چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

”مگر مجھے یقین ہے کہ آپ اس ایڈونچر کو مکمل کرسکتے ہیں۔“ عشنا کی آواز پر جوش ہوگئی۔
”یہ زوار کا ذاتی معاملہ ہے بیٹا…… اور کسی کے ذاتی مسائل کو اس طرح بیان نہیں کیا جاسکتا پھر یہ ایک حساس موضوع بھی ہے۔ ہمیں کیا معلوم کہ وہ اپنی زندگی میں کون سے دکھ اور کرب سے گزر چکا ہے۔ ابھی اس سے یہ بات کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ہم نے اس سے اس بارے میں بات کی تو وہ ہم سے دور چلا جائے گا۔ اس لئے ہمیں اسے بڑے طریقے سے ہینڈل کرنا ہوگا۔“
ماموں نے سو چ سمجھ کر یہ بات کی…… ایک عمر کا تجربہ تھا ان کے پاس۔
”اور زوار اور رانیہ والا مسئلہ…… ماموں اس کا کیا ہوگا!“
عنایا نے رازداری سے کہا۔
”یہ تو تم لوگوں کا اندازہ ہے کہ وہ رانیہ کو پسند کرتا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ خود اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ مگر دیکھو! رانیہ کو اس بارے میں کچھ پتا نہیں چلنا چاہیے۔ تم لوگوں کو اس بات کو راز میں رکھنا ہوگا۔“
ماموں نے تاکید کی۔
”مگر رانیہ کی منگنی؟“
عنایا نے بے ساختہ کہا۔
”پہلے مجھے زوار سے بات کرلینے دو۔ پھر ہی رانیہ کی منگنی کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوگا۔“
وہ پرسوچ انداز میں بولے۔
”جیمو ماموں! مجھے تو یہ فکر ہے کہ میں جاکر سارہ کو کیا کہوں گی۔“
عشنا بھی سنجیدہ ہوگئی۔
”اسے سچ ہی بتا دینا، بیٹا کسی کو جھوٹی خوش فہمیوں اور دھوکے میں نہیں رکھنا چاہیے۔ تاکہ اسے بھی حقیقت اور موجودہ صورت حال کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوجائے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرلے۔ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے۔ اسے صرف خود کو ہی نہیں بلکہ اپنی ماں کو بھی توسنبھالنا ہے۔ اسے کہنا کسی جھوٹی آس کے انتظار میں اپنا وقت نہ ضائع کرے۔“
ماموں کی بات پر عشنا خاموش ہوگئی۔
”ماموں! فارس کے سر پر سے حویلی کا بھوت کیسے اترے گا؟ اگر اس کی رانیہ کے ساتھ شادی ہوگئی تو وہ ہمیں مختلف طریقوں سے تنگ کرے گا۔ وہ تو اس حویلی کے عشق میں مبتلا ہے۔“
عنایا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اس حویلی کا عشق بڑی جلدی اس کے سر سے اتر جائے گا۔ اگر زوار واقعی رانیہ سے محبت کرتا ہے تو ہم سب فارس کے مقابلے میں زوار کا ساتھ دیں گے۔ ہمیں زوار کے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا معلوم یہ سب واقعات اس طرح رونما نہ ہوئے ہوں جس طرح بیان کئے جارہے ہیں۔ مجھے لوگوں کی پہچان ہے اور میں یہ حتمی انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ زوار ایک اچھا انسان ہے، جو کچھ اس کے اور اس کی فیملی کے ساتھ ہوا اسے قسمت کا لکھا بھی کہہ سکتے ہیں۔“
ماموں سنجیدگی سے بولے۔
