6:قسط نمبر
چنبیلی کے پھول
مدیحہ شاہد
سارہ نے عشنا کو فون پر جو خبر سنائی تھی وہ اس کے لیے بڑی حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین تھی۔ اس نے فوراً کوٹ پہنا، لانگ شوز پہنے، مفلر لپیٹا اور تیزی سے گھر سے باہر نکلی۔ عطیہ اسے روکتی ہی رہ گئیں مگر وہ برف میں راستہ بناتی ہوئی بھاگتی ہوئی سارہ کے گھر پہنچی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔
وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ تیزی سے اندر داخل ہوئی اور لائونج کے دروازے کے پاس آکر جیسے اس کے قدم وہیں رک گئے وہ حیرت سے اپنی پلکیں جھپکنے لگی۔
زوار راکنگ چیئر پر بیٹھا اطمینان سے کافی پیتے ہوئے کھڑکی کے پار گرتی برف کو دیکھ رہا تھا پھر اس نے گردن موڑ کر حیران کھڑی عشنا کو دیکھا اور دلکشی سے مسکرایا۔
”کیسی ہو عشنا!”
وہ مسکراتی آواز میں بولا۔ اسے لوگوں کو حیران کر دینے کی عادت تھی۔ وہ اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے اسے اندرون لاہور کے ایک پررونق گھر میں دیکھا تھا اور اب کینیڈا کے اس اپارٹمنٹ میں دیکھ رہی تھی۔ وہ واقعی عجیب و غریب شخصیت کا حامل تھا۔ کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا تھا۔
”آپ یہاں کیسے آگئے؟”
خوشگوار حیرت کے ساتھ کہتے ہوئے وہ اپنے بالوں اور کوٹ پر سے برف جھاڑتے ہوئے قریب پڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”جہاز میں بیٹھ کر۔”
اس نے برجستہ جواب دیا۔ وہ اپنی اس ہی حاضر جوابی کی وجہ سے مشہور تھا۔ سارہ کچن سے نکل کر لائونج میں آئی۔ اس کے چہرے پر اطمینان بھری خوشی کا عکس تھا۔
”عشنا! سرپرائز کیسا رہا؟”
وہ خوش دلی سے بولی۔
”میں تو ابھی تک اتنی حیران ہوں کہ بتا نہیں سکتی۔ زوار بھائی! اگر آپ نے یہاں آنا ہی تھا تو مجھے کیوں نہیں بتایا!”
عشنا ابھی تک اپنی حیرت پر قابو نہیں پا سکی تھی۔
”کیا تمہیں بتانا ضروری تھا؟”
وہ اطمینان سے کافی پیتے ہوئے بولا۔ وہ لاجواب ہو گئی۔
”کیا آپ کو یہاں جیمو ماموں نے بھیجا ہے؟”
اسے اچانک خیال آیا کہ یہ ضرور جیمو ماموںکا ہی کارنامہ ہو گا ورنہ لاہور سے کینیڈا کا سفر اتنا بھی آسان نہیں تھا۔
”نہیں۔ میں یہاں خود اپنی مرضی سے آیا ہوں۔”
اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
”عشنا! Thank you so much۔ تمہارا ایڈونچر کامیاب ہو گیا۔ دیکھو بھائی ہمارے پاس آگئے۔ ”
سارہ کی آواز میں ممنونیت تھی۔
عشنا نے کچھ سوچتے ہوئے نفی میں سرہلایا۔
”نہیں۔ یہ میرے کہنے سے نہیں آئے۔ مجھے تو یہ کوئی اور ہی چکر لگتا ہے۔”
وہ زوار کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
زوار کی مسکراہٹ گہری ہو گئی پھر اس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے سارہ کو دیکھا۔
”سارہ! اپنی دوست کو کافی نہیں پلائو گی؟”
”ہاں ضرور میں ابھی کافی بنا کر لاتی ہوں۔”
وہ دوبارہ کچن میں چلی گئی۔
”میں بھی حیران تھی کہ آپ نے رانیہ باجی کو انکار کیسے کر دیا تھا۔”
عشنا نے معنی خیز انداز میں کہا۔
”انکار نہیں کیا تھا۔”
زوار کی آنکھیں یکدم چمکنے لگیں۔
” مگر انہوں نے مجھے خود بتایا تھا آپ نے صرف انہیں انکار ہی نہیں کیا تھا بلکہ ان کی insult بھی کی تھی۔”
عشنا نے کہا وہ خوش ہونے کے ساتھ ساتھ الجھ بھی گئی تھی۔
”ایسی بات نہیں ہے۔ دراصل وہ میری بات سمجھ نہیں پائی تھی۔ کافی بے وقوف لڑکی ہے تمہاری کزن۔”
اس کے چہرے کی مسکراہٹ کا عکس اس کی آنکھوں میں بھی چمک رہا تھا۔
”مگر میں نے بھی آپ سے بات کی تھی تو آپ نے مجھے کہا تھا کہ سارہ کو کوئی جواب نہ دینا۔”
وہ اسے اس کی باتیں یاد دلا رہی تھی۔
”ہاں۔ کیوں کہ یہ جواب میں اسے خود دینا چاہتا تھا”
اس نے نرمی سے جواب دیا۔
”آپ نے کینیڈا آنے کا پہلے سے ہی ارادہ کر لیا تھا تو پھر اتنی دیر کیوں کر دی؟”
عشنا نے بے ساختہ پوچھا۔
”شاید یہی مناسب وقت تھا۔”
اس نے کافی پیتے ہوئے کہا۔ اس کی باتیں عشنا کے سر پر سے گزر گئیں۔
”مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ یہاں کس کے کہنے پر آئے ہیں!”
