گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

دین محمد کی محلے ہی میں کریانے کی چھوٹی سی دکان۔ مذہبی گھرانہ تھا۔ صبروشکر سے جو ملتا گزارہ کر لیتے۔ دین محمد کی بیوی حاجرہ اڑتیس سال کی سادہ سی خاتون تھی جب کہ دین محمد پچاس کے پیٹے میں تھا۔ اشعر ان کا بڑا بیٹا،سکینہ دوسرے نمبر پر جب کہ ثمینہ تیسرے اورآخری نمبر پر تھی۔ اشعر سخت مزاج اور غصے کا تیز تھا۔ ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتا اور دین محمد نرم مزاج ہر بات میں بہتری کا پہلو ڈھونڈنے والا۔ یوں یہ گھرانہ اپنی زندگی گزار رہا تھا۔
’’امی، امی۔‘‘سکینہ نے ماں کو آواز دی۔
’’جی بیٹا۔‘‘حاجرہ نے اس کی طرف دیکھا۔
’’امی اشعر بھائی سے کہہ دیں نا، مجھے اور ثمینہ کو لے چلے آج میلاد ہے پھپھو کے گھر۔‘‘
’’تمہیں پتا ہے سکینہ وہ نہیں لے کر جائے گا پہلے کب وہ تمہیں گھر سے باہر نکلنے دیتا ہے۔‘‘
’’مگر امی ہم برقع پہن کر جائیں گی۔‘‘ اس نے ضد کی۔
’’میں کہتی تو ہوں پر مانے گا نہیں۔‘‘ حاجرہ نے اٹھ کر چپل پہنی اور بیٹھک کی طرف بڑھی جہاں اشعر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھاتھا۔
’’اشعر بیٹا، بہنیں بلا رہی ہیں،اُنہیں پھپھو کے گھر چھوڑ آؤ۔‘‘ اشعر تنک کر بولا۔
’’امی رہنے دیں۔کیا ضرورت ہے جانے کی۔ بار بار گھر سے نکلتی اچھی نہیں لگتیں۔‘‘وہ اٹھ کر ماں کے پاس آگیا۔
’’بیٹا میلاد ہے پھپھو کے گھر، جانے دو انہیں۔‘‘ماں نے پیار سے کہا، مگر وہ اشعر ہی کیا جس پر کسی بات کا اثر ہو۔
’’امی وہاں لڑکے بھی ہوں گے۔‘‘
’’پردے میں جائیں گی بیٹا۔‘‘





