گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

’’تم میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز ہے؟پورا محلہ تیرے عشق کی باتیں کرتا پھر رہا ہے۔‘‘
’’بکواس کرتے ہیں لوگ۔ ابا میں اسی لیے کہہ رہا ہوں میری شادی کر دیں ثانیہ سے۔‘‘ اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ نے سکینہ،ثمینہ سمیت حاجرہ کو بھی حیران کر دیا۔
’’ایسے کیسے کر دوں شادی؟ وہ لڑکی ٹھیک نہیں۔ پورے محلے میں بدنام ہے۔ ‘‘دین محمد نے بہ مشکل خود پر قابو پایا۔ جوان اولاد تھی، ہاتھ کیسے اٹھاتا۔
’’مجھے نہیں پتا۔ شادی کروں گا، تو صرف ثانیہ سے وہ بھی چند دنوں کے اندر اندر۔‘‘ اس نے جیسے اپنافیصلہ سنادیا۔ ساتھ ہی تیزتیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
دین محمد سر پکڑ کربیٹھ گیا، تو یہ بات تھی۔ موصوف پچھلے دو ہفتوں سے ثانیہ کے چکر میں تھے۔ جوانی چیز ہی ایسی ہے جب آتی ہے۔ انسان کی عقل جذبات کی قیدی بن جاتی ہے۔ اشعر کی ضد نے گھر کا ماحول خراب کردیا۔ حاجرہ اوردین محمد کسی صورت رشتہ لے جانے کو تیار نہ تھے۔آخر اشعر نے خودکشی کی ایسی کامیاب کوشش کی جس میں مرنے کا چانس مشکل سے ایک فیصد تھا۔ دین محمد کی اکڑ ٹوٹ گئی۔ اشعر کو اسپتال سے گھر واپس لے آئے اور دوسرے دن ثانیہ کا رشتہ مانگنے چلے گئے۔ حاجرہ بھی ساتھ تھی۔
’’ارے حاجرہ اوردین محمدبھائی آج ہمارے گھر کیسے آنا ہوا؟‘‘شہناز بیگم انہیں دیکھ کر حیران ہوئی۔ خالد صاحب بھی گھر پر تھے۔
’’بس شہناز بہن۔ آج آپ سے کچھ مانگنے آیا ہوں۔‘‘ دین محمد کے الفاظ میں تھکن تھی۔
’’کک کیا؟آئیں بیٹھیں۔ میں چائے بناتی ہوں آپ کے لیے۔‘‘ان کا سوال شہناز کی سمجھ میں آرہا تھا۔ پانچ منٹ میں چائے دیگر لوازمات کے ساتھ سامنے رکھی تھی۔
’’شہناز بہن،میرا بیٹا اشعر ابھی پڑھ رہا ہے۔خدا اسے اچھی نوکری دے کامیاب کرے۔ میں چاہتا ہوں آپ ثانیہ کو ہماری بیٹی بنادیں۔‘‘ ان کی بات سن کر شہناز بیگم نے گہری سانس لی۔
