گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

’’تیرا باپ مر گیا اشعر۔ لوگوں کے طعنوں نے مارڈالا اسے۔‘‘
’’ثانیہ نے طلاق لے لی ہے مجھ سے امی۔میں نے چھوڑ دیا ہے اس حرافہ کو۔ میں یہاں سے اسے دوسرے شہر دوست کے پاس لے گیا تھا۔ وہ وہاں ایک اور لڑکے کے چکر میں پڑ گئی۔ اب چھوڑ دیا میں نے اور لوٹ آئی ہے وہ بھی۔ غلطی ہوئی تھی ہم سے۔‘‘ نہ لہجے میں شرمندگی نہ چہرے پر بیتے دنوں کی ندامت۔ ایک لفظ تھا’’غلطی۔‘‘ پر اشعر جیسا بے وقوف کیا جانے۔ غلطیاں مانی نہیں جاتیں۔ ان کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ غلطی بھگتی جاتی ہے۔ ہر غلطی پر معافی نہیں ملتی۔ کچھ کی سزا ملتی ہے۔
اشعر کے لوٹ آنے سے معمول بدل گیا۔ ثانیہ اور اس کے والدین نے محلہ چھوڑ دیا۔ عزت سے پیاری کوئی چیز نہیں ہوتی۔ نہ گھر،نہ گلی، نہ محلہ۔ایک ہفتے بعد جب اشعر دکان پر گیا ہوا تھا، حاجرہ کے پاس محلے کے چند سرکردہ لوگ آئے جو اہل محلہ کے چھوٹے بڑے مسائل حل کرتے تھے۔ سکینہ نے انہیں بیٹھک میں بٹھایا۔ سلام دعا کے بعدایک بڑی عمر کے شخص نے بات شروع کی۔
’’حاجرہ بہن، دین محمد کی ہم سب دل سے عزت کرتے تھے۔ ان کی موت کا ہمیں بہت دکھ ہوا۔ آپ ان کی بیوہ ہیں آپ کی اور بچیوں کی عزت ہمارے دل میں دین محمد کی وجہ سے بہت زیادہ ہے، مگر آج ہم مجبور ہوکر یہاں آئے ہیں۔ اشعر کا چال چلن درست نہیں۔ پہلے ایک لڑکی کو بھگا چکا ہے، اب ہم ایسے شخص کو محلے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ یا تو اسے گھر سے نکال دیں یا پھر یہ گھر بیچ کر کہیں اور چلے جائیں۔‘‘ ان کی بات درست تھی یا غلط، مگر حاجرہ کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگی۔ اکلوتے بیٹے کو گھر سے نکالنا ناممکن تھا اور گھر چھوڑ کر کہیں اور جانابھی ممکن نہ تھا۔اس نے منت سماجت کر کے تھوڑے عرصے کی مہلت مانگ لی۔
اشعر واپس لوٹ آیا تھا، مگر آئے دن کسی نہ کسی سے اس کا جھگڑا ہوجاتا۔ گھر کا ماحول اس کی وجہ سے سخت خراب تھا۔ اس نے اسحاق کے گھرآنے پر پابندی لگا دی جس کے بعد سکینہ کی منگنی ٹوٹنے کا خدشہ تھا۔ مہلت مانگے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اشعر نے ایک نیا کارنامہ سرانجام دیا۔ اس دن وہ گھر لوٹا، تو اس کے ساتھ ایک جوان عورت تھی۔ چال ڈھال اوربولنے کے انداز سے وہ کوئی بازاری عورت لگتی تھی۔ پتا چلایہ اشعر کی بیوی ہے۔ ثانیہ کو چھوڑنے کے بعد اس سے نکاح کر لیا تھا۔ حاجرہ کو کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔ اشعر اپنا آپ پہلے ہی دکھا چکا تھا ۔اب اس طرح کے کام اسے جچتے تھے۔نازو نام کی اس عورت نے آتے ہی ہنگامہ کھڑا کردیا۔وہ اشعر کو اپنا حصہ الگ کرنے پر زور دے رہی تھی۔سکینہ نے ان کی باتیں سنیں۔ اسے اندازہ ہوگیا بہت جلد اشعر انہیں گھر سے نکال دے گا۔ ایک ہفتہ مزید گزرا تھا کہ اشعر نے حکم جاری کردیا۔
’’سکینہ اور ثمینہ کی شادی کر دو۔‘‘سکینہ کا رشتہ تو طے تھا، مگر ثمینہ کہاں جاتی؟اس کا حل بھی بہت جلدسامنے آگیا۔
٭…٭…٭





