پھوہڑ — ثمینہ طاہر بٹ

’’ارے بہو! یہ فش کہا ں سے آئی؟ اور یہ انڈے کوفتے، یہ چکن پلاؤ ، روسٹ…یہ سب تم نے کب بنایا؟‘‘
’’اور بھابی یہ سلاد اور رائتوں کی اتنی ورائٹی؟ بھلا اتنی فضول خرچی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔تم سے جو کہا تھا بس وہ بنا لیتیں، بہت تھا۔ اب اتنا کچھ بنا ڈالا اور جانے کچھ ڈھنگ کا بنایا بھی ہے یا سب کا لے کے ناس مار دیا۔‘‘ابھی ساس صاحبہ کی حیرت کم نہیں ہوئی تھی کہ گڑیا کی زبان میں بھی کھجلی ہونے لگی۔ نین تارہ نے گھبرا کر کبیر کو دیکھا وہ بھی حیرت سے ماں اور بہن کو دیکھ رہا تھا۔
’’ارے گڑیا! کچھ ضائع نہیں ہوگا۔ یہ سب کچھ جو تم ’’ اضافی ‘‘ دیکھ رہی ہو ناں، وہ ہم نے نین تارہ کے ساتھ مل کر بنایا ہے۔ بھئی تمہیں پتا تو ہے، میرے بچے قورمہ نہیں کھاتے، انہیں فش اور روسٹ پسند ہے اور نصیر کے بچوں کو پلاؤ اور رائتہ اور مجھے تو بھئی انڈے کوفتے بہت پسند ہیں ۔ بس اسی لیے کچھ ہم گھر سے بنا لائے کچھ یہاں آکر بنا لیا سمپل۔‘‘ بڑی بھابی نے فوراً تارہ کی مدد کرتے ہوئے گڑیا اور ساس کو جواب دیا، تو ایک لمحے کو گڑیا چپ سی ہو گئی۔
’’ وہ تو ٹھیک ہے بھابی۔ مگر آپ کم از کم امی سے تو مشورہ کر لیتیں۔ ایسے ہی…‘‘
’’ اوہو گڑیا، کیا ہوگیا ہے ۔ بھئی یہ ہمارا بھی گھر ہے ۔ ہم اگر الگ رہتے ہیں بیٹا تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہماری ماں پر یا اس گھر پر ہمارا کوئی حق نہیں رہا۔ارے بھئی تمہاری بھابھی نے جومناسب سمجھا کیا۔اچھا ہے نا بیٹا، سب کی پسند شامل ہوگئی دعوت میں یعنی کہ ڈبل مزہ۔ کیوں امی ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں۔‘‘ گڑیا بی بی ابھی جانے اور کیا شگوفے چھوڑتی کہ بڑے بھیا نے بیوی کے اشارے کو سمجھتے ہوئے فوراً اس کی بات کاٹتے ہوئے اس انداز سے کہا کہ امی کے ساتھ ساتھ تینوں بہنیں بھی چپ سی ہوگئیں۔ اب ظاہر ہے سامنے داماد بھی تو بیٹھے تھے۔ زیادہ بحث مباحثے کی صورت اپنی ہی عزت کم ہونی تھی، سو خاموشی سے صبر کے گھونٹ پیتی وہ کھانا کھانے لگیں۔ نین تارہ نے کھانا بہت اچھا بنایا تھا۔ ایک تو اس کے ہاتھ میں واقعی قدرتی طور پر بہت ذائقہ تھا، اس پر پہلے پہلے ’’امتحان‘‘ کا خوف۔ اس نے دل لگا کر محنت کی تھی اور اب اسے ہر طرف سے تعریف موصول رہی تھی۔دونوں بڑے جیٹھوں اور نندویوں نے اسے نقد رقم کی صورت انعام دیا، تو جیٹھانیوں نے خوب صورت تحفے دیے تھے۔ ساس نے بھی بیٹوں اور دامادوں کی دیکھا دیکھی پانچ سو کا کڑکڑاتا نوٹ پکڑا دیا تھا۔ نندوں کے البتہ منہ بنے ہوئے تھے کہ ان کی ساری اسکیم چوپٹ ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ نین تارہ کو کبیر کی نگاہوں میں گرانا چاہتی تھیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح بڑی بھابھیوں کو ان کے شوہروں کی نگاہوں میں بہت عرصہ گرائے رکھا تھا، مگر بھلا ہو بھابھیوں کا کہ انہوں نے تاریخ کا رُخ بدل دیا اورنین تارہ رسوا ہونے سے بچ گئی۔
