چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

”میں سونا چاہتی ہوں۔“
اس نے کمبل اوڑھ لیا۔
”اچھا! سوجائیں۔“
عشنا نے گہرا سانس لے کر کہا پھر کمرے کی لائٹ بندکرکے لیمپ جلا دیا اور کمرے سے چلی گئی مگر اس کا ذہن مسلسل کچھ سوچ رہا تھا۔
٭……٭……٭

رانیہ سوکر اٹھی تو دن کے بارہ بج رہے تھے۔ وہ اپنے کمرے سے باہر آئی تو لاؤنج میں بیٹھی امی نے میز پر پڑے لکڑی کے منقش ڈبے کی طرف اشارہ کیا۔
”تمہارے تھیٹر سے کوئی بندہ آیا تھا، تمہارے لئے یہ ڈبہ دے کر گیا ہے۔“
وہ چونک گئی۔ تھیٹر سے کوئی یہاں آیا تھا۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات تھی۔ اس نے حیران ہوتے ہوئے لکڑی کا ڈبہ اٹھایا۔ وہ ایک درمیانے سائز کا نقش و نگار والا ڈبہ تھا۔
وہ ڈبہ لئے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
”تھیٹر سے کون بھیج سکتا ہے آخر!“
اس نے سوچتے ہوئے لکڑی کا ڈبہ کھولا تو اندر وہی تاج چمک رہا تھا۔ وہ پل بھر کے لئے ساکت رہ گئی۔ وہ کھڑکی کے پا س کھڑی تھی اور کھڑکی سے اندر آتی سورج کی روشنی میں تاج کے موتی چمک رہے تھے۔ اس کے ساتھ چھوٹا سا رقعہ بھی پڑا تھا۔ اُس نے وہ رقعہ کھولا تو اس پر انگلش میں ایک جملہ لکھا تھا۔
For The Queen.
(ملکہ کے لئے)
اس کی نظریں کاغذ پر لکھی اس عبارت پر ٹھہر گئیں۔
”زوار آفندی۔“
اس نے گہرا سانس لے کر بے بسی سے سوچا۔
پتا نہیں عشنا کب اُس کے کمرے میں آگئی تھی۔ اس نے اس کے ہاتھ سے وہ رقعہ لے لیا۔
”واہ واہ …… For The Queen۔“
وہ یہ تحریر پڑھتے ہوئے پرجوش آواز میں بولی۔ پھر اُس نے چمکتی آنکھوں سے رانیہ کی طرف دیکھا۔
”رانیہ باجی، آپ کا کراؤن واپس آگیا۔ میں نے کہا تھا نا کہ زوار آفندی اتنا بھی برا آدمی نہیں ہے۔ دیکھیں نا! کل وہ بے چارہ آپ کو فون کرتا رہا مگر آپ نے تو اس کا نمبر ہی بلاک کردیا۔ آج اس نے آپ کاcrownبھی آپ کو بھجوادیا ہے اورacceptکیا ہے کہ آپ ایکqueenہیں۔ وہ آپ کو کوئین سمجھتا ہے اور آپ کہتی ہیں کہ اُس نے آپ کی بات نہیں سنی۔ آپ کو انکار کردیا، آپ کیinsultکی…… مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔“
عشنا نے اس کے ہاتھ سے وہ ڈبہ لے لیا۔ رانیہ کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔
”مجھے جب بھی موقع ملا تو میں اُسے یہ تاج واپس کردوں گی۔“
رانیہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
”رانیہ باجی! آپ سمجھتی نہیں ہیں کہ یہ تاج ایک symbol ہے۔“
عشنا نے پرجوش آواز میں اس سے کہا۔ وہ ٹھٹک گئی۔
”کیسا Symbol؟“
رانیہ سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔
عشنا کی آنکھوں میں چمک اُبھری۔
”اس بات کا Symbol کہ آپ یہ تاج رکھ لیں تو وہ آپ کی بات مان لے گا۔“
یہ جاسوسی کہانیاں پڑھنے والی پندرہ سولہ سالہ لڑکی کا تجزیہ تھا۔ رانیہ نے ہولے سے سرجھٹکا۔
