پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

جواں عمری کی ناکامیوں اور مایوسیوں نے نہ صرف پائلو کو منشیات کی طرف راغب کیا بلکہ چرچ اور عیسایت سے متنفر کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی ۔اگر کوئی رب ہوتا تو اس کے جنوں کو سراہتا اس کی کوششوں کو نوازتا! رب کے وجود سے انکار نے شیطانی علوم اور ایجنسیوں کی طرف راغب کیا جن میں ایک عالمی تنظیم OTO کے ساتھ اپنی روح شیطان کو کامیابی کے بدلے میں بیچنے کا باقاعدہ معاہدہ کیا۔یہی مصنف بننے کی ایک آخری اُمید تھی جو اس کو دکھائی دی تھی، اپنے خوابوں کے شجر کو سینچنے کے لیے اس نے اپنی روح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شیطانی قوتوں اور جہنم کی آگ کے نام کر دی۔مگر بدی کے سنگ چلنے کی یہ جرا ¿ت زیادہ دن نہ چل سکی اور جب ایک صبح اس کے کمرے میں جنازہ گاہ کی ہزاروں موم بتیوں کی خوشبو اور دھواں پھیلنے لگا، کمرے کا فرش اچھل کر اس کی طرف لپکنے لگا اور کمرے کی دیواریں لرزنے لگیں ، ہر طرف ٹوٹ پھوٹ کا شور اور کہرام بپا ہوا تو یہ سب پائلو کے لیے قیامت کی رونمائی ثابت ہوا۔ طویل دن اس طوفانی اور شیطانی آمد کی ہولناک میزبانی کے بعد پائلو کو آخر بائبل میں پناہ ملی اور باتھ روم میں پانی کے فوارے کے نیچے بیٹھ کر پائلو اور اس کی گرل فرینڈ گیسا (Gisa) بائبل کی لائنیں تب تک ورد کرتے رہے جب تک یہ شیطانی رقص تھم نہ گیا۔ایک لمحہ تھا، دن تھا، سال یا صدیاں!اس تمیز کی ساری صلاحیت کھو گئی۔ جب سب طوفان تھم جانے کے بعد وہ شاور سے نکلے تو ان کی انگلیوں کی پوریں تک نیلی ہو چکی تھیں۔ کمرہ صحیح سلامت اپنی جگہ موجود تھا۔یہ جہنم صرف ان کے وجود پر کھلا تھا۔پائلو اور گیسا نے وہ شیطانی معاہدہ پھاڑا اور اپنے اپارٹمنٹ سے بھاگ کر پیڈرو اور لیگیا کے پاس پناہ لی۔مگر اس کے چند دن بعد ایک اور عذاب ان کا منتظر تھا جس کی کڑیاں پائلو کے خیال میں اس واقعہ سے جڑی تھیں۔
دوسرا واقعہ برازیل میں فوجی حکومت کے ہاتھوں پائلو کے گانوں میں کچھ باغی مواد استعمال کرنے کے شبہ میں اس کی گرفتاری تھی۔ جس کا خوف اور وحشت پہلے واقعہ سے کئی گنا زیادہ تھا۔جیل میں گزارے چند دن اور وہاں سے رہائی کے وقت کانپتی ٹانگوں اور ہاتھوں کے ساتھ اغوا ہوتے ہوئے، لاپتہ افراد میں شمولیت کے وقت وہ جانتا نہ تھا کہ اس کے آگے اندھیری کوٹھریوں میں عمر قید ہو گی یا سیدھا پھانسی کے گھاٹ پر لے جایا جائے گا۔پائلو اور گیساکی یہ قید چند دن میں ختم تو ہو گئی مگر پائلو کے لیے بہت بُرا اور زوردارجھٹکا ثابت ہوئی جس کے نفسیاتی اثرات اس پر بہت عرصے تک رہے۔ یہی آزمائش اس کے گیسا سے تعلق ختم ہونے کا باعث بنی۔گیسا کے زندگی سے نکل جانے کے بعدخوف وہراس کا شکار پائلو اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلا نہ رہ سکا بلکہ والدین کے گھر بھی کئی دن تک دستک سے ڈر کر کمروں میں چھپتا رہا۔ اس قدر خوف و ہراس کے باوجود، آفرین ہے پائلو کے حوصلے پر کہ پاگل خانے اور منشیات کے تجربات رقم کرنے والے میں اگرچہ اتنا دم خم نہ بچا تھا کہ اس کی روداد ہی لکھ سکتا مگر ٹوٹ کر بھی اس کا حوصلہ چٹان کا ہی تھا۔
