چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

امی نے پوچھا۔
”میں کیا سوچوں گی؟ اس بارے میں تو آپ کو سوچنا چاہیے۔“
وہ چائے پیتے ہوئے بولی۔
امی اور ماموں نے گہرا سانس لیتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، مگر خاموش رہے۔ رانیہ کو اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے اس بارے میں سوچ لیا تھا اور وہ فیصلہ بھی کرچکے تھے۔ عشنا چاکلیٹ کھاتے ہوئے کچھ اور ہی سوچ رہی تھی زوار یہاں آیا تھا۔ سب کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی پھر جیمو ماموں اسے کوئی اہم بات کرنے کے لئے اپنے ساتھ چھت پر لے گئے۔ شاید وہ ان سب کے سامنے زوار سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ دونوں میں آخر کیا بات ہوئی اس بارے میں انہیں پتا نہیں چل سکا اور نہ ہی ماموں نے انہیں بتایا۔ بس انہوں نے سب کو خاموش رہنے کا کہہ دیا۔
عشنا کو معلوم نہیں تھا کہ جیمو ماموں کا انداز اور ان کی حکمت عملی بہترین ہی ہوگی۔
٭……٭……٭

سب لوگ دریا کی سیر کرنے گئے تھے۔ صرف رانیہ اور امی گھر پر تھیں۔ رانیہ کو نہ کسی نے ساتھ چلنے کے لئے کہا نہ ہی اسے اس پکنک کے پروگرام کے بارے میں کچھ خبر ہوئی۔ اب گھر والے کم کم ہی اسے اپنے پروگرامز میں شامل کرتے تھے۔
جب سے اس نے تھیٹر چھوڑا تھا۔ وہ گھر پر ہی تھی۔
اب سوچ رہی تھی کہ میڈیا کی کسی فیلڈ میں جاب شروع کردے گی۔
وہ اپنے کمرے میں الماری میں کپڑے رکھ رہی تھی۔ جب امی اس کے کمرے میں آئیں اور آتے ساتھ ہی انہوں نے اطلاع دی۔
”زوار آیا ہے…… میں تو کچن میں کھانا بنارہی ہوں، تم جاکر دیکھو، کسی ضروری کام سے آیا ہوگا۔“
انہوں نے اس سے کہا۔
وہ یہ خبر سن کر بے زار ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ عنایا کی این جی او کے کسی کام سے آیا ہوگا۔
”عنایا کے کسی کام سے آیا ہوگا۔ آپ اسے بتادیں کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔“
اس نے بے توجہی سے جواب دیا۔ امی خفا ہوئیں۔
”گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے۔ جس کام سے بھی آیا ہے۔ وہ ہمارا مہمان ہے۔ تم جا کر دیکھو اسے، چائے پانی کاپوچھو۔“
”آ پ ہی بات کرلیں اس سے۔“
اس نے بے زاری سے کہا۔
”ارے مجھے این جی ا و کے کاموں کی کیا سمجھ ہے بھلا؟ مجھے یہ باتیں کہاں سمجھ میں آتی ہیں!“
انہوں نے الجھن بھرے اندا ز میں کہا۔
رانیہ نے زور سے الماری کا دروازہ بند کیا۔
”کیا مصیبت ہے۔ آخر یہ آدمی روز روز یہاں کیوں آجاتا ہے؟“
وہ جھنجھلا گئی۔
”کیا بات ہے رانیہ؟ تمہیں کس بات پر اتنا غصہ آرہا ہے؟“ امی نے اس کے چہرے کے تاثرات کو غور سے دیکھ کر کہا۔
اب وہ امی کو کیا بتاتی، کون سی وضاحتیں دیتی۔ پھر وہ انہیں مشکوک بھی نہیں کرناچاہتی تھی۔
”آرہی ہوں میں۔“
اس نے اپنی بے زاری چھپانے کی کوشش کی۔
”آجاؤ…… میں نے چولہے پر ہانڈی رکھی ہوئی ہے۔“
امی کہتے ہوئے عجلت میں باہر نکل گئیں۔
وہ اپنا غصے پر قابو پاتے ہوئے ڈرائننگ روم کی طرف آئی۔
