”فارس تو نکاح کر چکا ہے۔ اس نے اپنا فائدہ دیکھا اور اپنا وقت ضائع نہ کیا۔ ایک بے وفا آدمی کو یاد کرنے سے کیا فائدہ!”
اب وہ اس کے چہرے پر بلش آن لگا رہی تھیں۔
نہ جانے کون بے وفا ہے اور کون نہیں۔
اس نے آہ بھر کر سوچا۔ آئینے میں نظر آتا ہے عکس دھندلا گیا۔
”شاید قسمت میں یہی لکھا تھا۔”
اس نے بے دلی سے چوڑیاں پہنتے ہوئے سوچا۔
ہر بندہ اس کے کمرے میں آکر اسے یہی سمجھاتا، لیکچرز دیتا، وہ چپ چاپ سنتی رہتی۔
زوار کی طرف سے صرف تین لوگ آئے تھے۔ زوار اس کی ممی اور سارہ، رانیہ کے گھر والوں نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا۔
زوار کی ممی اتنی خوش ہیں یہ بار بار ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملانے لگتے ہی دیر تک وہ اس کے پاس بیٹھی پیار کرتی رہیں۔ کبھی نم آنکھوں کو صاف کرتیں کبھی مسکرا دیتیں۔ انہوں نے اسے بڑی خوبصورت اور قیمتی رنگ پہنائی۔ وہ سرجھکائے بیٹھی رہی۔ زوار ایک ٹک اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ اسے دیکھتے ہوئے اردگرد سے غافل ہو جایا کرتا وہ اسے ہیپناٹائز کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
زوار کی ممی رانیہ اور اس کے سب گھر والوں کے لیے تحائف لے کر آئی تھیں۔ سارہ کو یہاں آکر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ تعارف سے پہلے ہی سب کو پہچان چکی تھی۔
شیراز بھی جیمو ماموں کے ساتھ بیٹھا رہا اور اپنی سمجھ اور اندازوں کے مطابق سب کے سوالات کے جواب دیتا رہا۔ سب لوگ حیران تھے کہ اس کی بتائی گئی بہت سی باتیں درست تھیں۔
فردوسی خالہ تو زوار کو دیکھ دیکھ کر نہال ہو رہی تھیں۔ انہوں نے بطور خاص زوار کے ساتھ بیٹھ کر تصویریں بنوائیں اور رانیہ کے کان میں مسلسل یہی کہتی رہیں کہ وہ بہت خوش قسمت ہے جو اسے زوار جیسا جیون ساتھی ملا ہے۔
زوار کی ممی کو یہ گھرانہ بہت اچھا لگا یہاں محبت تھی، اپنائیت تھی۔ سوال و جواب کرنے والے اور طعنے دینے والے لوگ نہیں تھے۔ انہیں زوار کے انتخاب پر فخر محسوس ہوا۔
ٹیپو اور ثمن مٹھائی کے ٹوکروں میں سے چن چن کر گلاب جامن کھاتے رہے اور ٹوکرے خالی کرتے رہے اور سات سمندر پار کینیڈا میں برف باری کے موسم میں اپنے کمرے میں کمبل اوڑھ کر بیٹھی عشنا چینی کے بسکٹ کھاتے ہوئے زوار اور رانیہ کی منگنی کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔ پھر اسے اچانک کرنٹ لگا وہ بدتمیز ہمسایہ مسکراتے ہوئے سب کے ساتھ بیٹھا تھا کہیں جیمو ماموں کے ساتھ گپیں لگا رہا تھا۔ کہیں عنایا کے ہاتھ سے مٹھائی لے کر کھا رہا تھا، کہیں ٹیپو کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہوئے کھڑا تھا۔
”ہیں۔ یہ بدتمیز ہمسایہ بھلا ان کے گھر میں کیا کر رہا ہے۔”
عشنا نے حیرت کے جھٹکے سے نکل کر فوراً اسی وقت ثمن کو فون کیا۔
”تصویریں دیکھیں؟ کیسی لگیں؟”
دوسری طرف سے ثمن چہکتے ہوئے بولی۔
”پہلے مجھے یہ بتائو کہ یہ بدتمیز neighbour یہاں کیا کر رہا ہے؟ اسے کس نے انوائٹ کیا؟” اس نے بے چینی سے پوچھا۔
” یہ بندہ ایک astrologerہے۔”
اس نے پرجوش انداز میں کہا۔
”تم لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہو گا۔”
اسے اس بات پر ذرا یقین نہ آیا۔
”ارے نہیں۔ ہم سب کے بارے میں ساری باتیں ٹھیک بتائی ہیں اس نے۔ ”
ثمن اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گئی تھی۔
”تُکے لگا رہا ہو گا۔”
عشنا بھی ایک کائیاں تھی۔
”وہ واقعی ایک نجومی ہے۔ اس نے یہ علم اپنے گائوں کے کسی بزرگ سے سیکھا ہے اور اسے astrology کا شوق بھی ہے۔ اسی لیے ہم نے اب اس سے لڑائی ختم کر لی ہے۔ پھوپھو بھی کہہ رہی تھیں کہ ہمسایوں سے لڑنے سے گناہ ملتا ہے۔ ہمسایوں کے بڑے حقوق ہوتے ہیں۔”