”یہ زندگی کے بدترین واقعات میں سے
ایک تھا۔ایک بار پھر ناانصافی سے قید۔۔۔لیکن جلد میرا
یقین میرے خوف پر حاوی ہو جاے گا اور میری محبت
میری نفرت سے جیت جاے گی۔“
فوجی چنگل سے نکلتے ہی پال اور رال نے خودساختہ ملک بدری اختیارکی جو زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اس عرصے میں پائلو نے اپنے شیطانی معاہدے توڑ کر عیسائیت کی طرف دوبارہ رجوع کیا۔
برازیل واپسی کے ساتھ ہی اس کے سارے خوف اور اندیشے دوبارہ سے جاگنے لگے۔ اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلا رہنا اس کے لیے عذاب ہو کر رہ گیا۔ خوفناک تنہایوں سے ڈر کر اس نے فوراً شادی کا فیصلہ کیا۔پائلو کے کمزور دل کو ایک فوری سہارے اور جذباتی مدد کی ضرورت تھی۔مگر اس کی رنگین مزاج طبیعت اس کی ایک منگنی کی ناکامی کا باعث بنی۔ گیسا سے پورے رسم و رواج اور اہتمام کے ساتھ آخر اس کی شادی ہو گئی۔اسی عرصے میں رال اورپال کے علاوہ دوسرے گلوکاروں کے لیے لکھے اس کے گا نے مقبول عام ہوئے اور کئی چھوٹے بڑے پراجیکٹس پر کام کے ساتھ ایک مقبول ریکارڈنگ کمپنی میں افسرانہ عہدہ بھی حاصل کیا جس سے اس کی دولت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔پیسے اور پراپرٹی کی اس ریل پیل کے درمیان کچھ تھا جو ادھورا تھا! ایک خواب جو ابھی تک سفر میں تھا ایک شہرئہ آفاق لکھار ی بننے کااور اب پائلو یہ بات سمجھنے لگا تھا کہ صرف تین ہزار کاپیاں چھاپنے والے ملک برازیل میں لکھ کر اور چھپ کر کبھی بھی وہ شہرت اور مقبولیت نہیں پا سکتا جو اس کا خواب تھی۔
”یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے اگر مجھے لکھاری بننا ہے تو مجھے یہاں سے نکلنا ہی ہو گا۔“
جلدہی پائلو اور گیسا لندن منتقل ہو گئے۔ روپے پیسے کی بہتات نے لندن جانا اور رہناآسان کر دیا تھا۔ لندن میں گزرے پہلے سال نے پائلو کے لکھنے لکھانے کے باب میں صرف مایوسیوں اور ناکامیوں کا اضافہ کیا۔ کچھ چھوٹی چھوٹی کوششیں ناکام ٹھہریں اور بڑا کام کرنے کے لیے وہ خود کو راضی نہ کر سکا۔بچپن سے دیکھے ایک خواب کا ساتھ لیے وہ لندن میں بیٹھا تھا مگر سال گزر جانے کے بعد بھی کچھ ایسا نہ لکھ سکا تھا نہ شائع کروانے میں کامیاب ہو سکا جو اس کے لیے ایک مصنف کے طور پر بلندیوں کے در وا کر دے۔
سال بھرلندن کی خاک چھاننے کے بعد پائلو اورگیسا برازیل واپس آ گئے اور اسی ناکام جگہ پر سمجھوتوں سے بندھی ان کی شادی بھی آخرکار ناکامی سے دوچار ہوئی۔ برازیل واپسی کے بعد پائلو پھر سے اپنے ادھورے سپنے کے لیے افسردگی اور مایوسی کے عذاب سے دوچار ہوا اور دولت اور شہرت بھی اس کے اس خواب کا نعم البدل ثابت نہ ہو پائی۔ایسے وقت میں ایک راستہ اس کے سامنے کھلا تھا اور وہ تھا جنس اور محبت کی سستے انداز کی تحریر جس کی مقبولیت کے امکان خاصے روشن تھے۔ لیکن وہ ایسا کیوں کرتا؟ کیا صرف شہرت اور پیسے کے لیے جو اس کے پاس نغمہ نگاری کی وجہ سے خاصا موجود تھا۔تو پھر اس طرح کا ادب اس کے کسی کام کا نہ تھا۔

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!