”پاگل ہو تم عشنا…… اوٹ پٹانگ فلمیں اور ٹی وی سیریز کم دیکھا کرو۔“
”رانیہ باجی! آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں Its symbol of love.زوار آفندی آپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ آپ کے ساتھ فلرٹ نہیں کررہا۔ آپ کے ساتھ سنجیدہ ہے۔“
عشنا نے مدھم مگر ایکسائیٹڈ انداز میں کہا۔
”مجھے ایسے سنگ دل آدمی کی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔“
رانیہ نے درشت لہجے میں کہا۔
عشنا نے اُسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
”مگر آپ کی محبت اُسے بدل سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بدل جائے گا۔ اس نے یہ تاج اسی لئے آپ کو بھیجا ہے۔ کیونکہ وہ آپ کے ساتھ اپنا رابطہ ختم نہیں کرنا چاہتا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ آپ کی بات پر غور کررہا ہے۔ کیا پتا کہ وہ آپ کی بات مان بھی جائے۔“
رانیہ نے اُسے تنبیہ کرتی نظروں سے دیکھا۔
”عشنا…… I am engaged۔“
اس نے سخت لہجے میں کہا۔
عشنا نے منہ بنایا۔
”مگر آپ کے fiance تو آپ سے نارا ض ہوکر خوش ہے۔ نہ وہ آپ کا فون اٹھاتے ہیں نہ آپ کے میسج کا جواب دیتے ہیں۔ نہ ہی آپ سے ملنے آتے ہیں۔ انہیں آپ کی کوئی فکر نہیں ہے۔“
عشا خود کو یہ کہنے سے روک نہیں پائی۔ رانیہ کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔
”تم ہمارے ایشوز کے متعلق کچھ نہیں جانتی ہو۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس ٹاپک پر بات نہ کریں۔“
اُس نے اسے ٹوک دیا مگر عشنا اپنی بات پر قائم رہی۔
”رانیہ باجی…… آپ سوچیں …… آپ کو سوچنا چاہیے۔“
”میں سوچ چکی ہوں۔“
رانیہ نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی۔
ا س کے قطعی اور سخت انداز پرعشنا کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئی پھر اُس نے وہ لکڑی کا ڈبہ بند کیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”یہ تاج بہت قیمتی ہے، ابھی تو اسے سنبھال کر رکھ لیں …… کہیں اِدھر اُدھر نہ ہوجائے۔ میں اسے آپ کی الماری میں رکھ دیتی ہوں۔“
عشنا نے وہ ڈبہ اس کی الماری میں رکھ دیا۔
رانیہ خاموش رہی۔ اس نے یہ طے کرلیا تھا کہ جیسے ہی اسے کوئی موقع ملا وہ یہ تاج زوار کو واپس کردے گی۔
٭……٭……٭
وہ سوہا کے کلینک میں بیٹھا بے حد خوشگوار انداز میں کافی پی رہا تھا۔
میز پر اُس کا موبائل پڑا تھا اور اُس کے چہرے پر پرسکون مسکراہٹ تھی۔
”تو تم نے اسے پروپوز کردیا؟“
سوہا نے حیران ہوتے ہوئے کہا یہ آج کی سب سے اہم اور دلچسپ خبر تھی۔ وہ اطمینا ن سے کافی پی رہا تھا۔
”ہاں۔“
وہ مسکرا کربولا۔ اس ذکر پر یکدم اس کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔
”تو پھر اُس نے انکار کردیا؟“
سوہا نے اندازہ لگایا۔ زوار کے اطمینا ن میں فرق نہیں آیا۔
