پھوہڑ — ثمینہ طاہر بٹ

گڑیا کی شادی کا غلغلہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔گھر کی یہ آخری شادی تھی اور پھر گڑیا رانی کی۔ لہٰذا سب ہی پر جوش ہو رہے تھے۔ نین تارہ اور کبیر بھی سب کچھ بھلائے شادی کی تیاریوں میں جت چکے تھے۔ جہیز کے نام پر امی اور گڑیا نے جانے کب سے تیاریاں شروع کر رکھی تھیں کہ اب جیسے ہی گڑیا کے جہیز کی پیٹیاں اور ٹرنک کھلنے شروع ہوئے بھابھیوں سمیت باجیوں کی بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔سگھڑ اور سلیقہ مند گڑیا رانی نے اپنے لیے ایک سے بڑھ کر ایک چیز تیار کر رکھی تھی۔ کپڑے، جوتے سے لے کر الیکٹرانک اشیا ء تک ہر چیز اس کے اعلیٰ ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ نین تارہ نے بھی دل ہی دل میں اس کی ہر چیز کی تعریف کی تھی کہ منہ سے کہنے کی اسے ہمت ہی نہیںہو رہی تھی۔ بہت پہلے ایک بار اس سے یہ غلطی سر زد ہو چکی تھی۔ گڑیا کے عید کے جوڑوں کی اس نے کھلے دل سے تعریف کی تھی اور جواب میں پہلے تو اپنے ’’پھوہڑ پن‘‘ پر سو باتیں سننے کے ساتھ ساتھ گڑیا کے سگھڑاپے کی تفصیل ایکبار پھر سنی تھی اور پھر اگلے ہی روز جانے کیسے گڑیا کا دوپٹا جل گیا تھا۔ جس پر اسکی ساس نے اسے بد نظر اور منحوس گردانتے ہوئے اس سے باتیں اور چیزیں چھپانا شروع کر دی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی اسے گڑیا کے جہیز کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی تھی اور اب سب مہمانوں کے ساتھ وہ بھی سب کچھ دیکھتی دل ہی دل میں حیرت زدہ تھی۔
’’ارے۔ممتاز نے ایسے ہی اتنا سب کچھ جمع کر لیا۔ پہلے لڑکی کو اپنے گھر میں بس تو لینے دیتی، پھر جمع کرتی رہتی سازوسامان! ‘‘ کبیر کی ممانی نے جانے کسے یہ کہا، تو سب کو چائے پیش کرتی نین تارہ نے حیرت سے ان کی جانب دیکھا تھا۔
’’ہاں بھئی کہہ تو تم بالکل ٹھیک رہی ہو۔ جانے اس لڑکی کا گزارا اس گھر میں کیسے ہوگا۔ گز بھر لمبیتو اس کی زبان ہے اور مزاج میں حاکمیت ایسی بھری ہے کہ ماں اور بھائیوں کو بھی آگے لگائے رکھتی ہے۔ دیکھو، اب ساس اور شوہر کا کیا حال کرتی ہے۔ ‘‘خالہ نے بھی بھاوج کی ہاں میں ہاں ملائی تو نین تارہ جھرجھری لے کر رہ گئی۔
’’ ارے مامی، خالہ! آپ پریشان مت ہوں۔ہماری گڑیا ماشااللہ اتنی سگھڑ اور سلیقہ مند ہے کہ ابھی سے اس کی ساس اور نندیں اسکے گن گاتی نہیں تھکتیں۔ اور رہا ماجد، تو اس کا کیا ہے۔ گڑیا کے ہاتھ کے بنے مزے دار پکوان کھائے گا، تو پھر اسی کا ہو کر رہ جائے گا۔ دیکھ لیجیے گا آپ۔‘‘ چھوٹی باجی نے شاید ممانی اور خالہ کی باتیں سن لی تھیں، اسی لیے انہیں منہ توڑ جواب دینا ضروری سمجھا تھا۔ مامی اور خالہ بھی سب سمجھتی تھیں ، اسی لیے بس شانے اچکا کر ہنسنے لگیں اور نین تارہ ڈولتے قدموں اور ڈوبتے دل کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
