسی سے کچھ پوچھنا چاہتی اُسے ہمیشہ اپنے اس وعدہ کا پاس آجاتا جو ہر بات کے اختتام پر فاطمہ اس لیا کرتی۔ ابھی بھی یہ ہی سوچ کر وہ خاموشی سے حمنٰی کے پاس بیٹھ کر پارہ پڑھنے لگی۔ جب منیزہ اندر داخل ہوئی، کبریٰ نے غور سے اُس کا چہرہ دیکھا جہاں باوجود میک اَپ کے ایک یاسیت سی کھدی نظر آئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم جس انسان کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں وہ ویسا ہی دکھائی دیتا ہے یہ ہی وجہ تھی کہ اس دم کبریٰ کو منیزہ جیسی ہشاش بشاش اور پر غرور عورت کسی قدر ٹوٹی پھوٹی دکھائی دی۔ یہ یقینا فاطمہ کی بتائی گئی کا اثر تھا۔ ’’بے چاری جانتی نہیں ہے کہ فاطمہ اس کی باتیں یہاں وہاں کرتی پھر رہی ہے‘‘ بلا وجہ ہی خود کو خوش ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف منیزہ کو دیکھ کر پہلا خیال یہی اس کے دل میں آیا بڑی مشکل سے اُس نے اپنے دو پارے ختم کئے کیوںکہ پڑھائی کے عمل کے دوران بھی اس کا دھیان کچھ دور بیٹھی آمنہ پر تھا اس کے ساتھ ہی مسز قریشی کی بہو دیکھنے کی خواہش بھی شدت سے اُس کے دل میں بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اس بہادر لڑکی کو دیکھنا چاہتی تھی جس کی اداؤں نے مسز قریشی کے سیدھے سادھے بیٹے کو ماں کے مقابل لا کھڑا کیا۔ بالآخر قرآن خوانی ختم ہوئی، اس کے بعد ایک لمبی دعا ہوئی، جس کے بعد کھانے کا وقفہ تھا۔ جب کمرے میں ظہور صاحب کی بہو داخل ہوئی، اسے دیکھتے ہی کبریٰ کا حلق اندر تک کڑوا ہو گیا۔ وجہ اُس کا منھ پھٹ ہونا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ رانی (ظہور صاحب کی بہو) سے محلے میں کوئی زیادہ بات کرنا پسند نہ کرتا ویسے بھی وہ جس کے پاس بیٹھتی اپنے سسرال والوں کی اس قدر برائیاں کیا کرتی کہ اگلے بندے کا دل بھی دب جاتا۔ چناں چہ کبریٰ اُسے دیکھنے کے باوجود نظر انداز کرتی آمنہ کے قریب جا بیٹھی۔ اُسے خلافِ توقع آج آمنہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ اس سے بنا پوچھے ہی وہ جان سکتی تھی کہ فاطمہ کی بات کس قدر درست ہے اور یقینا اس کا بیٹا اپنی پھوپھی کی بیٹی سے متنفر ہو چکا ہے۔





’’آمنہ آپا بڑی خوش نظر آرہی ہیں خیریت تو ہے۔‘‘
اس کی جانب سے کیا جانے والا سوال آمنہ کو کریدنے کی نسبت سے تھا جس میں وہ خاصی کامیاب بھی ہوئی۔
’’ہاں بھئی اللہ کا شکر ہے ولید کو بڑی اچھی نوکری مل گئی ہے۔‘‘
’’’چلیں پھر تو بہت بہت مبارک ہو بس اب جلدی سے اُس کی شادی کر دیں۔‘‘
وہ آہستہ آہستہ اپنے مقصد کی جانب آتے ہوئے بولی۔
’’ہاں خیر سے وہ بھی کرنی ہے بس ایک ذرا سا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے ۔‘‘
’’کیوں کیا ولید نہیں مان رہا؟‘‘
نہ چاہتے ہوئے بھی یہ جملہ اُس کی زبان سے پھسل گیا۔
