پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

1973 ءکے آخر میں اس کی زندگی میں ایک اور بڑی اہم اور نمایا ں تبدیلی رونما ہوئیجب اس کی پہلی کتاب منظر عام پر آئی۔نغمہ نگاری سے ملنے والی بے تحاشا دولت اور اس کی پہلی کتاب کی ناکامی جس کی تین ہزار میں سے صرف پانچ سو کاپیاں بک سکیں، بھی اس کے برسوں سے پلکوں پہ رکے خواب کو جدا نہ کر سکی۔اس کی ڈائری میں اوپر نیچے لکھے چھوٹے بڑے فقرے اس کے نہ ٹوٹنے والے خواب کی گواہی دیتے تھے کہ ایک دن اسے کچھ ایسا لکھنا ہے جو اسے ”شہرئہ آفاق“ بنا دے۔
”میں ایک ایسا جنگجو ہوں
جو میداں میں اپنے داخلے کا منتظر ہے اور میرا
مقدر کامیابی ہے اور میری بہترین صلاحیت میرا
اس کے لیے لڑنا ہے۔“
یہ وہ زمانہ تھا جب ہپی کلچر کے لمبے بالوں، ملگجے کپڑوں، راک اور منشیات جیسی عفریتوں نے عالمی پیمانے پر ماحول کو کافی حد تک جکڑ لیا تھا تو پائلو کیسے اس ماڈرن تحریک سے پیچھے رہتا۔ہپی کلچر میں لت پت، منشیات کے نشے میں ڈوب کر بھی مشہور مصنف بننے کی ضدی خواہش نے پائلو کو زندگی سے جوڑے رکھا تھا۔وہ اکثر خواب دیکھتا کہ خود کو انکل جوز(jose)کے اپارٹمنٹ کے کسی تنہا خاموش کمرے میں بند کرلے اور خود کو
 ”لکھنے کے لیے،بہت سارا
لکھنے کے لیے اور ہر شے لکھنے کے لیے!“
 وقف کر دے۔مگر اس کی مضطرب طبیعت اس کی لکھنے کی خواہش ٹال کر دوستوں کے ساتھ سیاحت پر لے گئی۔
سیاحت سے فراغت کے بعد اس نے کچھ عرصہ تک مختلف چھوٹے چھوٹے اور گھٹیا قسم کے اخباروں کے لیے بھی کام کیا ۔انہی دنوں پراسرار علوم اور جادو میں اس کی دلچسپی بڑھی۔ معاشی حالات اور مصنف بننے کی خواہش تو اس دور میں ہزار طرح کے اخبار رسالوں کی چھوٹی چھوٹی نوکریاں، شیطانی کمالات اور پراسرار علوم پر ڈھیروں اپنے اور جعلی ناموں سے لکھنے کے باوجود پوری نہ ہو سکی۔ مگر اس دور میں انہی پراسرار علوم کی وجہ سے پائلو کو Raul کی صورت میں ایک ایسا ہم راہی ضرور ملا جس کا ساتھ اس کی زندگی کو پوری طرح بدلنے پر قادر تھا۔رال ،ایک میوزیشن، سنگر بننے کی خواہش کے ساتھ اپنی ملازمت چھوڑ کر نکلتا ہے اور پائلو کو ساتھ چلنے کی دعوت دیتا ہے۔ پائلو کے لکھے گیت کے بولوں کے ساتھ جلد ہی ان کے گیت برازیل کی گلیوں میں مقبول عام ہونے لگتے ہیں اور اس کے بعد پائلو کے معاشی حالات یکسر بدل گئے، قسمت کی دیوی ان کے بینک اکاونٹ کو نوٹوں سے لبالب بھر دیتی ہے۔
”چھبیس سال کی عمر میں، میں،
پائلو کوئلو،اپنے جرائم کی قیمت ادا کرنا بند کرتا ہوں۔
صرف چھبیس سال کی عمر میں میں اس بات سے مکمل
آگاہ ہو چکا ہوں۔ اب مجھے میرا انعام دو!
مجھے اپنا ادھار چاہیے
اور میرا ادھار وہی ہو گا جو میں چاہتا ہوں
اور مجھے دولت چاہیے
مجھے طاقت چاہیے
مجھے شہرت، ابدیت اور محبت چاہیے۔ “

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!