کفنی — خواجہ حسن نظامی

مہ جمال کو پھر رونا آگیا اور اس نے میواتی کی بیوی سے مخاطب ہوکر پوچھا: میری اماں کہاں گئیں؟ میواتن نے کہا: وہ مر گئی تھیں ان کو دفن کردیا گیا۔ تم کو یہاں لائے ہیں۔ تم کچھ کھاؤ گی؟ لو کھیر پکی ہے کھالو۔”
مہ جمال نے کہا: مجھے بھوک نہیں ہے” اور ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ میواتن پاس آگئی اور اس نے دلاسا دینا شروع کیا اور کہا:”بیٹی صبر کر رونے سے کیا ہوتا ہے۔ اب تیری ماں زندہ نہیں ہوسکتی۔ ہمارے اولاد نہیں ہے، بیٹی بنا کر رکھیں گے۔ اس گھر کو اپنا گھر سمجھ ، تو کون ہے، تیرا باپ کہاں ہے اور تو کہاں جاتی تھی۔”
مہ جمال نے کہا: ”میں دلی کے بادشاہ کے خاندان میں ہوں۔ میرے ابا جان گیارہ برس ہوئے مر گئے۔ ہم غدر کی بھاگڑ میں گھر سے نکلے تھے۔ نجف گڑھ میں ہمارے باغ کا مالی رہتا ہے۔ اس کے گھر میں جانا چاہتے ہیں کہ راستہ میں پہلے فوج والوں نے لوٹا پھر گوجروں نے اماں جان اور دو لونڈیوں کو مار ڈالا۔” کہتے کہتے وہ پھر رونے لگی۔
چند روز مہ جمال میواتن کے ہاں آرام سے دن گزارتی رہی۔ اگرچہ وہ پچھلے وقت کو یاد کرکے روتی تھی لیکن میواتن کی محبت کے سبب اس کو کسی بات کی تکلیف نہ تھی۔ پکی پکائی روٹی مل جاتی تھی تاہم مہ جمال کو یہ گھر اور اس کی سادگی کاٹے کھاتی تھی اور وہ پچھلے زمانہ کا عیش یاد آتا تھا۔ ایک رات کو مہ جمال اور میواتن اور اس کا خاوند اپنے مکان میں سوتے تھے کہ پڑوس کے ایک چھپر میں آگ لگ گئی اور وہاں سے بڑھ کر ان کے چھپر میں بھی آن لگی۔ دھوئیں کی بو سے مہ جمال کی آنکھ کھل گئی اور وہ چیختی ہوئی اٹھی۔ میواتن اور میواتی کا کچھ زیور گھر کے اندر رکھا تھا، وہ اس کو لینے کے لیے اندر بھاگے اور مہ جمال گھر کے باہر بھاگی۔ کوٹھے کا جلتا ہوا چھپر گر پڑا اور وہ دونوں اس کے اندر جل کر مرگئے۔ قصبے والوں نے بہ مشکل آگ بجھائی۔ مگر مہ جمال کا یہ ٹھکانا بھی خاک کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ صبح جلی ہوئی لاشیں قصبے والوں نے دفن کیں اور مہ جمال کو ایک نمبردار اپنے گھر لے گیا۔ اس کے کئی بچے اور دو بیویاں تھیں۔ مہ جمال کو ایک چارپائی سونے کو دی گئی۔ وہ دن تو گزر گیا۔ رات کو ایک بیوی نے کہا، اری لڑکی دودھ چولھے پر رکھ دے۔ دوسری بولی اری ادھر آ، میرے بچے کو سلا دے۔ ایک وقت میں دو حکم سن کر مہ جمال ذرا گھبرا گئی۔ اس نے نہ کبھی دودھ چولھے پر رکھا تھا نہ کسی بچے کو لوریاں دے کر سلایا تھا تاہم وہ دودھ اٹھا کر چولھے پر رکھنے چلی۔ چولھے کے قریب آکر ٹھوکر لگی، ہانڈی ہاتھ سے گر پڑی اور ٹوٹ گئی۔ دودھ سب بکھر گیا۔ آواز سن کر نمبردار کی بیوی دوڑ کر آئی اور دودھ گرا ہوا دیکھ کر ایک دو ہتھڑ مہ جمال کے مارا اور گالیاں دینی شروع کیں۔
مار کھانے اور گالیاں سننے کا پہلا موقع تھا۔ مہ جمال کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ دودھ اس کے کپڑوں پر بھی گرا تھا۔ کبھی وہ کپڑوں کو دیکھتی اور کبھی نمبردار کی بیوی کو دیکھتی جو لگاتار گالیاں بک رہی تھی۔
آخر وہ دیوار کے سہارے لگ کر کھڑی ہوگئی اور بے اختیار رونے لگی۔ مہ جمال کو روتا دیکھ کر نمبردار کی بیوی کو پھر غصہ آیا اور اس نے جوتی نکال کر دو تین اس کے چہرے پر ماریں اور کہا:”اب تو مجھ کو رو کر ڈراتی ہے۔ موئی ڈائن میواتن کو کھا گئی، اب یہاں کس کو کھانے آئی ہے۔ میرا سارا دودھ پھینک دیا، خدا رکھے میرے بچوں کو۔ دودھ کا چولھے کے سامنے گرنا بڑا منحوس ہوتا ہے۔ خبر نہیں تیرا آنا کیا مصیبت لائے گا۔”