ثمن نے سنجیدگی سے کہا۔
”مجھے تو اس کی کہانی پر بالکل یقین نہیں ہے کچھ لوگوں کو دوسروں کو بے وقوف بنانے کا شوق ہوتا ہے۔ مگر یہ اچھی بات ہے کہ تم لوگوں نے اس سے صلح کر لی ہے۔”
عشنا نے کہا۔
”تم جب پاکستان آکر ہمسائے سے ملو گی نا! تو تمہیں میری باتوں پر خود ہی یقین آجائے گا۔ رانیہ باجی اور زوار بھائی کی شادی پر ضرور آنا۔ آخر کار تمہارا ایڈونچر کامیاب ہو ہی گیا اور تمہاری دوست سارہ اپنی ممی کے ساتھ پاکستان آہی گئی ۔”
ثمن نے اسے سراہا۔
”یہ میرے ایڈونچر کا کمال نہیں ہے۔ مجھے تو خود نہیں معلوم کہ زوار بھائی کس طرح سارہ اور ناصرہ آنٹی کو لینے پہنچ گئے۔ شاید رانیہ باجی کی سفارش پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔”
وہ سوچتے ہوئے بولی۔
”ہاں۔ شاید۔”
ثمن نے بے ساختہ کہا۔
”اچھا یہ بتائو کیا رانیہ باجی خوش ہیں؟ تصویروں میں وہ اتنی اداس کیوں نظر آرہی ہیں؟”
عشنا نے پوچھا۔
”ٹھیک ہو جائیں گی آہستہ آہستہ۔”
ثمن نے لاپروائی سے کہا۔
”کیا انہیں اس منگنی کے لیےforce کیا گیا ہے؟”
عشنا نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
وہ جانتی تھی کہ رانیہ زوار کو پسند نہیں کرتی۔
”زبردستی تو نہیں کی مگر سب نے سمجھایا تو وہ مان ہی گئیں۔ پھر زوار بھائی انہیں خود ہی سیٹ کر لیں گے۔”
وہ ہنسی۔
”کاش میں اتنی جلدی وہاں سے واپس نہ آتی۔”
عشنا دل مسوس کر رہ گئی۔ وہ پاکستان کو بہت مِس کرتی تھی اور اسے منگنی کے اس فنکشن میں شرکت نہ کرنے کا افسوس بھی ہو رہا تھا۔
”شادی میں ضرور آنا۔ میں تمہیں News Updates دیتی رہوں گی۔ ابھی تم منگنی کی تصویروں پر اچھے اچھے کمنٹس کرو اور اسی میں خوش ہو جائو۔”
ثمن ہنستے ہوئے بولی پھر اس نے فون بند کر دیا۔
ہرطرف رونق تھی، ہنسی کی جھنکار تھی، مسکراہٹیں تھیں مگر رانیہ کے دل کی کلی نہ کھل سکی۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے منگنی کی انگوٹھی بے دلی سے اتار کر دراز میں رکھ دی۔ اس کے گھر والے کتنے خوش تھے اور ان کی یہ خوشی اسے فکرمند کر رہی تھی۔ اس کی منگنی کی خوشی میں روشنی بھی اپنے شوہر کی دوسری شادی کا دکھ بھول گئی تھیں۔ فردوسی خالہ کا صدمہ بھی کچھ کم ہوا تھا گھر میں ثاقب کی دوسری شادی کی وجہ سے جو ٹینشن پھیلی ہوئی تھی وہ بھی اب قدرے کم تھی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ خوشی غم کو مٹانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خوشی میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور ساری بات ہی تو خوشی کی تھی۔ اتنے قیمتی زیور پہن کر بھی وہ خوش نہیں تھی۔ زوار کے ساتھ اس نے سمجھوتہ کیا تھا اور سمجھوتے خوشی سے نہیں کیے جاتے۔
٭…٭…٭
وسیع و عریض اور خوبصورتی سے سجے لائونج میں ممی اور زوار آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ماربل کا فرش فانوس کی روشنیوں میں چمک رہا تھا۔ ایک بے حد مصروف دن کے باوجود دونوں کے چہروں پر تکان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ممی خوش تھیں۔ زوار بھی مسکراتے ہوئے موبائل پر رانیہ کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ وہ دلہن بن کر بے حد حسین لگ رہی تھی۔
”کوئی تو بات ہے اس لڑکی میں کہ میرا دل اس کی طرف مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے۔ اسے دیکھ کر میں اردگرد کی ہر چیز سے غافل ہو ہو جاتا ہوں۔”
اس نے رانیہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے بے اختیار سوچا۔ ممی اس کی محویت دیکھ کر مسکرا دیں۔