وہ ڈرائننگ روم میں داخل ہوئی تو وہ اس کی طرف پشت کئے کھڑا دیوار پر لگی اس کی تصویر دیکھ رہا تھا۔
آہٹ پر وہ پلٹا پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر دلنشین انداز میں مسکرایا یوں کہ یہ مسکراہٹ اس کی آنکھوں سے بھی چھلک رہی تھی۔ اس کی سیاہ اور بے حد گہری آنکھوں میں مخصوص چمک تھی۔
وہ بڑے اعتماد سے اس کے سامنے کھڑ اتھا۔ آف وائٹ شلوار قمیض پہنے، کندھوں پر سندھی اجرک ڈالے وہ بڑی شان سے ایستادہ تھا۔ آج وہ فارمل حلیے میں نہیں تھا۔
”سب گھر والے باہر گئے ہوئے ہیں۔ آپ کس کام کے سلسلے میں آئے ہیں؟“
رانیہ نے خشک انداز میں کہا۔ اس کے لہجے میں رکھائی تھی۔
”میں آپ سے ملنے آیا ہوں۔“
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا۔ اس کی بار عب مردانہ آواز میں مسمرائز کردینے والی کشش تھی۔
”مگر میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہوں۔“
اس نے خفا سے انداز میں کہا۔
زوار نے اس کی خفگی کا برا نہیں مانا۔
”کیا گھر آئے مہمان کے ساتھ لڑنا جھگڑنا ضروری ہے؟“
اس نے مدھم انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر وہ دو قدم آگے آیا۔
رانیہ کی پیشانی پر شکن آئی۔
”مجھے آ پ سے لڑنے کی کیاضرورت ہے؟ میرا آپ سے کیا تعلق؟“
وہ تڑخ کر بولی۔
”بعض تعلق اپنا وجود تو رکھتے ہیں مگر انسان انہیں تسلیم نہیں کرتا۔“
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
”اپنا فلسفہ اپنے پاس ہی رکھیں۔ مجھے آپ میں اور آپ کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“
اس نے کھردرے انداز میں کہا۔ اس کے تاثرات سے لگتا تا۔ جیسے وہ زوار سے بے حد ناراض تھی۔
وہ غصے اور ناراضگی کے اس اظہار پر بھی نرمی سے مسکرایا اور کچھ دیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
وہ لڑائی کو طول نہیں دینا چاہتا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سوال جواب بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی صورت اختیار کرلیں گے اس لئے وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگیا پھر اس نے خوبصورتی سے بات بدل دی۔
”آپ کی تصویر بہت خوبصورت ہے۔ میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو اس تصویر کو ہی دیکھتا رہتا ہوں۔“
اس نے سادگی سے اعترا ف کیا۔
رانیہ کا چہرہ پھیکا پڑا۔ ایسی باتیں تو اسے فارس سے سننے کی خواہش تھی۔
”یہ تصویر میرے منگیتر کو بھی بہت پسند ہے۔“
اس نے اسے جتاتے ہوئے کہا۔
وہ اس کی بات کے جواب میں صرف مسکرایا۔ وہ اس بات کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔
وہ اس کے مقابل کھڑا کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ شہزادوں جیسا شاہانہ پن اور نوابوں جیسی آن بان رکھتا تھا۔ اسے دیکھ کر تو کوئی بھی لڑکی آسانی سے اپنا دل ہار دیتی مگر رانیہ کا دل تو پہلے ہی فارس کا اسیر تھا۔
”کیوں اتنی ناراض ہیں مجھ سے؟ میں نے آپ کو پروپوز کیا، آپ نے انکار کردیا…… تو اس میں اتنی ناراضگی کی کیا بات ہے۔ میں نے آپ کے ساتھ کوئی بدتمیزی تو نہیں کی۔“
