ہائے یہ عورتیں — کبیر عبّاسی

شاپنگ تو میرا مشغلہ تھا۔شادی کی شاپنگ کے بعد سے اب تک مجھے شاپنگ کے لئے کہیں جانے کا موقع ہی نہیں ملا تھا،لہٰذا میں نے ہامی بھر لی۔
’’میں ٹیکسی میں آؤں گی اور تمہیں تمہارے گھر سے پک کر لوں گی۔تم تیار رہنا۔‘‘اس نے کہا تو میں نے اوکے کر دیا۔
فون رکھنے کے بعد میںنے حمزہ کو کال کر کے شاپنگ پر جانے کا بتا دیا۔وہ کچھ مصروف لگ رہے تھے اس لئے ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔کچھ دیر کے بعد ہی کال بیل بجی تو میں پرس لے کر باہر آ گئی۔
عالیہ نے شاپنگ پر کافی دیر لگا دی۔مجھے تو کچھ لینا نہیں تھا،تاہم اس کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ واپسی پر وہ مجھے گھر ڈراپ کر اپنے گھر چلی گئی۔ میں اپنے کمرے میں جارہی تھی کہ اپنی ساس کی کڑک دار آواز سن کے رک گئی۔
’’کدھر گئی تھیں تم؟‘‘ ان کے سوال سے زیادہ ان کا لہجہ مجھے ناگوار گزرا۔ تاہم میں نے خود پر قابو پایا اور نارمل انداز میں بولی:
’’عالیہ کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھی۔ اسے کچھ چیزیں لینی تھیں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر کس سے پوچھ کر گئی تھیں تم؟‘‘ وہ پاٹ دار آواز میں بولیں۔
’’حمزہ کو بتا دیا تھا میں نے۔‘‘میں نے اس بار بھی اپنا لہجہ اعتدال میں ہی رکھا تھا۔
’’اس گھر میں صرف حمزہ نہیں رہتا، آئندہ تم جدھر بھی جاؤگی مجھ سے پوچھ کر جاؤ گی سنا تم نے؟‘‘ ان کا انداز اب تحکمانہ ہوگیا تھا۔میں ان کی بات کا جواب دئیے بغیر اپنے کمرے میں آگئی۔ اب پانی سر سے اوپر ہونے لگا تھا۔ مجھے جلد ہی اس مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنا تھا۔
شام کو حمزہ گھر آئے تو میں معمول کے مطابق ان کے لئے چائے بنا کرلے آئی۔ وہ کافی تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ میں ان کر پاس بیٹھ کے ان کے با لوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ شادی کے بعد ہی مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ میونسپل کارپویشن میں کلر ک ہیں۔میں تو انہیں کوئی آفیسر سمجھتی تھی۔ ہر کوئی یہی کہتا پایا جاتا تھا کہ بہت اچھی سرکاری نوکری ہے، اپنا بہت بڑا جنرل سٹور ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان کی کلرکی کا سن کر مجھے مایوسی تو ہوئی تھی مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟
ان کا دفتر میرے میکے سے کافی قریب تھا،مگر یہاں سے ان کا دفتر کافی دور تھا۔ انہیں روز لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا تھا، وہ بھی دو گاڑیا ںتبدیل کر کے۔شام کورش بھی بہت ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ جب گھر آتے تو بہت تھکے ہوئے ہوتے تھے۔