”ہاں …… کردیا۔“
اس نے صاف گوئی سے بتایا۔
سوہا سنجیدہ ہوگئی۔
”پھر توتمہیں افسوس ہوا ہوگا۔“
وہ اُسے غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
”ہاں، ہوا تھا۔“
اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔
سوہا چند لمحوں کے لئے چپ ہوگئی۔
”پھر؟“
اسے سمجھ نہیں آیا کہ اب مزید کیا کہے۔
زوار نے رانیہ کو پروپوز کیا، اس نے انکار کردیا…… بات ختم ہوگئی۔ اب وہ اس موضوع پر کیا بات کرتی۔
”پھر میں اسے فون کرتا رہا مگر اس نے میرا نمبر بلاک کردیا۔“
زوار نے اسی انداز میں کہا۔
سوہا کو اس کے اطمینان پر حیرت ہورہی تھی۔
مگر اس نے شکر کیا کہ رانیہ کے انکار پر زوار نے خود کو سنبھال لیا تھا۔
وہ stableتھا۔
وہ چند لمحے رُکا پھر ذرا آگے کو جھکا۔
اس کی آنکھوں میں یکدم چمک سی ابھری تھی۔
”مگر…… وہ مجھے فون ضرور کرے گی۔“
وہ ہلکا سا مسکرا کر بولا۔
سوہا ٹھٹک گئی۔
”مگر اُس نے تو تمہارا نمبر بلاک کیا ہوا ہے۔“
سوہا نے حیرت سے کہا۔
اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”میرا نمبر ان بلاک کرے وہ کرے گی مجھے فون۔“
وہ بڑے یقین سے بولا۔
سوہا کو زوار سے ہمدردی محسوس ہوئی۔
”زوار تم پاگل ہوگئے ہو! تم کہیں باہر گھومنے پھرنے چلے جاؤ…… تمہارا دل بہلے گا ورنہ تم اس طرح خود کو جھوٹی تسلیاں ……“
زوار نے سوہا کی بات کاٹ دی۔
”جھوٹی تسلیاں …… زوار آفندی نے کبھی خود کو جھوٹی تسلیاں نہیں دیں سوہا…… تم دیکھنا! وہ مجھے فون کرے گی مگر میں اُس کا فون نہیں اٹھاؤں گا۔“
وہ اپنے مخصوص پراسرار انداز میں بولا۔
اس کی آنکھوں میں ایسا تاثر تھا جس نے سوہا کو چونکا دیا۔
”کیوں …… تم اس کا فون کیوں نہیں اٹھاؤگے؟“
اس نے بے ساختہ پوچھا۔
”کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اُ س نے مجھ سے کیا بات کرنی ہے۔“
اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
”زوار!“
سوہا نے اپنا سرتھام لیا۔ زوار کو سمجھانا بے کار تھا۔
یکدم میزپر پڑا زوار کا موبائل بجنے لگا۔ اس پر رانیہ کالنگ لکھا آرہا تھا۔
سوہا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
یعنی کہ زوار کا اندازہ درست تھا۔ رانیہ اُسے فون کررہی تھی۔
زوار نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھا۔
”میں نے کہا تھا نا کہ وہ مجھے فون کرے گی۔ دیکھو…… اسی کا فون آرہا ہے۔ مگر اب میں اس کا فون نہیں اٹھاؤں گا۔“
وہ کافی پیتے ہوئے اطمینان سے بولا۔
سوہا کو اس کے اس انداز پرجھٹکا لگا۔
”سن لو اس کا فون…… بے چاری کچھ کہنا چاہ رہی ہوگی۔“
سوہا کو تجسس ساہوا۔ آخر ایسی کیابات تھی کہ رانیہ اُسے فون کررہی تھی۔ جبکہ پہلے تو وہ اسے بلاک بھی کرچکی تھی۔
”وہ جو کہناچاہ رہی ہے میں جانتا ہوں۔“
اس کے اطمینان میں فرق نہیں آیا۔
سوہا الجھ گئی۔
”ٹیلی پیتھی آتی ہے تمہیں؟“
وہ ہنسا۔