”جیموماموں آپ میرے ساتھ کینیڈا چلیں۔ وہاں جاکر آپ بہت ترقی کریں گے۔“
عشنا نے بے ساختہ کہا۔
”پہلے ان سب کی شادیاں ہوجائیں، پھر آؤں گا کینیڈا……“
وہ مسکرائے۔
”اور کینیڈا جاکر کسی میم سے شادی کرلیجیے گا۔“
عنایا نے شرارت سے کہا۔
ماموں کے چہرے پر یہ سن کر رونق سی اُتر آئی۔
”سارے کام ہوجائیں گے پہلے مجھے زیڈ ایڈونچر پر تو کام کرلینے دو۔“
وہ مسکراہٹ دبا کر بولے۔
”زیڈ ایڈونچر ایک مشکل ترین ایڈونچر ہے مگر یہ ایک یادگار ایڈونچر ہوگا۔“
ثمن نے دھیمی آواز میں کہا۔
”مگر اس میں بہت وقت لگے گا اور تم لوگوں کو صبر سے انتظار کرنا ہوگا۔“
ماموں ذرا سنجیدہ ہوئے۔
ان تینوں نے اثبات میں سرہلادیا۔
اب انہیں زوار کی آمد کا انتظار تھا۔
٭……٭……٭
عطیہ اور عقیل لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ فردوسی خالہ کچن میں مصروف تھیں۔ اس عمر میں بھی وہ چاک و چوبند تھیں اور گھر کے بیشتر کام خود کرتی تھیں۔
”دیکھیں! عشنا یہاں آکر کتنی خوش ہے، ثمن کے گھر سے آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ شکر ہے کہ سارہ کا بھوت اس کے سر سے اترا ہے۔ دیکھا آپ نے…… یہاں آ کر اس نے ایک بار بھی سارہ کا ذکر نہیں کیا۔“
عطیہ نے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔
”اچھی بات ہے۔ یہاں آکر اس کا دل بہل گیا ہے۔ ہم پاکستان آتے جاتے رہیں گے۔ عشنا کو یہاں کے ماحول کا عادل ہونا چاہیے۔“
عقیل نے سنجیدہ اندا ز میں کہا۔
فردوسی خالہ بیسن کا حلوہ لئے کچن سے باہر آئیں۔
”یہ لو بیسن کا حلوہ…… خالص دیسی گھی میں بنایا ہے۔ بچپن میں عقیل بہت شوق سے کھاتا تھا۔ فرمائشیں کرکے بنوایا کرتا تھا۔
انہوں نے میز پر حلوہ رکھتے ہوئے کہا۔
”کینیڈا میں اتنے سال رہنے کے بعد ہمیں کہاں ایسے حلوے کھانے کی عادت رہی ہے اماں!“
عطیہ نے حلوہ دیکھ کر کہا۔
خالہ برامان گئیں۔
”کینیڈا میں اس کی ماں جو اس کے ساتھ نہیں تھی۔ ارے بیٹا…… اب تو کھاؤ…… صحت بناؤ…… جب تک یہاں ہو دیسی گھی میں بنے کھانے کھالو۔“
انہوں نے عقیل کی پلیٹ میں حلوہ ڈالتے ہوئے کہا۔
عقیل نے بھی ماں کا دل توڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ جو کچھ پکاتی تھیں۔ وہ چپ چاپ کھا لیتا تھا۔ حلوے، کھیر، پائے، زردے، حلیم، نہاری…… ماں سے یہ کہہ نہیں سکا کہ ماں اتنے سال پردیس میں رہنے کے بعد اب اسے ان کھانوں کی عادت نہیں رہی۔
’بیٹا کب تک پردیس میں رہوگے؟ اب واپس آجاؤں۔ یہاں آکر کوئی کاروبار شروع کرلو۔“
خالہ نے ذرا سا حلوہ چکھتے ہوئے کہا۔
”آپ تو جانتی ہیں کہ میں کون سا اپنی خوشی سے پردیس گیا تھا۔ سالوں یہاں نوکری کے لئے دھکے کھاتا رہا مگر کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ ملی۔ پھر کینیڈا جاکر بھی کافی سال میں نے محنت کی۔ پردیس کی سختیاں برداشت کیں۔ ڈبل شفٹوں میں کام کرتا رہا۔ اب کہیں جاکر ہم خوشحال زندگی گزارنے لگے ہیں۔“