’’یااللہ! سلیقہ مند تو میں بھی بہت تھی اور ذائقہ تو تو نے میرے ہاتھ میں بھی بہت دیا تھا، مگر پھر بھی نہ تو میں ساس نند کو خوش رکھ سکی اور نہ ہی میرا شوہر میرے ہاتھ کے پکے پکوان کھا کر میرا دیوانہ بن سکا۔ اللہ جی، میں آپ سے گلہ نہیں کر رہی۔ بس مامی ، خالہ اور باجی کی باتیں سن کر میرے دل میں یہ خیال خود بہ خود ہی پیدا ہو گیا ہے کہ اگر …اگر گڑیا کی یہ خوبیاں اسے سسرال میں سرخ رو کر سکتی ہیں، تو میری یہی خوبیاں ، میری خامی کیوں بن گئیں؟ ‘‘ اپنے تیزی سے بہتے آنسو پانی کے چھینٹوں میں چھپاتی اور بڑی آزردگی سے یہی سب سوچے جا رہی تھی مگر اسے جواب دینے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔
گڑیا کی شادی خوب دھوم دھام سے سرانجام پا گئی۔ وہ پورے طمطراق سے اپنے سسرال روانہ ہوگئی۔ شادی کے ہنگامے جیسے ہی سرد ہوئے، باجیوں نے بھی اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ اب گھر میں یہ تینوں نفوس ہی رہ گئے۔ امی زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتیں۔ گھر کی کلی مختار اب نین تارہ ہی تھی مگر گڑیا کی روک ٹوک اور مین میخ نکالنے کی وجہ سے اس کا اعتماد بری طرح مجروح ہو چکا تھا۔ وہ ایک عام سا کام کرنے سے پہلے بھی ہزار بار سوچتی، کبیر اور امی سے بار بار پوچھتی اور پھر بھی ڈرتی رہتی کہ کہیں بے عزتی نہ ہوجائے، مگر اب ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اب نہ تو اس کی ساس کو اس کے بنائے کھانوں میں کوئی نقص دکھائی دیتا اور نہ ہی کبیر کو اس سے کوئی شکائت ہوتی تھی۔ اس لیے اس کا اعتماد آہستہ آہستہ بحال ہوتا جا رہا تھا۔گڑیا ماجد کے ساتھ اکثر شام کو آ جاتی۔ ماجد اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ سسرال والے بھی اسے سر آنکھوں پر بٹھائے ہوئے تھے۔ وہ جب بھی آتی نک سک سے تیار، چمکتی ، مہکتی ہوئی آتی تھی۔ حسین تو پہلے ہی بہت تھی، اب تو اس پر نگاہ ہی نہیں ٹھہرتی تھی۔ نین تارہ دل ہی دل میں اس کی نظر اتار اکرتی تھی۔ گڑیا کا بھی رویہ اس کے ساتھ بدل چکا تھا۔ اب وہ اسے طنز کا نشانہ نہیں بناتی تھی۔ شاید اپنی نئی زندگی کی خوشیوں میں مگن ہو چکی تھی، اس لیے فی الحال اس نے بھاوج کو معاف کر دیا تھا اور ویسے بھی ابھی تو اس کا ہنی مون پیریڈ ہی چل رہا تھا۔نین تارہ بھی سب کچھ بھلائے اس کے لیے دعاگو رہتی تھی۔
٭…٭…٭





’’امی! میری ساس نے میری بہت بے عزتی کی ہے۔ سب کے سامنے میرا پکایا ہوا پالک گوشت اُٹھا کر میرے منہ پر دے مارا۔ انہیں میرے ہاتھ میں کوئی ذائقہ نہیں لگتا۔ انہیں میرا کوئی ہنر، کوئی گن دکھائی نہیں دیتا۔ وہ مجھے پھوہڑ اور گنوار کہتی ہیں۔میں کیا کروں امی۔ اس گھر میں تو میں اپنی مرضی سے ہانڈی میں نمک مرچ بھی نہیں ڈال سکتی۔ سب کچھ ساس اور نند سے پوچھ پوچھ کر کرنا پڑتا ہے۔‘‘ گڑیا کی شادی کو ابھی صرف چھے ماہ ہی ہوئے تھے۔ پہلے دو مہینے تو اس کی ساس نے اسے کسی کام کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا تھا۔ وہ اسی بات پر بہت اتراتی پھرتی تھی۔ پھر تین ماہ بعد اس سے میٹھا پکوایا گیا اور پھر اس کے بعد شروع ہوا اس کا صحیح معنوں میں امتحان۔ چارماہ، صرف چار ماہ میں ہی گڑیا کو آٹے دال کا بھاؤ پتا چل چکا تھا۔ اب نہ اس کی زبان درازی کام آ رہی تھی اور نہ ہی اس کا سلیقہ اور خوب صورتی کوئی جادو جگا رہے تھے۔ اب اسے اکثر نین تارہ کی یاد ستاتی رہتی تھی۔ اس کی جھکی ، بھیگی پلکیں اسے بے چین کر دیتیں اور وہ گہرے ملال میں گھر جایا کرتی، مگر اپنی منہ سے اعتراف کرنے اور بھابی سے معافی مانگنے کو وہ ابھی بھی تیار نہیں تھی۔