’’ خیر سے ولید کیوں نہ مانے مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اُسے یہ ملازمت بیرون ملک ملی ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ وہ نکاح کر کے بسمہ کو ساتھ لے جائے جب کہ وہ چاہتا ہے کہ ایک سال بعد جب چھٹی پر پاکستان آئے تب نکاح کرے بس اسی بات کو لے کر دنوں باپ بیٹے میں اختلاف چل رہا ہے۔‘‘
اُسے ایسا محسوس ہوا جسے آمنہ اصل بات چھپا رہی ہے اس سے قبل کہ وہ اس سے کچھ کہتی اچانک ہی کمرے میں ایک خوب صورت سی لڑکی داخل ہوئی، سر پر دوپٹہ اوڑھے خوب صورت لباس میں ملبوس نک سک سے تیار یقینا وہ قریشی صاحب کی بہو تھی، تو فاطمہ کی بات درست نکلی۔
’’السلام علیکم‘‘
اندر آتے ہی اُس نے سب کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام‘‘
سب سے پہلے جواب کبریٰ کی جانب سے آیا۔
’’دراصل میری آج کی اس قرآن خوانی کا مقصد آپ لوگوں کو اپنی بہو سے ملوانا تھا۔‘‘
’’بہو… لو جی آپ نے تو اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی ایسے چپ چپاتے کر دی کہ محلے میں کسی کو کان کان خبر ہی نہ ہوئی واہ بھئی۔‘‘ رانی بلا تکان تبصرہ کرتے ہوئے بولی۔
بس مجبوری ہی کچھ ایسی آگئی۔ میں نے آپ لوگوں کو بتایا تھا نا کہ میری چھوٹی بہن کو کینسر ہے۔ دشمہ اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ پچھلے ماہ جب میں اُسے دیکھنے بہاول پور گئی تو بے چاری کی حالت بہت خراب تھی جب کہ اُس کا شوہر پہلے ہی سعودیہ رہتا ہے اس لئے غریب اپنی جوان اور اکلوتی بیٹی کو لے کر بہت پریشان تھی۔ اس کی اسی پریشانی کا ذکر میں نے گھر آکر کیا تو قریشی صاحب نے مشورہ دیا کہ ہمیں دشمہ کو بہو بنا لینا چاہیے اللہ بھلا کرے میرے نیک سیرت بچے کا جس کی رضامندی کے بعد ہم پچھلے ہفتہ خاموشی سے جا کر نکاح کر آئے۔ اب ان شاء اللہ اگلے ماہ ولیمہ کریں گے تب تک دشمہ کے بابا پاکستان آجائیں گے۔
آمنہ کی طرح مسز قریشی نے بھی اپنے بیٹے کے عیب ڈھکتے ہوئے ایک لمبی وضاحت دی۔ سچ ہے اولاد کی خاطر مائیں جانے کتنے جھوٹ بولتی ہیں۔ اس خیال نے دل ہی دل میں کبریٰ کو شرمندہ کر دیا جب اچانک رانی اُس کے پاس آن بیٹھی۔
’’آپ سنائیں کبریٰ باجی طبیعت کیسی ہے؟ ‘‘
’’’الحمدللہ میری طبیعت کو کیا ہونا ہے۔‘‘
رانی کا سوال اُسے کچھ سمجھ میں نہ آیا اس لئے حیران ہوتے ہوئے بولی۔
’’ہانیہ کا کچھ پتا چلا؟‘‘
اب کے رانی راز داری کی نیت سے ان کے کان کے قریب ہوئی ۔
’’میں تمہاری بات سمجھی نہیں۔‘‘
انہیں رانی کی گفت گو کے ساتھ ساتھ اس کا رویہ بھی کچھ عجیب محسوس ہوا۔
’’ میری مانو تو اس کی وہاں شادی کر دو جہاں وہ کرنا چاہتی ہے، بلا وجہ جوان اولاد ہاتھوں سے نکل جائے گی۔‘‘
رانی کے بعد منیزہ کی اس گفت گو نے صحیح معنوں میں کبریٰ کے چودہ طبق روشن کر دیئے۔
’’اللہ تعالیٰ سب کی اولاد کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور میرے جیسے نیک بچے کی ماں بننا نصیب کرے جس نے آج تک بیوہ ماں کو ایک ذرا سی تکلیف نہ دی۔‘‘