عقیل نے حلوہ کھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ خالہ خاموش ہوگئیں۔ یکدم باہر بیل بجی۔
”میں دیکھتی ہوں۔ کوئی محلے دار ہوگا۔“
خالہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور باہر نکلیں۔ کچھ دیر بعد وہ اندر آئیں تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور ان کے ساتھ ایک بندہ بھی تھا۔ جو ایک کونے میں سامان رکھ رہا تھا۔
”بس بیٹا…… دیوار کے ساتھ یہ سارا سامان رکھ دو…… احتیا ط سے……“
خالہ اسے ہدایات دے رہی تھیں۔
عقیل اور عطیہ چونک گئے۔
”اماں! یہ کس کا سامان ہے؟“
عقیل نے پوچھا۔
خالہ کے چہرے پر خوشی کا عکس تھا۔
”وہ جو اس دن جیمو کے گھر بھلا مانس سا لڑکا ملا تھا…… اونچا لمبا، خوبصورت جوان …… زوار آفندی……“
خالہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں وہی مرسیڈیز والا۔“
عطیہ فوراً بولیں۔
”ہاں وہی…… اس نے غریبوں اور ضرورت مندوں کے لئے یہ سامان بھیجوایا ہے۔ بڑا ہی نیک لڑکا ہے۔ سارا سامان لیا ہے۔ دکان سے سیدھا یہاں بھجوایا ہے تاکہ میں اسے ضرورت مندوں میں بانٹ دوں ……“
خالہ نے کہا۔
”اچھا واقعی؟“
عطیہ حیران ہوئیں پھر ابرو اچکا کر بولیں۔
”اتنے پیسے والا لڑکا ہے…… اس کے لئے یہ سامان بھجوانا کون سی بڑی بات ہوگی۔“
وہ لڑکا سامان رکھ کر جاچکا تھا۔
فردوسی خالہ سامان کے کارٹن کھول کر دیکھنے لگیں۔
”یہ بات نہیں ہے۔ بڑے بڑے دولت مند لوگ دیکھے ہیں میں نے۔ جیب کے امیر مگر دل کے غریب ہوتے ہیں۔ زوار تو بڑا ہی نیک اور احساس رکھنے والے لڑکا ہے۔“
فردوسی خالہ خوش تھیں۔
عقیل او رعطیہ سامان کھولنے میں ان کی مدد کروا رہے تھے۔ زوار آفندی رانیہ کے گھر والوں کے ساتھ فردوسی خالہ کا بھی فیورٹ بن چکا تھا۔
آہستہ آہستہ اس نے سب کے دل میں گھر کرلیا تھا۔
٭……٭……٭

سارہ سوپ کا پیالہ لئے کچن سے لاؤنج میں آئی جہاں اُس کی ممی صوفے پر بیٹھی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں گہری اداسی اور چہرے پر دن کی تھکاوٹ کا عکس تھا۔
”ممی سوپ!“
سارہ نے پیالہ اُن کے ہاتھ میں تھمایا۔
”ساتھ کچھ اور بھی لادوں؟“
اس نے ممی سے پوچھا۔
”نہیں۔“
انہوں نے سوپ میں چمچ چلاتے ہوئے کہا۔
”پاکستان فون کررہی تھیں آپ؟“
سارہ نے میز پر پڑے موبائل پر نظر آتے نمبرز کو دیکھ کر کہا۔
ممی نے جواب نہیں دیا۔
ان کی خاموشی بھی ایک جواب ہی تھی۔
”کیوں کرتی ہیں آپ وہاں فون؟ جب وہاں سے آپ کا کوئی فون ہی نہیں اٹھاتا؟“
سارہ گہرا سانس لے کر کہتے ہوئے ان کے قریب بیٹھ گئی۔
”میں نے زندگی میں بڑی غلطیاں کی ہیں۔“
وہی ممی کا پرانا پچھتاوا…… کتھارس کا سلسلہ جو انہیں کہیں سے کہیں لے جاتا تھا۔
”انسانوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔“
سارہ نے ہمیشہ کی طرح انہیں تسلی دی۔
”مگر عورت کی غلطیوں کو لوگ معاف نہیں کرتے۔“
ممی نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
”کیوں؟ کیا عورت انسان نہیں ہوتی؟ کیاوہ غلطی نہیں کرسکتی؟“
سارہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
ممی کچھ دیر کے لئے چپ ہوگئیں۔ ان کے چہرے پر دھند تھی اور ان کی آنکھیں اداس تھیں۔
”آپ فکر نہ کریں ممی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں جاب کرلوں گی۔ پھر ہمارا لائف سٹائل بدل جائے گا۔ ہم اچھے سے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوجائیں گے۔ ایک میڈ بھی رکھ لیں گے۔ پھر ہم بھی خوشحال زندگی گزاریں گے۔ چھٹیوں میں گھومنے پھرنے جایا کریں گے۔“
سارہ نے ممی کو تسلی دی۔ وہ اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتی تھی۔ مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتی رہتی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی ممی خو ش رہیں۔ ایک اچھی اور آرام دہ زندگی گزاریں۔ باقی عورتوں کی طرح مسکرایا کریں۔ باتیں کیا کریں۔ ممی کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
”کاش! میں پاکستان سے کبھی یہاں نہ آئی ہوتی!‘
وہ آہ بھر کر بولیں۔ ان کا یہ ڈپریشن انہیں خو ش نہیں ہونے دیتا تھا۔ ماضی کے پچھتاوے آج بھی انہیں بے سکون کئے ہوئے تھے۔
”ممی! ہم ایک دن ضرور پاکستان واپس جائیں گے۔“
سارہ نے بے ساختہ کہا۔
ممی اداس ہوگئیں۔ ان کی آنکھوں کی نمی بڑھ گئی۔
”زوار……“
ان کی آنکھ سے خاموش آنسو ٹپکا۔
یہ آنسو ایک سمندر تھا۔ تنہائی کے عالم میں وہ پہروں یونہی بیٹھی زوار کو یاد کرتی رہتیں۔
”زوار سے ملناچاہتی ہوں۔“
انہوں نے اداس آواز میں کہا۔
سارہ کو دکھ ہوا۔
”ممی!ہم پاکستان چلے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وہ ہمیں دیکھ کر گیٹ نہیں کھولیں گے…… دروازہ بند کردیں گے…… تو ہم کسی ہوٹل میں چلے جائیں گے…… کم از کم ہمیں یہ پچھتاوا تو نہیں ہوگا نا کہ ہم نے کوشش نہیں کی۔“
سارہ نے ان کا ہاتھ تھام کر کہا۔
ممی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”میں شرمندگی کی وجہ سے زوار کا سامنا نہیں کرسکتی سارہ۔“
انہوں نے نادم انداز میں اعترا ف کیا۔
”چھوڑیں اس شرمندگی کو ممی…… لوگ تو بڑے بڑے گناہ کر لیتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔“
سارہ نے جھنجھلا کر کہا۔
”تم نہیں سمجھوگی…… شرمندگی بہت بری چیز ہوتی ہے۔ یہ انسان کو صرف دکھ ہی نہیں دیتی۔ بلکہ اُسے اپنی نظروں میں بھی گرا دیتی ہے۔“
ممی رونے لگیں۔
سارہ افسردہ ہوگئی۔
”ممی! آپ نہ روئیں …… آپ دن رات محنت کرتی ہیں۔ کام کرتی ہیں …… یہ گھر چلا رہی ہیں، آپ نے اکیلے مجھے پالا پوسا، میری پرورش کی…… ساری ذمہ داریاں تنہا اٹھائیں۔ پاپا کی بے وفائی کو برداشت کیا۔“
ممی نے اُسے ٹوک دیا۔
”اس آدمی کا ذکر بھی نہ کرو۔“
سارہ جانتی تھی کہ ان کے انداز میں نفرت نہیں ہے، دکھ ہے۔
”اچھا! آپ سوپ پئیں …… چھوڑیں ان باتوں کو، خوش رہا کریں ممی…… خوشیوں پر آپ کا بھی تو حق ہے۔“