٭…٭…٭





کبیر اور نین تارہ کی شادی کو ڈیڑھ سال سے اوپر ہونے کو آیا تھا۔ وہ دونوں آپس میں تو بہت خوش تھے، مگر صرف اپنے کمرے کی حد تک۔ کبیر کو جانے ماں اور بہن سے اتنی شرم کیوں آتی تھی کہ وہ ان کے سامنے تارہ سے ڈھنگ سے بات بھی نہیں کرپاتا تھا۔ شروع شروع میں تارہ کو اُس کا رویہ بہت کھلتا، مگر پھر اپنی صلح جو طبیعت کے باعث وہ اسی رویے کی عادی ہوتی چلی گئی۔ اس کی ساس بھی عجیب مست مولیٰ طبیعت کی مالک تھیں۔ جانے گڑیا نے انہیں کیا گھول کے پلا رکھا تھا کہ وہ اس کی آنکھ سے ہی دیکھتیں اور اس کے کان ہی سے سب سننے کی عادی ہو چکی تھیں۔ نین تارہ نے پہلے پہل گڑیا کے ساتھ چھوٹی بہن سمجھتے ہوئے دوستی بڑھانے کی کوشش کی تھی، مگر جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس کے بارے میں غلط سوچ رہی تھی۔ گڑیا اس کی چھوٹی بہن نہیں تھی۔ وہ تو ماں اور بہنوں کو مشورے دیتی تھی۔بھائیوں اور بھابھیوں کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی تھی۔ وہ بائیس سالہ لڑکی اپنی حرکتوں اورباتوں کی وجہ سے پختہ عمر عورت کا روپ دھارتی جا رہی تھی۔
’’نین تارہ، تمہاری ماں نے تو ایسے ہی تمہارے سگھڑاپے اور ہنرمندی کے چرچے کر رکھے تھے۔ تم میں تو کوئی ایک بھی گھر گرہستی والا گن نہیں ہے۔ ہماری گڑیا کو دیکھو۔ تم سے دو چار برس چھوٹی ہی ہے، مگر ماشااللہ ایسی سمجھ دار اور سلیقہ مند ہے کہ پورے محل کا انتظام اکیلی ہی سنبھال سکتی ہے اور ایک تم؟ تم سے تو اس پانچ مرلے کے گھر کا نظم ونسق اچھی طرح نہیں سنبھالا جاتا۔‘‘ بڑی باجی نے بھری محفل میں نین تارہ کے سلیقے کی کچھ اس طرح دھجیاں اڑائیں تھیں کہ تارہ خود سے بھی نگاہیں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ بات تو کچھ بھی نہیں تھی۔ گڑیا نے حسب عادت سب بھائیوں اور بہنوں کو عید ملن پارٹی دی تھی اور اسے عین وقت پر بتایا گیا تھا۔ سوئے اتفاق اس کی طبیعت بھی خراب تھی۔ اس پر گرمی بھی شدید۔ اس کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے کبیر نے کھانا باہر سے آرڈر کر دیا تھا اور اسے آرام کرنے کا کہہ کر باقی سارے انتظامات خود د یکھنے لگا۔ گڑیا اور امی کو اس نے بھی عین وقت پر بتایا تھا کہ کھانا آرڈر کر چکا ہے اور میٹھے میں وہ آئیس کریم لا کر فریز بھی کر چکا تھا۔ امی نے اس کی دانش مندی کی تعریف کی، لیکن گڑیا خاموش تھی۔ پھر جانے اس نے امی اور بہنوں کو کیا کہا کہ عین دعوت کے وقت ، سب کی موجودگی میں باجی نے بڑے فخریہ انداز سے گڑیا کو دیکھتے ہوئے نین تارہ کی ذات کے بخیے ادھیڑ دیے۔