”آج میں اتنی خوش ہوں کہ بتا نہیں سکتی۔ میری بہو تو بہت اچھی، سلجھی ہوئی اور پیاری ہے۔ بس ذرا خاموش طبع ہے۔ زیادہ باتیں نہیں کرتی۔”
ممی نے مسکرا کر کہا۔
”اچھی بات ہے نا! لڑکیوں کو کم ہی بولنا چاہیے۔” زوار نے مسکرا کر بات ٹال دی۔
ممی کی مسکراہٹ ذرا مدھم ہوئی پھر وہ ذرا جھجکتے ہوئے بولیں۔
”زوار بیٹا! میں تم سے معذرت…”
وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکیں۔ یہ بات وہ بہت دنوں سے کہنا چاہ رہی تھیں مگر کہہ نہیں پا رہی تھیں۔ اتنے سالوں بعد ملنے کے بعد بھی زوار کا رویہ ان کے ساتھ بے حد نارمل تھا کہ وہ باوجود کوشش کے یہ بات کہہ نہ سکیں۔ وہ زندگی میں آگے بڑھنے کے ساتھ پرانی باتیں بھلا کر آیا تھا۔ اس نے ممی کے ہاتھ تھام کر جیسے انہیں اپنا جملہ مکمل کرنے سے روکنا چاہا۔
”جب میں کینیڈا آیا تھا تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم پرانی باتیں نہیں دہرائیں گے۔ جو کچھ ماضی میں ہو گیا، اچھا تو نہیں ہوا پھر ان باتوں کو یاد کرنے کا کیا فائدہ! ہم ماضی کو بدل نہیں سکتے، اسے بھلا تو سکتے ہیں۔”
اس نے مدھم آواز میں سنجیدگی سے کہا۔
ممی آزردہ ہو گئیں۔ انہوں نے شفقت سے اس کی پیشانی چومی۔
”شاید میں اچھی ماں نہ بن سکی۔”
ان کی آواز دھیمی ہو گئی۔ اتنے سالوں سے وہ اسی پچھتاوے کی قیدی تھیں۔
وہ کچھ لمحوں کے لیے چپ ہو گیا۔ پچھتاوے بھی تو سزا ہوتے ہیں۔
”ہر ماں اچھی ہوتی ہے ممی۔ بس حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ بعض دفعہ وہ درست فیصلہ نہیں کر پاتی۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش میں وہ غلط لوگوں پر اعتبار کر لیتی ہے۔”
اس نے ممی کا پچھتاوہ ختم کرنے کی کوشش کی۔
”تمہاری دادی عفت بیگم مجھ سے نفرت کرتی تھیں اور یہ نفرت وہ کبھی ختم نہیں کر سکیں یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انہوں نے کبھی مجھے تم سے قریب نہیں ہونے دیا۔ بچپن سے جوانی تک میرے خلاف تمہارا برین واش کرتی رہیں۔ نفرت دراصل ذہنی بیماری ہوتی ہے بیٹا، جس کی وجہ سے انسان اپنے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ میں اتنے سال تمہیں خط لکھتی رہی، تمہیں فون کرتی رہی، صرف تمہاری آواز سننا چاہتی تھی۔”
بولتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی۔
”اور میں نے آپ سے بات نہیں کی۔”
اس نے مدھم آواز میں اداسی سے ان کا جملہ مکمل کیا۔ وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگیں۔ زوار نے سرجھکا لیا۔ وہ مرد تھا۔ ماں کی طرح آنسو نہیں بہا سکتا تھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں مگر وہ دل میں رو دیا تھا۔
”اس وقت مجھے احساس نہیں تھا ممی۔ میں خودغرض اور سنگ دل تھا۔ آپ سے ناراض تھا اور خود کو حق بجانب بھی سمجھتا تھا۔ لوگ مجھے طعنے دیتے تھے کہ میری ماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ اس نے اپنی فیکٹری کے معمولی ورکر سے شادی کر لی جو اس سے عمر میں آٹھ سال چھوٹا تھا۔ میں لوگوں کے طعنے سن سن کر منتقم مزاج بن گیا۔ ہماری شخصیت سنوارنے اور بگاڑنے میں ہمارے اردگرد رہنے والے لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آپ تو چلی گئیں لوگوں کی باتیں اور طعنے سننے کے لیے میں تنہا رہ گیا۔ رہی سہی کسر دادی نے پوری کر دی۔ آپ کا فون آتا تو وہ مجھے سننے نہ دیتیں، آپ کے خط وہ بنا پڑھے ہی پھاڑ ڈالتیں۔ میرے بھی لاشعور میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ آپ اسی سلوک کے لائق تھیں۔ میں سوچتا کہ آپ اپنی مرضی سے مجھے اور اس گھر کو چھوڑ کر گئی تھیں اور آپ نے ایک غیر آدمی کو اپنی اولاد پر فوقیت دی۔ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب کبھی آپ سے بات نہیں کروں گا۔ انا بہت بُری چیز ہوتی ہے۔ انسان جھکنے سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ میں آپ سے ناراض تھا اور اسی ناراضی میں سکون تلاش کرتا تھا مگر وقت کے ساتھ مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا۔”