سارہ نے نرمی سے کہا۔ ممی نے اداسی سے اُسے دیکھا۔
”کیا خوشیوں پر گناہ گاروں کا بھی حق ہوتا ہے؟“
انہوں نے عجیب سے انداز میں سوال کیا۔
سارہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئی۔
”ممی! میں باقاعدگی سے اسلامک سینٹر جاتی ہوں۔ میں نے اسلامک اسکالر سے آپ کے بارے میں بات کی تھی انہوں نے کہا کہ انسان بڑی آسانی سے گناہ گار بن جاتا ہے مگر جب وہ توبہ کرلیتا ہے تو اُس کے گناہ ڈھل جاتے ہیں۔ اتنے سال ہوگئے آپ کو روتے ہوئے، پچھتاتے ہوئے……“
”مگر زوار نے مجھے معا ف نہیں کیا۔“
ممی نے افسردگی سے اُس سے کہا۔
سارہ اس بات کا جواب نہیں دے سکتی تھی۔ وہ اس بات پر ہمیشہ خاموش ہوجایا کرتی۔
وہ گہرا سانس لے کر خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور لاؤنج کے کونے میں لگے بورڈ کو دیکھنے لگی جہاں اس نے سارے ہفتے کے کاموں کا شیڈول لکھا ہوا تھا۔ گھر کے سارے کام تو اسی کی ذمہ داری تھے۔ ممی تو اپنے آفس سے تھکی ہاری واپس آتیں۔
سارہ بورڈ پر لکھا ٹائم ٹیبل پڑھنے لگی۔
کل لانڈری کا دن ہے……
پرسوں گروسری لانے کا دن ہے……
اُس سے اگلے دن کھانے بناکر فریز کرتے ہیں۔
وہ بورڈ پر کچھ لکھنے لگی۔
آج اس نے عشنا کو ای میل بھی کرنی تھی۔ ابھی تک اُسے عشنا کی طرف سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا تھا مگر اُسے یقین تھا کہ عشنا کوئی نہ کوئی کوشش تو ضرور ہی کرے گی اور اس نے اب تک اپنے ساتھیوں کا گروپ بھی تیار کر ہی لیا ہوگا، اور اس کے ساتھی کسی نہ کسی طرح زوار تک پہنچ ہی جائیں گے مگر زوار کو منانا کسی معرکے سے کم نہیں تھا۔
سارہ جانتی تھی کہ آج تک عشنا کا کوئی بھی ایڈونچر ناکام نہیں ہوا ہے اس لئے اُسے اُس کی صلاحیتوں پر بڑا یقین تھا۔ اب اُسے عشنا کی واپسی کا انتظار تھا۔
٭……٭……٭

رانیہ فارس کو فون کرکے تھک چکی تھی۔ وہ ابھی تک اس سے ناراض تھا۔ نہ وہ اس کا فون اٹھاتا اور نہ اس کے کسی میسج کا جواب دیتا۔ اتنی لمبی ناراضگی تو ان کے درمیان پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ روز اُسے فون کرتی، ہر کال، ہر میسج پر فوراً موبائل نکال کر دیکھتی پھر مایوس ہوجاتی۔ اسے احساس ہوتا کہ یہ ناراضگی نہیں بے حسی تھی اور بے حسی ناراضگی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
شا م کووہ اپنی ایک دوست کے ساتھ بازار چلی گئی۔ پھر کافی دیر بعد اس کی واپسی ہوئی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اُسے زوار آفندی کی آمد کے بارے میں پتا چلا۔ اس نے شکر کیا کہ وہ اس کے آنے سے پہلے ہی جاچکا تھا۔ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ لاؤنج کے کونے میں پڑی ڈائننگ ٹیبل کے پاس آئی جہاں چائے کا سامان رکھاتھا اور میز کے وسط میں چاکلیٹ کیک بھی پڑا تھا۔
”زوار کے آنے پر اتنا اہتمام!“
اس نے بھری ہوئی میز کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی پھر اُس نے اپنی پلیٹ میں نوڈلز ڈالے۔