مہ جمال کے چہرے پر جوتیاں پڑیں تو وہ بلبلا اٹھی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا۔ اتنے میں نمبردار نے جو یہ شور و غل سنا تو وہ بھی وہاں آیا۔ مہ جمال وہاں سے بھاگ کر اپنی چارپائی کے پاس آگئی۔ نمبردار اور اس کی بیوی بھی دالان میں آئے۔ نمبردار نے بیوی سے پوچھا کیا ہوا تھا۔ اس نے سارا قصہ بیان کیا۔ اس نے کہا چلو خیر جانے دو۔ غریب عورت ہے خطا ہوگئی کچھ خیال نہ کرو۔ دوسری بولی: یہ غریب نہیں ہے بڑی قطامہ ہے۔ میں نے آواز دی کہ ذرا بچے کو سلا دے تو کانوں میں بول مار کر چپ ہوگئی اور سنی ان سنی کردی۔ اس کو تم بیگم بنا کر لائے ہو یا نوکر بناکر۔ نوکر ہے تو اس کو کام کرنا پڑے گا۔”
نمبردار نے کہا ”میں تو لاوارث سمجھ کر لایا ہوں۔ اس کو کام کرنا چاہیے۔ ہم کو ایک نوکر عورت کی ضرورت بھی تھی۔”
مہ جمال نے ڈرتے ڈرتے کہا ”مجھ کو نوکری کرنی نہیں آتی تھی، تم مجھ کو سکھا دو تقدیر نے یہ وقت تو مجھ پر ڈالا مگر نوکری نہ سکھائی۔ میرے سامنے لونڈیاں کام کرتی تھیں۔ میں نے تو کبھی کچھ کام نہیں کیا۔” یہ کہتے کہتے اس کو ایسا رونا آیا کہ ہچکی بندھ گئی۔
نمبردار نے کہا ”تو رو مت رفتہ رفتہ سب کام آجائے گا۔” اس کے بعد کچھ کھانے کو دیا مگر مہ جمال سے کھایا نہ گیا اور وہ یوں ہی پڑ کر سو گئی۔ صبح کو نمبردار کی بیوی نے زور سے جھنجھوڑا اور کہا اری اٹھی نہیں کب تک سوئے گی۔ جھاڑو دینے کا وقت ہے۔’ ‘
مہ جمال کو یاد آیا کہ دلشاد، نرگس، سندری کس طرح جگایا کرتی تھیں یا وہ وقت تھا یا یہ وقت ہے۔ ٹھنڈا سانس بھر کر اُٹھی اور حسب عادت دوچار انگڑائیاں لیں۔
نمبردار کی بیوی نے دھکا دے کر کہا ”نحوت پھیلاتی ہے اٹھتی نہیں۔” اس وقت مہ جمال نے جانا کہ اب میں واقعی لونڈی بن گئی ہوں۔ شہزادی نہیں رہی، فوراً اٹھی مگر آنسو لگاتار اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔ نمبردار کی دوسری بیوی نے کہا ”اس عورت کا گزر ہمارے گھر میں نہ ہوگا۔ ہر وقت روتی ہے۔ بال بچوں کے گھر میں اس منحوس کا رکنا اچھا نہیں۔” اتنے میں نمبردار آگیا اور اس نے بیویوں کے کہنے سے مہ جمال کو کھڑے کھڑے گھر سے باہر نکال دیا۔
مہ جمال یہ خیال کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں وہ کفنی والا فقیر سامنے آیا اور مہ جمال کو دیکھ کر کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ مہ جمال پر بھی اس ناگہانی ملاقات کا بہت اثر ہوا اور وہ بھی کچھ گم صم سی ہوگئی۔ اگرچہ وہ ایسی مصیبت کے حال میں تھی کہ اس کو تن بدن کا ہوش نہ تھا، تاہم فقیر اور اس کی کفنی اور اس کی زرد صورت اور لال آنکھوں کا ایسا اثر اس پر ہوا کہ تمام بدن میں سنسناہٹ ہونے لگی۔