’’امی! میں اب اس گھر میں واپس نہیں جاؤں گی۔ اگر ماجد کو مجھ سے محبت ہے، تو وہ مجھے الگ گھر لے دے گا، ورنہ میں یہیں رہوں گی آپ کے پاس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔‘‘ گڑیا نے اپنے دل کا سارا بوجھ ماں کے سامنے رو کر اتار پھینکا تھا اور اب بہت سکون کے ساتھ اپنا اگلا لائحہ عمل انہیں بتا رہی تھی۔ اسی وقت نین تارہ کمرے میں داخل ہوئی اس کے ہاتھوں میں کھانے کا ٹرے تھا اور چہرے پر افسردگی اور ان جانا سا خوف۔ اس نے کھانے کا ٹرے ساس کے سامنے رکھا اور خاموشی سے مڑ کر واپس چلی گئی۔ اس کی ساس کی پُر سوچ نگاہوں نے اس کا دور تک تعاقب کیا تھا۔
’’اللہ! امی، یہ بھابی آپ کو ایسا کھانا کھلاتی ہے؟ میں اس گھر سے کچھ عرصے کے لیے کیا گئی کہ اس تارہ کی بچی نے پر پرزے نکال لیے؟ اب تو میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے امی کہ میں اب یہیں رہوں گی۔ دیکھیے گا آپ ، کیسے اسے اس کی اوقات یاد دلاتی ہوں ۔ دو دنوں میں دماغ درست نہ کر دیا، تو میرا نام گڑیا…‘‘
’’بس گڑیا! بہت ہو گیا۔خبردار جو تم نے میری بہو کو کچھ کہنے کی جرأت بھی کی تو۔یہ اس کا گھر ہے۔ وہ جیسا چاہے گی، اب یہاں ویسا ہی ہوگا۔ سمجھی تم۔‘‘ امی نے گرج دار آواز سے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، تو گڑیا کے ساتھ ساتھ نین تارہ بھی اچھل پڑی جس کے قدم دہلیز کے پار گڑیا کی آواز نے ہی زنجیر کر ڈالے تھے۔
’’امی! یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ اب آپ کو بیٹی سے زیادہ بہو پیاری ہوگئی۔ میں اب آپ کے لیے کچھ بھی نہیں رہی جو آپ بھابی کی سائڈ لے رہی ہیں۔ ‘‘ گڑیا کی حیرت اور صدمے سے چور آواز سنائی د،ی تو نین تارہ نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔
’’ہاں۔ کیوں کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ میں جان چکی ہوں کہ میری بہوؤیں ہی اصل میں میری بیٹیاں ہیں۔ خاص طور پر نین تارہ جس نے مجھے ،اس گھر کو اس طرح سنبھالا ہے کہ جیسے سنبھالنے کا حق ہوتا ہے۔ ‘‘ امی نے بڑے مضبوط انداز سے کہا، تو گڑیا کی حیرتوں میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔
’’ امی،آپ…‘‘
’’ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں گڑیا۔ تم مجھے بتاؤ، تمہاری ساس اور نندوں نے صرف چار ماہ تمہیں پریشان کیا۔ تمہارے سگھڑاپے اور سلیقے کو نشانہ بنایا اور تم بلبلاتی ہوئی انہیں ہمیشہ کے لیے لات مار کر یہاں چلی آئیں اور خود تم نے اپنی بھابی کے ساتھ کیا کیا تھا؟ کچھ یاد ہے تمہیں؟ نین تارہ تو پچھلے تین سالوں سے تمہاری جلی کٹی سن رہی ہے۔ میری زیادتیاں برداشت کر رہی ہے، مگر آفرین ہے اس بچی پر ایک بار بھی پلٹ کر ہمیں جواب نہیں دیا کبھی۔ میں تو ساس ہوں، ماں کی جگہ۔ میری باتیں سہنا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر اس بچی نے تو تمہیں بھی کبھی برا بھلا نہیں کہا اور تم اب بھی اسے اس کی اوقات دکھانے چلی ہو؟ پہلے اپنے گریبان میں تو منہ ڈال کر دیکھ لو گڑیا کہ تمہاری اوقات کیا ہے؟ اگر نین تارہ اپنے سسرالیوں کی نگاہوں میں ’’پھوہڑ‘‘ اور’’ غیر ذمہ دار‘‘ ہے، تو تم کون سا اپنی سسرال سے کوئی اعزازی شیلڈ لے کر آئی ہو۔ یہی پھوہڑ پن کا تمغہ تمہاری پیشانی پر بھی سجا ہے اور یہی بدسلیقگی کا میڈل تمہیں بھی پہنا کر تمہاری ساس نند نے تمہیں روانہ کیا ہے، تو پھر تمہاری اوقات نین تارہ کی اوقات سے بڑھ کر کیسے ہو سکتی ہے۔ بتاؤ مجھے گڑیا۔اب بولتی کیوں نہیں؟ ‘‘ امی نے اپنی برسوں کی چپ توڑ دی تھی۔ گڑیا کو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے امی نے اس کے سامنے ایسا آئینہ رکھ دیا تھا جس میں اسے اپنی ’’چٹی چمڑی‘‘ کے بہ جائے صرف کالا من دکھائی دے رہا تھا۔ وہ خود سے نگاہیں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی اس لیے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بری طرح سسک اٹھی تھی۔ امی بھی رو رہی تھیں اور آنسو نین تارہ کا چہرہ بھی بھگو رہے تھے۔
’’ مجھے معاف کردو بھابی۔ میں نے واقعی تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ اسی لیے اللہ نے مجھے بھی انہیں حالات سے دوچار کر دیا، جن میں ہر وقت میں تمہیں الجھائے رکھتی تھی۔‘‘
’’نہیں گڑیا، اس طرح مت کہو۔ اس میں نہ تو تمہارا کوئی قصور ہے اور نہ ہی تمہاری ساس اور نندوں کا۔ یہ ہمارے معاشرے کی ریت بن چکی ہے گڑیا۔ وہی بیٹی ، جو اپنے والدین کے گھر میں سب کچھ بہت آسانی سے سنبھال لیتی ہے۔ خاندان اور گھر بھر کی لاڈلی اور سگھڑ بیٹی کہلاتی ہے، جانے سسرال کی دہلیز پھلانگتے ہی کیوں پھوہڑ اور بد سلیقہ بن جاتی ہے۔کاش کہ ہمارے معاشرے میں اس چلن کو بدلنے والا کوئی تو پیدا ہو جائے۔ کوئی تو اس رواج کو بدلنے کی کوشش کرے۔کوئی تو بہوؤں کو بھی بیٹیوں جیسا مان اور اعتماد دینے کی جرأت کرے۔ یقین کرو گڑیا، اگر چند ایسے سسرال بھی ہم بہوؤں کی قسمت میں لکھ دیے جائیں نا، تو پھر کبھی بھی کوئی ماں باپ بھی بیٹی کی پیدائیش پر روئیں نہیں۔ بیٹیوں کے نصیبوں کو لے کر خدشات کا شکار نہ ہوں ، کیوں کہ کہتے تو سب یہی ہیں کہ بیٹی تو بیٹے سے بھی زیادہ پیاری لگتی ہے۔ بس اس کے نصیبوں سے ڈر لگتا ہے اور یہ نصیب ہی ہوتے ہیں گڑیا، جو بیٹی سے بہو تک کے سفر میں کام آتے ہیں ورنہ بیٹی کو بھی کسی کی بہو ہی بننا ہوتا ہے اور کسی کی بیٹی کو بھی ہم بہو ہی بنا کر گھر لاتے ہیں۔ فرق صرف نظریات کا ہے۔اگر کوئی سمجھے تو۔ ‘‘ گڑیا نے نین تارہ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، تو اس نے کھلے دل سے اسے معاف کرتے ہوئے گلے لگا لیا تھا۔ نین تارہ کی سیدھی سچی باتیں گڑیا کے ساتھ ساتھ امی کے دل و دماغ میں بھی اترتی چلی گئیں تھیں۔ وہ دل سے قائل ہو چکی تھیں کہ واقعی، فرق صرف نظریات کا ہی تھا، باقی سب تو کہنے کی باتیں ہی ہیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہم رکاب — عرشیہ ہاشمی

Read Next

رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!