وہ پینتیس سے کچھ اوپر کا دکھائی دیتاتھا۔ چہرے پر زخم کا نشان، الجھے بال اور منہ میں پان دبائے وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہیں دیکھ کر کسی بھی شریف گھر کی لڑکی چڑ محسوس کر سکتی تھی۔ نازو سے ملنے کے بعد وہ حاجرہ اور اشعر کے سامنے آ بیٹھا۔
’’امی یہ ہیں شکیل بھائی، نازو کے کزن۔ کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔ بہت بڑی دکان ہے ان کی مارکیٹ میں۔‘‘ اشعر نے تفصیل بتائی جب کہ حاجرہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’اپنی چھوٹی بہن کے لیے اس کا رشتہ لے آیا ہے؟اشعر بیچنا ہے ثمینہ کو۔‘‘ ان کے الفاظ نے اشعر کا چہرہ سرخ کر دیا۔
’’حد ہوتی ہے ہر بات کی امی۔ سکینہ کی شادی کرنی ہے ساتھ ہی ثمینہ کافرض بھی پورا کر لیں اور مرد کی عمر نہیں دیکھتے۔ اچھا کماتے ہیں شکیل بھائی۔‘‘ شکیل اس دوران مونچھوں کو تاؤ دے کرسکینہ اور ثمینہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’تم جیسا بے غیرت بیٹا خدا کسی ماں کو نہ دے۔‘‘ حاجرہ یہ کہہ کر اٹھ گئی۔ اشعر نے بہ مشکل شکیل کو روکا۔ یہی نہیں بلکہ رات کے کھانے کے بعد اسے گھر میں ٹھہرا لیا۔
وہ پوری رات حاجرہ سو نہیں سکی۔ اپنی بیٹیوں کو اپنے پاس لٹائے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مرغی کی طرح انہیں اپنے پروں میں چھپا لے۔ اگلے دو دن شکیل ان کے گھر رہا۔تیسری رات وہ واقعہ پیش آیا جس نے حاجرہ کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ اس رات چائے نازو نے بنائی تھی۔ اس نے پتا نہیں چائے میں کیا ملایا۔ اشعر سمیت سب گہری نیند سو گئے۔ مگرخدا کو کچھ اور منظور تھا۔ خوش قسمتی سے حاجرہ نے چائے نہیں پی تھی۔ وہ جاگ رہی تھی۔ سب کے سو جانے کے بعد شکیل گھر میں داخل ہوا۔ نازو نے اسے وہ کمرا دکھایا جہاں حاجرہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ سوتی تھی۔ چوری چھپے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے سامنے نظر دوڑائی۔ حاجرہ نے اس کی طرف منہ کیااور زور سے چیخی۔
’’کک کون ہے؟‘‘اس کے منہ سے بے اختیار چیخیں نکلیں۔شکیل گھبرا کر باہر دوڑا۔ حاجرہ نے دیکھا نازو اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس نے دونوں کو پہچان لیا۔ کھیل سمجھ آنے کے بعدوہ کچن کی طرف گئی اور چھری اٹھا کر اپنے پاس رکھ لی۔ اگلے دن اس نے اشعر سے بات کی اور رات والے واقعہ کی تفصیل بتائی۔
’’امی میں کہتا ہوں شادی کر دو اس کی۔ وہ شکیل نہیں ہو گا کوئی اور ہو گاپتا نہیں میری غیر موجودگی میں کس کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے انہوں نے۔‘‘ وہ اپنی بہنوں کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ حاجرہ کا ہاتھ اٹھا اور’’چٹاخ‘‘کی آواز گونجی۔
’’میری بیٹیاں تیرے جیسی نہیں۔‘‘