وہ کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
”اپنے دل کے کہنے پر۔”
وہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ وہ اس سے باتوں میں جیت نہیں سکتی تھی۔
”کیا پاکستان میں کسی کو معلوم ہے کہ آپ یہاں آئے ہیں؟”
عشنا نے پوچھا۔
”اب معلوم ہو جائے گا سب کو۔”
وہ معنی خیز انداز میں مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے بولا۔
وہ لوگوں کو لاجواب کرنے میں ماہر تھا۔
عشنا نے مسکراتے ہوئے سرجھٹکا۔
”زوار بھائی! آپ سے باتوں میں کوئی نہیں جیت سکتا۔ آپ کی personality بے حدcomplicated ہے ۔ رانیہ باجی آپ کے بارے میں ٹھیک کہتی ہیں۔”
عشنا نے بالآخر اعتراف کیا۔
زوار کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
”ہاں۔ وہ مجھے بہت اچھی طرح جانتی ہے۔ اسی لیے تو مجھے پسند نہیں کرتی۔”
عشنا کو ہنسی آگئی۔
”مگر اب تو آپ بدل گئے ہیں۔ شاید وہ اب آپ کو پسند کر لیں۔”
عشنا نے شوخی سے کہا۔ زوار کی آنکھوں میں خوشی کا عکس چمکنے لگا۔
”امید تو ہے۔”
اس کی آواز دھیمی مگر خوشی سے معمور تھی۔
”سارہ عشنا کے لیے کافی لے کر آگئی۔ کافی کے مگ کے ساتھ ٹرے میں آلمنڈ کیک اور پیزا بھی تھا۔ یقینا یہ سارا اہتمام زوار کے آنے کی خوشی میں کیا گیا تھا۔
”میں اور ممی بھائی کیساتھ پاکستان جا رہے ہیں۔”
سارہ نے میز پر ٹرے رکھتے ہوئے اسے کافی کا مگ تھماتے ہوئے کہا۔
”اور تمہاری ایجوکیشن؟”
عشنا نے بے ساختہ پوچھا۔
”پاکستان جا کر ہی پڑھوں گی اب۔”
سارہ نے اطمینان سے جواب دیا اور عشنا کے قریب بیٹھ گئی گویا وہ لوگ سب کچھ پلان کر چکے تھے۔
”ناصرہ آنٹی تو بہت خوش ہوں گی!”
عشنا نے کہا پھر اس نے کیک کا پیس اٹھا لیا۔
”ہاں میں نے بہت سالوں بعد ممی کو اتنا خوش دیکھا ہے۔ وہ کچھ شاپنگ کرنے قریبی سٹور تک گئی ہیں۔ کل بھائی ٹکٹ بھی لے آئیں گے۔ بہت سال رہ لیا ہم نے یہاں پر۔ اب پاکستان واپس جا رہے ہیں۔ اپنے گھر میں رہیں گے۔ وہیں میرا بچپن گزرا تھا اور ہاں! بھائی کی شادی بھی ہو رہی ہے۔”
سارہ نے مسکرا کر کہا۔
”اچھا؟ کس سے؟”
عشنا بے ساختہ بولی۔
وہ حیران ہوئی۔ اسے تو ابھی تک اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی تھی حالاں کہ ثمن سے تو اس کی روزانہ ہی بات ہوتی تھی مگر اسے ثمن نے ایسی کوئی بات نہیں بتائی تھی۔
”ایک لڑکی سے۔”
وہ مبہم سے انداز میں بولا۔
”کون ہے وہ لڑکی؟”
اس نے احمقانہ پن سے پوچھا۔ سارہ نے معنی خیزی سے زوار کی طرف دیکھا۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا۔
”تمہاری کزن رانیہ!”
سارہ بے ساختہ ہنسی اس کی ہنسی میں خوشیوں کی بھنک تھی۔ عشنا کو اس کی بات سمجھنے میں چند سیکنڈز لگے کہانی اتنی آگے تک بڑھ گئی تھی اور اسے خبر بھی نہ ہوئی۔
زوار کی ذہانت کے سامنے تو اسے اپنے سارے ایڈونچرز فضول ہی لگنے لگ گئے تھے۔
پھر اس نے مسکراتے ہوئے اطمینان سے ٹیک لگا لی۔ اب اسے زوار سے بہت ساری باتیں کرنی تھیں۔
بہت عرصے بعد اس اپارٹمنٹ میں خوشی نے قدم رکھا تھا۔
سارہ ہنس رہی تھی اور زوار کے چہرے پر بھی خوبصورت مسکراہٹ ٹھہر گئی۔
آج برف پر سورج چمکا تھا۔
٭…٭…٭
روشنی اداس اور ملول تھیں۔ برقع کے کونے سے اپنی نم آنکھیں پونچھ رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے اتنے برسوں کی ریاضت اور قربانیاں بے کار چلی گئیں اور آج وہ خالی ہاتھ اور خالی دل تھیں۔
رانیہ کی امی اور جیمو ماموں انہیں تسلی دے رہے تھے۔
”تو آپ کے میاں نے بالآخر دوسری شادی کر ہی لی۔”
جیمو ماموں نے گہرا سانس لیتے ہوئے سنجیدہ اور متفکر انداز میں کہا۔ یہ خبر ان کے لیے غیر متوقع نہیں تھی مگر پھر بھی انہیں بے حد افسوس ہوا تھا۔
”کون عورت ہے وہ؟ جس نے ایک عورت کے بسے بسائے گھر پر ڈاکا ڈالا۔ ارے اسے تو کوئی بھی مل جاتا، کسی کے شوہر سے شادی کرنا