پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

ہسپتال سے رہائی کے بعد صحافی بننے کے مواقع ختم ہو چکے تھے اور جو وقتی کام ملا وہ اس کی ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کی نظر ہو گیا اور پائلو خالی ہاتھ سڑک پر آ گیا۔ایسے وقت میں اسے ایک مقامی تھیٹر میں بچوں کے کلاسک ڈرامے پناکیو(pinocchio) کے لئےایک انتہائی معمولی کردار کی آفر ہوئی، جس کا کام صرف وقفہ کے دوران بچوں کو متوجہ رکھنا تھا۔ نظریہ ¿ ضرورت کے پیشِ نظر ہنسی خوشی اس آفرکو قبول کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ پائلو نے اس ڈرامے میں ”آلو“کے روپ میں ایک جوکر کی حیثیت سے اپنے تھیٹر کے سفر کا آغاز کیا اور اپنی دلچسپی اور لگن سے کچھ ہی دنوں میں خود کو اس ڈرامہ کا لازمی حصہ بنا لیا اور پوسٹرز پرفنکاروں کے ساتھ اس کا نام بھی لکھا جانے لگا ۔۔ پائلو بڑے بڑے خواب ضرور دیکھتا پر اس کی تکمیل کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے سے جھجکتا اور نہ ہی تھکتا۔آغاز چاہے کتنا ہی حقیر اور گھٹیا ہو۔ اگر منزل تک لے جانے والا دکھائی دیتا تو پائلو اسے اسی شوق اور لگن سے سرانجام دینے کی کوشش کرتا کہ قدم خودبہ خود اگلی منزل کی جانب اٹھنے لگے۔
اس ڈرامے نے پائلو کے تھیٹر کی جانب سفر میں اس کی کامیابی کے در وا کئے۔ اس کے بعد پائلو کومختلف ڈراموں میں مواقع حاصل ہونے لگے۔ اگر معاشی پسماندگی کو نظر انداز کیا جائے تو اگلے کچھ عرصے میں وہ بھرپور تالیوں کی گونج میں، لڑکیوں میں مقبولیت ، رات بھرکی ریہرسلز اور اخباروں اور رسالوں میں شہرت کے ساتھ اپنے خوابوں کی زندگی جیتا دکھائی دیتا ہے۔ اس دوران اس کا لکھا پہلا ڈرامہ سٹیج ہوتا ہے جو اگرچہ بری طرح ناکام ہوا مگر اس کے لیے یہ بات قابلِ فخر تھی کہ ”کم از کم میں نے کوشش توکی۔“ سٹیج پر ملنے والی اس کامیابی کے ساتھ سکول کی نا کامی اس کے لئے شرمندگی کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں پائلو کوشہر کا دوسرا بہترین سکول اینڈریو کالج چھوڑ کر ایک نچلے درجہ کے کالج میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ شہر کا سب سے اچھا سکول بھی وہ بہت پہلے انہی وجوہات کی بنا پر چھوڑنے کے لئے مجبور ہو چکا تھا۔ والدین کے ٹوٹے ہوئے ارمان کافی حد تک اپنی موت مر چکے تھے۔ پیڈرو کی توجہ اب صرف اس بات پر تھی کہ وہ اُس کے لئے کسی مناسب روزگار کا بندوبست کر کے اُسے اپنے پیروں پر کھڑا کر سکے۔ چناںچہ پائلو گھر میں اپنا حصہ ڈالنے کی خاطر پیڈرو کی شرط اور سفارش پر کچھ چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک فیکٹری میں نچلے درجے کے مددگار تک کی نوکری وہ پورے حوصلے سے نبھاتا ہے تا کہ ایک کچھ آمدن حاصل کر کے اپنا خرچہ اٹھا سکے جب کہ دن بھر کی اس مزدوری کے بعد رات دیر تک اپنے شوق کی تسکین کے خاطر تھیٹرکی ریہرسل میں حصہ لیتا ہے۔
” یہ ایک دھیمی انداز کی خودکشی تھی۔میں یہ کر ہی نہ پا رہا تھا کہ ہر صبح چھے بجے اٹھوں، سات تیس پرجھاڑو لگانے سے کام شروع کروں اور سارا دن کھانے کا وقفہ کئے بغیر سامان اِدھر سے اُدھر لے جاتارہوں اور پھر آدھی رات تک مجھے ریہرسلز کے لیے جانا پڑے۔“
اس حقیر سی نوکری کی بدولت ہی اسے گھر میں رات گیارہ بجے کے بعد داخلے کی اجازت ملتی ہے۔ اب وہ پوری توجہ سے تھیٹر کی صورت اپنی من چاہی زندگی اور کام میں غرق ہو جاتا ہے۔دوسری طرف سخت طبیعت پیڈرو زیادہ عرصے تک پائلو کی رات دیر تک ریہرسلز برداشت نہ کر سکا اور ایک بار پھر رات گیارہ بجے تک واپسی کا سخت قانون نافذ ہو گیا ۔ ایک رات گھر پہنچنے پر اس کو ہمیشہ کی طرح گھر کا دروازہ بند ملتا ہے تو طیش میں آکر لوگوں اور باپ کے غصے کی پرواہ کیے بغیر وہ گھر کی کھڑکیاں اور دروازے توڑنے پر تل جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آس پڑوس کے لوگ جھانکیں کہ باہرکیا تماشا برپا ہے پائلو کے گھر کا دروازہ اس پر کھل جاتا ہے اور وہ بغیر کسی بحث کے سیدھا اپنے کمرے میں جا کر دھت سو جاتا ہے۔ اگلی صبح اس کی آنکھ دوبارہ اسی نفسیاتی ہسپتال کے عملے کے درمیان کھلتی ہے جو اسے ہسپتال تک پہنچانےآئے تھے۔ وہ نفسیاتی ہسپتال جو اس کی زندگی کو آسیب بن کر چمٹ گیا تھا۔
”کچھ ہمسایوں نے فاصلے سے ایک کمزور سا لمبے بالوں والا نوجوان سر جھکائے کار میں بیٹھتے دیکھا۔ جی ہاں! اپنا سر جھکائے! وہ ہار چکا تھا۔“
نفسیاتی ہسپتال میں گزارے اعصاب شکن دن پائلو نے سینے پرکھائی جانے والی گولی کی طرح سہے۔اک ذی شعور فردکے اپنے خوابوں اور مستقبل کی جستجو میں مصروف دن جب ایک دم سے نفسیاتی مریضوں کے بیچ نویں منزل پر سلاخوں کے پیچھے بند ہوجائیںاور وہ مہینوں سورج کی صورت دیکھنے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کو ترس جاے ،دوست احباب کو ایک گم گشتہ خواب کی طرح پکارنے اور بجلی کے جھٹکوں اور غنودگیوں کے بیچ گم شدہ ہو جاے تو ایک کم حوصلہ شخص کی ہمت ٹوٹتے اور اُمید چھوٹتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ مگر ایک عام سا بدقسمت نوجوان جس کی زندگی ناکامیوں سے اٹی پڑی ہے اور جو اپنے ماحول اور لوگوں کے لیے ایک بے کار بدصورت حقیقت سے بڑھ کر کچھ نہیں، پہاڑ سا حوصلہ دکھاتا ہے۔

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!