وہ مدھم آواز میں کہہ رہا تھا۔ یہ گویا اس کا confesion تھا جس کا اظہار وہ چاہنے کے باوجود کبھی سوہا کے سامنے بھی نہ کر سکا تھا۔ ممی اس کی بات غور سے سنتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
”اور یہ احساس تمہیں رانیہ سے ملنے کے بعد ہوا؟”
انہوں نے اس کا دل پڑھ لیا تھا۔ اس نے اسی طرح بیٹھے ہوئے اثبات میں سرہلا دیا۔
”جی ہاں۔ اس کی محبت نے مجھے بدل دیا۔ بالکل بدل دیا ممی۔ میں سوچنے لگا۔ رشتوں کے بارے میں، انسانی نفسیات اور احساسات کے بارے میں۔ کچھ لوگ ہماری زندگی میں Blessing بن کر آتے ہیں کہ وہ ہماری پوری زندگی کو بدل دیتے ہیں۔ رانیہ سے ملنے کے بعد میں نے جانا کہ لوگ محبت میں کیسے ٹوٹ جاتے ہیں۔ مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو کرنا نہیں چاہتے وہ کر بیٹھتے ہیں۔ محبت میں انسان کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اسے جھکنا پڑتا ہے، سوچنا پڑتا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کا دل اور مزاج نہ بدلے۔”
وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”محبت تو تم ماہم سے بھی کرتے تھے زوار!”
ممی کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ برسوں پرانی ایک یاد نے دور کہیں سے آواز دی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا پھر اس نے جھکا سر اٹھا کر ممی کی طرف دیکھا۔
”وہ برسوں پہلے کی بات ہے ممی۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ وہ صرف ایک ٹین ایج کرش تھا، محبت نہیں تھی، بچپن کی انسیت تھی، وہ میری ایک اچھی دوست تھی اور میں اس کی دوستی کے سہارے کا عادی ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ اپنی ہر بات شیئر کرنے لگا تھا۔ عادت کی بات تھی، محبت کی نہیں مگر وہ مجھے سمجھ نہیں سکی اس نے مشکل وقت میں مجھے تنہا چھوڑ دیا مگر مجھے اس سے کوئی گِلہ نہیں ہے۔ اس نے وہی کیا جو اس نے اپنے لیے بہتر سمجھا۔ ہر انسان کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کا حق ہوتا ہے۔ رانیہ کا معاملہ مختلف ہے۔ مجھے اس سے قریب ہونے میں سالوں کا عرصہ نہیں لگا۔ بس ایک لمحے کی بات تھی جب میں نے اسے دیکھا اور میرا دل اس کا ہو گیا پھر میں نے جانا کہ محبت کا فارمولا بڑا مختلف، بڑا عجیب ہوتا ہے۔ جو فیصلے برسوں نہیں ہو پاتے وہ ایک لمحے میں ہی ہو جاتے ہیں۔”
”رانیہ سے بہت محبت کرتے ہو؟”
انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
وہ مسکرا دیا۔ اس کی مسکراہٹ میں اقرار تھا۔
”محبت انمول ہوتی ہے بیٹا مگر محبت سے زیادہ بھی ایک چیز قیمتی ہوتی ہے۔ وہ ہے وفا۔ وفا کے بغیر محبت کے رنگ پھیکے ہوتے ہیں۔”
انہیں بہت کچھ یاد آگیا۔ زوار سے بہتر یہ بات کون سمجھ سکتا تھا۔ زوار نے ماہم کے حوالے سے بہت سی باتیں اپنے دل میں ہی چھپا لیں۔
”بہت سا ل گزر گئے۔ وقت بدل گیا۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ میں سالوں بعد واپس آئی ہوں۔ سب لوگوں کو جواب دینا میرے لیے مشکل ہو گا۔”
وہ الجھن میں تھیں۔
”اپنے بیٹے کی شادی کے لیے واپس آئی ہیں آپ!”