اسے اپنے گھر والوں کی خاموشی بڑی غیر معمولی لگی۔
”چاکلیٹ کیک بھی تو کھاؤ۔ تمہار ا تو فیورٹ ہے۔ زوار لے کر آیا ہے۔“
عنایا نے عجیب اندا ز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھے نہیں کھانا۔“
اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا اور نوڈلز کھانے لگی۔
”کیوں آیا تھا وہ آدمی؟“
اس نے دھیمی آواز میں ناگواری سے پوچھا۔
”این جی اوکے کسی کام سے آیا تھا۔ Handicrafts باہر بھجوانا چاہتا ہے۔ اسی سلسلے میں بات کرنے آیا تھا۔“
عنایا نے بظاہر عام سے انداز میں جواب دیا مگر اس کے چہرے کی مسکراہٹ بڑی معنی خیز تھی۔ وہ چپ رہی کاش وہ اپنے گھر میں زوار آفندی کا داخلہ بند کرسکتی۔
”تمہارا اگلا تھیٹر ڈرامہ کون سا ہوگا؟“
عنایا نے اس کی پیالی میں چائے ڈالتے ہوئے پوچھا۔
وہ چند لمحو ں کے لئے خاموش ہوگئی۔ پھر اس نے سوچا کہ اس بارے میں اب اسے اعلان کرہی دینا چاہیے کہ یہ سوال اس سے بار بار کیا جائے گا۔
”میں نے تھیٹر چھوڑ دیا ہے۔“
اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ لاؤنج میں موجود ہر شخص نے اس کا جملہ واضع انداز میں سنا۔
ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتی امی چونک گئیں۔ تخت پر بیٹھے شاعری کی کتاب پڑھتے ماموں ٹھٹک گئے۔ فلور کشن پر بیٹھ کر چاکلیٹ کیک کھاتے ثمن اور ٹیپو نے بھی حیرت سے اُسے دیکھا۔ عشنا چونکہ اس فیصلے سے پہلے ہی باخبر تھی اس لئے اس کا انداز نارمل ہی رہا۔
”یہ انقلاب کیسے آگیا؟“
عنایا کے انداز میں بے یقینی تھی۔
”واقعی؟ تم سچ کہہ رہی ہو؟“
ماموں بھی بے ساختہ بولے۔
”یہ تو آج کی سب سے اہم خبر ہے کہ رانیہ باجی نے تھیٹر چھوڑ دیا…… مگر آپ کو تو تھیٹر سے عشق تھا…… اس جنون کا کیا ہوا؟“
ثمن نے حیرانی سے کہا۔ اس بات پر کسی کو بھی اتنی آسانی سے یقین نہیں آسکتا تھا۔
”یہ فیصلہ کیسے کرلیا تم نے رانیہ؟“
امی کی آواز میں حیرت کے ساتھ ساتھ فکری مندی بھی تھی۔
ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ وہ نوڈلز کھاتی رہی۔ رانیہ کا تھیٹر سے کنارہ کشی اختیار کرلینا اس گھر کے لئے کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔
”ضرور فارس نے کہا ہوگا۔“
ماموں نے اندازہ لگایا۔
”نہیں …… اس نے کچھ نہیں کہا۔ یہ میرا اپنا فیصلہ ہے۔“
اس نے وضاحت کی۔
”اب کیا تم گھر پر ہی رہوگی؟“
عنایا نے پوچھا۔
”میں کوئی جاب کرلوں گی۔“
اس نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
”جاب؟“
اس کے گھر والوں کو اگلا جھٹکا لگا۔ شوق پورے کرنے والے لوگ نوکری کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی زندگی میں انقلاب آچکا ہے۔
”شادی کے بارے میں تم نے کیا سوچا ہے؟“

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

Read Next

”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!