’’تو اور کیا؟ ارے خالی خولی باتیں کرنے سے سسرال میں عزت نہیں بنتی۔ سسرال میں تو کام کرنا پڑتا ہے کام۔ اب ہمیں ہی دیکھ لو۔ کیا مجال جو اپنی ساسوں اور نندوں کے حکم کے بغیر ہل بھی جائیں۔ ہماری سسرال میں جو عزت ہے نا، وہ ہمیں ایسے ہی نہیں ملی۔اس کے لیے میں نے اور باجی نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جان مار کر ہر کام کیا ہے۔ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے گھر اور گھر والوں کو اہمیت دی ہے، پھر کہیں جا کرکوئی مقام ملا ہے ہمیں۔‘‘ وہ ابھی بڑی باجی کی باتوں کو ہی ہضم نہیں کر پائی تھی کہ چھوٹی باجی میں خم ٹھونک کر میدان میں کودیں تھیں۔گڑیا بہنوں کی بیان بازی پر سر فخر سے سر تانے مسکراتی طنزیہ نگاہوں سے تارہ کو دیکھ رہی تھی اور دونوں بڑی بھابھیاں اس دروغ گوئی پر دانتوں تلے زبان دبائے بیٹھی تھیں کہ وہ بہت اچھے سے جانتی تھیں کہ اُن کی نندوں نے گڑیا کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے کیسے اپنی اپنی سسرال کا ناطقہ بند کیا تھا اور پھر کیسے اس دن رات کے فساد سے بچنے کے لیے ان کے شوہر انہیں لے کر الگ ہو چکے تھے۔ خود ان دونوں کے ساتھ بھی کچھ کم نہیں بیتی تھی۔ ان کے وقتوں میں ان کی بھی یہی حالت ہوتی تھی جو آج نین تارہ کی تھی۔ اسی لیے انہیں اپنی اس کم گو سی دیورانی سے بہت محبت تھی۔ وہ دل سے چاہتی تھیں کہ تارہ کی زندگی میں بھی خوشیوں کی بہار آ جائے، مگر…
’’ اُف! تو بہ ہے۔ یہ سالن ہے یا زہر؟ بھابی، تمہیں اتنا عرصہ ہو گیا ہمارے گھر آئے، مگر مجال ہے جو تم نے اس گھر کا ایک بھی اصول اپنانے کی کوشش کی ہو۔ آج بھی پہلے دن والی غلطیاں کرتی ہو اور پھر منہ بسور کر سب کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہو۔ کمال ہے بھئی۔ والدہ صاحبہ نے تو بیٹی کے سگھڑاپے کے جھنڈے زمانے بھر میں گاڑ رکھے ہیں اور بیٹی صاحبہ ہیں کہ ڈھنگ سے دال کو بھگار بھی نہیں لگا سکتیں۔ اونہہ، اماں ۔تم نے تو بھائی کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ بس بہو کی ’’چٹی چمڑی‘‘ دیکھی اور کسی گن کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کوشش کی! ‘‘ گڑیا کی ہمت اب بہت بڑھ چکی تھی۔ نین تارہ کی خاموشی اور صبر نے اسے اور زیادہ شیر کر دیا تھا۔ پہلے وہ بھائی کی غیر موجودگی میں ہی بھابی پر طنز کے تیر برساتی تھی، مگر اب اسے بھائی کا لحاظ بھی نہیں رہا تھا۔ماں الٹا اسے سمجھانے کے بہ جائے بہو کی کلاس لینے بیٹھ جاتیں، تو کبیر بھی ایک سرد نگاہ ان تینوں پر ڈالتا ہوا گھر سے باہر نکل جاتا۔