اس نے جیسے ان کی مشکل حل کر دی۔
”پھر یہ آپ کی زندگی ہے۔آپ کی مرضی ہے۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ اب لوگ دوسروں کی پرسنل لائف میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ آپ کو کوئی کچھ بھی کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ میں دیکھ لوں گا سب لوگوں کو۔ آپ زوار آفندی کی ممی ہیں۔ آپ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔”
و ہ مضبوط لہجے میں بولا۔
ممی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے۔ انہیں اسی سہارے کی تو تلاش تھی۔ یہی مان تو وہ چاہتی تھیں۔کسی سے کیا گِلہ کرتیں، سارے خسارے تو انہوں نے خود ہی چنے تھے۔
”نہ روئیں ممی۔”
زوار نے نرمی سے ان کے آنسو صاف کیے۔
”زوار۔ میرا بیٹا!”
وہ خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔
وہ انہیں چپ کرواتا رہا۔
آج اس کے لیے خوشی کا دن تھا مگر اسے احساس ہوا کہ بعض دفعہ خوشیاں آنسوئوں کے بغیر ادھوری ہوتی ہیں۔
٭…٭…٭
شیزا کا فون رانیہ کے لیے کسی سرپرائز سے کم نہیں تھا۔ اس کی منگنی زوار آفندی سے ہو گئی ہے، یہ خبر آناً فاناً سب کو مل گئی۔ جس نے بھی سنا اسے حیرت کا جھٹکا ضرور لگا۔ شیزا نے بظاہر مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں اس کی خوب خبر لی۔
”یہ اس سال کا سب سے بڑا سرپرائز ہے۔ تم نے تو زوار آفندی سے چپکے چپکے ہی منگنی کر لی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ بندہ اپنے دوستوں کو اطلاع ہی دے دیتا ہے۔ ایسی بھی کیا بے مروتی۔”
شیزا نے مسکرا کر گِلہ کیا۔
”دراصل سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ کسی کو اطلاع دینے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ پھر منگنی کا کوئی اتنی دھوم دھام والا فنکشن بھی نہیں تھا۔ بس ساددی سے منگنی ہوئی بس گھر کے لوگ ہی شامل تھے۔”
رانیہ نے اس کے شکوے کے جواب میں رسانیت سے کہا۔
”اور وہ تمہارا پرانے والا منگیتر کہاں گیا؟ اچانک کہاں غائب ہو گیا؟”
شیزا نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا۔
”آسٹریلیا چلا گیا وہ۔ شادی ہو گئی اس کی وہاں۔”
اس نے مختصراً بتایا۔ اسے فارس کے بارے میں لوگوں کو کوئی تو جواب دینا تھا۔ یہ سن کر شیزا کی تسلی نہ ہوئی۔ ہر جواب سنتے ساتھ ہی وہ کئی اور سوال کر دیتی۔
”مگر وہ تو تمہارا رشتہ دار تھا اور کافی پرانی منگنی تھی تمہاری۔”
”ہاں بس۔ ختم ہو گئی تھی وہ منگنی۔ رشتہ داروں میں اختلافات ہو جائیں تو اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔”
اس نے کہہ کر بات سمیٹ دی۔
”مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا کہ زوار اور تمہارا کوئی نہ کوئی سین تو ضرور ہی بنے گا۔ ایسے ہی تو کوئی کسی کے لیے سونے کا تاج نہیں بنواتا!