پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

لیکن ان سزاﺅں اور سختیوں کو خود پر جھیلتے پائلوہزارہا طرح کی اذیتوں سے گزرا۔ اس کے اندرکتاب لکھنے اور لکھاری بننے کی آرزو تڑپ رہی تھی۔اس کے خواب لفظوں کی صورت صفحات پر اترتے رہے اورکاپیاں پُر ہوتی رہیں۔ وہ اپنے دل کی لے پر سر دھننے کے لیے بے چین تھااور راستہ تھا کہ کوئی کھلتا نہ تھا اور اگر کھل جاتا تو پیڈرو اور لیگیا اسے بند کرنے میں پوری طرح مستعد تھے۔ اس کی لگامیں پکڑنے اور اس کا قبلہ درست کرنے کی کوشش کرنے والے اس کے لیے کس قدر تکلیف کا باعث ہوں گے اس کا اندازہ ایسے سب راستوں اور پتھروں سے گزرنے والا بآسانی کر سکتا ہے۔ اپنی بصیرت پر یقین رکھنے والا پیڈرو بیٹے کو ایک کامیاب اور نارمل فرد بنانے کی جدوجہد میں دراصل اس کے فطری میلان کو بدلنے اور اپنی مرضی کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا رہا اور پائلو کا حوصلہ ہر قدم، ہر مشکل اور ہر بندش پر اس کی پیٹھ تھپکتا اور اسے حوصلے دیتا رہا ۔سب کچھ ہار کر وہ جو چیز بچا لیتا تھا وہ اس کا عزم اور خواب کی تکمیل کا جنون تھا۔
”زندگی میں صرف ایک چیز ہے جو آپ کو ہرا سکتی ہے ۔۔۔۔۔اور وہ ہے ہار کا خوف!“
اور یہ خوف پائلو کی کسی جیب میں نہ تھا۔ سترہویں سال میں سکول سے جان چھڑاتے پائلو کو ایک مقامی اخبار میں رپورٹر کی عارضی ملازمت مل گئی۔ لکھنے لکھانے کے شوقین کے لیے یہ ایک پرلطف ملازمت تھی اور جرنلسٹ کہلانے کے شوق میں پائلو سکول بھلا کر دل و جان سے اپنی نوکری میں مگن ہو گیا۔ عارضی نوکری سے جہاں پائلو خود بے تحاشا مطمئن اور خوش تھا وہیں پڑھائی کی دن بدن بگڑتی حالت اور دیگر کچھ چھوٹی بڑی کوتاہیوں پر والدین کے لیے سردرد بن کر رہ گیاتھا ۔ چناں چہ ایک دن جب پائلو کی عارضی نوکری باقاعدہ صحافت میں بدلنے والی اور اس کی تنخواہ اور جرنلسٹ کارڈ کا اجرا ہونے والا تھا۔ پیڈرو کوئلو اور لیگیا اسے بہلا پھسلا کر نفسیاتی ہسپتال میں لے پہنچے جس کی نویں منزل پر قید تنہائی کے ساتھ ایک کمرہ اس کے تندرست ہونے تک اس کے لیے وقف ہو چکا تھا۔ ماں اور باپ اس کی اخبار میں ملنے والی کامیابی سے مکمل لاتعلق ، بے خبر اور اس کی پڑھائی میں ناکامی اور دن بدن بگڑتے ہوئے رویے اور مصنف بننے کے شوق سے شدید پریشانی کا شکار تھے اور ایک بے نیاز لاعلمی سے پائلو کے خوابوں کی تکمیل کی راہ میں حائل ہو گئے۔ باپ کے خیال میں ایک روایتی خاندان میں اس کے غیر روایتی روئیے کسی بیماری کی دلیل تھے۔۔ اور لیگیا ،اس کی ماں کو شک تھا کہ بیٹے کو کچھ جنسی امراض لاحق ہیں۔۔۔شاید!  
” میں نے وہاں بیس دن گزار دیئے۔
میری کلاسز چھوٹیں، ملازمت گئی اور مجھے ایسے رہا کیا گیا، جیسے میں صحت مند ہو گیا ہوں۔“
حالات سے لڑنے ، اور خود کو حوصلہ دئیے رکھنے کے لیے پائلو کے پاس ”ایک خاص راستہ“ تھا جو اس کے اندھیروں میں روشنی کر دیتا، اس کی اندھیری مضطرب راتوں کو پرسکون کر دیتا ۔وہ خاص راستہ اس کا قلم اور ڈائری کے اوراق پر مشتمل تھا۔ ڈائری کے اوراق پر اپنے دل کو کھول کر بیاں کر دینا پائلو کی عادتِ ثانیہ تھی۔۔اس کی ذات کی تلخیوں کی واحد رازدار، اس کے وجود کی تہوں میں پنپتے جذبوں کو راستہ دینے والی دوست اور تکلیف دہ لمحوں کی سختی کم کرنے والی واحد غم گسار!یہی وہ سہولت تھی جس سے وہ سورج کی تپش کو سہنا اور زہریلے روئیے جھیلنا سیکھ گیا تھا۔نفسیاتی ہسپتال میں نفسیاتی ڈاکٹر کی رائے کے مطابق:
”پائلو زیادہ تکلیف اس وجہ سے برداشت کرگیا کیوںکہ اس کے پاس الفاظ تھے۔“
پائلو کے پاس لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے نہ تو خوب صورت چہرہ تھا نہ باکسر جیسا جسم اور نہ ہی کسی ہیرو جیسی پھرتی! اس کی کتابیں اور مطالعہ اس کا اثاثہ تھے، جو اسے ایک خاص مقام دلائے رکھتے۔ سترہ سال کی عمر میں پائلو نے اپنی نظموں کا مجموعہ ایک لوکل اخبار کے ایڈیٹر کو اس کی رائے کے لیے بھیجا۔ اُس ایڈیٹر کی طرف سے اخبار میں چھپنے والا تذلیل کی حد تک حوصلہ شکن جواب ایک بار پھر پائلو کو آسمان سے گرانے کے لیے کافی تھا۔مگر پائلو کے چٹان حوصلے بھی کمال تھے۔
”اگر تم اپنے دوستوں اور دشمنوں سے ایک اور موقع کی درخواست کر سکو
اگر تم انہیں،سنو اور سمجھو کہ ’شاید ‘
اگر تم میں ہمت ہے کہ ابتدا سے شروع کرو اور اپنے تھوڑے کو زیادہ سمجھو
اور خود کو ہر لمحہ نکھارو اور مغرور ہوئے بغیر بلندیوں تک پہنچو
تو تم ایک لکھاری بنو گے۔“
پائلو نے اپنی ڈائری کے اوراق پر خود کو تسلی دی۔

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!