’’کبیر! تم امی سے بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ گڑیا کی زبان کو کچھ تو لگام دیں۔ کیا اسے اگلے گھر نہیں بھیجنا جو اسے اتنی کھلی چھوٹ دیے جا رہی ہیں ؟‘‘ چھوٹی بھابی نے کبیر کو سمجھانا چاہا، تو وہ بے بسی سے انہیں بس دیکھ کر ہی رہ گیا ۔
’’منزہ ٹھیک کہہ رہی ہے کبیر۔ ابھی بھی وقت ہے۔ امی سے کہو کہ خودساس بنیں، گڑیا نند ہے اسے نند ہی رہنے دیں۔ حد ہوتی ہے کسی بات کی ۔ نین تارہ کا ہی حوصلہ ہے جو اس چھٹانک بھر کی لڑکی سے ہزار باتیں چپ چاپ سن لیتی ہے۔ میں ہوتی نا، اس کی جگہ تو دماغ درست کر کے رکھ دیتی اس چھٹکی چھپکلی کا!‘‘ بڑی بھابی کو بھی گڑیا پہ خوب تپ چڑھی ہوئی تھی سو انہوں نے بھی دل کی بھڑاس نکالی تھی۔
’’بھابی! آپ دونوں ہی ٹھیک کہہ رہی ہیں، مگر میں کیا کر سکتا ہوں۔ اگر امی کو کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، تو وہ مجھے رن مریدی کا طعنہ دینے لگتی ہیں اور گڑیا کو ڈانٹنا یا سمجھانا چاہتا ہوں، تو اس کی حمایت میں امی اور باجیاں مل کر میرا ناطقہ بند کر دیتیں ہیں۔ بس یہی سب حالات دیکھ کر میں خود بھی خاموش ہوجاتا ہوں اور تارہ کو بھی چپ رہنے کا مشورہ دیتا ہوں۔‘‘ کبیر نے اداسی سے سر جھکاتے ہوئے کہا تو وہ دونوں گہرا سانس لیتیں ایک دوسری کو دیکھ کر رہ گئیں۔
’’ جو کچھ بھی ہے کبیر۔ ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ تم نین تارہ کے ساتھ مزید زیادتی مت کرو۔ اگر امی اور گڑیا اپنا رویہ بدلنے پر راضی نہیں تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑو اور اپنی بیوی کو لے کر الگ ہو جاؤ۔‘‘ بھابی نے اسے ایک اور مشورے سے نوازا تھا۔
’’ اور ساری دنیا کے سامنے ذلیل ہو جاؤں۔ نین تارہ کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دوں۔ بھابی، آپ یہ مشورہ مجھے کیسے دے سکتیں ہیں ؟ آپ جانتی بھی ہیں کہ گڑیا اب اس گھر میں چند ماہ کی ہی مہمان ہے۔ اس کی منگنی ہو چکی ہے اور کل کو اس کی شادی بھی ہو ہی جائے گی۔ پھر امی اکیلی کیسے رہیں گی؟ پھر بھی تو ہمیں ہی ان کے ساتھ رہنا پڑے گا نا، تو ابھی سے تھوڑا برداشت کر لیں۔ وہ زیادہ بہتر نہیں ہے؟ ‘‘ کبیر کا دماغ بھابی کے مشورے نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی لیے وہ تھوڑا ہائپر ہو گیا تھا، مگر جلد ہی سنبھل بھی گیا۔
’’ٹھیک ہے بھیا۔ جیسے تمہاری مرضی۔ ہم تو تمہارے ہی بھلے کو کہہ رہے تھے کیوں کہ ہمیں جو نظر آرہا ہے وہ شاید تم دیکھ نہیں پا رہے۔ ‘‘ بڑی بھابی نے چھوٹی کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، تو کبیر بھی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہم رکاب — عرشیہ ہاشمی

Read Next

رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!