پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

 ”آپ ان تجربات کو دیکھ کر
کہہ سکتے ہیں پائلو کی زندگی دکھی ہے لیکن میں
ایسے نہیں دیکھتا! میں خود میں کسی ایسے شخص
کو دیکھتا ہوں جس نے خود اپنے ساتھ بے تحاشا سچا
رہنے کی کوشش کی۔جی ہاں! اس کی ایک قیمت ہے
لیکن مجھے یقین ہے یہ زندگی ان لوگوں کے لیے بہت
فیاض ہوتی ہے، جو مشکلوں سے گھبراتے نہیں۔“
اس قید کے دوران لکھنے کا شوقین پائلو اپنے محبوب ٹائپ رائٹر پر (جو اس کی فرمائش پر پیڈرو نے اسے تحفتاً دیا تھا) اپنی روزانہ کی روداد (Ballad of Clincial Goal) لکھتا رہا جو ایک پرکترے پنچھی کی پنجرے میں بند آپ بیتی سے کم نہیں۔آسکر وائلڈ کی (The ballad of reading goal) کی طرز پر لکھی اس روداد کے الفاظ ، ان کی جلن اور تلخی پائلو کے اندر کی اذیت کا پتا دیتی ہے۔اپنی سالگرہ پر لکھا اس کا نوحہ اور فادرز ڈے پر اپنے باپ کو لکھے خط اس کی بے چارگی اوربے بسی کی منہ بولتی داستان ہیں۔
صبح بخیر ڈیڈ! میرے ہاتھ خالی ہیں
میں آپ کو دیتا ہوں یہ اُبھرتا سورج، سرخ اور طاقت ور
تاکہ آپ کم افسردہ ہوں اور زیادہ مطمئن
یہ سوچ کر کہ آپ ٹھیک ہیں اور میں خوش!
محبتیں اپنی جگہ موجود رہتی ہیں ان کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے مگر بعض اوقات تکلیف دہ روئیے محبت کرنے والوں کی محبت دھندلا کر خسارے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ خسارہ صرف پائلو کے حصے میں نہیں آیا بلکہ اس کے والدین بھی اسی تکلیف سے گزر رہے تھے جس سے خود وہ برسرِ پیکار تھا۔
” میں اپنے والدین کے لیے ایک ڈراونا خواب تھا۔ “
فرنانڈو مورلس(Fernado Morals) نے پائلو کے ان تکلیف دہ لمحات کو اس کی ڈائری سے لے کر پائلو کی داستان حیات ”ایک جنگجو کی زندگی(Warrior’s Life)“میں واضح جگہ دی ہے۔
یہیں پر یہ نغمہ ختم ہوا اور میں بھی
کوئی پیغام بھیجنے کو نہیں، کچھ نہیں،
نہ جیتنے کی کوئی خواہش
ایک خواہش جسے انسانی نفرت نے چیر پھاڑ دیا
ایسا محسوس کرنا اچھا لگا! مکمل شکست!
 چلو اب پھر دوبارہ شروع کریں!
پائلو خود کو حوصلہ دیتا، اپنے ہی کاندھے پر سر رکھتا اور اپنی ہی ہتھیلیوں سے آنسو پونچھتا اچھے دنوں کی اُمید سے ذہنی بیماری کے خوف اور نفسیاتی تشدد کو برداشت کرتا اور اپنے تجربے کو مفید اور کارآمد بنانے کی جدوجہد کرتا ۔وہ جانتا تھا کہ آگ برساتاسورج آخر ڈوب جائے گا ، موسم بدل جائیں گے وقت گزر جاے گا۔قیامت سا کٹھن سفر پوری شدت اور طاقت سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا عزم لیے پائلو اپنے حوصلے تھامے بیٹھا رہا اور لکھتا رہا۔ اس اُمید پر کہ اس کے یہ تجربات اور مشاہدات کسی دن کسی دوسرے کے کام آ سکیں۔جیسے بہت سارے پرانے لوگوں کی باتیں اس کے کام آتی رہی تھیں۔
”اب مجھے
سب پھر سے شروع کرنا ہے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ جو
ہوا ،مذاق تھا یا ایک جان بوجھ کر کی گئی غلطی!
اس سے مجھے ایک موقع ملا ہے باشعور ہونے کا اور
خوداعتمادی حاصل کرنے کا اور اپنے دوستوں کو اچھی
طرح سمجھنے کا اور ان چیزوں کو جاننے کا جن پر میں
نے پہلے کبھی نہیں سوچا۔“
ایک بڑے کامیاب شخص کی عظیم الشان کامیابی کے پیچھے قسمت کا ہاتھ کم ہی ہوتا ہے۔عام طور پر اس کے پیچھے عمر بھر کے گرم و سرد راستوں کی سختیاں ، لہولہان کرنے والے پتھر اور ناکامیاں ہوتی ہیں، جنہیں بڑے حوصلے اور ظرف کے ساتھ اس نے قطرہ قطرہ پی رکھا ہوتا ہے۔نفسیاتی ہسپتال میں جہاں چیختے چلاتے یا ہواﺅں میں گھورتے، آسمانوں کو سرپراٹھائے اور کائنات کو بغل میں دبائے نفسیاتی مریضوں کے بیچ اپنا شعور قائم رکھنے کی ایک کٹھن جنگ تھی وہیں اس قیام نے پائلو کو زندگی کی تلخ صورتیں دکھا کر اس کے اندر مثبت تحریک پیدا کی اور ادراک دیا کہ وہ زندگی کی مشکلوں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھنے میں بہت لوگوں سے بہتر صورتِ حال میں ہے۔

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!