’’بھائی دین محمد، ثانیہ جذباتی ہے اور بے وقوف بھی۔ میں جانتی ہوں دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، مگر میں معذرت چاہتی ہوں ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ آپ کی مالی حیثیت ایسی نہیں جہاں ہماری بیٹی خوش رہ سکے۔ وقتی جذبات ہیں اس کے ورنہ شادی کے بعدحالات کا سامنا کرے گی، تو مسئلہ بنے گا اس کے لیے۔ ہم نے بیٹی کو بہت لاڈ پیار سے پالا ہے اب ہم کیسے کرسکتے ہیں ایسے گھر میں رشتہ۔‘‘ ان کے منہ سے انکار سن کر دین محمد دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو معاملہ خود بہ خود رفع دفع ہوگیا۔
حاجرہ اوردین محمد خالی ہاتھ لوٹے، تو اشعر چارپائی پر لیٹا پرامید نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
’’کروالی بوڑھے ماں باپ کی عزت؟ ہو گئے خوش؟ صاف صاف کہہ دیا انہوں نے، غریب گھر میں رشتہ نہیں دے سکتے اورجناب پر عشق کا بھوت سوار ہے۔‘‘ دین محمدآتے ہی اس پر برس پڑا۔
’’اس لیے تجھے پال پوس کر بڑا کیا تھا؟تجھے پڑھایا لکھایا تھا؟اشعر تم نے خوب صلہ دیا ہے اپنے بوڑھے ماں باپ کو۔‘‘ دین محمد ہاتھوں میں سرپکڑے آنسوچھپانے لگے۔حاجرہ خاموش تھی اور اشعر کے دماغ میں کیا چل رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
دو دن خاموشی سے گزرے۔ عجب فضاتھی شہر کی۔ آتی گرمیوں کی نوید لاتی دھوپ دن بھر جسم کو حرارت بخشتی اورشام ٹھنڈی ہو جاتی۔ اس دن آسمان کو بادلوں کے لشکر نے چھپا لیا اور خوب بارش برسی۔ سکینہ کو بارش بہت پسند تھی پر نہ جانے کیوں اس دن اسے اچھی نہیں لگی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے بارش کے بعد طوفان آئے گا اور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے گا اوربہار کی یہ بارش اس موسم کے سارے پھول بکھیر دے گی اور یہی ہوا، مگر یہ موسم کا طوفان نہ تھا، تیز ہوا نہ تھی، دھول اور مٹی کے جھکڑ نہ تھے۔ یہ تو حالات کی تبدیلی میں آنے والا طوفان تھا۔ رات کو بارش تھم گئی مگر ہلکی ہلکی رم جھم کے ساتھ ہوا چلتی رہی۔
وہ سب کمبل لپیٹے سو رہے تھے۔جب رات کے دو بجے دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ دین محمد ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔
’’اس وقت کون آگیا الٰہی خیر۔‘‘ چپل پہن کر وہ دروازے کی طرف بڑھا، تو سکینہ بھی باپ کے پیچھے چل پڑی۔ دین محمد نے دروازہ کھولا ، تو ثانیہ کے والد دہاڑتے ہوئے اندرآگئے۔