”شاید……“

اس نے مسکرا کر کہا۔
موبائل مسلسل بج رہا تھا۔ زوار نے رانیہ کا فون کاٹ دیا۔
سوہا حیرت سے دیکھتی رہی۔ وہ اس کی سائیکولوجسٹ ہونے کے باوجود اسے کبھی سمجھ نہیں سکی تھی۔
”کافی زبردست ہے۔“
زوار نے سوہا کے رنگ بدلتے چہرے کو دیکھ کر کہا۔
سوہا ایک لفظ بھی نہیں بول سکی۔ اُسے لگا جیسے اُس کے سامنے بیٹھا زوار آفندی اُس سے بڑا سائیکولوجسٹ ہے اور نفسیاتی مریض تو وہ خود ہے۔
رانیہ سخت غصے کے عالم میں اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ وہ زوار کو کھری کھری سنانا چاہتی تھی۔ یہ تاج اُسے واپس کرنا چاہتی تھی۔ وہ زوار کو فون کررہی تھی مگر اس نے تو اس کافون ہی کاٹ دیا تھا۔ رانیہ غصے اور بے یقینی کے عالم میں بیٹھی رہی۔
”اس نے میرا فون کاٹ دیا…… کتنا انتقامی آدمی ہے۔ بدلہ لیناجانتا ہے،میں نے جو کل اس کا فون کاٹ دیا تھا، بس اس نے بھی مجھ سے بدلہ لیا ہے…… نخرے تو دیکھو اس آدمی کے……“
رانیہ کو اس سے خوف محسوس ہوا۔
”زوار آفندی……“
رانیہ بے بسی سے بڑبڑائی۔
تو اب وہ اس سے بات کرنے کا روادار بھی نہیں تھا۔
”اچھی بات ہے، نہ کرے وہ مجھ سے بات!میں تو خوش ہوں، شاید اس نے میرا پیچھا چھوڑ دیا ہے۔
چلو شکر ہے اُسے عقل تو آئی۔
میں تھیٹر جاؤں گی تو یہ تاج ڈائریکٹر کو دے دوں گی۔“
رانیہ نے موبائل سائیڈ ٹیبل پررکھتے ہوئے خودکلامی کے سے انداز میں کہا۔
وہ سمجھ رہی تھی کہ زوار پیچھے ہٹ گیا ہے مگریہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔
٭……٭……٭
عشنا ثمن کے کمرے میں آئی تو وہ عنایا کے ساتھ بیٹھی تھی۔
وہ دونوں عشنا کا چہرہ دیکھ کر چونک گئیں۔ اس کے چہرے پر عجیب سی ایکسائٹمنٹ تھی۔
”تم تو سارا وقت رانیہ باجی کے پاس ہی بیٹھی رہتی ہو۔“
ثمن نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں …… وہ مجھے اچھی لگتی ہیں۔“
عشنا مسکرا کر بولی اور صوفے پر بیٹھ گئی۔
”شیکسپیئر کے ڈراموں کی کہانیاں پڑھتی رہتی ہو؟“
اس نے شرارت سے اسے چھیڑا۔
”کبھی کبھار وہ بھی سن لیتی ہوں۔“
عشنا مسکرائی۔
پھر وہ ذرا ن دونوں کے قریب آئی ا س کی آنکھیں کسی خیال سے چمک رہی تھیں۔
”میں رانیہ باجی کے بارے میں ایک ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔“
”ہاں کہو۔“
عنایا نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”پہلے آپ مجھے اُن کے fianceکے بارے میں بتائیں۔“
عشنا نے کہا
”اس کے بارے میں کیا بتائیں، رشتہ دار ہی ہے ہمارا۔“
عنایا نے بے زاری سے جواب دیا۔
عشنا نے اگلا سوال کیا۔
”وہ کیا کرتے ہیں؟“
ثمن اور عنایا نے بے ساختہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”وہ کیا کرتے ہیں؟ اونہہ…… کچھ بھی نہیں کرتے۔“
ثمن نے سرجھٹک کر کہا۔
”نوکری ڈھونڈ رہے ہیں۔“
عنایانے بات بناتے ہوئے کہا۔ اس سوال کا یہی بہترین جواب ہوسکتا تھا۔