یہ حمنٰی تھی جس کی بات سنتے ہی کبری کا موڈ سخت خراب ہو گیا اور اب اُس کے لئے خاموش رہنا قطعی ناممکن ہو گیا۔
’’ ہمت ہے آپ جیسی ماں کی جو ایک آوارہ اور نشئی بیٹے کی اس قدر تعریف کر رہی ہے آفریں تو آپ پر ہے۔ نہ کہ آپ کی اولاد پر۔‘‘
’’دماغ خراب ہے تمہارا تمہیں کس نے کہہ دیا کہ میرا دانیال نشہ کرتا ہے؟ حد ہے بھئی اپنے گھر کی خبر نہیں دوسروں پر نظریں تیز کئے بیٹھی ہیں۔‘‘
حمنٰی کی اس گفت گو کے ساتھ ہی کبریٰ کو احساس ہوا کہ وہاں موجود ہر خاتون کا رویہ آج اُس سے قدرے تبدیل تھا جسے اُس نے پہلے محسوس نہ کیا مگر اب محسوس کرتے ہی کچھ عجیب سی ہو گئی۔
’’تم مجھ سے ہانیہ کے بارے میںکیا پوچھ رہی تھیں؟
حمنٰی کو چھوڑ کر وہ اچانک ہی رانی کی جانب پلٹتے ہوئے بولی۔
’’یہ ہی کہ اُس کا پھر پتا چلا کہ گھر سے ناراض ہو کر کہیں چلی گئی ہے۔‘‘
’’ایک منٹ رکو ذرا‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اُس نے اپنے پاس موجود سیل سے ہانیہ کا نمبر ڈائل کیا جس نے دوسری بیل پر ہی فون ریسیو کر لیا۔
’’بیٹا یہ ذرا رانی آنٹی سے بات کرنا۔‘‘
اور پھر ہکا بکا کھڑی رانی کے ہاتھ میں فون تھما دیا۔ ’’ہانیہ ہے بات کرو۔‘‘
’’ہیلو بیٹا کیسی ہو تم‘‘
بہ مشکل اپنے حلق میں آیا تھوک نگلتے ہوئے وہ ہانیہ کے مخاطب ہوئی اور پھر تھوڑی سی گفت گو کے بعد سیل واپس کبریٰ کی جانب بڑھا دیا۔
’’ تمہیں کس نے کہا تھا کہ ہانیہ گھر سے ناراض ہو کر گئی ہے۔‘‘
آج وہ ہر ایسی بات کلیئر کرنا چاہتی تھی جو اس وقت اُس کے ذہن کے در کھول رہی تھی۔ سب کے متعلق وہ بدگمانیاں جو کچھ دیر قبل اس کے دل میں پیدا ہوئی تھیں، اپنے گھر پر بات آتے ہی خود بہ خود ختم ہو گئیں۔ اب اصلیت کیا تھی وہ یہ جاننا چاہتی تھی۔
’’ فاطمہ نے…‘‘
رانی کا جواب ان کی توقع کے عین مطابق تھا۔
’’منیزہ، سمیر کی دوسری شادی کا کیا ہوا؟‘‘
رانی کو چھوڑ کر وہ منیزہ سے مخاطب ہوئی ۔
’’اللہ نہ کرے آپا جو سمیر دوسری شادی کرے۔ وہ تو بے چارہ اپنے والد کی بیماری سے اس قدر بوکھلایا ہوا ہے کہ اسے میرا ہوش نہیں ہے دوسری شادی کیسے کرے گا؟‘‘
’’اوہ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کل وہ رات میں اکثر اپنے والد کے پاس رک جاتا ہے؟‘‘
’’ہاں جب کبھی ان کی طبیعت خراب ہو تو پھر سمیر کو ہی رکنا پڑتا ہے۔ اور تو کوئی ہے نہیں جو ابا جی کی دیکھ بھال کرے۔‘‘
اب لازم تھا کہ ان سب کو فاطمہ کی اصلیت بتا دی جائے ورنہ ممکن تھا کہ وہ اس محلے میں رہتے ہوئے مزید شرانگیزی کا سبب بنتی۔ کبریٰ نے وہاں موجود تمام خواتین کے بارے میں فاطمہ کی زبانی سنی جانے والی ہر بات کی تصدیق کر لی جس کے بعد اُسے افسوس ہوا بلاوجہ اپنا ٹائم پاس کرنے کے چکر میں وہ غیبت اور بہتان تراشی میں فاطمہ کی حصہ دار ٹھہری اور اپنے گھر کی بدنامی کے ساتھ ساتھ گناہ علیحدہ کمایا۔ کیوںکہ وہاں موجود ہر خاتون کو فاطمہ کی زبانی یہ علم ہوا تھا کہ ہانیہ کسی لڑکے کے چکر میں گھر سے ناراض ہو کر کہیں چلی گئی ہے اور یہ ہی وجہ تھی کہ کبریٰ کو فاطمہ کا کردار سب کے سامنے کھولنا پڑا۔ ورنہ جانے وہ کب تک اسی طرح دوسروں کی کن سوئیوں کے چکر میں یہ بھول جاتی کہ جو اُس کے پاس کسی کی بات کرتا ہے وہ یقینا اس کی باتیں بھی یہاں وہاں کرتا ہو گا کیوںکہ یہ بھی دستور دنیا ہے۔