’’نہیں امی،مجھے نہیں پسند ان کا کہیں جانا۔‘‘ اس نے صاف انکار کردیا۔ حاجرہ واپس آگئی۔
’’کہا ہے نا، نہیں جانے دے گا۔ پھر ضد کی ضرورت کیا ہے؟‘‘اس نے سکینہ کو گھورا۔ سکینہ افسردہ ہو کر اندر چلی گئی۔ ثمینہ بال سنوار رہی تھی۔
’’نہ کر تیاری،ہٹلر نہیں مان رہا۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔
’’مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی بھائی ہمیں سکول کیسے جانے دیتا ہے۔‘‘ ثمینہ نے سوال اٹھایا۔
’’ابا بھیجتے ہیں ثمی، ورنہ یہ تو ہمیں جیل میں ڈال دے۔‘‘ اس کا غصے سے برا حال تھا۔
’’جیل میں کتنا مزہ آئے گا، نہ بھائی ہوں گے نہ کوئی کسی کام سے روکے گا۔‘‘ثمینہ کی بے تکی بات پر وہ اسے گھورنے لگی۔
’’جیل کہا ہے کینیڈا نہیں۔‘‘
’’اسکول والی آزادی چھوڑ کر گھر کون سا جیل سے کم ہے؟‘‘ثمینہ اداس ہوگئی۔
’’چل بس کر، زیادہ اداکاری مت کرو ابا سے کہوں گی وہ شام کو لے جائے گا۔‘‘ سکینہ نے تسلی دی۔ وہ میٹرک میں تھی جب کہ ثمینہ آٹھویں کی طالبہ تھی۔ اشعر ہی انہیں اسکول چھوڑنے جاتا تھا اوروہیں سے بائیک پر اپنے کالج چلا جاتا۔ شام کے وقت دین محمد گھرآیا اوردونوں بیٹیوں کو پھپھو کے گھر لے گیا۔ پھپھو کا بڑا بیٹا سکینہ کا منگیتر تھا۔ اس لیے سکینہ بہت کم ان کے گھرآتی تھی۔ دونوں کی بات بچپن سے طے تھی۔ واپسی پر جب وہ گھر داخل ہوئے تو اشعر غصے سے بھرا پڑا تھا۔
’’ابا کیا ضرورت تھی انہیں لے جانے کی؟میں نے منع کیا تھا۔‘‘
’’تو سیانا نہ بن، میری بہن کا گھر ہے وہ ،کوئی پرایا نہیں۔‘‘دین محمد نے جھڑکا۔
’’ہونہہ بہن کا گھر۔‘‘اس نے سرجھٹکا۔
’’ابا وہاں سکینہ کی منگنی ہوئی ہے یوں لے جانا ٹھیک نہیں۔‘‘ اس نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتی مولوی میں ہوں یا تم؟‘‘دین محمد کی بات سن کرسکینہ اور ثمینہ کا قہقہہ گونجا۔
’’مسجد میں تو تم جاتے نہیں، نماز عید کی پڑھتے ہو۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے کہہ دیں، تو ہر دو جمعے چھوڑ کرتیسرا پڑھتے ہو اور دلیل یہ کہ جناب اسلام کے دائرے سے خارج نہیں ہو رہے۔ بہنوں پر سختی اتنی جیسے خودتو ہر وقت مذہب کاپابند ہو۔‘‘ ابا نے کھری کھری سنادیں۔
’’ابا، جتنا آپ جانتے ہیں میں اتنا علم نہیں رکھتاپر میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ میری بہنیں گھر سے باہر قدم رکھیں۔ اسکول بھی آپ کی وجہ سے بھیجتا ہوں۔‘‘ اس نے انگلی اٹھا کرکہا۔
’’تو تم خود کیوں ایسے کالج میں پڑھتے ہو جہاں مخلوط نظام تعلیم ہے؟‘‘انہوں نے تنگ آکر پوچھ ہی لیا۔
’’میں لڑکا ہوں اس لیے۔‘‘اس نے ہٹ دھرمی سے جواب دیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
اس دن ثمینہ کو بخار تھا۔اشعر نے بائیک نکالی اور سکینہ کو آواز دی۔
’’سکینہ آ جاؤ لیٹ ہو رہے ہیں۔‘‘ سکینہ نقاب پہنے گیٹ سے برآمد ہوئی۔ اس کی آنکھیں بھی مشکل سے دکھائی دے رہی تھیں۔ اشعر نے تنقیدی نظروں سے اسے گھورااور بائیک اسٹارٹ کرنے لگا۔ اسی لمحے ان کی پڑوسن شہناز بیگم کی آواز سنائی دی۔
’’اشعر بیٹا، بات سننا۔‘‘
’’جی آنٹی۔‘‘اشعر نے مڑ کر دیکھا۔
’’بیٹا آج ثانیہ کی وین نہیں آئی، وہ بھی تمہارے کالج میں پڑھتی ہے نا؟ بیٹا اسے بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘ سکینہ ثانیہ کو جانتی تھی جو پورے محلے میں بدنام تھی۔ شکل وصورت اچھی تھی، مگر کردار ٹھیک نہیں تھا۔
’’ہونہہ،اشعر اسے لے جائے گا؟ سوچ ہے آپ کی آنٹی شہناز۔‘‘اس نے سوچتے ہوئے سرجھٹکا، مگراگلے ہی لمحے اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اشعر نے کہا۔
’’بھیج دیں آنٹی،میں لے جاتا ہوں۔‘‘ وہ حیرت سے بھائی کو دیکھنے لگی۔
ثانیہ اپنے گھر سے نکلی۔ دوپٹا گلے میں لٹکا ہوا تھااور آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا رکھاتھا۔ مالی لحاظ سے وہ دین محمد سے کہیں زیادہ مضبوط تھے اور پھر ثانیہ اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی اس طرح کے ناز نخرے جچتے تھے اسے۔ اشعر اور سکینہ کے ساتھ بائیک پر جانے میں اس نے ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی۔ بلکہ پورے سفر میں وہ اور اشعرکالج کی باتیں کرتے رہے اور آپس میں ہنسی مذاق بھی کررہے تھے۔ سکینہ درمیان میں بیٹھی دانت پیستی رہی۔
’’گھر میں جناب کی غیرت اور عزت سکھ کا سانس نہیں لینے دیتی اور یہاں؟دیکھو کیسے دانت نکال رہا ہے بے شرم۔‘‘ اس دن واپسی پر بھی ثانیہ اشعر کے ساتھ آئی۔ سکینہ گھر واپس آئی اورساری بات ثمینہ کو بتائی۔ وہ بھی حیران تھی کہ اتنا سخت مزاج اشعر یہ کیسے کر سکتا ہے؟ سکینہ کچھ دیر ٹھنڈی آہیں بھرتی رہی اور پھر بولی۔
’’ثمی،یہ معاشرے کا دستور ہے۔ یہاں اپنی عزت اور غیرت تو سب کے لیے اہم ہے، مگر دوسروں کی مائیں بہنیں صرف عورتیں ہیں جنہیں لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے نظروں ہی نظروں میں کھا جائیں گے۔ کتنے برے ہوتے ہیں نا وہ لوگ جو اس منافقت میں زندہ رہتے ہیں۔ کاش سب یہ بات سوچیں۔‘‘ اس کی بات بہت گہری تھی۔
تھوڑے دنوں بعدان کے گھر عجیب طرح کی صورت حال تھی۔ سکینہ نے سن گن لینے کی کوشش کی، مگر ماں نے جھڑک دیا۔بات تب کھلی جب اتوار کی صبح دین محمد نے اشعر کو خوب سنائیں۔




Loading

Read Previous

شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!