”ابھی تک انہیں job نہیں ملی؟“
عشنا حیران ہوئی۔
”نہیں ملی۔“
عنایا نے بے توجہی سے جواب دیا۔
عشنا کو محسوس ہواجیسے رانیہ کے منگیتر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان دونوں کا موڈ آف ہوگیا تھا۔
”مجھے لگتا ہے کہ رانیہ باجی کے fianceکو یہاں لوگ likeنہیں کرتے ہیں۔“
عشنا نے اندازہ لگایا۔
”ہاں۔ تمہارا اندازہ درست ہے۔“
ثمن خود کو یہ کہنے سے روک نہیں پائی۔
عشنا کو فارس کے بارے میں یہ سب سن کر مایوسی ہوئی تھی۔ وہ ذرا ساقریب ہوئی پھر اس نے سنسنی خیز انداز میں کہا۔
”میں رانیہ باجی کے بارے میں ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔ مگریہ بات آپ دونوں کے اور میرے درمیان ایک secret رہے گی۔“
”یار! ایک تو تمہیں ایڈونچرز کا بہت شوق ہے۔“
ثمن نے اس کا اندازہ دیکھ کرکہا۔
”میں نہیں چاہتی کہ رانیہ باجی کوئی غلطdecision کرکے نقصان اٹھائیں۔“
عشنا کو رانیہ سے ہمدردی تھی۔
”اچھا بتاؤ کیا بات ہے۔“
وہ دونوں توجہ سے اس کی بات سن رہی تھیں۔
”رانیہ باجی!کو ایک بندہ پسند کرتا ہے۔“
اس نے چونکاتے ہوئے انداز میں کہا۔
ثمن اور عنایا بری طرح چونک گئیں۔
”کون ہے وہ بندہ؟“
دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
عشنا نے سسپنس کو بڑھا دیا۔
”ہے ایک بندہ…… میں ابھی اس کا نام نہیں بتا سکتی مگر وہ بندہ رانیہ باجی سے بہت محبت کرتا ہے۔ ان کے ساتھ سنجیدہ ہے مگر وہ اپنےfiance کی وجہ سے اس سے شاد ی نہیں کرنا چاہتی۔“
عشنا نے اپنے تئیں ایک بہت بڑے راز پر سے پردہ ہٹایا۔ اس کی آنکھیں کسی خیال سے چمک رہی تھیں۔
”کون ہے وہ بندہ؟ زوار آفندی؟“
عنایا نے اطمینان سے کہا۔
عشنا پل بھر کے لئے ساکت رہ گئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس راز سے باقی گھر والے بھی واقف ہوں گے۔
اس کی حیران صورت دیکھ کر عنایا اور ثمن کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
”اچھا! تویہ بات راز نہیں ہے۔“
عشنا کی حیرانی مسکراہٹ میں بدل گئی۔
”نہیں …… یہ بات راز نہیں ہے۔ تم کیا سمجھتی ہو کہ اس راز سے صرف تم ہی واقف ہو؟“
عنایا مسکراکر بولی۔
”ہم سب کو پتا ہے۔“
ثمن نے اطمینان سے کہا۔
”کیسے پتا چلا آپ لوگوں کو؟“
عشنانے پوچھا۔
عنایا اور ثمن اس بات پر ہنس پڑیں۔
”ہمیں تو بہت پہلے کا پتا ہے، یہ بتاؤ تمہیں کیسے پتا چلا؟“
عنایا نے مسکرا کر کہا۔
”بس پتا چل گیا۔ زوار نے رانیہ باجی کو ایک بہت expensive gift دیا ہے۔
گولڈ اور Pearls کا crown…… وہی جو انہوں نے Macbeth میں پہنا تھا۔ ایسے ہی تو کوئی کسی کو اتنا expensive gift نہیں دیتا جب تک وہ اس سے محبت نہ کرتا ہو۔“
عشنا نے کہا۔
”ہاں …… وہ تاج بہت قیمتی لگ رہا تھا۔“
ثمن کو یاد آیا۔
”اور وہ انہیں ملکہ سمجھتا ہے۔ کسیqueen کی طرح ٹریٹ کرتا ہے۔“
عشنا اس Lovestory سے بڑی متاثر ہوگئی تھی۔