میں ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولی:
’’آپ روز اتنا لمبا سفر کرکے تھک جاتے ہیں، کہیں پاس ہی ٹرانسفر کیوں نہیں کرا لیتے۔‘‘
’’تھک تو جاتا ہوں مگر کیا کروں، اس کے علاوہ شہر میں میونسپل کارپویشن کا اور کوئی دفتر ہی نہیں، میری بھولی بھالی جان۔‘‘وہ میری ناک مروڑتے ہوئے شریر سے انداز میں بولے۔
میں یہ جانتی تھی کہ شہر میں میونسپل کارپوریشن کا اور کوئی دفتر نہیں ،یہ بات تو میں نے تمہید باندھنے کے لیے ہی کی تھی۔
’’تو پھر دفتر کے قریب کوئی گھر دیکھ لیں۔تین گھنٹے تو روز آپ کے سفر میں ’’suffer‘‘ کرتے ہوئے ضائع ہو جاتے ہیں اور اتنا زیادہ کرایہ الگ سے لگ جاتا ہے۔‘‘ میں فکرمندی سے بولی۔
’’یہ تو ہے مگر مجبوری ہے جان! میری تنخواہ سے تو ہم دو لوگوں کی ضروریا ت پوری ہونی بھی مشکل ہیں۔ گھر کا کرایہ میں کہاں سے ادا کروں گا۔‘‘ وہ بے بسی سے بولے۔
’’کیا مطلب؟ آپ کی تنخواہ کتنی ہے کہ ہماری ضروریات تک پوری نہیں ہو سکتیں۔‘‘میں چونکی۔
’’بس گزارے لائق ہی ہے فی الحال تو، لیکن تم فکر نہ کرو آہستہ آہستہ بڑھ جائے گی۔‘‘ انہوں نے مجھے بہلایا۔
’’اچھا تو آپ بھی دوسرے مردوں کی طرح اپنی تنخواہ مجھے نہیں بتانا چاہتے۔‘‘میں نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
وہ میرے منہ بسورنے پر ہنسنے لگے۔ پھر انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا۔
’’یہ میری سیلری سلپ ہے۔دیکھ لو میری تنخواہ۔‘‘ تنخواہ دیکھ کے مجھے خاصی مایوسی ہوئی۔ اس تنخواہ میں تو مہینے میں میرے دو جوڑے بہ مشکل آتے۔
’’اوہ! یہ تو بہت کم ہے۔ اس میں ہمارا گزارا کیسے ہو گا؟‘‘ میں پریشانی سے بولی۔
’’میں نے کہا نا تنخواہ آہستہ آہستہ بڑھ جائے گی۔ ویسے بھی فی الحال ہمارے کون سے خرچے ہیں اتنے؟ گھر ابو کے پیسوں سے چل رہا ہے۔ میں تو تھوڑے سے پیسے امی کو دینے کے علاوہ سارے ہی بچا لیتا ہوں۔‘‘ انہوں نے مجھے تسلی دی مگر میری پریشانی بڑھ گی۔ آخر ساری زندگی ہم اسی گھر میں نہیں رہ سکتے تھے۔ ساری زندگی کیا مجھے تویہ گھر ابھی سے کال کوٹھری کی طرح لگنے لگ گیا تھا جہاں میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ خیر اس مسئلے کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔ میں نے خود کو تسلی دی۔
کچھ دن کے بعد ہی مجھے اپنے مسئلے کا ایک حل مل ہی گیا۔ میں اپنے میکے گئی ہوئی تھی تو مجھے پتا چلا کہ ہمارے کرائے دار گھر خالی کر رہے ہیں۔ میں نے امی کے سامنے اپنا سارا مسئلہ رکھا اور ان سے کہا کہ مکان کرائے پر دینے کے بجائے مجھے دے دیں۔ امی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا، وہ مان گئیں۔ اب مسئلہ حمزہ کو منانے کا تھا، مگر یہاں بھی قدرت نے میری مدد کی۔
انہی دنوں شہر میں سڑکوں کی مرمت کا کام شروع ہو گیا۔اس وجہ سے شہر کے ایک خاص روٹ پر ٹریفک کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔یہ روٹ حمزہ کے دفتر کے راستے میں ہی آتا تھا۔پہلے جو انہیں دفتر سے واپسی میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا تھا، اب تین گھنٹے سے بھی زیادہ لگنے لگے۔ صبح بھی انہیں جلدی نکلنا پڑتا، اور رات واپسی بھی دیر سے ہوتی، جس کی وجہ سے وہ انتہائی چڑچڑے ہو گئے۔