اس نے مدھم مگر سنجیدہ آواز میں کہا۔ رانیہ کو اس کا یہ شکوہ کرنا بھی برا لگا۔
”جب میں نے آپ کو انکار کردیا تھا تو آپ نے مجھے وہ تاج کیوں بھیجا؟ آپ اتنا قیمتی تحفہ بھیج کر آخر کیا جتانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کو اپنی دولت کی نمائش کرنے کا بہت شو ق ہے؟ پھر میں آپ کو فون کرتی رہی مگر آپ نے میرا فون اٹھانا بھی گوارہ نہیں کیا۔ آپ ایک خود پرست آدمی ہیں۔“
وہ خفا انداز میں بولی وہ مہمان ہوکر اس سے کیا بحث کرتا۔
”اس بات کی وضاحت پھر کبھی کروں گا۔“
اس نے اسے ٹالا تھا۔ وہ بات بدلنے میں ماہر تھا۔
”I am not a Queen.“
رانیہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”مگر میری رائے آپ کی رائے سے مختلف ہے۔“
اس نے نرمی سے کہا۔
رانیہ عاجز آگئی۔
زوار کو کسی بات کے لئے قائل کرنا یا کسی چیز کے لئے منانا ناممکن تھا۔
”آپ ایک سنگ دل آدمی ہیں …… ظالم اور خودغرض بھی ہیں۔ میں عشنا کی دوست کی وجہ سے آپ کے پاس آئی تھی مگر آپ میرے سامنے شرطیں رکھنے لگے۔ آپ کسی کے خلوص اور نیک نیتی کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ آپ میں دوسروں کو معاف کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔ بات یہ ہے مسٹر زوار آفندی! کہ دوسروں کو معاف کرنے کے لئے انسان کو اعلیٰ طرف بننا پڑتا ہے جو اتنا آسان نہیں ہوتا، اور کم ظرف لوگ کبھی کسی سے محبت نہیں کرسکتے۔“
رانیہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ وہ اس کی بات سن کر خاموش ہوگیا۔
کئی پل یونہی گزر گئے۔
”چائے نہیں پلائیں گی؟“
چند لمحوں بعد وہ سنجیدہ انداز میں بولا۔
رانیہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ زوار نے اس کی باتوں کو نظر انداز کردیا تھا۔
وہ صرف اپنی ہی بات کو اہمیت دینے کا عادی تھا۔
”آ پ بیٹھیں …… میں چائے لے کر آتی ہوں اور آپ کی ایک امانت بھی ہے میرے پاس۔“
وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد وہ تاج والا لکڑی کا ڈبہ کمرے میں لے کر آئی تو وہ وہاں نہیں تھا۔
وہاں سے جاچکا تھا۔ یعنی کہ وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ اُسے تاج واپس کرنے والی ہے۔ اسی لئے وہاں سے چلا گیا۔
”عجیب آدمی ہے۔“
وہ بڑبڑاتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگئی اور بے حد جھنجھلا ہٹ کے عالم میں وہ تاج واپس الماری میں رکھ دیا۔
٭……٭……٭

اُس شام فارس اور بی جان اچانک رانیہ کے گھر آگئے۔ دونوں کا مو ڈبے حد آف تھا۔ چہرے کے تاثرات خفا اور انداز برہم تھا۔
گھر میں کسی نے بھی ان کا استقبال خاطر خواہ انداز میں نہیں کیا۔ وہ اس گھر کے پسندیدہ مہمان نہیں تھے۔ رانیہ اتنے دنوں بعد فارس کو دیکھ کر خوش ہوگئی۔
مگر بی جان نے خفا سے انداز میں آتے ساتھ ہی شکوہ کیا۔
”خوب دعوتیں ہوتی رہی اس گھر میں، غیروں کو بلالیا مگر ہمیں تو نہ کسی نے بلایا نہ پوچھا، کسی نے ایک فون کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ اچھی عزت افزائی ہے۔ یہ بھی دوسروں کو تکلیف دینے کا طریقہ ہوتا ہے۔“