فقیر نے کہا ”میری ملکہ تم یہاں کہاں؟” مہ جمال نے میری ملکہ کا لفظ سنا تو لحاظ سے منہ پھیر لیا اور کہا ”مجھ کو تقدیر یہاں پر لے آئی ہے۔” اور پھر سارا قصہ بیان کیا۔ اس نے کہا ”میرا گھر تو قریب ہے مگر میں نے کبھی تمہارا حال نہ سنا۔ چلیے میرے گھر پر چلیے۔”
مہ جمال اس کے پیچھے پیچھے چلی۔ وہ اپنے گھر میں گیا اور مالن سے مہ جمال کا حال کہا۔ وہ دوڑی ہوئی آئی اور مہ جمال کے قدموں پر گر پڑی اور پروانوں کی طرح اس پر قربان ہونے لگی۔ اس کے بعد بڑی عزت سے چارپائی پر لے جا کر بٹھایا اور حالات پوچھتی رہی اور کہا”بیگم یہ گھر آپ کا ہے۔ میرا بیٹے کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ آپ کے گھر کی بدولت خدا نے مالامال کر رکھا ہے۔ اب آپ اس گھر کی مالک ہیں۔ میں اور میرا بیٹا آپ کے لونڈی غلام ہیں۔”
مالن نے اپنی حیثیت کے موافق اس قدر آرام مہ جمال کو پہنچایا کہ وہ مصیبتوں کو بھول گئی۔ اس نے دیکھا کہ مالن کے لڑکے کے پاس دور دور سے بیمار آتے ہیں اور وہ پہلے اپنی کفنی پر ہاتھ ملتا ہے۔ پھر اپنے دونوں رخساروں پر ان کو رکھتا ہے اور آنکھیں کچھ دیر بند رکھ کر پھر کھول دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ”جاؤ تم اچھے ہو” سب بیمار آن کی آن میں اچھے ہو جاتے ہیں۔
مہ جمال کئی روز تک یہ تماشا دیکھتی رہی تو اس نے مالن سے پوچھا ”تیرے لڑکے میں طاقت کہاں سے آگئی۔ اس نے مجھ کو بھی ایک دن اسی طرح اچھا کردیا تھا۔”
مالن نے ہاتھ جوڑ کر کہا ”بیوی جان کی امان پاؤں تو کہوں” مہ جمال نے کہا ”اب میں جان کی امان دینے کے قابل نہیں ہوں۔ تم کہو مجھے اس بھید کے معلوم کرنے کا شوق ہے۔”
مالن نے کہا ”بیگم میرے لڑکے کو تم سے محبت ہوگئی تھی اور تمہارے فراق میں اس نے بہت دکھ اٹھائے۔ آخر ایک فقیر نے اس کو یہ کفنی دی۔ یہ اسی کی برکت ہے جس سے ہزاروں کو فیض پہنچ رہا ہے اور خدا نے گھر بیٹھے تم کو بھی یہاں بھیج دیا۔”
مہ جمال پر اس خبر کا بہت اثر ہوا اور کچھ دن کے بعد اس نے مالن سے کہہ کر قاضی کو بلوایا اور کفنی پوش سے نکاح کرلیا۔
مالن نے تمام عمر مہ جمال کی ایسی خدمت کی اور ایسی محبت سے اس کو رکھا کہ وہ کہتی تھی کہ مجھ کو اپنا بچپن بھی یاد نہیں آتا۔ مگر مالن کے لڑکے نے کفنی پہننا ترک نہ کیا اور اس کفنی کا فیض دور دور مشہور ہوگیا اور اس طرح مہ جمال کی سوتی قسمت کفنی نے جگا دی۔




Loading

Read Previous

میک اپ — ندا ارشاد

Read Next

خزاں کے پھول — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!