”مگر وہ فارس کے علاوہ اور کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔“
ثمن کے لہجے میں مایوسی تھی۔
”ہمیں رانیہ باجی کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔“
عشنا نے مستحکم انداز میں کہا۔
”ہم کیاکرسکتے ہیں؟ وہ فیصلہ کرچکی ہے کہ فارس سے منگنی ختم نہیں کرے گی۔“
عنایا نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”کیاپتا فارس یہ منگنی ختم کردے۔“
عشنا سوچتے ہوئے بولی۔
”وہ یہ منگنی کیوں ختم کرے گا؟ وہ تو ایک لالچی اور خودغرض آدمی ہے۔میری اور رانیہ کی حویلی پرنظر رکھتا ہے۔“
عنایا نے تلخی سے کہا۔
”پھر بھی ہمیں کچھ تو کرنا چاہیے نا! اگر ہم نے کچھ نہ کیاتو رانیہ باجی کی زندگی بھی برباد ہوگی اور وہ حویلی بھی آپ کے ہاتھ سے جائے گی۔“
عشنا نے انہیں قائل کرتے ہوئے کہا۔
”ہم رانیہ کو نہیں سمجھا سکتے…… ہم بہت بار یہ کوشش کرچکے ہیں۔“
عنایانے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”ہمیں زوار آفندی سے بات کرنی چاہیے۔“
عشنا نے رازداری سے کہا۔
وہ دونوں بھی اس بات پر سوچ میں پڑگئیں۔
”اس بارے میں سوچا تو جاسکتاہے۔“
عنایا کو یہ بات قابل غور لگی۔ واقعی زوار سے بات کرکے بہت سے مسائل حل کئے جاسکتے تھے۔
”اس ایڈونچر کا نام رکھتے ہیں، زیڈ ایڈونچر……“
عشنا کی آواز پرجوش ہوگئی۔
”مگر تم تو کینیڈا واپس چلی جاؤگی؟“
ثمن نے بے ساختہ کہا۔
”تو کیا ہوا؟ میں کینیڈا جاکر بھی اس ایڈونچر پر کافی کام کرسکتی ہوں۔“
وہ اطمینان سے بولی پھر ذرا رُ ک کر اس نے ایک اور انکشاف کیا۔
”زوار آفندی سے مجھے ایک اور کام بھی ہے۔“
”تمہیں اس سے اور کیا کام ہے؟“
عنایا نے متجسس انداز میں پوچھا۔
”ہے ایک کام…… مشن ایڈونچر……“
وہ رازداری سے بولی۔
”ہیں؟ تم نے کتنے ایڈونچر ز شروع کئے ہوئے ہیں؟“
ثمن نے بے ساختہ کہا۔
”بتاتی ہوں میں۔“
اُس کی آواز مدھم ہوگئی۔
عنایا اور ثمن توجہ اور غور سے اُس کی بات سن رہی تھیں۔
٭……٭……٭
زوار اپنے آفس میں بیٹھا تھا جب اُس کے موبائل پر عنایا کا فون آیا۔ اس نے مصروف انداز میں فون اٹھایا۔
”ہیلو زوار آفندی بات کررہے ہیں؟“
”جی ہاں۔“
”میں عنایا بات کررہی ہوں۔“
وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اُسے پہچان گیا۔
”کیسی ہیں آپ؟“
وہ خوشگوار حیرت کے ساتھ بولا۔ وہ سمجھا کہ شاید وہ اس سے Handicrafts کے سلسلے میں کوئی بات کرنا چاہتی ہوگی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟“
اس نے بھی رسمی انداز میں کہا۔
”آئی ایم فائن۔“
وہ اپنی حیرت چھپاتے ہوئے مسکرایا۔
اس کے شائستہ اور نرم انداز نے عنایا کا حوصلہ بڑھایا۔
”ہمیں آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔“
وہ عنایا کے جملے پر چونک گیا۔ عنایا کے ساتھ اور کون کون شامل تھا۔ وہ سمجھا کہ شاید وہ اپنی این جی او کے لوگوں کے بارے میں بات کررہی ہے۔