انہوں نے ہاتھ ہلاتے ہوئے ناراضگی سے کہا۔ انہیں ساری خبریں تھیں۔ رانیہ نے اس شکوے پر بوکھلا کر امی کی طرف دیکھا۔ امی نے بی جان کی بات پر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
”عقیل بھائی برسوں بعد کینیڈا سے آئے ہیں۔ اسی خوشی میں اُن کی دعوت کی تھی……“
امی نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
”ارے خوب سمجھتے ہیں ہم…… آج تو میں صاف اور دو ٹوک بات کرنے آئی ہوں۔ پورے خاندان میں میں اپنی صاف گوئی کی وجہ سے مشہور ہوں۔ فارس اور رانیہ کی شادی میں دیر تم لوگوں کی وجہ سے ہورہی ہے۔“
”فارس کو نوکری مل گئی؟“
جیمو ماموں نے یکدم پوچھا۔
فارس جو پیشانی پر بل ڈالے بیٹھا تھا۔ اس سوال پر چونکا پھر اس نے تیکھی نظروں سے جیمو ماموں کو دیکھا۔
”جی ہاں۔ بڑی اچھی نوکری ملی ہے مجھے۔ اچھی تنخواہ ہے، دیگر مراعات بھی ہیں اور ویسے بھی نوکری تو مجھے مل ہی جانی تھی۔ آپ لوگوں نے یہ کیوں سوچ لیا تھا کہ میں ساری زندگی بے روزگار ہی رہوں گا۔“
اس کی آواز میں غرور اور طنز کا ملا جلا سا تاثرتھا۔
”چلو …… اچھی بات ہے فارس کی طرف سے بھی ہم نے کوئی اچھی خبر سنی۔“
جیمو ماموں نے بڑی بے ساختگی سے کہا۔ بی جان نے اس جملے پر ذرا برا مان کر انہیں دیکھا۔
بھلا یہ مبارکباد دینے کا کون سا اندا ز تھا۔
”ائے جیمو میاں! میں تو صاف کہو ں گی کہ تم بھانجی کو بیاہنا ہی نہیں چاہتے ہو۔ اس کی حویلی کرائے پر دے رکھی ہے۔ اس کا کرایہ کھا رہے ہو۔ ہاں بھئی گھر آتی آمدنی کس کو بری لگتی ہے مگر آج میں یہاں دو ٹوک بات کرنے آئی ہوں چاہے کسی کو اچھی لگے چاہے کسی کو بری لگے۔ حویلی کو خالی کرواؤ، نکال باہر کرو کرایہ داروں کو اور بیچ دو حویلی کو اور رقم رانیہ اور عنایا میں تقسیم کردو۔ آخر زمینوں، جائیدادوں کے بٹوارے ہو ہی جایا کرتے ہیں۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے۔“
بی جان نے بلند آواز او ردو ٹوک انداز میں کہا۔
رانیہ کا چہرہ پھیکا پڑگیا۔ امی اور ماموں نے سنجیدہ اور سوچتی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”مگر رانیہ اور عنایا وہ حویلی بیچنا نہیں چاہتیں۔“
کچھ دیر بعد ماموں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
ان کی آواز بلند مگرسنجیدہ تھی۔
بی جان کو ان معاملات میں جیمو ماموں کی دخل اندازی ہمیشہ سے ہی بری لگتی تھی۔
”تم ان لڑکیوں کی جائیداد کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہو؟‘[
ان کی آواز میں غصہ اور ناراضگی تھی۔
فارس بھی چبھتی ہوئی نظروں سے انہیں گھور رہا تھا۔
”میں ان کا سرپرست ہوتا ہوں۔“
جیمو ماموں نے اطمینان سے جواب دیا۔
”کیسے سرپرست ہو تم؟ بھانجیوں کی شادی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ آج تو اس بات کا فیصلہ ہوکر رہے گا۔ اگر فارس اور رانیہ کی شادی کرنا چاہتے ہو تو تم لوگوں کو وہ حویلی بیچنی پڑے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ کورٹ کچہری تک بات نہ پہنچے اور معاملہ خوش اسلوبی سے ہی طے ہوجائے، ورنہ……“
