پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

پائلو سوچ رہا تھا کہ اس کی کامیابی کی خبر سنتے ہی والدین اچھل پڑیں گے اس کے بوسے لیں گے اور فخر کریں گے مگرگھر پہنچتے ہی دروازے پر باپ کو کھڑے گھڑی دیکھتے پایا۔ پائلو کے دیر سے گھر آنے پر باپ کے غصہ اور لہجے کی سختی کو نہ اس کی ٹرافی کم کر سکی نہ انعام کی رقم۔
”مجھے اچھا لگتا اگر تم یہ ٹرافی اپنی سکول کی پڑھائی میں لیتے اور وقت پر گھر آتے۔“
وہ ٹوٹے دل کے ساتھ ماں کی سمت بڑھتا ہے کہ شاید اس کی کامیابی ماں کے چہرے پر رونق اور آنکھوں میں چمک لا سکے۔ مگر وہاں بھی روایتی ماں کا عکس ایک غیر روایتی جنون کو کچلنے کے لیے موجود تھا۔
”برازیل میں لاکھوں لوگ ہیں جن میں ہزاروںلکھاری ہیں لیکن اپنے اس فن سے کمانے والا صرف جارج آماڈو ہے ۔۔۔۔صرف ایک!
یہ یقیناپائلو کوئلو کی زندگی میں آنے والی پہلی روتی سلگتی کالی رات تھی جو اس نے گزاری۔ اس کی جیت جسے تھامتے اس کی ٹانگیں کئی بار کانپیں اور دل کی دھڑکنوں میں طوفان بپا رہا وہ اس کے والدین کے چہروں پرایک مسکراہٹ تک نہ لا سکی۔ تاریک رات کے سناٹوں میں وہ اپنے بستر پر بہتے آنسوﺅں، ٹوٹے ارمانوں اور زخمی جذبات کو سنبھالتا رہا۔ اگلی صبح وہ اس عزم کے ساتھ جاگا کہ اگر اسے لڑنا ہی ہے تو وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے لڑے گا۔ چاہے اس کے مدِمقابل اس کے اپنے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
پائلو کا دل مکتب کی کتابوں اور اسباق میں نہ لگتا۔ ایک روایتی اطاعت گزار بیٹے اور رائج طریقوں کے مطابق چلنے والے نوجوان کا کردار نبھانا اس کے لیے انتہائی کٹھن تھا۔
”اگر سب لوگ زمانے کے طریقوں کو اسی طرح اپنا لیں گے تومعاشرے میں تبدیلی کہاں سے آئے گی؟“ ایک انٹرویو میںپائلو نے پورے تیقن سے کہا ۔
دوسری جانب والدین کے لیے اس کے لکھاری بننے کا خواب ناقابل قبول تھا۔ انہیں پائلو کو ایک ذہین انسان بنانا ، دو جمع دو چار کر کے پیسہ کمانے والا مرد اور روزگار کی درجہ بندیوں میں انجینئر کی صفوں میں دیکھنا تھا۔دنیا کے بانٹے ہوے درجوں میں صف اول پہ لانے کی ان کی اس کوشش نے پائلو کی روح پر خوب کچوکے لگائے۔
”کیا تمہیں پتا بھی ہے کہ لکھاری ہونے کا کیا مطلب ہے؟“
یقینا برازیل میں اس کا مطلب بھوک، افلاس ،غربت اور ناکامی ہی تھا اور پائلو نے اپنی اس لگن میں ان سب کا جی بھر کے مزا لوٹا۔ برسوں تک لکھاری بننے کی دھن اس کے لیے کوئی روزگار پیدا نہ کر سکی ، والدین پر منحصر ہونا اس کے لیے پاگل خانے کامہمان بننے کا باعث بنتا رہا اور یہاں سے فرار کی کوشش اس کے لیے فاقے اور بیماری کا پیغام لاتی رہی۔ یہ عین ممکن تھا کہ پائلو والدین کے مشوروں پر چل کر کوئی فنی تعلیم حاصل کرنے اور باروزگار بننے کی کوشش کرتا مگر اس کوشش میں اس کا دل و دماغ اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے۔چناںچہ برسوں تک ایک اصیل لکھاری کی طرح غربت افلاس اور مسکینی اس کا لباس بنا رہا پھر بھی عجیب ہٹ دھرم اور ڈھیٹ دل تھا پائلو کا کہ کاغذ قلم اور لفظوں کے علاوہ کہیں لگتا ہی نہ تھا۔ مگر کتابوں میں گم رہنے والے پائلو کے لیے نصابی کتابیں ایک سزا تھیں کہ جن پر اس کا دل ٹھہر ہی نہ پاتا۔
”مجھے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پڑھائی سے بھٹکا دیتی تھی چاہے وہ خود کتنی ہی بے کار کیوں نہ ہو۔“
باپ پیڈرو(Pedro) اور ماں لیگیا(Lygia) اسے کتابوں، سکول اور پڑھائی کی طرف راغب کرتے تاکہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے اور پائلو کا دل اسے کھینچ کھینچ کر کاغذ قلم تک لاتا۔سزا میں گھر میں محدود ہونا ،جیب خرچ کی بندش وغیرہ اس کے لیے عام سزائیں تھیں جو اکثر وبیش تر اس کے ڈوبتے ابھرتے گریڈز کی وجہ سے اس کا مقدر بنی رہتیں۔
شہرت اور عزت جب گھر کی باندی ہو گئی تو یہ کہنا اس کے لیے خاصا آسان تھا کہ
”یہ سب انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کے لیے نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔اصل میں وہ میرا بھلا ہیچاہتے تھے۔“

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!