”آپ کہیں …… میں سن رہا ہوں۔“
وہ پوری توجہ سے اُس کی بات سن رہا تھا۔ یکد م ہی موبائل کسی اور نے لے لیا۔
”ہیلو…… میں عشنا بات کررہی ہوں۔“
عشنا نے مسکراتی آواز میں کہا۔
زوار کا چونکنا لازمی تھا۔
”جی عشنا……“
اس نے نرم مگر سنجیدہ انداز میں کہا۔
”کیا آپ کل شام ہمارے گھر آسکتے ہیں؟“
عشنا نے کہا۔
وہ سمجھ گیا کہ یہ عشنا کا ہی کوئی مسئلہ تھا۔
”جی میں آجاؤں گا۔“
زوار نے پل بھر کو سوچا پھر سنجیدگی سے کہا۔
اب موبائل ثمن نے لے لیا تھا۔
”ساڑھے پانچ بجے ہم آپ کا گھر پر انتظار کریں گے۔“
ثمن نے کہا۔ وہ یہ پروگرام خود ہی طے کر چکی تھیں۔ اسے تو صرف انفارم کیا جارہا تھا۔ معاملہ سنجیدہ نوعیت کا لگتا تھا ورنہ وہ لڑکیاں کبھی اُسے فون نہ کرتیں۔
”بہتر…… میں حاضر ہوجاؤں گا۔“
اس نے اپنی حیرت کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔
رانیہ کے شہر والے اُسے بلا رہے تھے وہ انکار بھی نہیں کرسکتا تھا۔
”راستے سے چاکلیٹ کیک بھی لے آئیے گا۔“
عشنا نے بلند آواز میں فرمائش کی۔ وہ یہ فرمائش سن چکا تھا۔
عنایا نے عشنا کو آنکھیں دکھائیں پھر معذرت خواہانہ انداز میں بولی۔
”نہیں چاکلیٹ کیک لے کر آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس آپ خود آجایئے گا۔“
وہ الجھ گیا تھا مگر اس کے باوجود مسکرا دیا۔
”ٹھیک ہے۔ میں آجاؤں گا۔“
اس نے بس اتنا ہی کہا۔
عنایا، ثمن اور عشنا کو تسلی ہوئی۔
فون بند کرنے کے بعد وہ تینوں آپس میں رازداری سے کچھ بات کرتی رہیں۔ پھر وہ تینوں جیمو ماموں کے کمرے کی طرف بھاگیں۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جیمو ماموں کی مدد کے بغیر اس گھر میں کوئی بھی ایڈونچر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس لئے سب سے پہلے انہیں جیمو ماموں کو ہی اعتماد میں لینا تھا۔
٭……٭……٭

جیمو ماموں عشنا کی پوری بات سن کر بہت دیر تک خاموش رہے۔ شاید وہ عشنا کو بچی سمجھ کر کبھی اس کی باتوں پر یقین نہ کرتے مگر زوار کے ماضی کے حوالے سے عشنا کے پاس بہت سارے ثبوت تھے۔ زوار کی اپنی فیملی کے ساتھ بچپن لڑکپن اور جوانی کی تصویریں تھیں۔
وہ بہت دیر تک گہری سوچ میں گم رہے۔ عشنا کو انہیں متوجہ کرنا پڑا۔
”جیمو ماموں …… زیڈ ایڈونچر کے بارے میں کچھ کہیں۔“
وہ گہری سوچ سے چونکے۔
”ہر انسان کا ایک ماضی ہوتا ہے۔ اس کے ماضی سے جڑی بہت ساری داستانیں ہوتی ہیں، اور بعض دفعہ انسان کا ماضی اس کے حال سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ مگر عشنا! تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ جو کام برسوں میں نہ ہوسکا وہ تم چند دنوں میں کرلوگی؟“
وہ گہری سنجیدگی سے بولے۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

Read Next

”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!