ان کے انداز میں واقع دھمکی تھی۔
”ورنہ کیا ہوگا؟“
ماموں نے پرسکون انداز میں پوچھا۔ بی جان اور فارس کو امی اور ماموں کا پرسکون انداز اور اطمینان مزید طیش دلا رہا تھا۔
”ورنہ آپ اس منگنی کو ختم کردیں گی؟“
امی نے سپاٹ اور سنجیدہ انداز میں پوچھا۔
بی جان ان کے اس انداز پر ٹھٹک گئیں۔ آج تو ان لوگوں کے انداز ہی بدلے ہوئے تھے۔
”تو ختم کردیں اس منگنی کو…… ہمیں کوئی پروا نہیں ہے۔ رشتے شرطوں پر طے نہیں کئے جاتے۔ ہم تو خود اس منگنی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ ہم تو یہ رشتہ طے کرنے کے بعد بڑی پریشانیوں میں پڑگئے۔“
جیمو ماموں نے بلند آواز میں سرد مہری سے کہا۔
بی جان اور فارس ٹکر ٹکر ان کی صورت دیکھنے لگے۔
انہیں اس انتہائی فیصلے کی توقع نہیں تھی۔
رانیہ دم بخود رہ گئی۔
”ہاں ہماری طرف سے یہ منگنی ختم سمجھیں اور شہزادے فارس کی جہاں چاہے شادی کردیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔“
امی نے ہر لحاظ بلائے طاق رکھ کر اعلانیہ انداز میں کہا۔ بی جان اور فارس کو یہ سن کر دھچکا لگا وہ تو صرف انہیں ڈرانے دھمکانے اور انہیں ایموشنل بلیک میل کرنے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ لڑجھگڑ کر کسی طرح اپنی بات منوالیں گے مگر رانیہ کے گھر والے یہ رشتہ ہی ختم کردیں گے یہ تو انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔
فارس نے رانیہ کو دیکھا کہ اب وہ بھی کچھ کہے۔ یہ فیصلہ اُس کی مرضی کے بغیر تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
رانیہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”امی…… جیمو ماموں۔“
اس نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔
امی نے ناراض سی نظر اُس پر ڈالی۔
”تم چپ کرو۔ یہ ہمارا فیصلہ ہے۔ باتیں نہیں سن رہی تم ان لوگوں کی! تمہاری وجہ سے ہم نے کتنی مصیبتیں اٹھائیں۔ تمہیں تو اندازہ ہی نہیں ہے۔ ہم نے تمہاری بات مان لی تھی اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا۔ اب تمہاری شادی کہاں ہوگی، کس سے ہوگی، اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔“
امی نے بارعب انداز میں کہا اور سب کے سامنے اسے ڈانٹ دیا۔
وہ امی کا انداز دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ انہوں نے تو ہمیشہ فارس اور بی جان کا لحاظ کیا تھا۔ پھر آج ایسی کیا بات ہوگئی تھی کہ انہوں نے سب لحاظ مروت ختم کردی تھی۔
بی جان ہکا بکا فارس کی شکل دیکھنے لگیں۔
”ارے ہماری بات تو سنو……“
بی جان بوکھلا کر بولیں۔
”ہمیں مزید آپ لوگوں کی کوئی بات نہیں سننی بہتر ہوگا آ پ لوگ یہاں سے تشریف لے جائیں بات ختم ہوچکی ہے۔“
جیمو ماموں نے بلند اور سنجیدہ انداز میں کہا۔ رانیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
برسوں پرانی منگنی ختم ہوچکی تھی۔
٭……٭……٭

FREEZE

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

Read Next

”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!