جس رفتار سے کام چل رہا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ کم سے کم ایک سال انہیں یہ مصیبت سہنا ہو گی۔ ایسے میں میں نے انہیں کہا کہ ہم عارضی طور پر اپنی امی کے مکان میں شفٹ ہو جاتے ہیں۔ وہ اس کے لئے راضی تو نہیں تھے مگرانہیں چارو ناچار ماننا ہی پڑا۔
حسبِ توقع ان کی امی نے ناک منہ بنایا مگر حمزہ نے عارضی شفٹنگ کا کہہ کہ انہیں رام کر ہی لیا۔ ویسے بھی ان کے پاس تو حمزہ کے مسئلے کا کوئی حل تھا نہیں۔ جہیز کے سامان میں مجھے ضرورت کی تما م اشیا ملیں تھیں۔ میں نے وہ سارا سامان ہی شفٹ کرا لیا۔
’’شمع! ہم کچھ عرصے کے لئے ہی تو شفٹ ہورہے ہیں۔ پھر سب چیزیں شفٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ حمزہ نے سارا سامان شفٹ ہوئے دیکھ کر فکر مندی سے کہا۔
میرا ارادہ واپس اس گھر میں آنے کا نہیں تھا تاہم میں حمزہ کو فی الحال یہ نہیں بتا سکتی تھی۔ اس لیے میں نے بات بنائی:
’’بھئی مجھے معلوم ہے ہمیں وہاں کس کس چیز کی ضرورت پڑے گی۔ اب ہم یہ چیزیں بار بار دوسروں سے مستعار مانگتے اچھے لگیں گے کیا؟‘‘
میرے جواب نے پتا نہیں انہیں مطمئن کیا تھا یا نہیں، بہرحال وہ اس کے بعد اس حوالے سے کچھ بولے نہیں تھے۔
بھابھی کو میرا وہاں شفٹ ہونا پسند نہیں آیا تھا کیوں کہ اس مکان کا کرایہ وہی رکھا کرتی تھیں۔ مگر مجھے ان کی پرواہ نہیں تھی۔ اس گھر میں آخر میرا بھی حصہ تھا۔ وہ یہ بات جانتی تھیں اس لئے وہ اعتراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔
انہی دنوں میں امید سے ہو گئی۔حمزہ میرا ہر طرح سے خیال رکھنے لگے۔اب وہ صرف بیس منٹ میں دفتر سے واپس گھر پہنچ آتے تھے۔ اس سہولت نے بھی انہیں کے مزاج پر خوش گوار اثرات ڈالے تھے۔
سردیوں کی آمد آمد تھی کہ میرے ایک کزن کی شادی آگئی۔ میں نے جب حمزہ سے شادی کی شاپنگ کا کہا تو وہ حیران رہ گئے۔
’’اتنے کپڑے اور جوتے تو ہیں تمہارے پاس۔شادی پر بیس سے زیادہ جوڑے تو تم نے لئے تھے جن میں سے کچھ تو ابھی تم نے ایک بار بھی نہیں پہنے، پھر کس چیز کی شاپنگ؟‘‘
’’افوہ! ان میں سے زیادہ تر گرمیوں کے سوٹ تھے۔ اب سردیوں کے لئے کچھ الگ سے تو لینے ہوں گے ناں۔‘‘ میں معصومیت سے بولی۔
’’کچھ سردیوں کے بھی تو تھے جو تم نے پہنے ہی نہیں۔‘‘ وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولے۔
’’مجھے وہ پسند ہی نہیں اس لئے نہیں پہنے۔ بہرحال آپ نے لے کر دینے ہیں تو بتا دیں، نہیں تو میں امی سے کہہ کرلے لوں گی۔‘‘ میں سکون سے بولی۔
’’امی سے کیوں بولو گی؟ اب تم میری ذمہ داری ہو۔خبر دار جو ان سے کپڑے یا کپڑوں کے لئے پیسے مانگے۔‘‘وہ قدرے تیز لہجے میں بولے۔
’’آپ مجھے لے دیں تو مجھے کیا ضرورت ہے ان سے مانگنے کی؟ مگر آپ نے لے کر نہیں دیئے توظاہر ہے مجھے اپنی ضرورت تو پوری کرنا ہو گی۔‘‘میں بھی سرد لہجے میں کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔




Loading

Read Previous

جزا — نایاب علی

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۷ (حاصل و محصول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!