’’یہ آپ کہتی ہیں محلہ نہیں۔ دو دن کا وقت ہے آپ کے پاس۔ ثمینہ کی شادی کی تیاری کریں ورنہ میں اسے شکیل کے ساتھ رخصت کر دوں گا۔‘‘ وہ اپنا فیصلہ سنا کر چلا گیا۔ حاجرہ نے پورا دن سوچااور آخر ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔ اس رات نازو والا طریقہ اس نے اپنایا تھا، مگر گزر جانے والی رات کی طرح آج سکینہ نے چائے نہیں پی تھی۔ اُسے ماں پر شک ہوگیا تھا۔ اس رات طوفان آیا تھا۔ ویسا ہی طوفان جیسا پہلا آیا تھا۔ گھر کی جڑیں مضبوط ہو جانے کے باوجودوہ گھر کسی بوڑھے درخت کی طرح طوفان کا زور برداشت نہ کر سکا اور دھڑام سے نیچے آگرا۔ رات ایک بجے کا وقت تھا جب حاجرہ تیز دھار چھری لیے اپنے کمرے سے نکلی۔اس کے پیچھے سکینہ بھی چپکے سے روانہ ہوگئی۔ حاجرہ کا رُخ اشعر کے کمرے کی طرف تھا جہاں دونوں میاں بیوی بے ہوشی کی نیند سو رہے تھے۔ حاجرہ کی بوڑھی ہڈیوں میں پتا نہیں اتنا زور کہاں سے آگیا۔ اس نے پوری قوت سے چھری کا وار اشعر کی گردن پر کیا۔ شہ رگ کٹ گئی اور خون بہنے لگا۔ ایک دو منٹ کے لیے وہ تڑپا۔ منہ سے عجیب سی آوازیں نکلیں، مگروہ چلا نہیں سکا۔تیس سیکنڈ لگے ہوں گے اسے ٹھنڈا ہونے میں۔ سکینہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بہ مشکل اپنی چیخ روکی۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔ وہ دبے قدموں آگے بڑھی۔اس نے دیکھا۔ حاجرہ اشعر کو مار کر بے ہوش ہو چکی تھی۔ شاید اس کی برداشت جواب دے تھی۔ سکینہ نے چھری اس کے ہاتھ سے پکڑ لی۔ اس گھسیٹ کر پیچھے کیا…اور…قاتل بن گئی۔
حاجرہ کے لاکھ چیخنے چلانے کے باوجود پتھربنی سکینہ نے بیان نہ بدلا۔اس نے بھائی کے قتل کا اعتراف کرلیا تھا۔وجہ بار بار پوچھنے پر جواب بس ایک ہی ملتا۔
’’غیرت کے نام پر مارا ہے اسے۔‘‘ ثمینہ کی شادی اسحاق سے ہوگئی۔ وہ حاجرہ کو بھی ساتھ لے گیاجو اب چلتی پھرتی لاش کی صورت تھی۔نازو اور شکیل کی کچھ خبر نہ ہوئی کہ دونوں کہاں چلے گئے۔ یوں یہ کہانی اختتام کو پہنچی۔
٭…٭…٭
کہانی ختم کر کے میں اٹھی، تو میرے دماغ میں آندھی چل رہی تھی۔وہ جس کا جیل کی کوٹھڑی میں دم گھٹتا تھا وہ بے قصور تھی۔وہ اپنی ماں کی جگہ سزا بھگت رہی تھی۔ وہ رات میں نے مشکل سے کاٹی۔ دوسرے دن جب میں جیل پہنچی تو وہاں ہنگامی صورتِ حال تھی۔ سکینہ نے خودکشی کر لی تھی۔جو پن اس نے کہانی لکھنے کے لیے استعمال کیا تھا اسی سے اپنی رگیں کاٹ لیں اس معصوم نے۔ وہ ہارچکی تھی گھٹن سے۔ مجھ سے ہمت نہیں ہوئی۔ آخری بار اس کا چہرہ دیکھ سکوں۔ میں پلٹنے ہی والی تھی کہ ایک سپاہی میری طرف بڑھا۔
’’میڈم صاحبہ یہ اس نے آپ کے لیے دیا تھا۔‘‘ اس کا اشارہ سکینہ کی طرف تھا۔ یہ میری ڈائری ہی کا ایک ورق تھا ۔شاید کل اس نے پھاڑ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ میں نے تھکے انداز میں اس کا خط پڑھا۔
’’میں مایوس ہو چکی ہوں۔ مجھے پتا ہے میں برا کررہی ہوں پر معاف کر دینا مس۔ گھٹن برداشت نہیں ہورہی۔ میرے راز خود تک محدود رکھنا۔‘‘ اس کے الفاظ پڑھ کر کل اس کا بولا گیا جملہ میرا دماغ میں گھوم گیا۔
’’میرا دم گھٹتا ہے یہاں،مجھے لگتا ہے کسی دن میں یہیں مرجاؤں گی۔‘‘ کاش! میں نے سکینہ سے ڈائری لیتے ہوئے پن بھی لے لیا ہوتا۔نم آنکھیں لیے میں جیل سے باہر نکل آئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

شبِ آرزو کا چاند — مونا نقوی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!