٭٭٭٭
’’آپ کو ایک بات پتا ہے جی…‘‘
اگلے دن توقع کے عین مطابق فاطمہ ڈسٹنگ چھوڑ کر اس کے پاس کچن کے دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔
’’نہیں مجھے کچھ نہیں پتا۔‘‘
کبریٰ نے روٹی بیلتے ہوئے فاطمہ کو جواب دیا۔
’’وہ منیزہ باجی ہیں نا…‘‘
تم پہلے اپنی ڈسٹنگ ختم کرو اس کے بعد باتیں کرنا۔ تمہاری باتوں کے چکر میں میرے سارے کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔
کبریٰ کا نہایت رکھائی سے دیا گیا جواب فاطمہ کو کچھ حیران کر گیا۔ ویسے بھی آج ۱۳۔ڈی کی ساری باجیوں کا موڈ اُسے کچھ خراب محسوس ہوا تھا کیوںکہ آج کسی نے بھی اُس کی باتوں میں زیادہ دل چسپی ظاہر نہ کی تھی۔
’’میں آپ کو بتا رہی تھی کہ…‘‘
کبریٰ کے منع کرنے کے باوجود وہ اپنی زبان پر قابو نہ کر پائی۔ اس لئے ایک بار پھر سے بولنے کی کوشش کی جسے کبریٰ کے اگلے جملے نے سرے سے ہی ختم کر دیا۔
’’رانی کی طرف جاؤ تو اُسے بتا دیناکہ ہانیہ ترکی سے واپس آگئی ہے۔ ویسے تو خیر میں نے اُس کی ہانیہ سے بات کروا دی تھی اور اس کی ترکی سے آئی فوٹو بھی دکھا کر آئی۔ جانے کیسے لوگ فضول اور من گھڑت کہانیاں دوسروں کو سناتے ہیں۔ اللہ معاف کرئے موت یاد ہی نہیں لوگوں کو۔‘‘
بات کرتے کرتے کبریٰ کا لہجہ خود بہ خود تھوڑا تیز ہو گیا جسے سنتے ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ اس وقت غصہ میں ہے۔
جی اچھا…
فاطمہ زمانہ شناس عورت تھی جان گئی کہ اس کی کچھ نہ کچھ اصلیت کھل کر سب کے سامنے آگئی ہے۔ تو مزید کچھ پوچھے بنا وہ جلدی سے صفائی کا کپڑا اٹھائے واپس پلٹ گئی مبادا کبریٰ اُسے کسی بات کی تصدیق کے لئے رانی کے گھر نہ لے کر چل پڑے اور رانی سے تو اس کی ویسے بھی جان جاتی تھی۔ آج صبح اسے بھی یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ یہاں وہاں کی جانے والی دوسروں کی باتوں نے اُس کی عزت کو بالکل صفر کر دیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ اُس میں بھی سارا قصور فاطمہ کا نہ تھا بلکہ ان خواتین کا ہاتھ زیادہ تھا جو محض اپنا ٹائم پاس کرنے کے لئے دوسروں کی باتیں سن کر چسکے لیتی تھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو غیبت اور بہتان تراشی سے بچنے کی ہدایت عطا فرمائے۔ (آمین)

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

الفاظ کا احتجاج — ہما شہزاد

Read Next

کرتا — دلشاد نسیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!