’’کہاں ہے وہ کمینہ کتا۔‘‘ ان کے منہ سے گالیاں ابل رہی تھیں۔
’’کک کون؟‘‘دین محمد ڈر کر پیچھے ہٹا۔
’’تیرا بیٹا اشعر؟‘‘ثانیہ کا باپ اِدھراُدھر دیکھتا ہوا دوسرے کمروں کی جانب لپکا۔
’’شرافت کی حد ہوتی ہے خالد صاحب۔ کس نے حق دیا ہے آپ کو یوں میرے گھر میں گھسنے کا؟‘‘ دین محمد چنگھاڑا۔
’’تیرے بیٹے نے۔ ثانیہ گھر سے غائب ہے وہ بھگا کر لے گیا اسے۔‘‘ خالد کی بات سن کردین محمد کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ اس نے خالد کے ساتھ مل کر پورا گھرچھان مارا۔ اشعر کہیں نہیں تھا۔ثانیہ کا باپ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ بے شک اولاد آزمائش ہے۔ دین محمد نے دلاسا دینے کے انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’میں لٹ گیا دین محمد۔ میں برباد ہوگیا تیرے بیٹے اور اس ثانیہ نے مل کر میری عزت اچھال دی۔ میں محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ اس کی بات سچ تھی۔ دین محمد کی اپنی سالوں کی کمائی گئی عزت کو اشعر برباد کر کے جاچکا تھا۔ وہ جو عزت اور غیرت کے نام پر اپنی بہنوں کو گھر سے نہیں نکلنے دیتاتھا۔ آج خودکسی کی بیٹی لے کر بھاگ گیا تھا۔ ثانیہ کا باپ روتا ہوا باہر نکل گیا۔ اشعر اور ثانیہ نے کب یہ پروگرام بنایا، سب بے خبر تھے۔ اگلے چند دن دونوں کو بہت ڈھونڈا گیا، مگر وہ کہیں نہ ملے۔ پورا محلہ باخبر ہوچکا تھا۔ ثمینہ اورسکینہ نے گھر سے نکلنا بند کردیا۔ لوگ انہیں عجیب نظروں سے گھورتے تھے۔ دین محمد اورحاجرہ خاموش رہتے۔زندگی کی گاڑی گھسٹ کر چلنے لگی اور ایک دن پھردین محمد لوگوں کی باتوں اورطعنوں سے تنگ آکر دنیا سے منہ موڑ گیا۔صرف ایک ماہ سہ پایا تھا وہ عذاب۔ ایک رات سویا اور سویا ہی رہ گیا۔ ہارٹ اٹیک نے اس کی آنکھ نہیں کھلنے دی۔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا وہ۔ ان کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ صبح روتے ہوئے ہوتی اورشام سسکیوں میں ڈھل جاتی۔ دین محمد کی موت کے بعد سکینہ کے منگیتراسحاق نے گھر سنبھالنے میں انہیں مدد دی۔ دین محمد کی دکان کے لیے ایک ایماندار ملازم کا بندوبست کیا اورگھر کاسارانظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اسکول تو کب کا چھوٹ گیاتھا۔ سکینہ اور ثمینہ گھر کا کام کرنے کے بعد ماں کے پاس بیٹھ جاتیں اور خاموشی سے سلائی کڑھائی میں مصروف رہتیں۔ اڑوس پڑوس والے ان کے گھر کم کم ہی آتے تھے۔ اسحاق شام کو ان کے گھر سے ہو کر اپنے گھر جاتاتھا۔حاجرہ سوچ رہی تھی وہ سکینہ کو بیاہ دے، مگر ابھی آزمائش باقی تھی۔
وہ جولائی کاگرم دن تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ سکینہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔سامنے اشعر کھڑاتھا۔ الجھے، بکھرے بال۔ بڑھی ہوئی شیو، میلی جینز۔ دور دراز کی مسافت طے کرنے والے مسافر سے بھی زیادہ برا حال تھا اس کا۔ سکینہ کو سمجھ نہیں آئی کیا ری ایکٹ کرے۔ بھاگ کر ’’بھائی ‘‘کہے اور گلے سے لگ جائے یا باپ کے قاتل کاگلا دبا دے۔
وہ ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر دھول تھی۔ یہاں سے جاتے وقت وہ کتنا صحت مند اور خوب صورت تھا۔ آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی، مگر اب جیسے وہ شکستہ حال ہو کر لوٹاتھا۔ آنکھوں میں عجیب قسم کے تاثرات تھے۔سکینہ نے غور سے اسے دیکھا۔ ہونٹ کالے ہو رہے تھے۔ شاید اُسے سگریٹ نوشی کی لت لگ چکی تھی۔ وہ ایک طرف ہوگئی۔ اشعر اندر داخل ہوا۔ حاجرہ نے اسے دیکھا، تو جیسے بے جان ہوگئی۔ ’’امی‘‘ کہتا ہوا اشعر ماں کی جانب لپکا۔
’’اب کیا لینے آیا ہے اشعر؟‘‘ الفاظ جیسے حاجرہ کی زبان سے پھسلے ہوں۔
’’امی میرا گھر ہے یہ۔‘‘وہ ماں کے گلے لگنا چاہتاتھا مگر حاجرہ نے منہ موڑلیا۔
’’وہی گھرہے یہ جسے تم نے اس لڑکی کے لیے چھوڑا تھا۔‘‘وہ اب بھی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھیں۔




Loading

Read Previous

شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!